Al-Qurtubi - An-Naml : 44
قِیْلَ لَهَا ادْخُلِی الصَّرْحَ١ۚ فَلَمَّا رَاَتْهُ حَسِبَتْهُ لُجَّةً وَّ كَشَفَتْ عَنْ سَاقَیْهَا١ؕ قَالَ اِنَّهٗ صَرْحٌ مُّمَرَّدٌ مِّنْ قَوَارِیْرَ١ؕ۬ قَالَتْ رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ وَ اَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْمٰنَ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۠   ۧ
قِيْلَ : کہا گیا لَهَا : اس سے ادْخُلِي : تو داخل ہو الصَّرْحَ : محل فَلَمَّا : پس جب رَاَتْهُ : اس نے اس کو دیکھا حَسِبَتْهُ : اسے سمجھا لُجَّةً : گہرا پانی وَّكَشَفَتْ : اور کھول دیں عَنْ : سے سَاقَيْهَا : اپنی پنڈلیاں قَالَ : اس نے کہا اِنَّهٗ : بیشک یہ صَرْحٌ : محل مُّمَرَّدٌ : جڑا ہوا مِّنْ : سے قَوَارِيْرَ : شیشے (جمع) قَالَتْ : وہ بولی رَبِّ : اے میرے رب اِنِّىْ ظَلَمْتُ : بیشک میں نے ظلم کیا نَفْسِيْ : اپنی جان وَاَسْلَمْتُ : اور میں ایمان لائی مَعَ : ساتھ سُلَيْمٰنَ : سلیمان لِلّٰهِ : اللہ کے لیے رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ : تمام جہانوں کا رب
(پھر) اس سے کہا گیا کہ محل میں چلئے جب اس نے اس (کے فرش) کو دیکھا تو اسے پانی کا حوض سمجھا اور (کپڑا اٹھا کر) اپنی پنڈلیاں کھول دیں (سلیمان نے کہا) یہ ایسا محل ہے جس میں (نیچے بھی) شیشے جڑے ہوئے ہیں وہ بول اٹھی کہ پروردگار میں اپنے آپ پر ظلم کرتی رہی تھی اور (اب) میں سلیمان کے ہاتھ پر خدائے رب العالمین پر ایمان لاتی ہوں
قیللھا ادخلی الصرح سیبویہ کے نزدیک اس کی تقدیر کلام میں ہے ادخلی الی الصرح، الی حرف جار کو حذف کردیا گیا اور فعل کو براہ راست مفعول بہ میں عامل بنایا گیا۔ ابو العباس اس نقطہ نظر میں اس کو غلط قرار دیتا ہے کہا : کیونکہ دخل مدخول پر دلالت کرتا ہے اس محل کا صحن شیشے کا تھا جس کے نیچے پانی تھا جس میں کشتیاں تھیں۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے یہکام اس لئے کیا تاکہ ملکہ بلقیس کو یہ دکھائے کہ آپ کا ملک اس کے ملک سے بڑھ کر ہے، یہ مجاہد کا قول ہے۔ قتادہ نے کہا : وہ شیشے کا تھا اس کے پیچھے پانی تھا حسبتہ لجۃ لجۃ کا معنی پانی ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : صرح کا معنی محل ہے۔ ابو عبیدہ سے مرویہ ہے جس طرح کہا : تحسب اعلامھن الصروح۔ اس مصرعہ میں الصروح سے مراد محلات ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : انصرح سے مراد صحن ہے جس طرح کہا جاتا ہے : ھذہصرحۃ الدار وقاع تھا دونوں کا معنی ایک ہے۔ ابوعبیدہ نے الغریب المصنف میں حکایت بیان کی ہے کہ صرح سے مراد ایسی اونچی عمارت ہو جو زمین سے بلند ہو۔ ممرد کا معنی طویل ہے۔ نحاس نے کہا، اس کی اصل یہ ہے کہ ہر ایسی عمارت جسے ایک ہی دفعہ بنایا گیا ہو اسے صرح کہتے ہیں۔ ان کا قول ہے : لبن صریح ایسا دودھ جس میں پانی کی آمیزش نہ ہو۔ عربوں کے قول سے ہیصرحبالامر اسی سے ہی عربی صریح ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے یہ عمل اس لئے کی تاکہ جنوں نے ملکہ بلقیس کے بارے میں جو قول کیا تھا اس کی تحقیق کریں کہ ملکہ بلقیس کی ماں جنوں میں سے تھی اور اس کا پائوں گدھے کے پائوں جیسا ہے، یہ قول وہب بن منبہ نی کیا ہے۔ جب اس نے گہر سے پانی کو دیکھا تو گھبرائی اس نے گمان کیا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اسے غرق کرنے کا پروگرام بنایا ہے۔ اور اس پر تعجب کا اظہار کیا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی کرسی پانی پر ہے اس نے وہ چیز دیکھی جس نے اسے خوفزدہ کردیا۔ اس کے لئے حکم کی طاعت کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ وکشف ساقیھا تو لوگوں میں سے سب سے خوبصورت پنڈلی والی تھی۔ جنوں نے جو کچھ کہا تھا اس سے وہ سالم تھی، مگر یہ تھا کہ اس کی پنڈلی پر بال زیادہ تھے۔ جب وہ اس حد تک پہنچی تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اسے کہا جب کہ آپ نے اس سے نظر کو پھیر دیا تھا، انہ صرح ممردمن قواریر ممرد سے مراد ہے جس کو رگڑ کر ملائم کردیا گیا ہو اس سے امرد کا لفظ ہے تمرد الرجلیہ جملہ اس وقت بولتے ہیں جب لڑکے کے بالغ ہونیکے بعد اس کی داڑھی دیر سے آئے، یہ فرئا کا قول ہے اسی سے شجرۃ مرداء ہے جس کے پتے نہ ہوں۔ رملۃ مرداء ایسی ریت جو کسی چیز کو نہ اگائے۔ ممرد کا معنی لمبا بھی ہے قلعہ کو بھی مارد کہتے ہیں۔ ابو صالح نے کہا : کھجور کے درخت کی طرح طویل۔ ابن شجرہ نے کہا : وہ طول وعرض میں وسیع۔ شاعر نے کہا : غدوت صباحا باکراہ فوجدتھم قبیل الضحا فی السابری الممرد میں صبح صبح چلا تو میں نے چاشت سے پہلے انہیں کھلی زر ہوں میں پایا۔ اس موقع پر ملکہ بلقیس نے سر تسلیم خم کردیا، اس نے اطاعت کی، وہ اسلام لے آئی اور اس نے اپنی جان پر ظلم کا اقرار کیا۔ جس کا ذکر بعد میں آئے گا۔ جب حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اس کے قدم دیکھے تو آپ نے شیاطین میں سے ناصح سے پوچھا : میرے لئے یہ کیسے ممکن ہوگا کہ جسم کو تکلیف دیئے بغیر میں ان بالوں کو اکھیڑ دوں ؟ اس نے چونے کے استعمال کے بارے میں بتایا۔ اس دن سے بال صفا پائوڈر اور حمامات کا رواج ہے۔ یہ روایت بیان کی جاتی ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اس سے شادی کرلی اور اسے شام میں ٹھرایا، یہ ضحاک کا قول ہے۔ سعید بن عبدالعزیز نے کتاب النقاش میں فرمایا : حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اس سے شادی کرلی اور اسے ملک یمن کی طرف واپس بھیج دیا۔ آپ ہر ماہ ہوا کیدوش پر سوار ہو کر اس کے پاس آتے، ملکہ بلقیس نے ایک بچہ جنا جس کا نام حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے دائود رکھا جو آپ کے دور میں ہی فوت ہوگیا۔ بعض روایات میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :” بلکہ بلقیس جہاں بھر کی عورتوں میں سے سب سے خوبصورت پنڈلی والی تھیں وہ جنت میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی زوجہ ہوں گی۔ “ حضرت عائشہ صدیقہ نے کا : وہ مجھ سے زیادہ حسین پنڈلیوں والی تھیں۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :” تو جنت میں اس سے زیادہ خوبصورت پنڈلی والی ہوگی۔ “ قشیری نے اس کا ذکر کیا ہے۔ ثعلبی نے حضرت ابو موسیٰ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :” حمامات سب سے پہلے حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے بنوائے جب ان کی پشت دیوار کے ساتھ لگی تو اس کی گری محسوس ہوئی تو کہا : اواہ من عذاب اللہ پھر ملکہ بلقیس سے شدید محبت کی اور ملک یمن پر اسے باقی رکھا جنوں کو حکم دیا تو انہوں نے ملکہ بلقیس کے لئے تین قلعے بنائے لوگوں نے ان جیسے بلند قلعے نہیں دیکھے تھے سلحون، بینون اور عمران۔ پھر حضرت سلیمان (علیہ السلام) ہر ماہ ایک دفعہ سے ملنے کے لئے آتے اور تین دن اس کے پاس قیام کرتے۔ شعبی نے بیان کیا ہے کہ حمیر کے لوگوں نے مقبرہ ملوک کو کھودا تو انہوں نے اس میں ایک قبر پائی جس میں ایک عورت مدفون تھی جس پر سونے سے بنے حلے (دو چاروں پر مشتمل لباس) تھے۔ اس کے سر کی جانب سنگ مرمر کی ایک تختی تھی جس میں یہ لکھا ہوا تھا : یا تھا الاقوام عوجوا معا واربعوا فی مقبری العیسا لتعلموا انی تلک التی قد کنت ادعی الدھر بلقیسا شدت قصر الملک فی حمیر قومی وقدما کان مانوسا وکنت فی ملکی و تدبیرہ ار غم فی اللہ المعاطیسا بعغلی سلیمان النبی الذی قد کان للتوراۃ دریسا وسخر الریح لہ مرکبا تھب احیانا روامیسا مع ابن دائودالنبی الذی قدسہ الرحمٰن تقدیسا اے اقوام ! اکٹھے رہنا اور میرے مقبرہ میں اونٹ باندھنا تاکہ تمہیں علم ہو کہ میں وہ ہوں جسے زمانہ بلقیس کہتا تھا۔ میں نے حمیر ملک کے محل کو مضبوط کیا جب کہ میری قوم قدیم سے مانوس تھی۔ میں اپنے ملک اور اس کی تدبیر کرنے میں اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ناکوں کو خاک آلود کردیتی۔ میرے خاوند حضرت سلیمان (علیہ السلام) تھے جو تورات کو پڑھنے والے تھے۔ ہوا کو ان کے لئے سواری کے طور پر مسخر کردیا گیا جو بعض اوقات قبروں پر چلتی تھی۔ حضرت دائود (علیہ السلام) کے بیٹے کے ساتھ جس کی رحمٰن نے تقدیس بیان کی ہے۔ محمد بن اسحاق اور وہب بن منبہ نے کہا : حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اس سے شادی نہیں کی حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اسے فرمایا : اپنے خاوند کو منتخب کرلے تو ملکہ بلقیس نے کہا : مجھ جیسی عورت نکاح نہیں کرتی میرے لئے ملک ہے جو پہلے سے ہے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا : اسلام میں اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تو اس نے ہمدان کے بادشاہ کو پسند کیا ہے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ملکہ بلقیس کی شادی اس سے کردی اور اسے یمن کی طرف بھیج دیا اور زوبعہ جو یمن کے جنون کا امیر تھا اسے حکم دیا کہ وہ اس کی اطاعت کرے تو اس نے اس کے لئے کارخانے بنائے وہ امیر رہا یہاں تک کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا وصال ہوگیا۔ ایک قوم کا خیال ہے اس بارے میں کوئی صحیح خبر نہیں نہ اس بارے میں کہ خود شادی کی اور نہ اسبارے میں کہ آپ نے اس کی شادی کسی سے کی۔ ملکہ بلقیس کا شجرہ نسب یہ تھا بلقیس بنت سرح بن ہدا ہد بن شراخیل بن اردن بن حد ربن سرحبنحرسبن قیس بن صیفیب نسب ابن یشجب بن یعرب بنقحطان بن عابر بن شالخ بن ارفحشذبن سام بن نوح اس کا دادابد ابد عظیم بادشاہ تھا اس کے چالیس بیٹے ہوئے جو سب کے سب بادشاہ تھے یمن کا پورا علاقہ اس کی مملکت میں شامل تھا۔ اس کا والد سرح اطراف کے بادشاہوں کو کہتا : تم سب سے کوئی بھی میرے ہمپہلہ نہیں، اس نے ان میں شادی کرنے سے انکار کردیا، تو انہوں نے اس کی شادیجنوں کی ایک عورت سے کردی جسے ریحانہ بنت سکن کہتے تو اس کی ایک بچی بلقمہ پیدا ہوئی اسیبلقیس کہتے ہیں اس بچی کے علاوہ اس کی کوئی اولاد نہ تھی۔ حضرت ابوہریرہ نے کہا نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :” ملکہ بلقیس کہ والدین میں سے ایک جن تھا “ (1) اس کا باپ فوت ہوا تو اس پر قوم نے اختلاف کیا اور دو فرقوں میں بٹ گئی انہوں نے اپنے امور مملکت ایسے آدمی کے سپرد کئے جس کی سیرت بری تھی یہاں تک کہ اس نے اپنی رعیت کی عورتوں سے بدکاری کی، بلقیس کو غیرت نے آ لیا اس نے اپنے آپ کو اس بادشاہ پر پیش کیا تو اس حاکم نے بلقیس سے شادی کرلی۔ بلقیس نے اسے شراب پلائی یہاں تک کہ اس کا سر کاٹا اور اپنے گھر کے دروازے پر اسے لٹکا دیا تو لوگوں نے اسے بادشاہ بنالیا۔ ابوبکر نے کہا : ملکہ بلقیس کا ذکر نبی کریم ﷺ کے سامنے کیا گیا تو فرمایا : لایفلح قوم ولوا امرھم امراۃ (2) کوئی ایسی قوم فلاح نہیں پا سکتی جنہوں نیاپنا معاملہ عورت کے سپرد کردیا۔ ایک قول یہ کیا جاتا ہے : اس کے باپ کے جنی سے شادی کرنے کا سبب یہ تھا کہ وہ ایکسرکش بادشاہ کا وزیر تھا جو رعیت کی عورتوں کو غصب کرلیتا۔ وزیر غیور تھا اس نے شادی نہ کی ایک دفعہ راستہ میں وہ ایک آدمی سے ملا جسے وہ پہچانتا نہیں تھا اس نے پوچھا : کیا تیری بیوی ہے ؟ اس نے جواب دیا : میں کبھی بھی شادی نہیں کروں گا کیونکہ ہمارے ملک کا بادشاہ مردوں سے ان کی بیویوں کو غصب کرلیتا ہے۔ اس نے کہا، اگر تو میری بیٹی سے شادی کرے تو وہ اسے کبھی بھی غصب نہیں کرے گا۔ وزیر نے کہا : نہیں بلکہ وہ غصب کرلے گا۔ اس نے کہا : ہم جنوں کی قوم سے تعلق رکھتے ہیں وہ ہم پر قادر نہیں ہو سکتا۔ ملکہ بلقیس کے باپ نے اس کی بیٹی سے شادی کرلی تو اس سے اس کی بیٹی بلقیس پیدا ہوئی پھر ماں مر گئی ملکہ بلقیس نے صحراء میں محل بنوایا غلطی سے بلقیس کے والد نے اس کا ذکر کیا۔ بادشاہ تک وہ خبر پہنچی بادشاہ نے اس سے کہا، اے فلاں ! تیرے پاس وہ خوبصورت بیٹی ہے جب کہ تو اسے میرے پاس نہیں لاتا اور تو عورتوں سے میری محبت کو خوب جانتا ہے پھر اس کو گرفتار کرنے کا حکم دے دیا۔ بلقیس نے بادشاہ کی طرف پیغام بھیجا : میں تیرے سامنے ہوں۔ بادشاہ نے اس کے محل کی طرف جانے کی تیاری کی۔ جب اس نے ساتھیوں کے ساتھ اندر داخل ہونے کا قصد کیا تو جنوں کی بیٹیاں جو سورج کی طرح روشن تھیں اس کے سامنے آگئیں انہوں نے بادشاہ سے کہا : تجھے حیا نہیں آتی، ہماری مالکہ تجھے کہتی ہے : کیا تو ان لوگوں کے ساتھ اپنے اہل پر داخل ہوتا ہے تو بادشاہ نے لوگوں کو واپس جانے کی اجازت دے دی اور اکیلا داخل ہوگیا اس کے داخل ہونے کے بعد دروازہ بند کردیا اور جوتیاں مار مار کر اسے قتل کردیا اس کا سر کاٹا اور اس کے لشکر کی طرف اسے پھینک دیا تو لوگوں نے ملکہ بلقیس کو اپنا حکمران بنا لیا۔ وہ اس طرح حکمران رہی یہاں تک کہ ہد ہد نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو اس کی خبر پہنچا دی۔ اس کی وجہ یہ بنی جب حضرت سلیمان (علیہ السلام) اپنے کسی پڑائو میں اترے ہد ہد نے کہا : حضرت سلیمان (علیہ السلام) فروکش ہونے میں مشغول ہوچکے ہیں تو وہ ہد ہد آسمان کی طرف بلند ہوا تو اس نے دنیا کا طول و عرض دیکھ لیا اس نے زمین کو شمالاً جنوباً دیکھا اس نے بلقیس کا باغ دیکھا جس میں ہد ہد موجود تھا۔ اس ہد ہد کا نام عفیر تھا۔ یمن کے عفیر نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے یعفور سے کہا، تو کہاں سے آیا ؟ اور کہاں کا ارادہ رکھتا ہے ؟ اس نے جواب دیا : میں شام سے اپنے مالک حضرت سلیمان بن دائود کے ساتھ آیا ہوں۔ عفیر یمن نے پوچھا : کون سلیمان ؟ اس نے جواب دیا : جنوں، انسانوں، شیاطین، پرندوں، وحشیوں، ہوائوں اور زمین و آسمان کے درمیان جو کچھ ہے ان کا بادشاہ۔ یعفور نے پوچھا : تو کہاں کا رہنے والا ہے ؟ اس نے جواب دیا : ان شہروں کا جن کی بادشاہ ایک عوتر ہے اسے بلقیس کہتے ہیں اس کے زیر حکومت بارہ ہزار چھوٹے حکمران ہیں ؟ ہر حاکم کے زیر تسلط ایک لاکھ جنگجو ہیں جو عورتوں اور بچوں کے علاوہ ہیں وہ اس کے ساتھ گیا اور ملکہ بلقیس اور اس کے ملک کو دیکھا اور عصر کے وقت حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی طرف لوٹ آیا۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے نماز کے وقت اسے پوچھا تھا اور اسے نہ پایا تھا وہ اس وقت پانی پر تھے۔ حضرت ابن عباس نے کہا : حضرت سلیمان (علیہ السلام) پر سورج کی شعاع پڑی تو آپ نے پرندوں کے وزیر سے پوچھا : یہ کس کی جگہ ہے ؟ عرض کی : اے اللہ کے نبی ! یہ ہد ہد کی جگہ ہے۔ پوچھا : وہ کہاں چلا گیا ہے ؟ اس نے عرض کی : اللہ تعالیٰ تیرے ملک کو سلامت رکھے ! میں نہیں جانتا۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) غصے ہوگئے۔ فرمایا : لا عذبنہ عذاباً شدیداً پھر آپ نے عقاب کو بلایا اور وہ پرندوں کا سردار اور ان سے قوی تھا۔ عرض کی : اے اللہ کے نبی ! کیا ارادہ رکھتے ہو ؟ فرمایا : مجھے اسی وقت ہد ہد چاہئے۔ عقاب نے اپنے آپ کو آسمان کی طرف بلند کیا یہاں تک کہ ہوا کے ساتھ جا لگا اس نے دنیا کی طرف دیکھا جس طرح تمہارے سامنے ایک پایلہ ہو، کیا دیکھا کہ ہد ہد یمن کی جانب سے آ رہا ہے۔ وہ اس کی طرف نیچے آیا، اس میں اپنا پنجہ گاڑھا، ہد ہد نے اسے کہا، میں تجھ سے اس اللہ کے واسطہ سے سوال کرتا ہوں جس نے تجھے قدرت دی اور مجھ پر قیمت عطا کی مگر تو مجھ پر رحم کرے۔ اس نے کہا : تیرے لئے ہلاکت ہو، تیری ماں تجھ پر روئے اللہ کے نبی نے قسم اٹھائی ہے کہ وہ تجھے عذاب دے گا یا تجھے ذبح کر دے گا۔ پھر وہ اسے لے آیا اس کا گدھوں اور باقی لشکروں کے پرندوں نے استقبال کیا۔ سب نے یہی کہا : تیرے لئے ہلاکت ہو اللہ تعالیٰ کے نبی نے تجھے دھمکی دی ہے۔ ہد ہد نے کہا : میں کیا اور میری اوقات کیا ہے کیا آپ نے استثناء نہیں کی تھی ؟ پرندوں نے کہا : کیوں نہیں۔ انہوں نے کہا : اولیاء تینی بسلطن مبین پھر وہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوا آپ نے اپنا سر اٹھایا ہد ہد نے اپنی دنب اور پروں کو تواضح کی خاطر ڈھیلا چھوڑ دیا۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے کہا : تو اپنی خدمت اور جگہ کو چھوڑ کر کہیں چلا گیا تھا میں تجھے عذاب دوں گا یا تجھے ذبح کروں گا۔ ہد ہد نی آپ سے عرض کی : اے اللہ کے نبی ! جس وقت آپ اپنے رب کے حضور کھڑے ہوں گے اس کو یاد کرو جس طرح میں آپ کے سامنے کھڑا ہوں۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی جلد کا نپنے لگی، آپ کا نپ گئے اور معاف کردیا۔ عکرمہ نے کہا : اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو ہد ہد کو ذبح کرنے سے پھیر دیا کیونکہ ہد ہد اپنے والدین کے ساتھ نیکی کرنے والا تھا وہ کھانے کو ان کی طرف لیجاتا اور انہیں کھلاتا۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اسے کہا، کس چیز نے تجھے دیری میں ڈال دیا ؟ تو ہد ہد نے وہی کہا جو اللہ تعالیٰ نے ملکہ بلقیس، اسکیرش اور اس کی قوم کے بارے میں بتایا ہے جو پہلے گزر چکا ہے۔ مارودی نے کہا : یہ قول کہ بلقیس کی ماں جنی تھی یہ قعلو کے لئے عجیب و غریب ہے کیونکہ جنس ایک دوسرے سے مختلف ہیں، طبیعتیں الگ الگ ہیں اور جنسوں میں فرق ہے کیونکہ آدمی جسمانی ہے، جن روحانی ہے اللہ تعالیٰ نے انسان کو کھنکھناتی مٹی سے پیدا کیا ہے اور جنوں کو ایسے بھڑکنے والے شعلے سے پیدا کیا ہے جو آگ پیدا ہوتا ہے۔ اس تباین کی موجودگی میں امتزاج ممتنع ہوتا ہے اور اس اختلاف کے ہوتے ہوئے تناسل محال ہے۔ میں کہتا ہوں : اس بارے میں گفتگو گزر چکی ہے۔ عقل اس کو محال قرار نہیں دیتی، ساتھ ہی ساتھ روایت بھی واقع ہوئی ہے جب خقلت کی اصل کی طرف دیھکا جائے تو اس کی اصل پانی ہے جس طرح وضاحت گزر چکی ہے۔ اس میں کوئی بعید نہیں۔ قرآن حکیم میں ہے : وشار کھم فی الاموال والا ولاد (الاسرائ : 64) یہ بحث پہلے گزر چکی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : لم یطمثھن انس قبلھم ولاجآن۔ (الرحمٰن) اس کی وضاحت سورة الرحمٰن میں آئے گی۔ قالت رب انی ظلمت نفسی میں نے شرک پر قائم رہتے ہوئے اپنی جان پر ظلم کیا۔ ابن شجرہ نے کہا، سفیان نیک ہا : وہ گمان اختیار کر کے ظلم کیا جو اس نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے بارے میں گمان کیا کیونکہ جب ملکہ بلقیس کو محل میں داخل ہونے کا حکم دیا گیا تو اس نے اسے پانی گمان کیا اور یہ گمان کیا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اسے غرق کرنا چاہتے ہیں۔ جب اس پر یہ امر واضح ہوا کہ یہ تو شیشے کا ملائم محل ہے تو اس کو علم و گیا کہ اس نے یہ گمان کر کے اپنے آپ پر ظلم کیا۔ ان کو کسرہ دیا کیونکہ قول کے بعد اس سے کلام کا آغاز ہوا۔ عربوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو اسے فتحہ دیتے ہیں تو اس میں قول عمل کرتا ہے۔ واسلمت مع سلیمن للہ رب العلمین جب تو مع کو ساکن پڑھے تو یہ حرف ہے جو معنی کے لئے آیا ہے نحویوں میں کوئی اختلاف نہیں۔ جب تو اس کو فتحہ دے گا تو اس میں دو قول ہیں (1) یہ ظرف کے معنی میں اسم ہے (2) حرف جر ہے مبنی برفتحہ ہے : یہ نحاس نے کہا ہے۔
Top