Tafseer-e-Haqqani - Aal-i-Imraan : 95
قُلْ صَدَقَ اللّٰهُ١۫ فَاتَّبِعُوْا مِلَّةَ اِبْرٰهِیْمَ حَنِیْفًا١ؕ وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں صَدَقَ : سچ فرمایا اللّٰهُ : اللہ فَاتَّبِعُوْا : اب پیروی کرو مِلَّةَ : دین اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم حَنِيْفًا : حنیف وَمَا : اور نہ كَانَ : تھے مِنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرک (جمع)
کہہ دو اللہ نے سچ فرما دیا ہے پس (اس کے فرمانے کے بموجب) ابراہیم کے طریقہ پر چلو جو ایک طرفہ تھے اور (وہ) کبھی بھی مشرکین میں سے نہ تھے
ترکیب : حنیفا حال ہے ابراہیم سے اور ممکن ہے کہ ملۃ سے بھی ہو کیونکہ ملۃ بمعنی دین ہے پھر حال اور ذوالحال دونوں مذکر ہیں وضع موضع جر میں صفت بیت کی اور للذی ببکۃ ان کی خبر بکہ یعنی مکہ ہے م اور ب کا بدلہ ہوجاتا ہے جیسا کہ لازب اور لازم بعض کہتے ہیں مکہ شہر اور بکہ مسجد الحرام ہے۔ مبارکا اور ھدی دونوں ضمیر وضع سے حال ہیں۔ آیت بینات مبتدافیہ خبر مقام ابراھیم مبتداء اور خبر محذوف اے منہا حج البیت بالفتح والکسر بعض کہتے ہیں بالکسر اسم مصدر ہے مبتداء ‘ علی الناس خبر للّٰہ متعلق علی 1 ؎ سے متعلق ہے من استطاع الناس سے بدل بعض ہے۔ تفسیر : یہ تتمہ ہے پہلی گفتگو کا کہ اللہ نے سچی بات کہہ دی۔ اب اسی پر فیصلہ ہے کہ جو دین ابراہیم کا ہے چلو اس کو اختیار کرو اور یہ ظاہر ہے کہ ان میں دو وصف تھے۔ ایک یہ کہ وہ حنیف تھے یعنی ادھر ادھر بھٹکتے نہ تھے ایک طرف کے ہو رہے تھے سب کو ترک کرکے اللہ کی ذات پر تکیہ لگا رکھا تھا۔ حنیف ایسا عام وصف ہے کہ جس کی شاخیں خلت ‘ توکل ‘ رضا ‘ قناعت ‘ صبر ‘ دنیا سے نفرت کرکے عالم آخرت کی طرف رغبت ‘ سچ بولنا ‘ وغیرہ خصائلِ حمیدہ ہیں اور دوسرا وصف یہ تھا کہ وہ مشرک نہ تھے نہ شرک جلی (کہ کسی کو خدا کے سوا الوہیت میں شریک کیا جائے) ان کا شیوہ تھا نہ شرک خفی یہاں تک کہ اپنے جمیع کاروبار اور تمام عالم کا سلسلہ احتیاج اس کے ہاتھ میں جانتے تھے۔ اب غور کرو کہ ان اصل اصول باتوں میں سے اے اہل کتاب کونسی بات ابراہیم (علیہ السلام) کی تمہارے پاس ہے۔ اے یہود کیا ختنہ کرنا اور سبت کا ماننا اور بعض چیزوں کی حلت و حرمت جو حسب مصلحت موسیٰ (علیہ السلام) کے عہد میں ہوئی اصل اصول ملت ابراہیمیہ ہے ؟ اور عیسائیوں کیا عشائے 2 ؎ ربانی اور بپتسمہ 3 ؎ اور مسیح کو خدا اور خدا کا بیٹا جاننا اور اس اعتماد پر کہ وہ ہمارے گناہ اٹھا کرلے گئے۔ خداوند تعالیٰ کی تمام شریعت کو لغو سمجھنا بلکہ بقول پولوس شریعت پر عمل کرنے والے کو لعنتی خیال کرنا اصول ملت ابراہیمہ ہیں ؟ نہیں ہرگز نہیں یہ تو تمہارے مشائخ کی قلعی چڑھائی ہوئی اور نفس اور وہم کی ملونی ہے۔ انہیں ضرورتوں کے لئے تو سب سے اخیر ایک نبی عربی کے بھیجنے کی ضرورت پڑی جس کی خبر اب تک تورات و زبور وغیرہ کتب سابقہ میں پائی جاتی ہے۔ بالخصوص یسعیاہ نبی کی کتاب بیالیسویں (42) باب میں تصریح ہے۔ ان دونوں لفظوں سے یہود اور عیسائیوں اور مشرکین عرب کو کس لطف کے ساتھ ملت ابراہیمیہ سے مخالف ہونے پر الزام دیا ہے۔ عدم ضرورت قرآن کا جواب : ایک پادری نے ایک کتاب لکھی ہے اس میں جا بجا ثابت کر کے کہ قرآن کی فلاں بات تورات سے ماخوذ ہے ‘ فلاں یہودیوں کی تاریخوں سے ‘ فلاں طالمود 4 ؎ سے فلاں جگہ سے ‘ فلاں مشتا سے ‘ فلاں مشرکین عرب سے ‘ فلاں عیسائیوں کی معتبر اور غیر معتبر اناجل سے۔ خیالی پتھر پھینکے ہیں۔ پھر قرآن نازل ہونے کی کیا ضرورت تھی۔ منجملہ اعتراضات کے ایک اعتراض ملت ابراہیمہ کی پابندی پر کیا ہے۔ ” قولہ تحقیق کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ اس دین (ابراہیمی) کا خیال پیشتر بھی تھا اور وہیں سے محمد ﷺ بھی اس تعلیم کے مشاہدہ کرانے پر آمادہ ہوا۔ محمد ﷺ سے پیشتر حنیفہ کرکے ایک گروہ تھا وہ اپنے تئیں ابراہیمی صابئین کہتے تھے اور شروع میں محمد ﷺ نے اپنے تئیں ان میں سے ایک قرار دیا تھا ان کا طریق یہودی عیسویت کی صورت رکھتا تھا۔ وہ ایک خدا کو مانتے تھے۔ ان کے پاس توریت اور انجیل اور ابراہیم اور موسیٰ کی روایتیں تھیں اور یہ روایتیں یہودیوں کی کتب مدارس میں پائی جاتی تھیں۔ جو پریوں اور فرشتوں کے قصہ تھے۔ اس فرقہ میں کئی مشہور آدمی تھے۔ ان میں سے ایک عمایہ مشہور شاعر تھا جو 1 ؎ ای استقر اللہ علی الناس 12 منہ 2 ؎ ایک روز پادری لوگ بڑے اہتمام سے روٹیاں یہ تصور کرکے کھاتے ہیں کہ یہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا گوشت ہے۔ 12 منہ 3 ؎ عیسائی ہوتے وقت حوض میں غوطہ دینا یا رنگ ڈالنا بعض صرف چھڑکنا ہی کافی جانتے ہیں۔ 12 منہ 4 ؎ یہود کے مذہب اور تاریخ کی کتابوں کے نام ہیں۔ 12 منہ محمد ﷺ کی ہجو کیا کرتا تھا اور چار شخص محمد ﷺ کے رشتہ دار تھے اور ورقہ بھی ان میں سے تھا اور زید بھی۔ مکہ میں بت پرستی اور دختر کشی کی ممانعت اور توحید کی تعلیم دیا کرتا تھا اور محمد ﷺ بھی اس کا شاگرد ہوچکا تھا پھر چونکہ طالمود میں ابراہیم پر لفظ مسلم بولا گیا ہے جس کے معنی راستبازی کے ہیں ٗ وہی محمد ﷺ نے بھی قرآن میں بولا اور پھر جگدہ یعنی طالمود کے تاریخی حصہ میں جو کچھ مذہب ابراہیم کی تشریح ہے کہ وہ ایک خدا کو مانتا تھا اور رحم دل تھا اور خدا سے محبت رکھتا تھا اور نمرود نے ان کو آگ میں ڈالا لیکن وہ صحیح سلامت نکل آئے وغیرہ باتیں تحریر ہیں۔ وہی محمد ﷺ نے سیکھ کر قرآن میں لکھ دیں اور دعویٰ کیا کہ مجھ کو الہام ہوا ہے انتہا ملخصا۔ جواب پادریوں کو : پادری لوگ جس طرح راست بازی اور انصاف سے بےبہرہ ہیں اسی طرح تاریخ عرب سے بھی بےبہرہ ہیں۔ اول تو ورقہ اور زید ہرگز صابئی نہ تھے بلکہ مؤحدین میں سے تھے اور صابئی ستارہ پرست قوم تھی۔ دوم صابیوں کا کوئی فرقہ تورات اور انجیل اور ان کی روایتوں کو نہیں مانتا نہ ان کا طریق یہودیت اور عیسویت کے ساتھ تھا اور ورقہ خاص رومن کیتھولک مذہب کا عیسائی تھا جو اخیر میں حضرت نبی ﷺ پر صدق دل سے ایمان لایا تھا اور زید اور آنحضرت ﷺ میں زمانہ تعلیم و تعلم پایا نہیں گیا۔ وہ ایک مؤحد شخص تھا جو آپ سے کہیں پہلے مرگیا۔ پھر شاگردی کا الزام لگانا محض دروغ بےفروغ ہے۔ اب رہی یہ بات کہ طالمود میں اور یہودیوں کی دیگر کتابوں میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے قصوں کا قرآن کے مطابق پایا جانا سو یہ منافی الہام نہیں۔ کیا الہامی بات کے لئے یہ ضرور ہے کہ وہ تمام تاریخی کتابوں کے برخلاف ہو ؟ پھر اگر یہی ہو تو انا جیل اربعہ میں سے جو سب سے اول ہے اس کے علاوہ سب غلط اور غیر الہامی ہیں کیونکہ وہ تاریخی کتاب یا لوگوں کے حوالہ سے لکھی گئیں۔ اسی طرح بائبل کی کتاب تاریخ اور کتاب سموئیل کو غلط کہنا پڑے گا۔ علاوہ اس کے حضرت کے پاس طالمود اور مدارس وغیرہ کتابوں کا جاننے والا کون تھا اور وہ کتابیں اب تو مشہور ہی نہیں جب کہاں تھیں اور اگر کوئی یہودی تھا تو اس پر کیا مصیبت تھی کہ جو اپنے شاگرد پر ایمان لاتا۔ اگر آپ سے پہلے کسی نے ملت ابراہیمیہ کا دعویٰ کیا تو آپ کے نبی مصلح دین ہونے میں کیا فرق آیا۔ کیا حضرت عیسیٰ سے پہلے دین موسوی کے مدعی اور مصلح نہیں گذرے ہیں بلکہ خود حضرت یحییٰ (علیہ السلام) ان کے استاد موجود تھے جن سے انہوں نے خود تعلیم پائی اور پھر وہی لفظ بولے جو ہمیشہ بولتے آئے ہیں۔ پھر کہئے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے حواریوں اور ان کی کتابوں کی کیا ضرورت تھی۔ قرآن خود مدعی ہے کہ اصل اصول انبیاء (علیہم السلام) کا تحریفات دور کرکے زندہ کرنے والا ہے۔ پھر اگر وہ اصول صابیوں ‘ مجوسیوں ‘ عربوں ‘ یہودیوں ‘ عیسائیوں میں بھی کچھ باقی رہ گئے تھے اور ان کی تحریف دور کرکے قرآن نے اپنے جواہر کو لے لیا تو کیا یہ سرقہ ہے۔ پھر کیا قرآن ان کا سرے سے انکار کرتا اور اپنی ڈیڑھ اینٹ کی جدی مسجد بناتا جیسا کہ جعلی پیشوایان مذہب نے کیا ہے۔ فضائل کعبہ : اب ہم تفسیر کلام الٰہی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ یہود کا جس طرح اونٹ کے گوشت اور دودھ کھانے پینے کی بابت آنحضرت ﷺ پر اعتراض تھا اسی طرح وہ کعبہ کی بابت اعتراض کیا کرتے تھے کہ آپ نے تمام انبیاء کا قبلہ اور سب سے قدیم بیت المقدس ترک کرکے جاہلوں کا کعبہ اختیار کیا ہے۔ چونکہ ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت کا ذکر بھی آگیا تھا اس لئے کعبہ کا بھی آیا کہ اے یہود جو گھر دنیا میں خدا کی عبادت اور رہنمائی اور برکت کے لیے بنائے گئے ہیں ان سب سے اول وہ گھر ہے جو مکہ میں ہے یعنی کعبہ اس کو خاص آدم نے پھر ان کے بعد ابراہیم نے بنایا ہے اور بیت المقدس کو سلیمان نے جو ان کی ذریت میں اور ان سے سینکڑوں برس بعد ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ اس میں ہزاروں برکتیں اور خدا کی نشانیاں اب تک موجود ہیں۔ سوائے روحانی برکت کے یہاں ظاہری برکات بھی بہت سی ہیں۔ منجملہ ان کے مقام ابراہیم اور یہ کہ جو وہاں بصدق دل جاتا ہے دنیا اور آخرت کی بلائوں سے نجات اور امن 1 ؎ پاتا ہے۔ اس لئے آج تک کسی بادشاہ قاہر کی 1 ؎ یعنی وہاں جانے سے امن عذاب اخروی سے ہوتا ہے۔ 12 یہ مجال نہیں ہوئی کہ وہ کعبہ پر چڑھ آیا اور اس کو گرا دیا ہو اور لوگوں کو قتل کیا ہو اور جو کوئی آیا جیسا کہ ابرہہ شاہ حبش تو اس کو خدا نے غارت کردیا۔ برخلاف بیت المقدس کے کہ اس کو بارہا بخت نصر وغیرہ بادشاہوں نے ڈھایا اور وہاں کے زن و مرد کو قتل کیا۔ اس لئے جو کوئی زاد راہ رکھتا ہو اس پر وہاں عمر بھر میں ایک بار جانا ضرور ہوا یعنی فرض ہے اور جو کوئی اس کے دربار میں حاضر ہونے سے سرتابی کرے تو خدا کو بھی کسی کی پروا نہیں ہے۔
Top