Ruh-ul-Quran - Al-Qasas : 70
وَ هُوَ اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ؕ لَهُ الْحَمْدُ فِی الْاُوْلٰى وَ الْاٰخِرَةِ١٘ وَ لَهُ الْحُكْمُ وَ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ
وَهُوَ اللّٰهُ : اور وہی اللہ لَآ اِلٰهَ : نہیں کوئی معبود اِلَّا هُوَ : اس کے سوا لَهُ الْحَمْدُ : اسی کے لیے تمام تعریفیں فِي الْاُوْلٰى : دنیا میں وَالْاٰخِرَةِ : اور آخرت وَلَهُ الْحُكْمُ : اور اسی کے لیے فرمانروائی وَاِلَيْهِ : اور اسی کی طرف تُرْجَعُوْنَ : تم لوٹ کر جاؤگے
اور وہی اللہ ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اسی کے لیے حمد ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، اور اسی کے اختیار میں فیصلہ ہے اور اسی کی طرف تم لوٹائے جائو گے
وَھُوَاللّٰہُ لَآاِلٰـہَ اِلاَّ ھُوَ ط لَـہُ الْحَمْدُفِی الْاُوْلٰی وَالْاٰخِرَۃِ ز وَلَـہُ الْحُکْمُ وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ ۔ (القصص : 70) (اور وہی اللہ ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اسی کے لیے حمد ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، اور اسی کے اختیار میں فیصلہ ہے اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔ ) خلاصہ بحث اس سے پہلے کی آیات میں شرک کیخلاف اللہ تعالیٰ کی صفت تخلیق، اس کی صفت اختیار اور اس کے علم محیط سے استدال کیا گیا ہے۔ اب پیش نظر آیت کریمہ میں اس استدلال سے جو بدیہی نتیجہ نکلتا ہے اسے ہمارے سامنے رکھ دیا گیا ہے۔ کہنا یہ ہے کہ جب کائنات کی ہر مخلوق اللہ تعالیٰ ہی کی قوت تخلیق سے وجود میں آئی ہے اور پھر ہر ایک مخلوق کے فرائض، اس کا دائرہ کار اور اس کے مطابق اس کی صلاحیتوں کا تعین اس کی سرشت کے مطابق اس کے لیے ماحول کا انتخاب، اور ماحول کے مطابق اس کی جسمانی اور معنوی ساخت اور ارتقاء اللہ تعالیٰ ہی کی صفت اختیار کا نتیجہ ہے۔ پھر ہر ایک مخلوق کو اس کے وجود اور فرائض کے حوالے سے جیسی کچھ ضرورتیں دی گئی ہیں اور ان کی نمود و پرداخت اور حفاظت و صیانت کے لیے جس آگہی کی ضرورت ہے وہ اللہ تعالیٰ ہی کے علم محیط سے ساری کائنات کو بہم پہنچ رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہی تین چیزیں یعنی قوت تخلیق، قوت اختیار اور قوت علم محیط تمام کائنات کے وجود وبقاء کی ضمانت ہیں۔ اور یہ تمام قوتیں اور اس کا سررشتہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ تو پھر یہ کس قدر بےعقلی کی بات ہوگی کہ ایسی قوتوں کو اس کی ذات، اس کی صفات یا اس کے حقوق میں شریک مان لیا جائے جو ان بنیادی قوتوں سے تہی دامن ہیں۔ اور خود اپنے وجود میں وہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کی ان صفات کی مرہونِ منت ہیں۔ اس سے ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے وہ یہ کہ وہی ایک اللہ ہے جو ان تمام صفات کا مالک ہے اور وہی اپنی الوہیت میں وحدہ لاشریک اور یکتا ہے۔ چونکہ ہر مخلوق اپنے وجود اور اپنی بقاء میں اسی کی رہین احسان ہے اور اسی کی نعمتوں سے متمتع ہورہی ہے۔ اس لیے ہر مخلوق پر اس کی ایک ایک نعمت کی حمد اور اس کا شکر واجب ہے۔ دنیا میں ہر مخلوق پر لازم ہے کہ اس کی زبان اس کی تعریف میں زمزمہ سنج رہے۔ اس کے اعضاء وجوارح، اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہیں اور اس کا دل اسی کی محبت کے احساسات سے لبریز رہے۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے جس طرح دنیا میں اس کی ہر مخلوق گراں بار ہے اسی طرح بلکہ اس سے بھی بڑھ کر آخرت میں اس کی نعمتیں بالخصوص اس کی مکلف مخلوق کو عطا کی جائیں گی۔ اس لحاظ سے اس کے حمدوشکر کا سلسلہ دنیا تک محدود نہیں بلکہ آخرت میں بھی جاری رہے گا۔ جنت میں داخل ہونے والے بھی اپنی ہر مصروفیت اور ہر نشست کے اول و آخر اللہ تعالیٰ کی حمدوشکر سے ہی اپنے آپ کو شگفتہ و شاداب رکھیں گے۔ اسی طرح دنیا میں ہر مخلوق بالخصوص انسان کی قسمت کا فیصلہ اور آخرت میں نتیجے کا فیصلہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے اور سب کی پیشی بھی اسی کے حضور میں ہوگی۔ اس لحاظ سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اِلٰہ نہیں، اسی طرح اس کے سوا کوئی مرجع و مولیٰ بھی نہیں۔
Top