Tafheem-ul-Quran - An-Naml : 44
قِیْلَ لَهَا ادْخُلِی الصَّرْحَ١ۚ فَلَمَّا رَاَتْهُ حَسِبَتْهُ لُجَّةً وَّ كَشَفَتْ عَنْ سَاقَیْهَا١ؕ قَالَ اِنَّهٗ صَرْحٌ مُّمَرَّدٌ مِّنْ قَوَارِیْرَ١ؕ۬ قَالَتْ رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ وَ اَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْمٰنَ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۠   ۧ
قِيْلَ : کہا گیا لَهَا : اس سے ادْخُلِي : تو داخل ہو الصَّرْحَ : محل فَلَمَّا : پس جب رَاَتْهُ : اس نے اس کو دیکھا حَسِبَتْهُ : اسے سمجھا لُجَّةً : گہرا پانی وَّكَشَفَتْ : اور کھول دیں عَنْ : سے سَاقَيْهَا : اپنی پنڈلیاں قَالَ : اس نے کہا اِنَّهٗ : بیشک یہ صَرْحٌ : محل مُّمَرَّدٌ : جڑا ہوا مِّنْ : سے قَوَارِيْرَ : شیشے (جمع) قَالَتْ : وہ بولی رَبِّ : اے میرے رب اِنِّىْ ظَلَمْتُ : بیشک میں نے ظلم کیا نَفْسِيْ : اپنی جان وَاَسْلَمْتُ : اور میں ایمان لائی مَعَ : ساتھ سُلَيْمٰنَ : سلیمان لِلّٰهِ : اللہ کے لیے رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ : تمام جہانوں کا رب
اس سے کہا گیا کہ محل میں داخل ہو۔ اس نے جو دیکھا تو سمجھی کہ پانی کا حوض ہے اور اُترنے کےلیے اس نےاپنے پائینچے اُٹھا لیے۔ سلیمانؑ نے کہا یہ شیشے کا چکنا فرش ہے۔55 اس پروہ پکار اُٹھی”اے میرے ربّ (آج تک)میں اپنے نفس پر بڑا ظلم کرتی رہی، اور اب میں نے سلیمانؑ کے ساتھ اللہ ربّ العالمین کی اطاعت قبول کر لی۔“56
سورة النمل 55 یہ آخری چیز تھی جس نے ملکہ کی آنکھیں کھول دیں، پہلی چیز حضرت سلیمان کا وہ خط تھا جو عام بادشاہوں کے طریقے سے ہٹ کر اللہ رحمان و رحیم کے نام سے شروع کیا گیا تھا، دوسری چیز اس کے بیش قیمت ہدیوں کو رد کرنا تھا جس سے ملکہ کو اندازہ ہوا کہ یہ بادشاہ کسی اور طرز کا ہے، تیسری چیز ملکہ کی سفارت کا بیان تھا جس سے اس کو حضرت سلیمان کی متقیانہ زندگی، ان کی حکمت اور ان کی دعوت حق کا علم ہوا، اسی چیز نے اسے آمادہ کیا کہ خود چل کر ان سے ملاقات کرے، اور اسی کی طرف اس نے اپنے اس قول میں اشارہ کیا کہ " ہم تو پہلے ہی جان گئے تھے اور ہم مسلم ہوچکے تھے "۔ چوتھی چیز اس عظیم الشان تخت کا آناً فاناً مارب سے بیت المقدس پہنچ جانا تھا جس سے ملکہ کو معلوم ہوا کہ اس شخص کی پشت پر اللہ تعالیٰ کی طاقت ہے، اور اب آخری چیز یہ تھی کہ اس نے دیکھا جو شخص یہ سامان عیش و تنعم رکھتا ہے اور ایسے شاندار محل میں رہتا ہے وہ کس قدر غرور نفس سے پاک ہے، کتنا خدا ترس اور نیک نفس ہے، کس طرح بات بات پر اس کا سر خدا کے آگے شکر گزاری میں جھکا جاتا ہے، اور اس کی زندگی فریفتگان حیات دنیا کی زندگی سے کتنی مختلف ہے، یہی چیز تھی جس نے اسے وہ کچھ پکار اٹھنے پر مجبور کردیا جو آگے اس کی زبان سے نقل کیا گیا ہے۔ سورة النمل 56 حضرت سلیمان اور ملکہ سبا کا یہ قصہ بائیبل کے عہد عتیق و جدید اور روایات یہود، سب میں مختلف طریقوں سے آیا ہے، مگر قرآن کا بیان ان سب سے مختلف ہے، عہد عتیق میں اس قصے کا خلاصہ یہ ہے " اور جب سبا کی ملکہ نے خداوند کے نام کی بابت سلیمان کی شہرت سنی تو وہ آئی تاکہ مشکل سوالوں سے اسے آزمائے، اور وہ بہت بڑی جلو کے ساتھ یروشلم میں آئی۔ جب وہ سلیمان کے پاس پہنچی تو اس نے ان سب باتوں کے بارے میں جو اس کے دل میں تھیں اس سے گفتگو کی، سلیمان نے ان سب کا جواب دیا۔ اور جب سبا کی ملکہ نے سلیمان کی ساری حکمت اور اس محل کو جو اس نے بنایا تھا اور اس کے دسترخوان کی نعمتوں اور اس کے ملازموں کی نشست اور اس کے خادموں کی حاضر باشی اور ان کی پوشاک اور اس کے ساقیوں اور اس سیڑھی کو جس سے وہ خداوند کے گھر کو جاتا تھا دیکھا تو اس کے ہوش اڑ گئے اور اس نے بادشاہ سے کہا کہ وہ سچی خبر تھی جو میں نے تیرے کاموں اور تیری حکمت کی بابت اپنے ملک میں سنی تھی، تو بھی میں نے وہ باتیں باور نہ کیں جب تک خود آخر اپنی آنکھوں سے دیکھ نہ لیا، اور مجھے تو آدھا بھی نہیں بتایا گیا تھا کیونکہ تیری حکمت اور اقبال مندی اس شہرت سے جو میں نے سنی بہت زیادہ ہے۔ خوش نصیب ہیں تیرے لوگ اور خوش نصیب ہیں تیرے یہ ملازم جو برابر تیرے حضور کھڑے رہتے اور تیری حکمت سنتے ہیں۔ خداوند تیرا خدا مبارک ہو جو تجھ سے ایسا خوشنود ہوا کہ تجھے اسرائیل کے تخت پر بٹھایا۔ اور اس نے بادشاہ کو ایک سو بیس قنطار سونا اور مسالے کا بہت بڑا انبار اور بیش بہا جواہر دیے اور جیسے مسالے سبا کی ملکہ نے سلیمان بادشاہ کو دیے ویسے پھر کبھی ایسی بہتات کے ساتھ نہ آئے۔ اور سلیمان بادشاہ نے سبا کی ملکہ کو سب کچھ جس کی وہ مشتاق ہوئ اور جو کچھ اس نے مانگا دیا، پھر وہ اپنے ملازموں سمیت اپنی مملکت کو لوٹ گئی "۔ (سلاطین۔ 10۔ 1۔ 13۔ اسی سے ملتا جلتا مضمون 2 تواریخ 9۔ 1۔ 12 میں بھی ہے۔ عہد جدید میں حضرت عیسیٰ کی ایک تقریر کا صرف یہ فقرہ ملکہ سبا کے متعلق منقول ہوا ہے " دکھن کی ملکہ عدالت کے دن اس زمانہ کے لوگوں کے ساتھ اٹھ کر ان کو مجرم ٹھہرائے گی، کیونکہ وہ دنیا کے کنارے سے سلیمان کی حکمت سننے کو آئی اور دیکھو یہاں وہ ہے جو سلیمان سے بھی بڑا ہے "۔ (متی 12۔ 43۔ لوقا 11۔ 31) یہودی ربیوں کی روایات میں حضرت سلیمان اور ملکہ سبا کا قصہ اپنی بیشتر تفصیلات میں قرآن سے ملتا جلتا ہے۔ ہدہد کا غائب ہونا، پھر آکر سبا اور اس کی ملکہ کے حالات بیان کرنا، حضرت سلیمان کا اس کے ذریعہ سے خط بھیجنا، ہدہد کا عین اس وقت وہ خط ملکہ کے آگے گرانا جبکہ وہ آفتاب کی پرستش کو جارہی تھی، ملکہ کا اس خط کو دیکھ کر اپنے وزراء کی کونسل منعقد کرنا، پھر ملکہ کا ایک قیمتی ہدیہ حضرت سلیمان کے پاس بھیجنا، خود یروشلم پہنچ کر انسے ملان، ان کے محل میں پہنچ کر یہ خیال کرنا کہ حضرت سلیمان پانی کے حوض میں بیٹھے ہیں، اور اس میں اترنے کے لیے پانچے چڑھا لینا، یہ سب ان روایات میں اسی طرح مذکور ہے جس طرح قرآن میں بیان ہوا ہے، مگر ہدیہ وصول ہونے پر حضرت سلیمان کا جواب ملکہ کے تخت کو اٹھوا منگانا، ہر موقع پر ان کا خدا کے آگے جھکنا اور آخر کار ملکہ کا ان کے ہاتھ پر ایمان لانا، یہ سب باتیں بلکہ خدا پرستی اور توحید کی ساری باتیں ہی ان روایات میں ناپید ہیں، سب سے بڑھ کر غضب یہ ہے کہ ان ظالموں نے حضرت سلیمان پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے ملکہ سبا کے ساتھ معاذ اللہ زنا کا ارتکاب کیا اور اسی حرامی نسل سے بابل کا بادشاہ بخت نصر پیدا ہوا جس نے بیت المقدس کو تباہ کیا (جیوش انسائیکلو پیڈیا ج 11 صفحہ 443) اصل معاملہ یہ ہے کہ یہودی علماء کا ایک گروہ حضرت سلیمان کا سخت مخالف رہا ہے، ان لوگوں نے ان پر توراۃ کے احکام کی خلاف ورزی، غرور حکومت، غرور عقل و دانش، زن مریدی، عیش پرستی اور شرک و بت پرستی کے گھناؤنے الزامات لگائے ہیں (جیوش انسائیکلوپیڈیا ج 11 ص 439۔ 441) اور یہ اسی پروپیگنڈے کا اثر ہے کہ بائیبل انہیں نبی کے بجائے محض ایک بادشاہ کی حیثیت سے پیش کرتی ہے اور بادشاہ بھی ایسا جو معاذ اللہ احکام الہی کے خلاف مشرک عورتوں کے عشق میں گم ہوگیا، جس کا دل خدا سے پھر گیا اور جو خدا کے سوا دوسرے معبودوں کی طرف مائل ہوگیا (سلاطین 11۔ 1۔ 11) ان چیزوں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ قرآن نے بنی اسرائیل پر کتنا بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے اکابر کا دامن کود ان کی پھینکی ہوئی گندگیوں سے صاف کیا، اور یہ بنی اسرائیل کتنے احسان فراموش ہیں کہ اس پر بھی یہ قرآن اور اس کے لانے والے کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔
Top