Tafseer-e-Haqqani - Yunus : 9
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ یَهْدِیْهِمْ رَبُّهُمْ بِاِیْمَانِهِمْ١ۚ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهِمُ الْاَنْهٰرُ فِیْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے وَعَمِلُوا : اور انہوں نے عمل کیے الصّٰلِحٰتِ : نیک يَهْدِيْهِمْ : انہیں راہ دکھائے گا رَبُّھُمْ : ان کا رب بِاِيْمَانِهِمْ : ان کے ایمان کی بدولت تَجْرِيْ : بہتی ہوں گی مِنْ : سے تَحْتِهِمُ : ان کے نیچے الْاَنْهٰرُ : نہریں فِيْ : میں جَنّٰتِ : باغات النَّعِيْمِ : نعمت
بیشک جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام بھی کئے تو ان کے ایمان کی وجہ سے ان کا رب ان کو رہنمائی کرے گا (مقامات سعادت کی طرف) ان کے نیچے جنات النعیم میں نہریں بہتی ہوں گی۔
تفسیر : اس سورة میں چونکہ یونس (علیہ السلام) کا عبرت انگیز ایک نیا قصہ ہے اس لئے اسی نام سے یہ سورة صحابہ میں نامزد ہوگئی۔ یہاں تک وہ سورتیں تھیں جو مدینہ میں نازل ہوئی تھیں جن میں نکاح ‘ طلاق ‘ میراث ‘ قصاص ‘ جہاد و سیاست کے احکام اور حلال و حرام کا بیان تھا۔ اب یہاں سے وہ سورتیں شروع ہوتی ہیں جو ہجرت سے پہلے آنحضرت (علیہ السلام) پر مکہ میں نازل ہوئیں جبکہ مکہ اور اس کے اطراف بلکہ بیشتر عرب بلکہ تمام دنیا پر گمراہی اور الحاد اور بدکاری اور بت پرستی اور اوہام باطلہ کے دریا موجزن تھے۔ خاص عرب میں چند گروہ تھے : (1) وہ کہ جو سرے سے خدا تعالیٰ کے وجود ہی کے قائل نہ تھے صرف دہر اور طبائع اجسام کو موجد و منفی خیال کرتے تھے۔ وما یہلکنا الا الدہر نہ حشر و نشر نہ حساب کے قائل اور نہ سلسلہ نبوت کے قائل تھے۔ (2) خدا کے تو قائل تھے مگر حشر بالا جساد اور سلسلہ نبوت کے منکر تھے۔ بتوں 1 ؎ یعنی ان کو یقین نہیں کہ مرنے کے بعد خدا کے سامنے جانا ہے۔ 12 منہ اور جنوں اور دیگر مخلوقات کی پرستش کو خدا کی رضامندی کا ذریعہ اور دنیاوی کامیابی کا وسیلہ جانتے تھے جیسا کہ ہنود کا قول ہے۔ مانعبدھم الالیقربونا الی اللّٰہ زلفٰی پھر ان چیزوں میں سے کسی کو اپنے زعم فاسد میں خدا کا بیٹا یا بیٹی ‘ کسی کو غیب دان ‘ کسی کو اس کے کارخانہ کا مدار المہام خیال کرتے تھے جس کے جواب میں اس سورة میں اپنی نسبت یدبر الامر کہنا پڑا۔ (3) کچھ حکیمانہ خیالات کے لوگ بھی تھے کہ نبوت کے منکر تھے اور عقل کو حسن و قبح کے ادراک میں کافی جانتے تھے۔ الہام اور آسمانی کتابوں کے منکر تھے۔ خصوصاً آدمی کا رسول ہو کر آنا بھی تعجب انگیز امر تھا کہ انسان باہم مساوی ہیں۔ پھر ایک شخص کو خدا سے ایسا قرب حاصل ہونا ایک امر خلاف عقل ہے۔ خصوصاً آنحضرت ﷺ کو امی اور فقیر خیال کرکے اور بھی تعجب کرتے تھے۔ یہود اور نصاریٰ اور مجوس ان کے علاوہ تھے جو اطراف عرب عراق و یمن میں رہتے تھے اور اب بھی دنیا میں جس قدر گمراہ فریق ہیں وہ انہیں اقسام ثلاثہ کی کوئی نہ کوئی شاخ ہیں۔ خدا تعالیٰ اس سورة میں ان تینوں فریق کا رد کرتا ہے اور ان کے اقوال و عقائد کا مفصلاً جواب دیتا ہے۔ فقال الر اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ یہ قرآن بھی انہیں حروف سے مرکب ہے کہ جن سے اے فصحاء عرب تمہارے کلام مرکب ہوتے ہیں۔ پھر اگر اس میں کوئی بات انسان کی قوت سے بڑھ کر نہیں تو پھر تم بھی معمولی فصاحت و بلاغت اور زبان دانی میں محمد (صلعم) کے ہم قوم ہم ملک ہو ایسا تم بھی کہہ لاؤ لیکن نہیں کہہ سکتے کس لئے کہ تلک آیات الکتاب المبین کہ یہ آیات کتاب مبین کی آیات ہیں کہ جو انسان کی سعادت و شقاوت اور عالم آخرت کا حال اور حرام و حلال ‘ نجاست و پاکیزگی کے احکام اور قتل و میراث اور جملہ معاشرت کے قوانین بیان کرتی ہے کہ جو خاص الہامِ الٰہی کا کام ہے۔ سب سے اول قرآن مجید کا کلام الٰہی ثابت کرنا آیندہ مطالب کے لئے پر ضرور تھا۔ اس لئے سب سے اول اسی بات کو ثابت کیا۔ اس کے بعد مسئلہ نبوت شروع کیا۔ فقال اکان للناس عجبًا ان اوحینا الی رجل منہم کہ کیا لوگوں کو اس بات سے تعجب ہوا کہ ہم نے انہیں میں سے ایک شخص کی طرف (یعنی محمد ﷺ کی طرف) وحی بھیجی اور وہ اس لئے کہ ان انذر الناس وبشر الذین آمنوا ان لہم قدم صدق عندربہم کہ لوگوں کو ان کے برے اعمال اور برے عقائد کے برے نتائج سے جو دنیا میں اور بیشتر مرنے کے بعد پیش آتے ہیں ٗ ڈرا دے اور ایمانداروں کو اس بات کا مژدہ سنا دے کہ ان کے رب کے پاس ان کا راستی کا پایہ ہے وہ اس کے ہاں راستباز اور اجر عظیم کے مستحق ہیں۔ اس بات پر تعجب ہی نہیں کیا بلکہ قال الکفرون ان ھذا السٰحر مبین کافریہ بول اٹھے کہ یہ نبی تو کھلا کھلا جادوگر ہے۔ مسئلہ نبوت پر جو کچھ منکرین کا شبہ اور اعتراض تھا تو یہی تھا اور اس کے سوا بطلان نبوت پر اور کوئی دلیل بھی نہیں رکھتے اور جب اغراض و مقاصد نبوت پر غور کیا جاوے جیسا کہ آیت میں مذکور ہوا تو یہ شبہ خودبخود لچر اور پوچ ہوجاتا ہے کیونکہ خدا اپنی رحمت سے کیونکر بنی آدم کو وادی ضلالت میں ٹکراتے چھوڑ دیتا۔ یہاں تک قرآن کا کتاب الٰہی ہونا اور آنحضرت ﷺ کا نبی ہونا ثابت کردیا۔ تیسرے فریق کا اور جو ان کا ہم مشرب تھا ان کا بھی رد ہوچکا۔ نبوت ثابت ہوگئی تو منصب نبوت کے پیرایہ میں فریق اول کا رد کرتا ہے۔ فقال ان ربکم الذی افلا تذکرون تک کہ تمہارا رب تو وہ ہے کہ جس نے چھ روز کے عرصہ میں آسمانوں اور زمین کو بنایا اور تخت حکومت پر بیٹھ کر ہر کام کی تدبیر و انتظام کرتا ہے یعنی یہ محسوسات ازخود نہیں بن گئے ہیں۔ یہ حادث ہیں ان کے لئے محدث ضرور ہے اور محدث بھی علیم و حکیم جو ہر شے کا انتظام شائستہ کرتا ہے اور وہی اللہ تعالیٰ ہے اس میں فریق اول کا بکمال خوبی رد ہے اور نیز ان اوہام پرست قوموں کا بھی جو خدائی کارخانوں میں اس کی مخلوق کو ساجھی جان کر پوجتے ‘ نذر و نیاز کرتے ہیں۔ یہ اس لئے کہ سب چیزوں کو تو اللہ نے بنایا اور پھر وہی سب کچھ تدبیر و تصرف بھی جہان میں کرتا ہے۔ پھر اس کا کس بات میں شریک بن سکتا ہے۔ انہوں نے کہا پیدا کیا ہے وہ کیا تدبیر و تصرف جہان میں کرتے ہیں اس میں دوسرے فریق کا بھی رد ہے جو مخلوق پرستی کرتا ہے یہاں تک تو مبدء کا ذکر تھا اب معاد کا ذکر کرتا ہے۔ فقال الیہ مرجعکم جمیعًا۔ کہ تم سب کو اسی کے پاس پھر کر جانا ہے۔ جدھر سے وجود عطا ہوا تھا اس کی طرف پھر کر جائے گا اور بڑی دلیل اس کی یہ ہے وعد اللّٰہ حقًا کہ اللہ نے سچا وعدہ کرلیا ہے اور اللہ بھی وہ کہ جس نے آسمان اور زمین بنائے نبی بھیجا ‘ قرآن اتارا۔ اس کے نزدیک اس کا ایفاء کیا بات ہے اور کیونکر جھوٹ ہوسکتا ہے اور اے بنی آدم ! کچھ تمہارے ہی وجود کا اعادہ نہ ہوگا بلکہ انہ یبدؤ الخلق اس نے مخلوق کو پیدا کیا یا کہو ہر وقت پیدا کرتا ہے کسی شے کا وجود ایسا نہیں کہ اس کو ایک آن بھی استقلال نصیب ہو بلکہ ہر لحظہ اسی کی طرف محتاج ہے۔ پھر جس نے یہ بساط مخلوق بچھایا ہے ثم یعیدہ وہی باردگر نیست کے بعد ہست کر دے گا۔ یہ اس لئے لیجزی الذین آمنوا الخ اول وجودِ کا رنگ وجود ثانی میں نمایاں ہوجاوے جس کی تفصیل یہ ہے کہ ایمانداروں کو نیک بدلہ انصاف سے دے اور منکروں کو عذاب الیم ان کے کفر کا بدلہ ملے۔ یہاں حشر کا مسئلہ تھا اور اس کے منکرین کی پر الفاظ میں تسکین کردی گئی۔ اس کے بعد جو کچھ مخلوق آسمانوں اور زمین کے درمیان ہے اس کے اندر اپنی قدرت و کمال کے دلائل اپنے حیرت انگیز تصرفات سے ثابت کرا کے امکان حشر اور اپنے وجود اور صفات کا ثبوت اور شرک کا رد کرتا ہے۔ فقال ھو الذی جعل الشمس ضیاء الخ کہ وہی تو ہے کہ جس نے آفتاب کو روشنی عطا کی ورنہ مادہ اجسام تو ایک ہی ہے پھر یہ خصوصیت کہاں سے ازخود آگئی ہے اور چاند کو اس کی منازل پر روانہ کیا۔ اس میں اپنی قدرت بھی دکھا دی اور اس سے بندوں کا فائدہ بھی کردیا کہ برسوں کا اندازہ اور ہر شے کی عمر کا حساب اس سے ہوتا ہے اور اسی طرح رات دن کے بدلنے میں اور جو کچھ آسمانوں اور زمین میں اس نے پیدا کیا ہے ‘ اس میں خدا ترس کے لئے بہت نشان قدرت ہیں۔ آسمانوں کے اندر ہزاروں نیّرات اور بادل اور بجلی اور بارش اور ان میں جو جو قدرت کی رنگینیاں ہیں حیرت بخش ہیں مگر نہ سب کے لئے بلکہ پرہیزگاروں کے لئے کیونکہ جو لذائذِ دنیا اور اس کے نشے میں مست ہو کر اندھے ہوگئے ہوں ھم عن آیاتنا غافلون وہ تو ہماری آیات قدرت سے غافل ہیں۔ اب یہاں سے پھر عالم آخرت کی کیفیت شروع ہوتی ہے۔ فقال اولئک ماواھم النار کہ ان کا ٹھکانا آگ ہے نہ زبردستی سے بلکہ بماکانوا یکسبون انہیں کی بری کرتوتوں سے اس کے مقابلہ میں نیکوں کا حال بیان فرماتا ہے۔ ان الذین آمنوا کہ جو ایمان لائے اور ایمان ہی پر بس کرکے نہیں بیٹھ گئے بلکہ وعملوا الصالحات انہوں نے نیک کام بھی کئے ہیں۔ یہدیہم ان کا رب ان کے ایمان کی برکت سے کیونکہ اصل وہی ہے ان کو ایسے باغوں کی طرف رہنمائی کرے گا کہ جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ یہ ان کے ایمان و اعمال صالحہ کی نہریں ہیں اور وہ جنت میں خدا کی تسبیح و تقدیس کیا کریں گے۔ دعواھم فیہا سبحانک اللہم الخ منکرین حشر جو دنیا کی نعماء میں مسرور تھے اس بیان پر یہ شبہ پیدا کیا کرتے تھے کہ اب کیوں خدا ہم کو ہمارے برے کاموں کی سزا نہیں دیتا۔ حشر پر کیوں موقوف کیا ہے۔ اس کے جواب میں فرماتا ہے ولو یجعل اللّٰہ الخ کہ اگر خدا لوگوں کی برائی کی سزا ایسی جلد دیا کرے کہ جیسا وہ نیکی یعنی بھلائی کے لئے جلدی کیا کرتے ہیں تو ان کا فیصلہ کبھی کا ہو چکتا۔ ہم ایک وقت تک مہلت دیتے ہیں۔ پر وہ اس میں بھی اپنی سرکشی ہی میں اندھے بنے رہتے ہیں۔ توبہ وزاری نہیں کرتے۔ اب فرماتا ہے کہ دنیا میں بھی ہم برائی کے بدلہ میں مصیبت بھیج دیا کرتے ہیں مگر اس وقت تو انسان کھڑا اور پڑا ہم کو پکارتا ہے۔ پھر جب اس سے وہ مصیبت دور کردیتے ہیں تو پھر آنکھیں پھیر لیتا ہے۔ گویا ہم سے کوئی سابقہ ہی نہیں پڑا تھا۔ بیہودہ لوگ اپنی ان باتوں پر خوش ہوتے ہیں۔ ہم نے بھی ان کی نظروں میں بیہودگی کو کھبا رکھا ہے۔ اس کے بعد پہلی امتوں کا ذکر کرتا ہے جس سے یہ ثابت کرتا ہے کہ (1) اول لوگوں کو بھی ہم نے کبھی دنیا میں ان کی بدکاری سے ہلاک کردیا ہے۔ (2) اور اول بھی رسول آئے تھے۔ ان سے بھی یہی معاملات پیش آئے تھے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ فقال ولقد اھلکنا القرون الخ اب یہ بتلایا جاتا ہے کہ ان کے ہلاک کرنے کے بعد ان کے جانشین برپا کئے تاکہ دیکھیں وہ کیا کرتے ہیں اور کیا کرنے کے ذیل میں جو کچھ قریش مکہ محمد ﷺ کے ساتھ کرتے تھے ٗ اس کا ذکر کرتا ہے۔ فقال واذا تتلی علیہم آیتنا الخ کہ جب ان کو ہماری آیات روشن جن میں کچھ ابہام و اخفاء نہیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں اور ان میں ان کی بت پرستی اور برے کاموں کی مذمت ہوتی ہے تو قرآن سے ناراض ہو کر کہتے ہیں کہ اس قرآن کے بدلہ اور لایا ‘ اس کو بدل ڈال کہ اس میں یہ مذمت نہ ہو۔ آنحضرت ﷺ کو حکم ہوتا ہے کہ ان سے کہہ دو میں نہیں بدل سکتا۔ میں تو حکم کا تابع ہوں جو مجھے ارشاد ہوتا ہے تم سے کہتا ہوں۔ اگر ذرا بھی بدلوں تو عذاب عظیم تیار ہے اور تم نے یہ کیوں خیال کرلیا کہ میں اپنی طرف سے تمہیں سناتا ہوں۔ میری تم میں ایک عمر گذر گئی ہے۔ پہلے کبھی ایسا نہیں کیا افلا تعقلون پھر بھی تم نہیں سمجھتے۔ پس میں مامورمن اللہ ہوں ٗ خدا پر کوئی بہتان باندھ کر نہیں لایا ہوں کیونکہ جو ایسا کرتا ہے وانہ لایفلح المجرمون اور مجرموں کو کبھی فلاح نہیں۔ اگر تم دیکھو کہ مجھے فلاح اور فتح مبین ہے تو یقین کرلینا کہ من اللہ ہوں توریت سفر استثنیٰ کے 18 باب میں ہے کہ ” جو کوئی نبی کوئی بات میرا نام لے کر اپنی طرف سے کہے گا وہ مارا جاوے گا “۔ اب نبی ﷺ کی روز افزوں کامیابی سے بڑھ کر اور کونسا صریح معجزہ اور آپ کی صداقت کا نشان ہوسکتا ہے۔ آمنا بہ۔ ان آیات میں سعادت ازلیہ سے محروم ہونے والوں کی چار صفتیں ذکر فرمائیں : (اول) لایرجون لقاء نا۔ ابن عباس و مقاتل و کلبی کہتے ہیں اس کے معنی ہیں کہ وہ حشر سے نہیں ڈرتے۔ بعض کہتے ہیں الرجاء الطمع وھو محمول علی ظاہرہ لاوجہ لعدولہ کہ اس عالم فانی کے لذائذِ حسیہ ( خسیسہ) ‘ اکل و شرب ‘ جماع وغیرہ میں یہاں تک مستغرق ہیں کہ اس خیال نے ہمارا شوق ان کے دل سے بھلا دیا۔ ایسوں کے خاسر ہونے میں کیا کلام ہے۔ بعد مرنے کے ان کی جدائی میں تڑپیں گے۔ دوم رضوا بالحیوۃ الدنیا صفت اول میں اس طرف اشارہ تھا کہ ان کے دل میں لذات روحانیہ اور سعادت معارف ربانیہ کا شوق بھی نہیں اور اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ لذائذِ جسمانیہ پر غش ہیں۔ اسی کو بس سمجھتے ہیں۔ کہا کرتے ہیں کہ دنیا ہر کار میں مقدم ہے۔ شب و روز اسی کے حاصل کرنے میں سرگرداں اور ہمہ وقت اسی پر شاداں وفرحاں رہتے ہیں۔ بڑے مستحکم مکان بنائے جاتے ہیں۔ سینکڑوں برسوں کے پٹے لکھوائے جاتے ہیں۔ ادھر چند روز کے بعد دم نکل گیا سب کچھ دھرا رہ گیا۔ سوم اطمانوا بہا کہ اس پر اطمینان بھی ہے کہ جس طرح اہل سعادت کو ذکر الٰہی سے اطمینان ہوتا ہے اسی طرح ان کو حیات دنیا سے۔ چہارم والذین ھم عن آیتنا غافلون کہ ان کو خدا کی آیات قدرت اور آیات کتاب سے محض غفلت ہے۔ محبت دنیا نے عالم آخرت کی جگہ ہی دل میں باقی نہیں رکھی۔ موت کا نام سن کر گھبراتے ہیں۔ اس کا نتیجہ ذکر فرماتا ہے۔ اولئک ما واھم النار بما کانوا یکسبون ان چیزوں کی محبت بعد مفارقت بدن آتش جہنم بن کر جلائے گی۔ ان کے مقابلے میں اہل سعادت کے درجات ذکر کرتا ہے۔ فقال (1) ان الذین آمنوا (2) وعملوا الصالحات انسان کی دو قوت ہیں نظری اور عملی پہلی قوت کی تکمیل تو ایمان اور معارف سے حاصل ہوتی ہے اور دوسرے ہر قسم کا عمدہ کام کرنے سے سو ان کی دونوں قوتیں کامل ہیں اور یہی سعادت کا پورا سامان ہے۔ ان مجمل لفظوں میں تمام حسنات کی طرف اشارہ ہے کہ جن کی تعلیم کے لئے انبیاء (علیہم السلام) بھیجے گئے ہیں۔ ان کے درجات ذکر فرماتا ہے : (1) یہدیھم ربہم بایمانہم کہ ان کے ایمان کی وجہ سے جو ایک نور اور چراغ ہدایت ہے اس عالم میں جنت کی طرف رہنمائی کرے گا اور نیز دنیا میں بھی ایمان ہر مراتب سعادت کی طرف ترقی کرنے کا محرک ہوتا ہے اور ذات حق اور دیگر اسرار معرفت کی طرف بھی یہی انسان کو کھینچ کرلے جایا کرتا ہے۔ (3) تجری من تحتہم الانہار فی جنات النعیم کہ ناز و نعیم کے ایسے باغوں میں رہا کریں گے جہاں ان کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ ان کے معارف جاریہ اور اعمال صالحہ جن پر وہ اس عالم میں سوار ہیں وہاں انہار الطاف رحمانی کی صورت میں ظہور کریں گے۔ یہاں تک جنت اور نعمائِ جسمانیہ کی طرف اشارہ تھا اس کے بعد نعماء روحانیہ کا ذکر کرتا ہے (3) دعواھم فیہا سبحانک اللہم دعویٰ بمعنی دعاء (یقال دعاید عودعا ودعوی کما یقال شکی یشکو شکایۃً وشکوی) یعنی وہاں ان کی دعا ان الفاظ سے ہوگی۔ بعض کہتے ہیں دعا سے مراد عبادت ہے کہ وہاں بجز اس قول کہنے کے اور کوئی عبادت نہ ہوگی۔ ابو مسلم کہتے ہیں کہ دعوے سے مراد بات چیت ‘ آپس میں پکارنا سو وہ اس قول سے ہوگی۔ بعض کہتے ہیں اس سے مراد طریقہ ہے کہ ان کا وہاں یہ طریقہ ہوگا۔ (4) تحیتہم فیہا سلام کہ بوقت ملاقات آپس میں تحیہ بلفظ سلام ہوگا (5) آخر دعواھم ان الحمد للّٰہ رب العلمین ان تینوں جملوں کی تفسیر میں مفسرین نے بہت سے احتمالات بیان فرمائے ہیں۔ ازا نجملہ یہ کہ اول بار جب جنت میں وعدہ الٰہی کے موافق نعماء دیکھیں گے تو سبحانک اللہم کہیں گے اور جب ایک دوسرے سے ملے گا تو سلام اور جب کلام تمام کر چکیں گے تو الحمد للّٰہ رب العلمین کہیں گے اوراقویٰ یہ ہے کہ معارفِ الٰہی میں جب ترقی کریں گے تو سبحانک اللہم کہیں گے یعنی ملائکہ کی طرح اس کے انوار و تسبیح و تقدیس میں مستغرق رہیں گے اور جب باہمی اختلاط ہوگا تو ایک دوسرے کو سلامتی کے ساتھ خطاب کرے گا اور وہاں کی لذائذِ روحانیہ و جسمانیہ پر مخطوظ ہو کر الحمد للّٰہ رب العلمین کہیں گے یعنی شادی اور سرور میں ہوں گے۔ والعلم عند اللہ
Top