Fi-Zilal-al-Quran - Al-Anfaal : 24
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْ١ۚ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ یَحُوْلُ بَیْنَ الْمَرْءِ وَ قَلْبِهٖ وَ اَنَّهٗۤ اِلَیْهِ تُحْشَرُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوا : ایمان لائے اسْتَجِيْبُوْا : قبول کرلو لِلّٰهِ : اللہ کا وَلِلرَّسُوْلِ : اور اس کے رسول کا اِذَا : جب دَعَاكُمْ : وہ بلائیں تمہیں لِمَا يُحْيِيْكُمْ : اس کے لیے جو زندگی بخشے تمہیں وَاعْلَمُوْٓا : اور جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ يَحُوْلُ : حائل ہوجاتا ہے بَيْنَ : درمیان الْمَرْءِ : آدمی وَقَلْبِهٖ : اور اس کا دل وَاَنَّهٗٓ : اور یہ کہ اِلَيْهِ : اس کی طرف تُحْشَرُوْنَ : تم اٹھائے جاؤگے
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہو جب کہ رسول تمہیں اس چیز کی طرف بلائے تو تمہیں زندگی بخشنے والی ہے ، اور جان رکھو کہ اللہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہے اور اسی کی طرف تم سمیٹے جاؤ گے
اب دو بارہ اہل ایمان کو مخاطب کیا جاتا ہے کہ وہ اللہ اور رسول کی پکار پر لبیک کہیں۔ کیونکہ رسول کی پکار پر لبیک کہنا تمہارے لیے مفید ہے اور اگر تم نے انکار کیا تو یہ تمہارے برا ہوگا۔ اس دعوت میں ان عقائد و تصورات کو پیش کیا گیا ہے جن سے دل و دماغ زندگی سے بھر جاتے ہیں اور تمام خرافات اور جہالتوں سے پاک و صاف ہوجاتے ہیں۔ اوہام اور افسانوں سے نجات پاتے ہیں اور ظاہری اسباب اور طبیعی قوانین کی جکڑ بندیوں سے بھی نجات پاتے ہیں اور غیر اللہ کی بندگی اور اپنے جیسے انسانوں کی غلامی سے انسان کو نجات دلاتے ہیں۔ یہ دعوت تمہارے سامنے ایک ایسا قانونی نظام پیش کرتی ہے جو اللہ کی طرف سے ہے ۔ اس قانونی نظام میں انسانیت کی آزادی اور انسانیت کے احترام کے وہ اصول پیش کیے گئے ہیں جو من جانب اللہ ہیں۔ اس کے اجتماعی نظام میں تمام انسان صف واحد میں کھڑے ہیں۔ بالکل مساوی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس نظام میں کسی فرد کی حکوت نہیں ہے ، کسی طبقے کی حکومت کا تصور نہیں ہے۔ کسی نسل کی حکومت کا تصور نہیں ہے۔ کسی قوم کی حکومت کا تصور نہیں ہے ، بلکہ اس نظام میں تمام لوگ آزاد اور باہم مساوی ہیں اور سب کے سب صرف قانون رب العالمین کے پابند ہیں۔ یہ دوات انہیں ایک ایسے نظام حیات کی طرف بلاتی ہے ، ایک ایسے نظام فکر کی طرف بلاتی ہے اور ایک ایسے نظام تصورات کی طرف بلاتی ہے کہ وہ انہیں ماسوائے ضوابط فطرت کے ہر قسم کی جکڑ بندیوں سے رہا کرتی ہے۔ یہ ضوابط فطرت وہی قوانین و ضوابط ہیں جسے خالق فطرت نے منظم کیا ہے۔ یہ خالق اپنی مخلوقات کو اچھی طرح جانتا ہے۔ یہ قواعد و ضوابط انسان کی تخلیقی قوتوں کو باہم ٹکر اور مقابلے سے بچاتے ہیں اور یہ تخلیقی قوتوں کو ضائع بھی نہیں کرتے اور ان کا قلع قمع بھی نہیں کرتے اور نہ ان پر کوئی منفی پابندیاں لگاتے ہیں۔ یہ دعوت تمہیں قوت ، عزت اور سربلندی کی دعوت دیتی ہے اور انہیں یہ سکھاتی ہے کہ وہ اپنے عقائد ، اپنے نظام کو مضبوط کریں۔ اپنے رب اور اپنے دین پر پورا بھروسہ کریں۔ اس دعوت کو لے کر اٹھیں اور دنیا کے تمام انسانوں کو یہ آزادی عطا کردیں۔ تمام لوگوں کو خود ان جیسے انسانوں کی غلامی سے آزادی عطا کردیں کیونکہ تمام دنیا میں انسانوں کو باغیوں اور سرکشوں نے غلام بنا رکھا ہے۔ یہ دعوت انہیں جہاد فی سبیل اللہ کی طرف بلاتی ہے تاکہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا نظام قائم کیا جاسکے۔ لووں کی زندگیاں اس نظام کے مطابق استوار کی جاسکیں۔ اور دنیا سے اقتدار اعلیٰ کے ان نام نہاد مدعیوں کے اقتدار کو ختم کیا جاسکے۔ جن لوگوں نے اللہ کے حق حاکمیت اور منصب مقتدر اعلیٰ کو اپن لیے خاص کر رکھا ہے یہاں تک کہ وہ اس کرہ ارض پر اللہ کے امر اور اقتدار کو تسلیم کرلیں اور یہ جہاد اس وقت تک جاری رہے جب تک دین صرف اللہ کا رئج نہ ہوجائے۔ اگر اس جہاد کے عمل میں ان کی جان بھی چلی جائے تو انہیں شہید کا درجہ حاصل ہوجائے گا۔ یہ ہے اجماعلی تعارف اس دعوت کا جو حضور اکرم دے رہے ہیں اس لیے یہ دعوت ہر مفہوم اور ہر پہلو کے اعتبار سے زندگی عطا کرنے کی دعوت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ یہ کوئی خفیہ عقیدہ نہیں ہے۔ یہ ایک عملی نظام ہے اور اس نظام کے سائے میں در اصل انسانیت زندگی اور ترقی حاصل کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں یہ کہا گیا کہ رسول کی دعوت در اصل تمہیں زندہ کرنے کی دعوت ہے۔ اور یہ ہر میدان میں اور ہر پہلو سے کسی بھی سوسائٹی کو زندہ جاوید کرنے والی ہے۔ قرآن کریم اس عظیم حقیقت کو چند الفاظ میں سمو دیتا ہے۔ ذرا دوبارہ غور کیجیے : يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِيْبُوْا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيْكُمْ : اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہو جب کہ رسول تمہیں اس چیز کی طرف بلائے تو تمہیں زندگی بخشنے والی ہے۔ اس کی دعوت پر اس طرح لبیک کہو کہ اس کو بطیب خاطر قبول کرو اور مطیع فرمان بندے بنو۔ اللہ تعالیٰ اگرچہ تمہیں مجبور کرکے راہ ہدایت پر ڈال سکتا تھا مگر اس نے اس طرح نہیں کیا۔ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ يَحُوْلُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهٖ ۔ اور جان رکھو کہ اللہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہے۔ وہ قادر مطلق ہے اور اس کی قدرت نہایت ہی خوفناک قدرت ہے۔ خود انسان اور اس کے دل و دماغ کے درمیان بھی وہ حائل ہوجاتا ہے اور فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔ اس پر حاوی ہوجاتا ہے۔ اس کی راہ روک دیتا ہے اور جس طرف چاہتا ہے اسے پھیر دیتا ہے۔ جس طرح چاہتا ہے اس کے رخ کو پھیر دیتا ہے۔ جس شخص کے پہلو میں دل ہوتا ہے اسے اس پر کوئی دسترس حاصل نہیں ہوتی۔ فی الواقعہ یہ ایک خوفناک قدرت ہے اور قرآن کریم اس کا نقشہ کیسے الفاظ میں کھینچتا ہے۔ انسانی طرز تعبیر فی الواقعہ اس قسم کی حسی ، لفظی اور معنوی اور موثر تعبیر سے بالکل عاجز ہے۔ یہ خوفناک تصویر ایک مسلمان کی دائمی بیداری کی ضامن ہے۔ مومن بروقت چوکنا رہتا ہے۔ محتاط رہتا ہے اور اپنے دل کی دھڑکن ، اس کے میلانات اور اس کے رجحانات کو قابو میں رکھتا ہے۔ وہ ہر قسم کے وسوسے اور ہر برے رجحان کو قابو میں رکھتا ہے تاکہ اس سے لغزش نہ ہوجائے۔ وہ ہر وقت اپنی راہ پر نظر رکھتا ہے کہ اس راہ میں کس کس جگہ ٹھوکر لگنے کا خطرہ ہے۔ کہاں کہاں وسوسے اور پر کشش مقامات ہیں ، اس لیے کہ ایک مومن اللہ کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط رکھتا ہے کہ کسی بھی غفلت کے وقت ، کسی معمولی سی لغزش کے ذریعے ، کسی بھی اقدام کی وجہ سے وہ بھٹک نہ جائے۔ رسول اللہ ﷺ رسول خدا ہونے کے باوجود یہ دعا اکثر اوقات پڑھا کرتے تھے۔ یا مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک۔ اے دلوں کے پھیرنے والے ، میرے دل کو اپنے دین پر جما دے۔ اگر رسول اللہ کا حال یہ تھا تو پھر ہم لوگوں کا کیا حال ہوگا جو نہ رسول ہیں اور نہ معصوم ہیں۔ یہ وہ منظر ہے جس سے دل اٹھتے ہیں اور جب ایک مومن اپنے آپ کو قرآنی آیات کا مخاطب پاتا ہے تو اس کا پورا جسم لرز اٹھتا ہے۔ کیونکہ اگر اس کے پہلو میں اس کا دل بھی اس کا نہیں ہے ، اللہ کے قبضے میں ہے تو پھر اس کی کیا حیثیت ہے ؟ آیت پر ذرا دو بار غور فرمائیں : يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِيْبُوْا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيْكُمْ : اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہو جب کہ رسول تمہیں اس چیز کی طرف بلائے تو تمہیں زندگی بخشنے والی ہے اس آیت کو پیش کرکے اللہ تعالیٰ ان کو یہ کہتے ہیں کہ اللہ اس بات پر قدرت رکھتے ہیں کہ وہ تمہیں بیک کہنے پر مجبور کردیں۔ تم قہراً اس دعوت کو ماننے پر مجبور کیے جاسکتے ہو ، اگر وہ چاہے ، لیکن اللہ تمہیں یہ اعزاز دینا چاہتا ہے کہ تم مطیع فرمان ہو کر اور اپنے ارادے اور اختیار سے اس دعوت کو قبول کرلو۔ تاکہ اس پر تمہیں اجر وثواب ملے اور تمہاری انسانیت کا مقام ایک مجبور کی سطح سے بلند ہوجائے۔ تم انسانیت کے ارفع مقام تک پہنچ جاؤ اور اپنے اختیار سے ہدایت پا لینے والی مخلوق میں داخل ہوجاؤ۔ ایک فہیم اور مدبر مخلوق بن جاؤ، اور اپنے مقصد و ارادے اور علم و معرفت سے اس راہ پر چل نکلو۔ کیونکہ وَاَنَّهٗٓ اِلَيْهِ تُحْشَرُوْنَ ” اور اسی کی طرف تم سمیٹے جاؤگے “۔ تمہارے دل اس کے ہاتھ میں ہیں۔ تم نے اٹھ کر حشر کے میدان میں کھڑا ہونا ہے۔ اس کے سوا تمہارے لیے اور کوئی راہ نہیں ہے۔ نہ دنیا میں اور نہ آخرت میں لیکن اس صورت حالات کے باوجود اللہ تم کو دعوت دیتا ہے کہ تم آزادانہ طور پر اس راہ پر چلو ، مقہور اور مجبور بندے کی صورت میں نہیں۔
Top