Mafhoom-ul-Quran - Az-Zukhruf : 68
یٰعِبَادِ لَا خَوْفٌ عَلَیْكُمُ الْیَوْمَ وَ لَاۤ اَنْتُمْ تَحْزَنُوْنَۚ
يٰعِبَادِ : اے میرے بندو لَا خَوْفٌ عَلَيْكُمُ : نہیں کوئی خوف تم پر الْيَوْمَ : آج وَلَآ اَنْتُمْ : اور نہ تم تَحْزَنُوْنَ : تم غمگین ہو گے
میرے بندو ! آج تمہیں نہ کچھ خوف ہے اور نہ تم غمناک ہو گے
فیصلے کا دن اور نیکو کاروں کے لیے خوشخبری اور گنہگاروں کے لیے سزا کی خبر تشریح : شروع کی آیات میں رب العزت بڑے پیار اور شفقت سے اپنے بندوں کو بتا رہے ہیں کہ یہ دنیا تمہارے لیے امتحان گاہ ہے میرا مقصد تو لوگوں کو سزا دینا ہرگز نہیں لیکن قرآن کے مطابق جو زندگی نہیں گزاریں گے ان کو سزا ضرور ملے گی مگر نیکی پر چلتے ہوئے جو لوگ نیک، اچھی، پاکیزہ اور صاف ستھری زندگیاں گزاریں گے ان کو مرنے کے بعد انتہائی سکون کی زندگی ملے گی بلکہ ایسی بہترین زندگی کہ جس کا تصور تم آیات 68 سے 73 تک کے مضمون سے بخوبی کرسکتے ہو۔ یہ تمام باتیں ایسی ویسی نہیں بلکہ یہ اس الہ العٰلمین کی کہی ہوئی ہیں جو اپنی تمام صفات میں بےمثل اور لاشریک ہے۔ وہ بالکل اکیلا ہے۔ اس کا کوئی رشتہ دار، کوئی مدد کرنے والا اور کوئی دوست نہیں، ہاں البتہ وہ ان بندوں کو دوست بناتا ہے جو اس کی فرمانبرداری کرتے ہوئے پاکیزہ زندگیاں گزارتے ہیں لیکن جو بد کردار مشرک لوگ ہیں ان کو دنیا میں ذلیل و خوار ہو کر آخرت میں جہنم کی زندگی گزرانے کا پیغام دیا گیا ہے۔ جہنم کیا ہے ؟ آیت 74 سے 77 تک اس کا نقشہ بڑی اچھی طرح کھینچ دیا گیا ہے اور نبی اکرم ﷺ کو تسلی سے بتا دیا گیا ہے کہ آپ ﷺ اپنا کام کیئے جائیں ان بدکردار لوگوں کے حساب لینے کا بندوبست اللہ جل جلالہ نے بہت اچھا کر رکھا ہے کیونکہ وہ ( اللہ ) بڑی شان، برکت، عظمت اور طاقت رکھنے والا ہے۔ کیونکہ اس اکیلے نے دنیا، آسمان و زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے خود اپنی حکمت اور طاقت سے بنایا ہے اس لیے کوئی چیز کوئی بات اور کوئی فرد اس کی نظر سے چھپ نہیں سکتا۔ اس نے کائنات کا بندوبست اس قدر بہترین کر رکھا ہے کہ یہ سب بندے بشر کی سمجھ سے باہر ہے۔ بڑے بڑے سائنسدان، مفکر علماء اور فقہاء ہر وقت تحقیق و تفتیش میں لگے رہتے ہیں اور تھوڑا بہت علم ان کو ہوچکا ہے۔ مثلاً سلطان بشیر محمود صاحب لکھتے ہیں : ” سائنس دان بھی یہ کہتے سنے گئے ہیں کہ آسمانوں میں خالص خلا (Pure vaccum) جیسی کوئی چیز نہیں بلکہ وہ بھی (Slellar) گیسوں، تابکاری اور انتہائیـ لطیف قسم کے مادوں کے ساتھ بھری پڑی فضاء ہے۔ مزید لکھتے ہیں کہ سائنسدان ہائل اور و کرم دونوں کا خیال ہے کہ دمدار ستارہ فضائی جراثیموں کے لیے بہت عمدہ رہائشی جگہ ہے۔ کیونکہ وہاں کیمیکل اور پانی کے بخارات کے باہمی عمل کی وجہ سے فضاء ساز گار اور مناسب گرم بھی ہوتی ہے جو جراثیم کی تخلیق اور زندگی کے پروان چڑھانے کے لیے خوب مناسب ہے۔ اور یہ جراثیم اچھے برے، وقتاً فوقتاً زمین پر بھی کسی نہ کسی طرح پہنچ رہے ہیں۔ مزید لکھتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے تخلیقی اوامر کو بھی بہتر طور پر سمجھنے کی طرف ایک قدم ہے کہ ہر جگہ زندگی کی کفالت و بحالی اور نشوونما اللہ تعالیٰ کی رحمت کا نتیجہ ہے اس کا علم ہر جگہ کو گھیرے ہوئے ہے، وہی زمان و مکان کا خالق ومالک ہے۔ ہمارا قرآن پاک اس کی طرف سے ایک آفاقی کتاب ہے اور حصنرت محمد ﷺ جس طرح اس کرہ ارض پر اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبر ہیں اسی طرح وہ باقی تمام دنیاؤں کے لیے بھی رحمت ہیں اور ان کی وساطت سے ساری کائنات سے ہمارا رستہ استوار ہے۔ (از قیامت اور حیات بعد الموت) قرآن پاک میں یہ سائنسی حقائق چند جملوں میں بیان کردیئے گئے ہیں۔ جب ہم جیسے عام انسان قرآن میں بیان کی گئی ان تمام حقیقتوں سے واقف ہوتے ہیں تو پھر قرآن کی بتائی ہوئی ہر بات یعنی تو حید، قیامت، جنت دوزخ اور نیکی و بدی پر اور بھی زیادہ پکا یقین ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد کون ایسا بیوقوف اور ناعاقبت اندیش انسان ہوگا جو اللہ کا شریک کسی کو بنائے گا یا مسلم ہوتے ہوئے احکامات الٰہی سے انکار کرے گا ؟ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ قرآن کو پڑھتے ہیں مگر بغیر سمجھے، اللہ کو مانتے ہیں مگر بغیر پکے یقین کے، زندگی گزارتے ہیں مگر بغیر یہ سوچے ہوئے کہ زندگی کا ایک ایک لمحہ لکھا جا رہا ہے اور اس کا حساب بھی دینا ہے۔ اور دنیا کی زندگی میں یوں مست، لاپرواہ اور بےخوف رہتے ہیں گویا یہ زندگی ہی سب کچھ ہے اور بس۔ تو ایسے ہی لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان سے منہ پھیر لو اور سلام کہہ دو ان کو عنقریب انجام معلوم ہوجائے گا “۔ (آیت 89) اس تمام حکمت کو ہم یوں سمجھ سکتے ہیں کہ ہم اللہ کے بندے اور وہ ہمارا حاکم اعلیٰ ہے۔ اس کا خوف علم کا سرچشمہ ہے اس کا خوف بدی سے بچاتا ہے۔ اس کا خوف حکمت کی راہ دکھاتا ہے۔ اس کا خوف لمبی اور پر سکون زندگی بخشتا ہے۔ اس کا خوف پر امید بناتا ہے۔ اور اس کا خوف شیطان کی دوستی سے دور کر کے ایمان کے نور سے منور کرتا ہے۔ سچ ہے کہ اگر قوت ارادی مضبوط ہو تو کائنات اس کے سامنے جھک جاتی ہے۔ چار چیزیں ایسی ہیں جو انسان کو، قوم و ملت کو بلند اور مضبوط بناتی ہیں۔ علم، حلم، اتحاد اور یقین ؟ قرآن سے پھوٹنے والا نور ہمیں جنت کا راستہ دکھاتا ہے اور دوزخ سے بچاتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت رحمت ہے جو اس نے اپنے بندوں پر نازل فرمائی ہے۔ اللہ ہمیں اس نور سے منور کر دے ( آمین) خصوصی التجاء ” اے اللہ ! دعا سننے اور قبول کرنے والے پروردگار ! حساب کے دن میرا اعمال نامہ سیدھے ہاتھ میں دینا۔ میں تیرے حضور سچے دل سے توبہ کرتا ہوں۔ یا ستار العیوب ! میرے عیب آخرت میں بھی ڈھانپ کر رکھنا۔ بندہ اس اشک آلود التجا کے ساتھ حاضر ہے۔ شرمسار، گناہ گار، جو بھی ہوں آخرتیرا ہی بندہ ہوں اور تیری رحمت بےحد و حساب ہے “۔ (از ہمارا سنگین ترین مسئلہ مصنف محمد منظور الحق ڈار ) خلاصہ سورت الزخرف رشدو ہدایت ہی ہماری زندگیوں کو منور کرسکتی ہے ہمیں اللہ کا مقبول بنا سکتی ہے ہمیں جہنم سے بچا سکتی ہے اور ہمیں جنت کا وارث بنا سکتی ہے۔ کیونکہ انسان کی فطرت میں شامل ہے کہ اس کا علم و ارادہ اور ایمان گھٹتا بڑھتا رہتا ہے۔ لہٰذا قرآن کا مطالعہ بڑی باقاعدگی، توجہ اور شوق سے کرتے رہنا چاہیے۔ یہ اللہ کی بھیجی ہوئی کتاب بہترین کتاب ہے اس اللہ کی جس نے ہمیں بنایا ہمارے لیے بیشمار چیزیں بنائیں آسمان بنائے زمین بنائی پوری کائنات بنائی اور بہترین اجر اور بد ترین عذاب سے آگاہ کردیا کہ بعد میں پچھتا نا نہ پڑے اس کے علاوہ اہل عرب اور قریش کے جاہلانہ عقائد پر بھی اس سورة میں بحث کی گئی ہے مثلا ملائکہ کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دینا اور دیویوں کی مورتیاں بناکر ان کی پوجا کرنا، اپنے اسلاف کے جاہلانہ اعتقادات کی پیروی کرنا یہ اہل عرب کا وطیرہ تھا اسکے علاوہ نبی ﷺ پر بےجا اعتراض کرنا کہ یہ اللہ نے ایک عام آدمی کو نبی کیوں بنایا مکہ یا طائف کے کسی بڑے متمول اور رئیس کو نبوت کیوں نہ عطا کی گئی ان کے اسی طرح کے فضول اعتراضات کا جواب بھی اسی سورت میں دیا گیا ہے۔ دعا ہے کہ وہ ہمیں ” سیدھا راستہ دکھائے ایسا راستہ کہ جس پر چلنے والوں پر آپ نے انعام کیا نہ ان لوگوں کا راستہ کہ جن پر آپ ناراض ہوئے اور نہ گمراہوں کا “۔ (سورۃ فاتحہ آیات 5 اور 6)
Top