Tafseer-e-Haqqani - Az-Zukhruf : 68
یٰعِبَادِ لَا خَوْفٌ عَلَیْكُمُ الْیَوْمَ وَ لَاۤ اَنْتُمْ تَحْزَنُوْنَۚ
يٰعِبَادِ : اے میرے بندو لَا خَوْفٌ عَلَيْكُمُ : نہیں کوئی خوف تم پر الْيَوْمَ : آج وَلَآ اَنْتُمْ : اور نہ تم تَحْزَنُوْنَ : تم غمگین ہو گے
) کہا جاوے گا) اے میرے بندو ! آج کے دن نہ تم کو کوئی خوف ہے اور نہ تم رنج کروگے۔
تفسیر : اس کے بعد خود عیٰسی ( علیہ السلام) کے اقوال نقل کرتا ہے کہ اس نے بھی اپنے آپ کو خدا اور خدا کا بیٹا نہیں کہا بلکہ ولما جاء عیٰسی بالبنیات الخ کہ جب وہ نشانیاں یعنی معجزات لے کر آئے تو لوگوں سے یہ کہا کہ میں تمہارے پاس حکمت یعنی وہ باتیں لے کر آیا ہوں جو انسان کی شائستگی کا باعث ہیں اور اس لیے بھی آیا ہوں کہ موسوی شریعت کی اصلاح کروں جو لوگوں نے اختلاف کر کے بگاڑ رکھی ہے سخت احکام کو اٹھائوں اور سیدھا رستہ دکھائوں۔ بنی اسرائیل میں حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) سے پہلے عجائب خرابیاں و اختلافات پھیلے ہوئے تھے۔ فرقہ صدوقی قیامت کا منکر تھا اور فقیہوں اور فریسیوں نے عجب عجب باتیں گھڑ رکھیں تھیں مغز شریعت سے بالکل بیخبر تھے۔ پس اللہ سے ڈرو اے بنی اسرائیل جو مغز شریعت ہے ریاکاری سے باز آئو واطیعون اور میرے کہنے پر چلو ان اللہ ھو ربی وربکم فاعبدوہ اللہ جو میرا اور تمہارا رب ہے اسی کی عبادت کرو۔ صاف اقرار کردیا کہ میں خدا یا خدا کا بیٹا نہیں اور خدا پرستی کا حکم دے دیا۔ اناجیل مروجہ میں بھی یہ بات متعدد مقامات میں مذکور ہے۔ ھذا اصراط مستقیم یہی سیدھا رستہ ہے۔ یہاں تک حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کا قول تھا۔ پھر اس کے بعد جو لوگوں نے خصوصاً عیسائیوں نے بدعات ایجاد کر کے اس کی طرف منسوب کیں ان کو ذکر کرتا ہے فاختلف الاحزاب من بینہم الخ احزاب حزب کی جمع جس کے معنی گروہ کے ہیں یعنی کلیسائوں کے باہم اختلافات ہوگئے کسی نے کہا عیسیٰ خدا اور خدا کا بیٹا تھا کسی نے کہا وہ صلیب نہیں دیا گیا وغیرہ وغیرہ جیسا کہ کلیساء کی تاریخوں میں مفصل مذکور ہے اور یہ فرقے اور اختلافات مسیح کے تھوڑے دنوں بعد سے شروع ہوگئے۔ پولوس بھی اپنے زمانہ میں اس کا شاکی تھا۔ غرض یہ کہ عیسیٰ ( علیہ السلام) کو جو خدا اور خدا کا بیٹا عیسائیوں نے بنا لیا ہے خصوصاً اس وقت میں رومن کا تھولک عیسائی تو ان کی والدہ اور صلیب کو بھی پوجتے تھے۔ یہ عیسیٰ ( علیہ السلام) نے نہیں فرمایا ہے ان جہلانے بنا لیا ہے پھر کیا اس حجت سے تم خوش ہوتے ہو۔ اب ان عیسائیوں کی طرف روئے سخن ہوتا ہے فویل للذین ظلموا الخ کہ ان ظالموں کو بڑے دن میں خرابی اور عذاب ہے۔ اور اب بھی یہ باز نہیں آتے تو کیا قیامت کو باز آویں گے اور کیا اسی کے منتظر ہیں کہ یکایک آجاوے اور ان کو مہلت بھی نہ دے۔ اب اس دن کی کیفیت بیان فرماتا ہے کہ اس روز یہ جو آج باہم دوست ہیں ناحق پر بھی دوستی کی وجہ سے جمعے ہوئے ہیں باہم دشمن ہوجاویں گے صرف پرہیزگاروں کی دوستی اور محبت اس دن باقی رہے گی جن کو یہ کہا جاوے گا یا عباد الخ کہ اے میرے بندو ! آج تم کو کوئی خوف نہیں اور نہ تم کسی بات کا رنج کرو وہ بندے کون ہیں ؟ وہ جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں اور فرمانبرداری کرتے ہیں حکم ہوگا کہ تم اپنی بیویوں کے ساتھ خوشیاں کرتے ہوئے جنت میں چلو وہاں تم کو جو چاہوگے وہ نعمت ملے گی۔ یہ تمہارے اعمال حسنہ کا بدلہ ہے اس کے بعد گناہگاروں کا حال بیان فرماتا ہے کہ وہ ہمیشہ عذاب جہنم میں رہیں گے وہ عذاب کبھی کم نہ ہوگا۔ وہاں موت مانگیں گے موت بھی نہ آوے گی یہ ان پر ہم نے ظلم نہیں کیا وہی اس کے بانی ہیں جو حق کا انکار کیا کرتے تھے۔ سبحان اللہ ان کی حجت جاہلانہ کا کس خوبی کے ساتھ جواب دیا اور اس کے ضمن میں دارآخرت کا بھی حال بیان کردیا جو اہم مقاصد میں سے تھا۔
Top