Baseerat-e-Quran - Al-A'raaf : 127
قِیْلَ لَهَا ادْخُلِی الصَّرْحَ١ۚ فَلَمَّا رَاَتْهُ حَسِبَتْهُ لُجَّةً وَّ كَشَفَتْ عَنْ سَاقَیْهَا١ؕ قَالَ اِنَّهٗ صَرْحٌ مُّمَرَّدٌ مِّنْ قَوَارِیْرَ١ؕ۬ قَالَتْ رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ وَ اَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْمٰنَ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۠   ۧ
قِيْلَ : کہا گیا لَهَا : اس سے ادْخُلِي : تو داخل ہو الصَّرْحَ : محل فَلَمَّا : پس جب رَاَتْهُ : اس نے اس کو دیکھا حَسِبَتْهُ : اسے سمجھا لُجَّةً : گہرا پانی وَّكَشَفَتْ : اور کھول دیں عَنْ : سے سَاقَيْهَا : اپنی پنڈلیاں قَالَ : اس نے کہا اِنَّهٗ : بیشک یہ صَرْحٌ : محل مُّمَرَّدٌ : جڑا ہوا مِّنْ : سے قَوَارِيْرَ : شیشے (جمع) قَالَتْ : وہ بولی رَبِّ : اے میرے رب اِنِّىْ ظَلَمْتُ : بیشک میں نے ظلم کیا نَفْسِيْ : اپنی جان وَاَسْلَمْتُ : اور میں ایمان لائی مَعَ : ساتھ سُلَيْمٰنَ : سلیمان لِلّٰهِ : اللہ کے لیے رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ : تمام جہانوں کا رب
قوم فرعون کے سرداروں نے کہا کہ کیا تو موسیٰ اور اس کے ماننے والوں کو یوں ہی چھوڑدے گا ؟ تاکہ وہ ملک میں تباہی مچا دیں۔ تجھے اور تیرے معبودوں کی بندگی کو چھوڑ بیٹھیں ؟ فرعون نے کہا ہم بہت جلد ان کے بیٹوں کو قتل کردیں گے اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھیں گے کیونکہ ہم ان پر پوری قوت وہیبت رکھتے ہیں۔
لغات القرآن آیت نمبر (127 تا 9 12 ) ۔ اتذر (کیا تو چھوڑتا ہے ؟ ) ۔ نستحی (ہم زندہ رکھیں گے) ۔ استعینوا (تم مدد مانگو ) ۔ یورت (مالک بناتا ہے ) ۔ اوذینا (ہمیں تکلیف دی گئی) ۔ یستخلف (نائب بنائے گا) ۔ تشریح : آیت نمبر ( 127 تا 129 ) ۔ ” اس پورے مضمون میں سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ فرعون نے جادو گر کو پھانسی پر لٹکا نے اور ہر طرح کی سزا دینے کی دھمکی دی لیکن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بظاہر اس نے کوئی دھمکی نہیں دی۔ شاید فرعون پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا رعب اور ہیبت طاری ہوچکی تھی اسی وجہ سے فرعون کے درباریوں نے کہا کہ اے فرعون تو نے موسیٰ (علیہ السلام) اور اس کی قوم کو یوں ہی جھوڑنے کا فیصلہ کرلیا۔ اگر ایسا ہوا تو وہ موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل اور اس کے ماننے والے تو تباہی مچا دیں گے اور تیری حکومت کا تختہ الٹ دیں گے۔ جھوٹا الزام لگانا ہمیشہ ظالموں کی فطرت رہی ہے ان کی زبان میں فساد کے معنی ہوں گے حکومت فرعون کے خلاف تبلیغ کرنا اور لوگوں کو راہ حق دکھانا۔۔۔۔ ۔ فرعون پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ایمان والوں کا اتنا رعب تھا کہ وہ ان کے خلاف براہ راست کوئی کاروائی کرنے پر راضی نہ ہوا۔ اس نے اتنا ہی کہا کہ میں اس کی قوم (نبی اسرائیل) میں پیدا ہونے والے ہر بچے کو ذبح کردوں گا مار ڈالوں گا اور ہر پیدا ہونے والی لڑکی کو زندہ رکھوں گا تاکہ یہ قوم آہستہ آہستہ خود بخود ختم ہوجائے۔۔۔۔ ۔۔ اس اعلان کے ساتھ ہی بنی اسرائیل میں کھلبلی مچ گیو وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے شکوہ اور واویلا کرنے لگے کہ ہم تو کہیں کے نہ رہے۔ اس پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے پوری قوم کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اے لوگو ! تم اللہ ہی سے مدد مانگو اور ڈٹے رہو۔ یہ ساری کی ساری زمین اللہ کی ہے وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس سر زمین کا وارث اور نگراں بنا دیتا ہے۔ اس اللہ نے اگر آج اپنی مصلحت سے تاج و تخت فرعون کو دے رکھا ہے۔ تو کل اس کے سر سے یہ تاج اتارنے میں دیر نہیں لگے گی۔۔۔۔ ۔۔۔۔ اب خواہ حاکم ہو یا محکوم جب تک اللہ سے ڈرتا رہے گا نتیجہ اس کے حق میں ہوگا ۔ دنیا کی مختصر زندگی میں کامیابی نہ ملی تو آخرت کی ہمیشہ کی زندگی کی کامیابیاں ضرور نصیب ہوں گی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو نصیحت فرمائی کہ تم اس عر صہ میں دو کام کر (1) اللہ سے مدد کی دعائیں مانگو (2) دوسرے یہ کہ صبر و تحمل اور استقامت کے ساتھ اللہ کے فیصلے کا انتظار کرو۔ استعانت اور استقامت یہ وہ عظیم جذبہ ہے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو دیا تھا۔ یہ نسخہ کیمیا آج بھی اتنا ہی کارگر اور مفید ہے۔ مظلوم کے ہاتھ میں یہ سب سے مضبوط ہتھیار ہے جس کے سامنے کوئی ظالم اور کسی حکومت کا ظلم و ستم بہت عرصہ تک نہیں ٹھرتا۔۔۔۔ ۔۔ اگر غور کیا جائے تو ” دعا “ خود بہت تیز تلوار ہے اور پھر اس پر اللہ سے مدد مانگنا۔۔۔۔ ۔۔ اور جس کے ہاتھ میں مدد الہٰی آگئی اس کا مقابلہ کان کرسکتا ہے اب رہا صبر یعنی استقلال، بےخوفی، مسلسل کوشش اور باطل کے مقابلہ میں ڈٹ جانا۔ اس کے لئے اللہ نے قرآن کریم میں متعدد جگہ پر ارشاد فرمایا ہے کہ ” میں صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوں “ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ” صبر ایسی نعمت ہے کہ اس سے وسیع تر نعمت کسی کو نہیں ملی (ابودائود) ۔۔۔۔ ۔۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم میں جہاں صبر و استقامت والے لوگ تھے وہیں کچھ لوگ وہ بھی تھے جنہوں نے بےصبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ : ” اے موسیٰ (علیہ السلام) ہم تو ہمیشہ ہی مصیبتوں میں گھرے رہے۔ آپ کے آنے سے پہلے بھی ہم ہر طرح کی مصیبتیں اٹھاتے رہے اور آپ کے آنے کے بعد بھی وہی مصیبتیں ہیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے سمجھایا کہ اس میں گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔ یہ حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہیں گے حالات بدلیں گے۔ یہ دور مظلومیت بہت جلد بدلنے والا ہے کیونکہ ظالم کو بہت عرصے تک فروغ حاصل نہیں ہوتا۔ فرعون کا زوال قریب ہے اس کے بعد اس کی سلطنت تمہارے حوالے کی جائے گی لیکن وہ وقت اس وقت سے بھی زیادہ نازک ہوگا۔ بڑی ذمہ داری کا وقت ہوگا۔ جب ملک کی سلطنت تمہارے ہاتھ میں آئے گی تو یہ دیکھاجائے گا کہ تم اپنے اقتدار و اختیار کو کس طرح استعمال کرتے ہو اگرچہ اس آیت کا خطاب بنی اسرائیل کی طرف ہے لیکن حقیقت میں یہ ایک اصول ہے جو تمام ظالموں اور مظلوموں کے درمیان قیامت تک قائم رہے گا۔ اللہ جس کا چاہتا ہے حکومت دیتا ہے اور جب چاہتا ہے اس کو چھین لیتا ہے۔ سلطنت اور حکومت ایک سخت اور کڑا امتحان ہوتا ہے۔ ایک بات کی اور وضاحت ضروری ہے۔ قرآن کریم میں کئی مقامات پر اس بات کو بیان کیا گیا ہے کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کا زمانہ تھا اس سقت فرعون کو بتایا گیا تھا کہ بنی اسرائیل سخت خطرہ ہیں، ان میں کوئی شخص پیدا ہوگا۔ جو تیری سلطنت کو تباہ کر کے رکھدے گا۔۔۔۔ اور ان آیات میں یہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جوان ہوچکے اور تبلیغ دین کے لئے فرعون کے دربار سے کامیاب لوٹے ہیں اس کے بعد فرعون نے جہاں اور اقدامات کئے ان میں لڑکوں کو قتل کرنے اور لڑکیوں کو زندہ رکھنے کا بھی حکم دیا تھا۔۔۔۔ ۔ اور پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو صبر و تحمل کا درس دیا اور بتایا کہ بہت جلد فرعون اپنے انجام کو پہنچ جائے گا اور یہ سب کچھ بنی اسرائیل کو مل جائے گا۔ اس میں کوئی تضاد نہیں ہے ممکن ہے فرعون اور اس کی قوم کی مستقل پالیسی یہ رہی لو کہ لڑکوں کو قتل کیا جائے اور لڑکیوں کو زندہ رکھا جائے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کے وقت بھی ایسا ہوا ہو اور بعد میں پھر اس حکم کو زندہ کیا گیا ہو۔
Top