Ruh-ul-Quran - Yunus : 9
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ یَهْدِیْهِمْ رَبُّهُمْ بِاِیْمَانِهِمْ١ۚ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهِمُ الْاَنْهٰرُ فِیْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے وَعَمِلُوا : اور انہوں نے عمل کیے الصّٰلِحٰتِ : نیک يَهْدِيْهِمْ : انہیں راہ دکھائے گا رَبُّھُمْ : ان کا رب بِاِيْمَانِهِمْ : ان کے ایمان کی بدولت تَجْرِيْ : بہتی ہوں گی مِنْ : سے تَحْتِهِمُ : ان کے نیچے الْاَنْهٰرُ : نہریں فِيْ : میں جَنّٰتِ : باغات النَّعِيْمِ : نعمت
یہ بھی حقیقت ہے کہ جو لوگ ایمان لائے اور اعمال کرتے رہے، انھیں ہدایت کرے گا ان کا رب، ان کے ایمان کی وجہ سے، بہتی ہیں ان کے نیچے سے نہریں
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ یَھْدِیْمِ رَبُّھُمْ بِاِیْمَانِہِمْ ج تَجْرِیْ مِنْ تَحِتِھِمُ الْاَنْھٰرُ فِیْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ ۔ دَعْوٰھُمْ فِیْھَا سُبْحٰنَکَ اللّٰھُمَّ وَتَحِیَّتُھُمْ فِیْھَا سَلٰمٌ ج وَاٰخِرُ دَعْوٰھُمْ اَنِ الْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۔ ع (یونس : 9۔ 10) (یہ بھی حقیقت ہے کہ جو لوگ ایمان لائے اور اعمال کرتے رہے، انھیں ہدایت کرے گا ان کا رب، ان کے ایمان کی وجہ سے، بہتی ہیں ان کے نیچے سے نہریں وہاں ان کی صدا یہ ہوگی کہ پاک ہے تو اے خدا اور ان کی دعا اس میں (یہ ہوگی) سلامتی ہو، اور اس کی دعا کا خاتمہ اس پر ہوگا کہ ساری تعریف اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔ ) آخرت کی فکر کا انجام سابقہ آیت میں ان انسانوں کا انجام بتایا گیا ہے جو آخرت سے غافل اور دنیا کی زندگی سے جی لگا کے بیٹھ جاتے ہیں اور ایک سے ایک بڑھ کر نشانی انھیں آخرت کی یاد دلاتی ہے لیکن وہ غفلت کے مارے کبھی اس کی طرف آنکھ اٹھا کے نہیں دیکھتے بلکہ دنیا ہی کی زندگی کو اپنا سب کچھ سمجھتے ہیں بالآخر ان کا انجام یہ ہوگا کہ جہنم ان کا ٹھکانا ہوگا۔ اب پیش نظر آیت کریمہ میں دوسری طرح کے لوگوں کا انجام بیان کیا جارہا ہے جنھوں نے اللہ کے نبی کی دعوت کو قبول کیا اور اس بات پر یقین لے آئے کہ یہاں کی زندگی حقیقی زندگی نہیں بلکہ یہ آخرت کی زندگی کی تیاری کے لیے ایک مہلت عمل ہے۔ یہاں رہ کر قدم قدم پر آزمائشیں ہیں جن کے ذریعے انسانوں کا امتحان لیا جاتا ہے کہ تم دنیا ہی کو اپنی منزل سمجھتے ہو یا اس دنیا کو اس طرح برتو گے اور اس طرح اس میں زندگی گزارو گے کہ جس سے تم آخرت میں سرخرو ہوسکو۔ چناچہ جن لوگوں نے اللہ کے نبی کی ہدایت پر آخرت کو اپنی منزل بنا لیا اور اپنے اعمال کو اس قالب میں ڈھال لیا جس کی ہدایت لے کر اللہ کے نبی آئے تھے اور زندگی کا ہر عمل اللہ اور رسول کے احکام کے مطابق انجام دیا۔ مرتے دم تک اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی اطاعت کی۔ اعلائے کلمۃ الحق کو اپنا مقصد سمجھا اور ہر قدم اس طرح اٹھایا جس کا آخرت میں جواب دیا جاسکے۔ چناچہ یہ لوگ ایمان اور عمل صالح لے کر جب دنیا سے گزر جائیں گے تو اللہ انھیں جنت کا راستہ دکھائے گا۔ یہاں اس آیت میں ہدایت دینے سے مراد جنت تک پہنچانا ہے کیونکہ ہدایت کبھی راستہ دکھانے کو کہتے ہیں اور کبھی مطلوب تک پہنچانے کو کہتے ہیں۔ اللہ کے نبی نے جو راستہ دکھایا، یہ اس راستے پر چلتے رہے اور اسی پر زندگی گزاری۔ آخر ایک وقت آیا کہ اللہ نے ان کا ہاتھ پکڑا اور انھیں جنت تک پہنچا دیا۔ پھر اس جنت کا شوق تیز کرنے کے لیے فرمایا کہ تمہیں جو جنت دی جائے گی اس کے نیچے سے ندیاں رواں ہوں گی جس کے باغات میں نعمتوں کی بہار لہلہائے گی اور ایسی ایسی نعمتیں میسر آئیں گی جو انسان کے ادراک سے بھی بالاتر ہے۔ چناچہ مومن اپنی آنکھوں سے اللہ کے رسول کے وعدوں اور قرآن کریم کی بشارتوں کا مصداق چاروں طرف پھیلی ہوئی نعمتوں کی شکل میں دیکھیں گے تو بےساختہ زبان سے سُبْحٰنَکَ اللَّھُمَّ کے الفاظ نکلیں گے جس کا مطلب یہ ہوگا کہ یا اللہ تو پاک ہے اس بات سے کہ تیرا کوئی وعدہ غلط ثابت ہو۔ ہم نے جو سنا تھا اس سے بڑھ کر پایا۔ ہم نے جو گمان کیا تھا وہ سچا ثابت ہوا۔ پھر اپنی کامیابیوں اور کامرانیوں پر اہل جنت ایک دوسرے کو مبارکباد دیں گے۔ مبارک سلامت کا ایک شور ہوگا جو چاروں طرف گونج رہا ہوگا۔ تَحِیَّتُھُمْ فِیْھَا سَلٰمٌ اسی کی تعبیر ہے۔ بعض اہل علم کا خیال یہ ہے کہ اس آیت میں دعویٰ کا معنی دعا ہے لیکن جنت میں پہنچنے کے بعد کوئی ایسی نعمت نہیں ہوگی جس کے لیے اہل جنت دعا کرسکیں۔ جو کچھ ان کے سامنے ہوگا وہ ان کے تصور سے بھی فزوں تر ہوگا۔ اس لیے ان کی زبان سے دعا کی بجائے بار بارسبْحٰنَکَ اللَّھُمَّ نکلے گا۔ گویا یہی ان کی دعا ہوگی اور یہی ان کی تسبیح ہوگی۔ اور اس کلمہ تسبیح میں وہ ایسی لذت محسوس کریں گے کہ یہ بجائے خود ان کے لیے سب سے بڑی نعمت بن جائے گی۔ اور اگر ایک حدیث کو پیش نظر رکھا جائے تو پھر تو اس نعمت کا کیا کہنا ! حدیث قدسی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو بندہ میری حمدوثنا میں ہر وقت لگا رہے یہاں تک کہ اس کو اپنے مطلب کی دعا مانگنے کی بھی فرصت نہ رہے تو میں اس کو تمام مانگنے والوں سے بہتر عطا کروں گا۔ یعنی بےمانگے سب کچھ دے دوں گا۔ اس حیثیت سیسُبْحٰنَکَ اللَّھُمَّ کے دعا ہونے میں کیا شبہ ہے۔ اسی معنی کے اعتبار سے صحیح بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ رسول کریم ﷺ کو جب کوئی تکلیف اور بےچینی پیش آتی تو آپ یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔ لاَاِلہ اِلاَّاللّٰہُ الْعَظِیْمُ الْحَلِیْم، لاَاِلٰہَ اِلاَاللّٰہُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْم، لاَاِلٰہَ اِلاَاللّٰہُ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَرَبُّ الْاَرْضِ وَ رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْم۔ اللہ کی طرف سے برستی ہوئی نعمتوں اور چاروں طرف پھوٹتے ہوئے خوشیوں کے فواروں اور اہل جنت کے چہروں سے ابلتی ہوئی مسرتوں اور فرشتوں کی زبانوں سے تہنیت اور خوش آمدید کے کلموں سے فضاء میں ایک ایسی روحانیت کا ارتعاش پیدا ہوگا جس سے ہر جنتی کے دل میں اہتزاز کی لہر اٹھے گی وہ بےساختہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِ الْعٰلَمِیْنَ پکارے۔
Top