Tafseer-e-Haqqani - Al-Qasas : 70
وَ هُوَ اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ؕ لَهُ الْحَمْدُ فِی الْاُوْلٰى وَ الْاٰخِرَةِ١٘ وَ لَهُ الْحُكْمُ وَ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ
وَهُوَ اللّٰهُ : اور وہی اللہ لَآ اِلٰهَ : نہیں کوئی معبود اِلَّا هُوَ : اس کے سوا لَهُ الْحَمْدُ : اسی کے لیے تمام تعریفیں فِي الْاُوْلٰى : دنیا میں وَالْاٰخِرَةِ : اور آخرت وَلَهُ الْحُكْمُ : اور اسی کے لیے فرمانروائی وَاِلَيْهِ : اور اسی کی طرف تُرْجَعُوْنَ : تم لوٹ کر جاؤگے
اور وہی اللہ ہے اس کے سوا کوئی (اور) معبود نہیں، اسی کی تعریف ہے دنیا اور آخرت میں اور اسی کے لیے فرمانروائی ہے اور اسی کے پاس تم کو پھر کر جانا ہوگا،
ترکیب : سرمدًا یجوزان یکون حالاً من اللیل وان یکون مفعولا ثانیاً لجعل والی یتعلق بسرمدًا من الہ الخ جواب ہے ان جعل اللہ کا۔ تفسیر : و ربک یخلق مایشاء سے مبدء میں گفتگو شروع ہوگئی تھی، یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات میں اس لیے وھو اللہ لا الہ الا ھو سے اس کی تکمیل کی جاتی ہے گویا یہ بیان سابق کا تتمہ ہے اور قرآن مجید کی عادت ہے کہ کبھی مبدء میں گفتگو کرتا ہے۔ کبھی معاد میں ‘ کبھی نبوات و شرائع میں اور یہی باتیں مقصود بالذات بھی تھیں۔ فرمایا کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں دنیا و آخرت میں اپنی نعمتوں کے سبب وہی ستائش کا مستحق ہے اور فرمانروائی اسی کے لیے ہے اور اسی کے پاس لوٹ کر جاؤ گے اور کون ہے کہ جس میں یہ اوصاف ہیں ؟ مشرکین گرچہ دوسرے خدا کے قائل نہ تھے، مگر چونکہ اور چیزوں کو بھی خدائی میں شریک جانتے تھے اور نافع و ضار سمجھ کر ان کو پکارتے تھے اور نذر و نیاز کرتے تھے، اس لیے ان سے یہ کلام کیا گیا کہ خدا کی جو باتیں ہیں وہ تو اللہ ہی میں ہیں۔ ذکی کے لیے تو اسی قدر بس تھا مگر وہ پشت درپشت ایسے ناپاک اور ظلمانی خیالات کے رنگ میں ڈوبے ہوئے تھے، وہ اتنی بات سے کب سمجھتے ہیں، اس لیے ان کے معبودوں سے قدرت و اختیار نفع و ضرر پہنچانے کی نفی کی گئی اور سب سے پہلے ایک ایسی بات میں عاجزی ثابت کی کہ جس کی طرف انسان کو اشد ضرورت ہے اور بغیر اس کے کسی طرح چارہ نہیں۔ وہ کیا رات دن کا اپنے اندازہ خاص پر ہونا اور ان سے آرام اٹھانا ؟ پس فرماتا ہے قل ارئیتم ان جعل اللہ علیکم اللیل سرمدا الی یوم القیمٰۃ الخ کہ ان سے پوچھو اگر خدا تم پر رات کو اس قدر دراز کردے کہ قیامت تک صبح نہ ہو تو پھر تمہارے معبودوں سے کوئی ایسا ہے کہ صبح کردے ؟ اسی طرح اگر دن کو اس قدر بڑا کردے کہ قیامت تک شام نہ ہو تو پھر تمہارے معبودوں میں سے وہ کون سا ہے جو تمہارے آرام کے لیے رات پیدا کرے ؟ رات میں آرام پانا سکون طبع ہونا ایک طبعی بات ہے۔ رات کی درازی میں تو افلا تسمعون فرمایا تھا کیونکہ رات میں اندھیرا ہوتا ہے، دکھائی کم دیتا ہے، کانوں سے کام لیا جاتا ہے، اندھیرے میں آدمی سن سکتا ہے، دیکھ نہیں سکتا اور دن میں دیکھنا ہوسکتا ہے اور روشنی میں آنکھ زیادہ کام دیتی ہے، اس لیے یہاں افلا تبصرون فرمایا۔ ومن رحمتہ جعل لکم اللیل و النہار لتسکنوا فیہ ولتبتغوا من فضلہ لعلکم تشکرون فرماتا ہے اس کی عنایت ہے کہ اس نے تمہارے لیے رات اور دن کو بنایا۔ لتسکنوا تاکہ آرام پاؤ۔ سکون ملے، یہ رات کا فائدہ ہے۔ و لتبتغوا من فضلہ کہ اس کے فضل یعنی روزی کی تلاش کرو تجارت ‘ زراعت وغیرہ اسباب معاش میں مصروف ہو۔ یہ دن کا فائدہ ہے، کیونکہ دن میں انسان کاروبار کرتا ہے۔ ولعلکم تشکرون دونوں سے متعلق ہے۔ یہ چیزیں اس لیے بنائیں کہ تم شکر کرو۔ اب روزمرہ کی نعمت کی بےقدری اور ناشکری کو دیکھئے۔ اس برہان کے بعد حشر کے دن کا عجز بیان کرتا ہے۔ ویوم ینادیہم الخ کہ ان سے پکار کر کہا جاوے گا تاکہ ہر کوئی سنے اور ان کی رسوائی سب پر ظاہر ہو کہ وہ تمہارے معبود کہاں ہیں ؟ اور اس عدالت میں ہم ہر ایک امت میں سے گواہی دینے والا نبی یا اس کا نائب بلائیں گے جو گواہی دے گا کہ میں نے ان کو حکم پہنچادیا تھا۔ پھر خدا تعالیٰ ان مجرموں سے کہے گا کہ اب کوئی دلیل یا سند پیش کرو کیا خاک پیش کریں گے۔ پس ان پر ظاہر ہوجاوے گا کہ اللہ کا فرمان برحق ہے اور ہمارے جھوٹے ڈھکوسلے تھے کہ فلاں دیوی قیامت میں یہ کرے گی، دیوتا یوں کام آوے گا۔
Top