Ruh-ul-Quran - Az-Zukhruf : 68
یٰعِبَادِ لَا خَوْفٌ عَلَیْكُمُ الْیَوْمَ وَ لَاۤ اَنْتُمْ تَحْزَنُوْنَۚ
يٰعِبَادِ : اے میرے بندو لَا خَوْفٌ عَلَيْكُمُ : نہیں کوئی خوف تم پر الْيَوْمَ : آج وَلَآ اَنْتُمْ : اور نہ تم تَحْزَنُوْنَ : تم غمگین ہو گے
اے میرے بندو ! آج تمہارے لیے کوئی خوف نہیں اور نہ تم غمگین ہو
یٰعِبَادِ لاَخَوْفٌ عَلَیْـکُمُ الْیَوْمَ وَلَآ اَنْـتُمْ تَحْزَنُوْنَ ۔ اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاٰیٰـتِنَا وَکَانُوْا مُسْلِمِیْنَ ۔ اُدْخُلُوا الْجَنَّـۃَ اَنْـتُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ تُحْبَرُوْنَ ۔ (الزخرف : 68 تا 70) (اے میرے بندو ! آج تمہارے لیے کوئی خوف نہیں اور نہ تم غمگین ہو۔ جو لوگ ایمان لائے اور مطیع فرمان بن کر رہے۔ داخل ہوجاؤ جنت میں تم اور تمہاری بیویاں، تم خوش کیے جاؤ گے۔ ) قیامت کے روز ایمان کا رشتہ باقی رہے گا گزشتہ آیت کریمہ میں ذکر فرمایا گیا ہے کہ قیامت کے روز تمام رشتے ٹوٹ جائیں گے، بجز ان لوگوں کے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہے۔ ایسے لوگ قیامت کے دن بھی ایک دوسرے کے ہمدرد و غمگسار ہوں گے۔ پیش نظر آیت کریمہ میں ان ہی لوگوں کو مبارکباد دی جارہی ہے کہ اے میرے بندو ! تم آج تک خوف اور حزن کی گرفت میں رہے، خوف مستقبل کے خطرات کا ہوتا ہے کہ نہ جانے آگے چل کر ہمارے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ اور ” حزن “ حاضر و ماضی کی ناکامی اور صدمات کا، کہ آدمی جو صدمے گزار چکا ہے، اور جن مصیبتوں سے دوچار ہوچکا ہے کبھی نہ کبھی ان کی یاد آئے بغیر نہیں رہتی۔ اس طرح کبھی خوف آدمی کو پریشان کرتا ہے اور کبھی حزن انتشارِفکر کا باعث بنتا ہے۔ لیکن قیامت کے دن ارشاد فرمایا جائے گا کہ آج تمہیں نہ ماضی کے صدمے پریشان کریں گے، نہ حال کی الجھنیں تمہارے لیے کوئی مسئلہ بنیں گی اور نہ مستقبل کے بارے میں کبھی تمہاری سوچ پریشانی پیدا کرے گی۔ کیونکہ جنت میں داخل ہونے کے بعد ہر آزار سے تم آزاد ہوجاؤ گے۔ اور یہ سب کچھ تمہیں اس لیے نصیب ہوگا کہ تم نے اپنے اندر وہ صفات پیدا کیں جو اہل جنت کی صفات ہیں، تم نے سب سے پہلے اپنے اندر ایمان کی صفت پیدا کی۔ یعنی ہماری آیات پر ایمان لائے اور صدق دل سے ہمارے احکام پر عمل پیرا رہے۔ یعنی ایک تو دل میں ضروریاتِ دین کی صداقت پر یقین اور پھر اللہ تعالیٰ کے احکام پر اخلاص کے ساتھ عمل، یہ دو قوتیں ہیں جو انسان کو اہل جنت میں داخل کردیتی ہیں۔ اس کے بعد فرمایا کہ تم نے چونکہ اپنے لیے جنت کا استحقاق پیدا کرلیا ہے اس لیے اب تم جنت میں داخل ہوجاؤ۔ لیکن اکیلے نہیں تمہارے ساتھ تمہاری بیویاں بھی ہوں گی۔ یعنی اگر انھوں نے بھی اپنے اندر وہی صفات پیدا کیں جو جنت میں داخلے کے لیے ضروری ہیں تو تھوڑی بہت کمی بیشی بھی اگر باقی رہی تو اللہ تعالیٰ کرم فرمائیں گے اور تمہیں تمہاری بیویوں کے ساتھ جنت میں داخل کردیا جائے گا۔ بعض اہل علم نے اس کا ترجمہ نوع بنوع اور گوناگوں کیا ہے۔ اس ناچیز کے خیال میں یہ بھی صحیح ہے۔ اس صورت میں مفہوم یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ جب ایسے صاحب ایمان بندوں کو جنت میں داخل ہونے کا حکم دے گا تو ساتھ ہی انھیں یہ بھی اعزاز بخشے گا کہ تم اپنے ہم مسلک اور ہم عقیدہ لوگوں کو ساتھ لے کر جنت میں جاؤ۔ کیونکہ دنیا میں جن لوگوں نے ایمان کا حق ادا کرتے ہوئے ایک دوسرے کی مدد کی اور مل کر وہ ذمہ داریاں اٹھائیں جو انسان کو جنت کا مستحق بناتی ہیں تو ان کی خوشیاں یقینا نامکمل رہیں گی۔ اگر ان کے ساتھ وہ لوگ جنت میں داخل نہ ہوئے جو جنت کے لیے اسی طرح بےتاب تھے جیسے یہ بےتاب ہوا کرتے تھے۔
Top