Tafseer-e-Haqqani - Al-Baqara : 15
اَللّٰهُ یَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَ یَمُدُّهُمْ فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ
اَللّٰهُ : اللہ يَسْتَهْزِئُ : مذاق کرے گا / مذاق کرتا ہے بِهِمْ : ساتھ ان کے وَ : اور يَمُدُّھُمْ : وہ ڈھیل دے رہا ہے ان کو فِىْ طُغْيَانِهِمْ : ان کی سرکشی میں يَعْمَھُوْنَ : وہ بھٹک رہے ہیں/ اندھے بنے پھرتے ہیں
حالانکہ اللہ ان سے دل لگی کیا کرتا ہے اور ان کو ان کی گمراہی میں ڈھیل دے رہا ہے وہ اندھے ہو رہے ہیں
ترکیب : اولئک مبتدا۔ الذین موصول اشترو الخ جملہ فعلیہ اس کا صلہ مجموعہ بن کر خبر ہوئی فا تفرعیہ ما حرف نفی ربحت فعل تجارتہم فاعل مجموعہ جملہ فعلیہ خبریہ معطوف علیہ اور وما کا نوا مہتدین جملہ اس پر معطوف۔ تفسیر : یعنی وہ جو انسان کو خدا کی طرف سے ایک فطری ہدایت ہے (اگر اس پر کوئی عوارض و موانع پیش نہ آئے تو اس کی وجہ سے نیکی اور حیات ابدی کے رستہ پر چل سکے) ان منافقوں نے اپنے اندر اخلاق رذیلہ اور ملکات فاسدہ پیدا کرکے اس نور فطرت کو بجھا دیا (جس کو خدائے تعالیٰ نے ہدایت کے بالعوض گمراہی خریدنے کے ساتھ تعبیر فرمایا ہے) ان لوگوں نے اپنے نزدیک بڑی عمدہ اور نفع دینے والی تجارت کی تھی کہ منہ سے کلمہ توحید کہہ دیا اور اس کی بدولت منافع دنیا کو حاصل کیا۔ خدائے تعالیٰ فرماتا ہے اس تجارت میں نفع نہ ہو کیونکہ عمر عزیز اور نور فطرت کہ جس کی کوئی قیمت نہیں اس کو صرف کرکے دنیا چند روزہ اور شہوات نفسانیہ حاصل کرنا درِّ بےبہا دے کر مٹی کا کھلونا لینا ایسا ہے جیسا کہ احمق اور لڑکے کرتے ہیں۔ ؎ کس لیے آئے تھے ہم کیا کر چلے تہمتیں چند اپنے ذمہ دھر چلے اور نہ سرے سے ان لوگوں کو تجارت کرنی آئی کیونکہ تجارت یہ تھی کہ اپنی جان و مال کو خدا کی راہ میں صرف کرکے حیات ابدی حاصل کرتے جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے۔ یَـــآاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ھَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰی تْجَارَۃٍ تُنْجِیْکُمْ مِنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ٭ تُؤْمِنُوْنَ بْاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُجَاھِدُوْنَ فِیْ سَبْیْلِ اللّٰہِ بْاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ۔ الآیات۔ اصل مال فطرت سلیمہ کو بھی برباد کردیا اور نفع بھی نہ ملا۔ اب خدا تعالیٰ ان کی حالت کو اور زیادہ تشریح سے بیان فرماتا ہے :
Top