Tafseer-e-Haqqani - An-Nisaa : 2
وَ اٰتُوا الْیَتٰمٰۤى اَمْوَالَهُمْ وَ لَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِیْثَ بِالطَّیِّبِ١۪ وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَهُمْ اِلٰۤى اَمْوَالِكُمْ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ حُوْبًا كَبِیْرًا
وَاٰتُوا : اور دو الْيَتٰمٰٓى : یتیم (جمع) اَمْوَالَھُمْ : ان کے مال وَلَا : اور نہ تَتَبَدَّلُوا : بدلو الْخَبِيْثَ : ناپاک بِالطَّيِّبِ : پاک سے وَلَا : اور نہ تَاْكُلُوْٓا : کھاؤ اَمْوَالَھُمْ : ان کے مال اِلٰٓى : طرف (ساتھ) اَمْوَالِكُمْ : اپنے مال اِنَّهٗ : بیشک كَانَ : ہے حُوْبًا : گناہ كَبِيْرًا : بڑا
اور یتیموں کو ان کے مال دے دیا کرو اور بری چیز کو اچھی سے بدل نہ لیا کرو اور نہ ان کے مال اپنے مالوں سے ملا کر کھا جایا کرو کیونکہ یہ بڑا گناہ ہے
ترکیب : بالطیب مفعول ثانی ہے مبتدالوا کا۔ الی اموالکم متعلق ہے محذوف سے اور موضع حاملیں ہے اے مضافۃ الی اموالکم وقیل لی بمعنی ان خفتم شرط فانکحوا الخ جواب۔ ما طاب مفعول فانکحوا من النساء اس کا بیان ‘ مثنی وثلث وربع تینوں نکرہ غیر منصرف ہیں عدل اور وصف کی وجہ سے اور یہ تینوں بدل ہیں ما سے۔ فان خفتم شرط فواحدۃ اے انکحواواحدۃ جواب او تخییر یا اباحت کے لئے۔ ماملکت موصول وصلہ مبتداء کا فیہ خبر محذوف نحلہ مفعول مطلق ہے اتوا کا دونوں ہم معنی ہیں نفسًا تمیز ہے شیء سے عامل طبن منہ فعیل وکذا مرئیا مفعول مطلق ہیں اے کلاھنا۔ تفسیر : جب وہ تمہید ہوچکی تو سب سے اول حکم یتیموں کے مال کی بابت دیتا ہے وَاٰتُوا الیتمیٰ الخ سے حوبًاکبیرًا تک اس آیت میں تین حکم ہیں : (1) یہ کہ یتیموں کو جبکہ وہ ہوشیار ہوجاویں ان کا مال و اسباب جو ان کے ولی سرپرستوں کی سپردگی میں ہو ان کے حوالہ کردینا چاہیے اور اس سپردگی کا وقت اور اس کا طریقہ اگلی آیت میں بیان کیا گیا ہے۔ بقولہ وابتلوا لیتمٰی حتی اذا بلغ النکاح فان آنستم منہم رشد فادفعوا الیہم اموالہم الایۃ اس کی تشریح اور تفسیر آگے آتی ہے (2) یہ کہ ان کے اچھے مال اسباب کو اپنے برے مال و اسباب سے بدل نہ لیا کرو۔ یہ بات ہوتی ہے کہ جب گھر میں یتیم کا مال تفویض کرکے رکھا جاتا ہے گو اس بات کی فہرست بھی ہوتی ہے مگر اسی قسم کا دوسرا اسباب اس کی جگہ ولی بدل کر دے سکتا ہے۔ مثلاً یتیم کی ایک تلوار بھی تفویض میں آئی جس کی قیمت ہزار روپیہ ہیں بوقت واپسی ولی نے اس کی جگہ اپنی دو روپیہ کی تلوار رکھ دی۔ سو اس بات سے خدا نے منع کیا کیونکہ قانون عدالت اس کا کافی بندوبست نہیں کرسکتا۔ یہ دیانت پر موقوف ہے۔ (3) یہ کہ اپنے مال کے ساتھ یتیم کا مال ملا کر نہ کھا جایا کرو مثلاً یتیم کے لئے اس کے مال میں سے کھانا پکانا اس میں کسی قدراپنا کھانا ملا کر اس قدر زیادہ پکایا کہ اپنے تمام کنبہ کو کافی ہو دراصل یتیم کے لئے پائو بھر کافی تھا دو سیر اس کے مال میں سے اور سیر بھر اپنے میں سے ملا کر پکانا۔ یہ بھی ایک صورت باہم یتیم اور ولی میں ہوتی ہے اور اس کا کوئی بجز والی کے نگران نہ تھا۔ سو وہی اس کا مرتکب ہوا تو پھر کیا : حوب الاثم یقال حاب یحوب اذا اثم واصلاً الزجر للبعیر۔ العول الجوزمن عال یعقول الرجل اذا مال نحلۃ بکسر النون ومنھا بمعنی لعطاء ہنیئًا یقال ھناہ العطام یہنیہ اذا انہضم وکذا المراد۔ 12 علاج اس لئے اس سے منع کیا اور دیانت کا حکم دیا اور سب کے بعد یہ فرما دیا کہ یہ بڑے گناہ کی بات ہے۔ : یتیم بہ تیم سے مشتق ہے جس کے معنی تنہا ہوجانا چونکہ باپ کے مرنے سے بیٹا تنہا رہ جاتا ہے اس لئے اس کو یتیم کہتے ہیں اور اسی لئے دُرِّیک دانہ کو درِّ یتیم کہتے ہیں۔ لغوی معنی کے لحاظ سے جس کا باپ مرجاوے اس کو یتیم کہا جاوے گا خواہ وہ لڑکا ہو خواہ جوان مگر عرف میں جبکہ لڑکا بالغ ہوجاوے اور بجائے سرپرست کے خود اپنے کاروبار کرنے لگے تب اس پر یہ لفظ نہ بولا جاوے گا۔ یتیم بروزن فعیل جیسا کہ مریض اس کی جمع مرضٰی کی طرح سے یتیمٰی آنی چاہیے تھی اور آئی یتامیٰ صاحب کشاف کو کہتے ہیں۔ یتامیٰ یتیمٰی کی جمع ہے جیسا کہ اسیر کی جمع اسرٰی ہے پھر اس کی اسارٰی یعنی جمع الجمع اور آیت میں جو کہا یتیم کو مال دو ۔ حالانکہ جوان ہونے سے یتیم نہیں رہتا اور مال جوان بالغ ہو کر ملتا ہے تو یہاں لغوی معنی کے لحاظ سے یا مجازاً شفقت دلانے کے لئے باعتبار مالکان یتیم کہہ دیا ہے۔ (2) حوب اور حاب دونوں کے معنی گناہ کے ہیں۔ جیسا کہ آنحضرت ﷺ کی دعا میں ہے رب تقبل توبتی واغسل حوبتی۔ (3) یہ آیت بنی غطفان کے ایک شخص کے حق میں نازل ہوئی جو اپنے بھتیجے کو اس کا مال نہ دیتا تھا۔ اس کے بعد اس نے دے دیا۔ اس کے بعد دوسرا حکم یتیموں کے نکاح کی بابت دیا۔ عروہ (رح) نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت کی ہے کہ عرب کا جاہلیت میں یہ دستور تھا کہ وہ یتیم لڑکیوں سے ان کے مال و جمال کی وجہ سے آپ ہی نکاح کرلیتے تھے۔ مثلاً کسی کے چچا کی بیٹی یتیم اس کے پرورش میں ہے اور اس کے پاس مال بھی ہے تو وہ اور کو دینا پسند نہ کرکے خود ہی نکاح کرلیتا تھا مگر ان کا کوئی اور شخص بجز اس کے باز پرس کرنے والا نہیں ہوتا تھا۔ وہ مہر بھی کم باندھتے تھے اور بعد میں اور بیویاں کرکے اس کی حق تلفی بھی کرتے تھے۔ چونکہ بجز خدا کے اور کوئی ان کی طرف سے اس امر میں حامی و مددگار نہ تھا اس لئے ان کے بارے میں بھی یہ حکم دیا وان خفتم الا تقسطوا فی الیتٰمی فانکحوا ما طاب من النساء الآیۃ کہ اگر تم یتیم عورتوں کے حق ادا نہ کرسکو تو ان پر کیا موقوف ہے اور بہت سی عورتیں ہیں ٗ تم ان میں سے پسند کرکے خواہ ایک سے نکاح کرو خواہ دو سے خواہ تین سے خواہ چار سے اور اگر ان میں بھی باہم عدل و انصاف نہ کرسکو تو پھر ایک ہی پر بس کرو یا اپنی لونڈی پر قناعت کرو تاکہ ظلم میں مبتلا نہ ہوجائو۔ (1) اقساط عدل کرنا قسط عدل قال اللہ تعالیٰ واقسطوا ان اللّٰہ یحب المقسطین۔ اسلام میں عدل و انصاف کی نہایت تاکید ہے۔ اپنے و بیگانے کی اس میں کوئی قید نہیں۔ عرب میں ایک یہ بھی دستور تھا کہ جہاں تک چاہتے تھے نکاح کرتے چلے جاتے تھے۔ پھر بیویوں میں کھانے پینے کے ساتھ سونے میں برابری نہ کرتے تھے جس سے دل چاہا عیش منایا۔ اوروں کو قید میں ڈال کر جلایا۔ اسلام نے اس خرابی کی بھی اصلاح کردی اور گھٹا کر صرف چار عورتوں تک کی اجازت دی اور اس میں بھی یہ شرط کی کہ اگر انصاف و عدل کرسکو تو کرو ورنہ نہیں کیونکہ بیویوں کے حقوق نان و نفقہ شب باشی برابر ہونی چاہییں۔ (2) جمہور کے نزدیک اس آیت اور احادیث صحیحہ سے کہ جو حد تواتر کو پہنچ گئے ہیں اور اجماع امت سے چار عورتوں سے زیادہ سے ایک وقت میں نکاح کرنا حرام ہے۔ ہاں مرتے جاویں یا طلاق دے دی جاویں تو کہیں تک نوبت کیوں نہ پہنچے اور لونڈیاں جس قدر چاہے جمع کرسکتا ہے مگر چار کی اجازت غلام کو نہیں۔ امام مالک (رح) کے نزدیک اس اجازت میں غلام بھی شریک ہے۔ سدی وغیرہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس آیت سے یا اور کسی آیت سے چار پر حصر کرنا ثابت نہیں ہوتا بلکہ ماطاب لکم اجازت عام ہے۔ علاوہ اس کے مثنیٰ و ثلث ورباع میں وہ ہے جو جمعیت کا فائدہ دیتا ہے پھر سب کو جمع کیا جاوے تو نو بلکہ اٹھارہ ہوسکتی ہیں۔ اقول یہ استدلال غلط ہے۔ اگر اجازت عام دینی مقصود تھی تو صرف ما طاب لکم من النساء کہہ دینا کافی تھا۔ چار تک تعین کرنا کیا ضرور تھا۔ اور اگر و کی جگہ او آتا تو یہ بات سمجھی جاتی کہ تمام اہل اسلام کو ان میں ایک عدد اختیار کرنا چاہیے یعنی سب دو دو سے نکاح کریں۔ یا تین تین یا چار چار سے یہ نہیں کہ کوئی دو سے کوئی تین سے کوئی چار سے کرے۔ حالانکہ یہی مقصود تھا۔ اس لئے وآیا او نہ آیا پس و سے جمعیت جمیع امت کے لیے ہے نہ کہ ایک شخص کے لئے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ باستثنائِ حضرات انبیاء (علیہم السلام) کہ جن کی طبیعت میں عدل و انصاف خمیر کردیا گیا ہے سب کے لئے کثرت ازدواج اور بےتعداد بیویاں جمع کرنا مقاصد دینی و دنیویہ میں مخل ہے اور انسان کی ترقی کمالات اور عمدہ عیش میں خلل انداز بھی ہے۔ مقاصد دینیہ میں اس وجہ سے کہ جب بہت سی عورتیں ہوں گی تو سب کے حقوق میں مساوات کرنا عادتاً مشکل ہے اور اگر انصاف کیا اوراقل مرتبہ مہینہ بھر میں ایک عورت کی باری آئی تو اس کثرت مجامعت سے اب یہ اس قابل نہ رہے گا کہ اس کی طبیعت میں سیاست ملک اور جہاد کا ولولہ رہے۔ ہندوستان کے رئیسوں کی عین جوانی میں پژمردگی کثرت جماع سے جو کچھ ان کے ملکوں میں بربادی کر رہی ہے ظاہر ہے اور دنیاوی خرابی کثرت عیال قلت مال کا صدمہ اور عیش کی تلخی تو ظاہر ہے آج کیا ہے کوئی لڑکا بیمار ہے کوئی کچھ مانگتا ہے کوئی مرگیا۔ اس کا سوگ ہے پھر اس قدر عورتیں ایک سے کیونکر سیر ہوسکتی ہیں اور سب کی طبیعتیں بھی مساوی نہیں۔ پھر کیا کیا فساد اور خلاف عصمت باتیں کرکے ننگ و ناموس شوہر میں دھبہ لگاتے ہیں۔ علاوہ اس کے ہر وقت عورتوں میں رہنا انسان کو تجارت اور سفر اور مشقت کے ان کاموں سے مانع آتا ہے جو اس کی ترقی دنیا کی سیڑھیاں ہوتی ہیں۔ کیا خوب کہا ہے کسی نے ؎ فاحفظ مینک ما استطعت فانہ مارا الحیوۃ یصب فی الارحام اور یہ بھی خوب کہا ہے مرا بیک دم شہوت کہ خاک برسرا وا سیر زن نتواں شد بسالہائے دراز اب رہی یہ بات کہ شریعت محمدیہ نے کیوں عیسائیوں کے راہبوں اور ہندوئوں کے جوگی اور گشایوں کی طرح ملنگ پنا تعلیم نہ کیا اور کیوں ایک ہی عورت پر قناعت کرنے کا حکم نہ دیا۔ برخلاف اس کے مسلمانوں کو چار تک کی اجازت اور خود پیغمبر (علیہ السلام) نے چار سے زیادہ نو تک بیویاں ایک وقت میں رکھیں۔ آج کل کے رفارمروں اور عیسائی اور ملحدمنش لوگوں کا اسلام پر ایک یہ بھی اعتراض ہے اور اس پر ملمع کار تقریروں سے بڑا زور دیتے ہیں بالخصوص پادری بہت غل مچاتے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے : (1) یہ بات ہر عقلمند پر ظاہر ہے کہ انسان جب تک کہ اس جامہ انسانی میں ہے خواہ کوئی کیوں نہ ولی ہو ٗ نبی ہو اس کو تمام انسانی حاجتیں پیش آتی ہیں۔ بھوک پیاس بھی لگتی ہے۔ اس کے بعد نیند بھی آتی ہے۔ پاخانہ پیشاب بھی آتا ہے۔ اس کو کوئی روک نہیں سکتا۔ اسی طرح اگر اس کے کسی عضو میں فتور نہیں تو منی بھی پیدا ہو کر اپنا نکلنا چاہتی ہے۔ اس لئے خواہ مخواہ عورت کی طرف رغبت ہوتی ہے۔ یہ طبعی بات ہے۔ صرف اتنا فرق ہے کہ اچھے لوگ اس کو اس کے محل پر صرف کرتے ہیں۔ برے لوگ بےمحل کام میں لاتے ہیں۔ اگر ملنگ پنا سکھایا جاتا تو علاوہ قطع نسل انسانی کے ہزاروں مصیبتیں 1 ؎ پیش آتیں حرام کاری کا پل ٹوٹ جاتا۔ دیکھئے باوجود تقدیس کے جب جرجیس 2 ؎ نے وہ تالاب صاف کرایا کہ جو اس کلیسیا کے متعلق تھا جس میں مجرد مرد و عورت رہتے تھے تو سینکڑوں کھوپڑیاں حرامی بچوں کی نکلیں اور جو ادھر ادھر پھینک دیے گئے یا حمل گرائے گئے ان کا تو کوئی حساب ہی نہیں۔ علاوہ اس کے بردباری وغیرہ اخلاق کی درستی عیالداری کی بدولت نصیب ہوتی ہے اور ایک عورت پر عموماً سب کو پابند کرنا بھی بعض لوگوں کی عفت میں فرق لاتا ہے کیونکہ تجربہ سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ مرد کو عورت سے کہیں زیادہ قوت ہے اور نیز عورت تیس چالیس برس کی عمر میں دس پانچ بچے جن کر بڑھیا ہوجاتی ہے اور مرد کے لئے یہ عین جوشِ 1 ؎ خانہ داری کے سامان اور انتظام خاص عورتوں کا یہی حصہ ہے اور پاک دامنی اور نیک نیتی بھی نکاح پر موقوف ہے۔ 12 منہ 2 ؎ چناچہ پادری لوگ بھی نظر عمیق کے بعد اس کا فتویٰ دیتے ہیں جیسا کہ کتاب مسمی بہ اصلاح سہو مطبوعہ امریکن مشن پریس 1871 ء میں کہتے ہیں تعداد ازواج بنی اسرائیل میں تھا اور خدا نے اس کو منع نہیں کیا بلکہ برکت کا وعدہ کیا اور مارٹین لوتھر نے فلپ کو دو جو رئوں کی اجازت دے دی تھی۔ 12 منہ قوت کا وقت ہے۔ پھر اس بڑھیا پر بس کرنا یا تو اشارۃً اور مزہ اڑانے 1 ؎ کا حکم دیتا ہے یا سہل شریعت کو دشوار کردینا ہے کہ جس کی اصلاح کے لئے پھر کسی نبی کی حاجت پڑتی اور یہ بھی ہے کہ عورت ایام حیض و نفاس اور حمل بلکہ رضاعت کے وقت مرد قوی کو بس نہیں کرتی۔ بالخصوص ان گرم ملکوں کے لوگوں کے لئے کہ جن کو ایک روز بھی بغیر جماع کے چین نہیں پڑتا (مر طوب اور بلغمی لوگوں کا ذکر نہیں ہے) پھر ان کے لئے حرام کاری کی اس قدر ممانعت کرکے (کہ کسی کو بدنظر سے بھی نہ دیکھو کسی غیر محرم کے ہاتھ بھی نہ لگائو اس سے تخلیہ میں بات بھی نہ کرو۔ اگر کرو گے تو علاوہ عذاب آخرت کے دنیا میں بھی سزا پائو گے) ایک عورت کا پابند کرنا حکمت الٰہیہ کی مصلحت کے برخلاف ہے۔ اس لئے شریعت نے چار تک کی اجازت دی ہے نہ یہ کہ سب کے لئے حکم دیا ہے اور اجازت میں بھی عدل شرط ہے۔ البتہ جس قوم میں بغیر نکاح کے بھی حاجت براری ہو سکے بلکہ خوب طرح سے ان کے نزدیک چار کیا ایک بھی جنجال اور جان کے لئے وبال ہے۔ رہا آنحضرت ﷺ کا متعدد نکاح کرنا اور آپ کا اس حکم سے مستثنیٰ ہونا سو یہ مصالح کے لئے تھا۔ اول یہ کہ عدالت آپ کا شیوہ ذاتی تھا ٗ معصوم تھے۔ دوم یہ کہ آنحضرت کو باوجود کسی آمدنی مقرر نہ ہونے کے متعدد بیویاں رکھ کر صفت توکل اور استقلال کی تعلیم دینا منظور تھا۔ سوم متعدد عورتوں کی معرفت عورتوں کے متعلق خلوت اور جلوت میں بیشمار مسائلِ شریعت کی تعلیم کرنا منظور تھا اور دائود ابراہیم و موسیٰ و یعقوب (علیہم السلام) نے بھی اس لئے متعدد بیویاں کی ہیں۔ جیسا کہ بائبل سے ثابت ہے اور اب تک یہودی شریعت میں کئی بیویاں کرنا جائز ہے (3) تیسرا حکم واتوا النساء صدقاتہن نحلہ ابن عباس و ابن جریج و قتادہ وغیرہ نحلہ کے معنی فریضہ کے کہتے ہیں۔ بولتے ہیں۔ فلاں ینتحل کذا یعنی ایسا دین رکھتا ہے اس لئے مذہب کو نحل کہتے ہیں۔ چونکہ مہر بھی شرعی اور دینی بات ہے اس لئے اس کو نحلہ کہا کلیبی کے نزدیک نحلہ کے معنی عطیہ کے ہیں مگر مراد دونوں کی مہر ہے۔ مہر 2 ؎ کا دینا واجب ہے مگر جب خود عورت یا در صورت صغر سنی اس کے اولیاء معاف کردیں تو معاف ہوسکتا ہے۔ 1 ؎ جن لوگوں میں دوسری عورت کرنے کا دستور نہیں اور اسی بڑھیا بدشکل ‘ کج ‘ خلق ‘ یا بیمار یا مکار ‘ بدوضع ‘ کوتاہ اندیش ‘ مخالف مزاج ہی کو گلے باندھنے کی تاکید ہے ان کے حال دیکھئے کہ کیا کیا مصائب پیش آتے ہیں۔ کہیں عورت کو زہر دے کر مارا جاتا ہے ٗ کہیں اس کے ہلاک کے لئے ڈاکٹروں سے مدد لی جاتی ہے۔ 12 2 ؎ عرب میں دستور تھا کہ عورت کو نکاح کے وقت کچھ ہدیہ اس کی خوشنودی کے لئے دیا کرتے تھے۔ اس کو مہر اور صداق اور صدقہ کہتے تھے۔ اس رسم کو اسلام نے بھی قائم رکھا اور نکاح میں یہ ضروری ہوگیا مگر مہر میں کمی کرنے کی تاکید بھی شارع نے ازحد کردی تاکہ خوشی میں آکر سب گھر بار نہ دے بیٹھے اور پھر بھیک مانگتا پھرے۔ امام شافعی (رح) کے نزدیک مہر پیسا دو پیسے یعنی بہت کم چیز بھی ہوسکتی ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک اقل مرتبہ دس درہم ہونے ضرور ہیں جن کے تخمیناً ساڑھے تین روپیہ ہوتے ہیں مگر ہندوستان میں یہ رسم بدل گئی۔ صرف برائے نام لاکھوں اور کروڑوں کے فرضی مہر باندھنے لگے۔ کہیں سوا من مچھروں کا بھیجا کہیں کچھ اور فرضی بات ایسے مہر شرع میں کچھ نہیں نہ ان کا ادا کرنا کوئی ضروری بات ہے۔ 12 منہ
Top