Urwatul-Wusqaa - Al-Anfaal : 24
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْ١ۚ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ یَحُوْلُ بَیْنَ الْمَرْءِ وَ قَلْبِهٖ وَ اَنَّهٗۤ اِلَیْهِ تُحْشَرُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوا : ایمان لائے اسْتَجِيْبُوْا : قبول کرلو لِلّٰهِ : اللہ کا وَلِلرَّسُوْلِ : اور اس کے رسول کا اِذَا : جب دَعَاكُمْ : وہ بلائیں تمہیں لِمَا يُحْيِيْكُمْ : اس کے لیے جو زندگی بخشے تمہیں وَاعْلَمُوْٓا : اور جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ يَحُوْلُ : حائل ہوجاتا ہے بَيْنَ : درمیان الْمَرْءِ : آدمی وَقَلْبِهٖ : اور اس کا دل وَاَنَّهٗٓ : اور یہ کہ اِلَيْهِ : اس کی طرف تُحْشَرُوْنَ : تم اٹھائے جاؤگے
اے مسلمانو ! اللہ اور اس کے رسول کی پکار کا جواب دو جب وہ پکارے تاکہ تمہیں (رُوحانی موت سے نکال کر) زندہ کر دے اور جان لو کہ (بسا اوقات) اللہ انسان اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے اور جان لو کہ اسی کے حضور جمع کیے جاؤ گے
اللہ اور اس کے رسول کے احکام ہی میں زندگی ہے اس زندگی کو حاصل کرلو : 34: فرمایا پیغمبر اسلام کی دعوت اس لئے ہے کہ تمہیں زندہ کردے یعنی وہ انسانیت اعلیٰ کے انبعاث و قیام کی دعوت ہے غور کرو کہ اس نے کس طرح وقت کی تمام مردہ جماعتوں کو قبروں سے اٹھا کر زندگی کے میدانوں میں متحرک کردیا تھا ؟ اس سے بڑھ کر مردوں کو جلانا اور کیا ہوگا کہ عرب کے ساربانوں میں ابوبکر ؓ ، عمر ؓ ، عثمان ؓ ، علی ؓ ، عائشہ ؓ ، خالد بن ولید ؓ ، ابن وقاص ؓ اور ابن العاص ؓ جیسے لوگ پیدا کردیئے اور پچاس برس کے اندر اندر کرہ ارض کی سب سے بڑی مہذب و اشرف قوم وہی عرب کے وحشی تھے۔ آج بھی اس پیغام میں اس طرح کی زندگی موجود ہے لیکن دراصل قوم کو کوئی سبق پڑھانے والا نہیں رہا اور ملا نے اسلام کی روح حقیقی نکال کر اس کو بالکل بےجان کردیا ہے اور اس زندگی بخشنے والے پیغام کو مردوں کو ثواب پہنچانے کے لئے خاص کردیا ہے۔ قرآن کریم جس چیز کو زندگی قرار دیتا ہے اس زندگی کو وہ سمجھنے کے لئے تیار ہی نہیں۔ قرآن کریم کے الفاظ پر ایک بھر پھر غور کرو فرمایا : ” اے مسلمانو ! اللہ اور اس کے رسول کی پکار کا جواب دو جب وہ پکارتا ہے تاکہ تمہیں زندہ کرے۔ “ اس لئے کہ انبیائے کرام (علیہم السلام) کا کام یہی زندگی عطا کرنا ہے وہ بھی ” باذن اللہ ‘ ہی عطا کرسکتے ہیں لیکن نادانوں نے اس زندگی کو نبیوں کے ذمے ڈال دیا جو زندگی خالصتاً اللہ ہی کا خاصہ ہے۔ ہمارے مفسرین کرام (رح) نے بھی اس حیات سے مراد جس کا ذکر اس آیت میں ہے اور جو انبیاء کرام (علیہ السلام) دینے کے لئے مبعوث ہوئے تھے مختلف اقوال ذکر کئے ہیں لیکن ان سب کا ماحصل ایک ہی ہے چناچہ کہا گیا ہے کہ وہ حیات بخش چیز ” ایمان “ ہے کیونکہ کافر مردہ ہوتا ہے اور مسلمان ایمان کی زندگی سے زندہ کہلاتا ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ وہ حیات قرآن کریم ہے جس میں دنیا و آخرت کی زندگی اور فلاح مضمر ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ حق ہے کیونکہ حق کا مخالف باطل ہے جو سراسر کفر و جہل اور موت ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ جہاد سے جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو عزت بخشی اور یہ سب تعبیرات اگرچہ مختلف ہیں لیکن ان سب کا ماحصل ایک ہی ہے اس لئے یہ سب تعبیرات اپنی اپنی جگہ صحیح اور درست ہیں ان میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ ” ایمان “ ” قرآن کریم “ ” حق “ اور ” جہاد “ وغیرہ سب ایسی چیزیں ہیں جن سے ایک سچے مسلمان کا دل زندہ ہوتا ہے اور دل کی زندگی یہ ہے کہ بندہ اور اللہ تعالیٰ کے درمیان جو غفلت و شہدت کے حجابات حائل ہیں وہ راہ سے ہٹ جائیں اور نور معرفت دل میں جاگزیں ہوجاتے۔ انسان اور اس کے دل کے درمیان اللہ کے حائل ہوجانے کا مطلب کیا ؟ 35: ” اور جان لو کہ اللہ انسان اور اس کے دل میں درمیان حائل ہوجاتا ہے “ اس عبارت کے دو مف ہوں ہو سکتے ہیں اور دونوں ہی اپنی جگہ درست ہیں۔ ایک یہ کہ جب کسی نیک کام کے کرنے یا گناہ سے بچنے کا موقع ہاتھ آجائے تو جلدی کرو اور نیک کام کو کر گزرو دیر نہ کرو اس وقت کو ینیمت سمجھو اس لئے کہ بعض اوقات آدمی کے ارادہ کے درمیان قضاء الٰہی حائل ہوجاتی ہے اور وہ اپنے ارادہ میں کامیاب نہیں ہوتا مثلاً کوئی بیماری آگئی یا کوئی اور مشغلہ سامنے آگیا اور یہ نہیں تو موت ہی آگئی اور یہ کام ہوئے ہوئے رہ گیا۔ اس لئے انسان کو چاہئے کہ فرصت اوقات کو غنیمت سمجھ کر آج کا کام کل پر ڈالنے کی عادتت ترک کردے خصوصاً جب وہ اچھا اور نیک کام ہو کل کیا ہوگا کس کو معلوم ہے ؟ اس لئے کس نے کہا ہے کہ من نمی گویم زباں کن یا نفکر سود باش ۔ ای ز فرصت بیخبر دار ہرچہ باشی زودباش اور دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انسان کا قلب ہر وقت اللہ تعالیٰ کے خاص تصرف میں ہے وہ کبھی انسان کی برائیوں سے حفاظت کرنا چاہتا ہے کیونکہ وہ انسان کے ارادوں سے واقف ہے اس لئے وہ انسان کے قلب اور گناہوں کے درمیان آڑ کردیتا ہے لیکن کبھی اس کے برعکس انسان کی بدبختی مقرر ہوتی ہے تو وہ اس کے اور نیک کاموں کے درمیان آڑ کردیتا ہے کیونکہ وہ اس کی نیت سے واقف ہے اور یہ بات اس کی ہلاکت کا باعث ہوجاتی ہے جیسا کہ نبی کریم ﷺ اکثر اپنی دعاؤں میں اس جملہ کو ادا فرمایا کرتے تھے کہ یا مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک۔ ” اے دلوں کے پلٹنے والے ! میرے دل کو اپنی طاقت پر ثابت اور قائم رکھ۔ “ اور ساری گفتگو کو اس طرح بھی ادا کیا جاسکتا ہے کہ تم یہ بات کبھی نہ بھولو کہ انسان کے انکار و افعال میں حکمت الٰہی کا ایک خاص قانون کام کر رہا ہے بسا اوقات اس کے ارادوں اور اسکے دل کے جذبوں اور انفعالوں کے درمیان اچانک کوئی غیر متوقع بات آکر حائل ہوجاتی ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اچانک اچھائی سے برائی میں جا پڑتا ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اچانک برائی سے بھلائی میں آنکلتا ہے چناچہ کتنے ہی اچھے ارادے ہیں جن میں عین وقت پر ہمارے دل نے انکار کردیا اور کتنے ہی برائی کے منصوبے ہیں جن سے اچانک ہمارے دل نے بغاوت کردی ۔ پس چاہئے کہ انسان اپنے دل کی نگرانی سے کبھی غافل نہ ہو اور یہ بھی نہ بھولو کہ اللہ کے حضور لوٹنا ہے کیونکہ جس دل میں آخرت کا یقین ہوگا وہ زندگی کی غفلتوں سے کبھی مغلوب نہیں ہوسکتا اور سب کا ماحصل یہ ہے کہ ارادہ نیک ہو تو کبھی دیر نہ کرے اور ارادہ میں اللہ نہ کرے ، برائی کی کوئی بات آجائے تو جلدی نہ کرے بلکہ حتی الامکان اس کو ٹالتا رہے ممکن ہے کہ وہ اس برائی کے مؤخر کرنے ہی سے اس سے بچ جائے جو بذاتہ نیکی ہے اس طرح وہ ساری نیکیاں حاصل کرجائے۔
Top