Tafseer-e-Haqqani - Al-Baqara : 14
وَ اِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْۤا اٰمَنَّا١ۖۚ وَ اِذَا خَلَوْا اِلٰى شَیٰطِیْنِهِمْ١ۙ قَالُوْۤا اِنَّا مَعَكُمْ١ۙ اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِءُوْنَ
وَإِذَا لَقُوا : اور جب ملتے ہیں الَّذِينَ آمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے قَالُوا : کہتے ہیں آمَنَّا : ہم ایمان لائے وَإِذَا : اور جب خَلَوْا : اکیلے ہوتے ہیں إِلَىٰ : پاس شَيَاطِينِهِمْ : اپنے شیطان قَالُوا : کہتے ہیں إِنَّا : ہم مَعَكُمْ : تمہارے ساتھ إِنَّمَا : محض نَحْنُ : ہم مُسْتَهْزِئُونَ : مذاق کرتے ہیں
اور جب ایمانداروں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم ایمان لائے اور جب اپنے شیاطین کے پاس اکیلے ہوتے ہیں تو کہتے ہیں ہم تو تمہارے ساتھ ہیں ہم تو ان سے دل لگی کیا کرتے ہیں
ترکیب : واؤ حرف عطف کہ جو کلام سابق پر ہے اذا حرف شرط لقوا کہ دراصل لقیو تھا فعل بافاعل اور الذین آمنوا موصول وصلہ جملہ اس کا مفعول یہ اپنے فاعل اور مفعول سے مل کر شرط ہوا قالوا فعل بافاعل امنا مفعول سب مل کر جواب ہوا شرط کا اور جملہ شرطیہ ہو کر معطوف علیہ ہوا۔ اذا حرف شرط خلوا فعل بافاعل الٰی شیاطینہم متعلق ہوا خلوا کے یہ سب شرط ہوئی اور قالوا فعل بافاعل انا معکم جملہ اسمیہ اس کا مفعول انما نحن مستہزئون جملہ اسمیہ اس کی تاکید یا بدل مل کر جواب ہوا شرط کا اور جملہ شرطیہ بن کر عطف ہوا پہلے جملے پر۔ لفظ اللہ مبتداء ایستہزیٔ بہم جملہ اس کی خبر معطوف علیہ و حرف عطف یمدھم جملہ فعلیہ معطوف فی طغیانہم متعلق ہے یمد کے یعمہون جملہ فعلیہ حال ہے یمدھم کی ضمیر ھم مفعول ہے۔ تفسیر : یعنی جب وہ منافق مسلمانوں سے ملتے تھے تو ان کے خوش کرنے کو کہتے تھے کہ ہم بھی ایمان لائے اور جب اپنے سرداروں کے پاس جاتے تو نہایت تاکید سے کہتے کہ ہم تمہارے ہی ساتھ ہیں ہم تو مسلمانوں سے بطور دل لگی کے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہہ دیتے ہیں، وہ بیوقوف سیدھے سادے لوگ ہیں۔ ہماری اس بات کو سچ جان کر ہمیں اپنے رازوں اور دلی ارادوں سے مطلع کرتے اور فوائد میں شریک بنا لیتے ہیں۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ مسلمانوں سے کیا دل لگی اور مسخرا پن کر رہے ہیں۔ خدائے تعالیٰ ان سے دل لگی کر رہا ہے کہ ان کو اس حالت خراب میں چھوڑ رکھا ہے کہ جس کا نتیجہ دین و دنیا میں خراب اور آخرت میں روح کو سخت عذاب ہے۔ متعلقات : اللہ یستہزیٔ بہم : استہزا اور مکر اور خدع وغیرہ اوصاف کو جو آیات قرآنیہ میں خدائے تعالیٰ کی طرف منسوب کیا گیا ہے تو مجازاً کیا گیا ہے۔ کس لیے کہ یہ اوصاف ذمیمہ ہیں۔ ان سے وہ پاک ہے مگر محاورہ میں ایک فعل پر کسی مناسبت سے اکثر دوسرے فعل کا اطلاق آتا ہے بولتے ہیں جس قدر تم پر کوئی ظلم کرے اسی قدر تم بھی اس پر ظلم کرو۔ حالانکہ ظلم کے مقابلہ میں جو کچھ جزائے مناسب دی جائے وہ ظلم نہیں مگر وہ دونوں فعل باہم مناسبت رکھتے ہیں۔ اس لیے اس پر بھی ظلم کا اطلاق آیا۔ قال تعالیٰ و جزاء سیئۃٍ سیئۃ ’‘ پس وہ لوگ جو دینداروں کے ساتھ مکر اور ٹھٹھا کرتے ہیں خدائے تعالیٰ ان کو اس فعلِ بد کی جزا دیتا ہے، لیکن اس جزا پر ایک مناسبت سے مکر اور ٹھٹھے کا اطلاق آیا اور خدائے تعالیٰ کی طرف منسوب ہوا اور یہ ایک محاورے کی بات ہے اس پر طعن کرنا سراسر بیوقوفی ہے۔ بعض پادری اور ہندو مسلمانوں کو ان آیات سے ان الزامات کا جواب دیا کرتے ہیں کہ جو ان کی کتب دینیہ سے ثابت ہوتے ہیں جن میں خدائے تعالیٰ کی ذات مقدس میں جسمانیت اور حدوث اور جہل وغیرہ امور کو ثابت کیا ہے مگر یہ سراسر ناانصافی ہے یا ان آیات کے مطالب سے لاعلمی یا عمداً کجروی ہے۔ طغیان : بالضم و الکسر ایک جگہ مقرر سے تجاوز کرنا بولتے ہیں طغی الماء جس وقت پانی اپنی حدود سے تجاوز کرتا اور حد سے بڑھ جاتا ہے یہاں اس سے مراد سرکشی اور کفر میں حد سے بڑھ جانا ہے۔ لفظ شیطان کی تحقیق مقدمہ کتاب میں ہوچکی ہے۔ یہاں اس سے مراد کفر کے سردار ہیں۔ عمہ : اور عمی دونوں کے معنی اندھا پن اور نابینائی کے ہیں مگر عمی کا اطلاق ظاہری آنکھوں کے اندھا ہونے پر اور عمہ کا دل کی آنکھوں کے اندھا ہونے پر آتا ہے۔ نکات : (1) منافقین اپنی چالاکی سے ایمانداروں کو ان کے بھولے پنے سے بیوقوف سمجھ کر اپنا ایمان جتلانے میں قسم اور کلام مؤکد کی ضرورت نہ سمجھتے تھے سو اس کو تو خدا نے آمنا کے ساتھ تعبیر کیا اور کفار بالخصوص کفر کے سردار تو بڑے چلتے پرزے اور پرلے درجے کے ہوشیار تھے وہ بغیر قسم اور کلام مؤکد کے کا ہے کو اعتبار کرتے۔ اس لیے ان سے انامعکم بتاکید کہتے اور بجائے کفر کے ان سے معیت جتلاتے تھے۔ (2) خدائے تعالیٰ کے مقدس لوگوں سے ہنسی کرنا خدائے تعالیٰ سے ہنسی کرنا ہے اور ان کا ادب اور ان سے محبت کرنا خدائے تعالیٰ کا ادب اور اس سے محبت کرنا ہے۔ اس بات کے بتلانے کو خدا نے یہ فرمایا کہ تم میرے بندوں سے ہنسی کرتے ہو ان کی طرف سے میں تمہارے ساتھ ہنسی کرتا ہوں کہ تم کو گمراہی میں چھوڑ رکھا ہے جس کو تم بھلا سمجھتے ہو اور نتیجہ اس کا برا ہے۔ (3) اللہ یستہزیٔ بہم میں لفظ اللہ کو مقدم کرکے یہ بات جتلا دی کہ کوئی اور نہیں بلکہ خدا تم سے ہنسی کر رہا ہے۔ پھر دیکھو اس کی ہنسی کیسی ہے جس طرح کوئی بادشاہ اپنے نمک حلال نوکر کی طرف سے اس کے مخالف کو یوں کہے کہ تجھ سے بادشاہ مقابلہ کر رہا ہے تاکہ اس کو خوف پیدا ہو اور اپنی حرکت ناشائستہ سے باز آئے۔ (4) اللہ مستہزی نہ کہا کہ جو ظاہر میں مطابق تھا مگر اس نکتہ کے لیے یستہزیٔ جملہ فعلیہ فرمایا کہ تجدد اور حدوث پر دلالت کرے اور وقتاً فوقتاً خدا کی طرف سے مصائب کا نازل ہونا ان کو معلوم ہوجائے۔ کماقال اَوْلاَ یَرَوْنَ اِنَّہُم یُفْتِنَوْنَ فِیْ کُلِّ عَامٍ مَرَّۃٍ اَوْ مَرَّتَیْنِ الآیہ اب اگلی آیتوں میں خدائے تعالیٰ منافقوں کے اس فعلِ بد کا نتیجہ بڑے لطف کے ساتھ بیان فرماتا ہے کہ ان لوگوں نے عمر عزیز صرف کرکے کیا حاصل کیا۔
Top