Tafseer-e-Haqqani - Al-Maaida : 9
وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ١ۙ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ
وَعَدَ : وعدہ کیا اللّٰهُ : اللہ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے وَعَمِلُوا : اور انہوں نے عمل کیے الصّٰلِحٰتِ : اچھے لَهُمْ : ان کے لیے مَّغْفِرَةٌ : بخشش وَّاَجْرٌ : اور اجر عَظِيْمٌ : بڑا
اللہ نے ان کے لئے جو کہ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کئے بخشش اور اجر عظیم کا وعدہ کرلیا ہے
ترکیب : وعد کا فاعل اللّٰہ۔ الذین الخ مفعول اول لہم مغفرۃ جملہ دوسرے مفعول محذوف کے قائم مقام اذھم ظرف نعمۃ اللّٰہ علیکم کا اور علی اللہ فلیتوکل سے متعلق ہے۔ تفسیر : اوامرِ الٰہی کے بجا لانے کے اسباب ذکر فرما کر دو اور سبب ذکر کرتا ہے جو انسان کو خدا تعالیٰ کی اطاعت و محبت پر ابھارتے اور اس کی منہیات سے باز رکھتے ہیں۔ گویا یہ جملہ کلام سابق کے لئے تتمہ ہے۔ اول سبب اطاعت و محبت کا آیندہ خیر کا امیدوار کرنا ہے کس لئے کہ احسانات سابقہ ہی پر انسان کی نظر بس نہیں کرتی بلکہ آیندہ کی بھلائی اور امید پر بہ نسبت انعام سابق کے زیادہ تر آمادہ اطاعت ہوتا ہے۔ پس اس بات کو وعد اللّٰہ الذین سے اجر عظیم تک بیان کیا یعنی جو ایمان لا کر اعمال صالح کرے گا۔ اس سے خود خدا وعدہ کرتا ہے کہ اس کو بخشے گا اور نہ اسی پر بس کرے گا بلکہ اپنے پاس سے اجر عظیم عطا فرماوے گا جو عالم قدس کی حیات ابدی ہے چونکہ ایمان مقدم ہے اس لئے اولاً امنوا کہا اور ایمان کے بعد عمل صالح گویا وہ ایمان کی رونق ہے اس لئے اس کو بعد عملوا الصلحت فرمایا اور ان دونوں کے مقابلہ میں دو ہی وعدے فرمائے۔ اول مغفرت ‘ دوم اجر عظیم۔ دوسری بات کہ جس سے انسان خدا سے ڈر کر بری باتوں سے بچتا ہے۔ خوف سزا ہے پس اس کو والذین کفروا الخ میں بیان فرما دیا کہ جو کفر کرکے ہماری آیتیں جھٹلائے گا جہنم میں رہے گا جس سے بڑھ کر پھر کوئی اور سزا نہیں۔ اس کے بعد خدا تعالیٰ پھر مسلمانوں کو اپنی نعمت اور احسان خاص یاد دلاتا ہے تاکہ شکر گزاری کیا کریں سو اس کو یا ایہا الذین سے شروع کیا کہ تم کو ایک قوم کی دست اندازی سے محفوظ رکھا۔ اس دست اندازی سے محفوظ رکھنے کی تفسیر میں علمائِ مفسرین کے دو قول ہیں۔ ایک یہ کہ اس سے کسی خاص واقعہ کی طرف اشارہ نہیں بلکہ عموماً اہل اسلام کی اس ابتدائی حالت کی طرف اشارہ ہے جس میں کہ کفار مشرکین چاروں طرف سے ان پر چڑھایاں کرتے اور مار دھاڑ کرتے تھے جس سے خدا نے ان کو محفوظ رکھا۔ اسلامیوں کو غلبہ دیا دوسرا یہ کہ اس سے کسی خاص واقعہ کی طرف اشارہ ہے جو ہجرت سے پانچویں سال وقوع میں آیا۔ وہ یہ کہ صحابہ ؓ اور آنحضرت ﷺ کسی جنگ سے واپس آکر بمقام غسفان ظہر کی نماز میں مصروف تھے کفار نے اس بات سے مطلع ہو کر یہ قصد کیا کہ اب اگلی نماز عصر میں موقع کو ہاتھ سے جانے نہ دو ان پر اسی حالت میں دفعۃً آ گرو اور سب کو قتل کر ڈالو۔ اس بات سے خدا تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو مطلع کردیا۔ بعض کہتے ہیں کہ اس میں اس واقعہ کی طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے کہ جو قبیلہ نبی نضیر میں آنحضرت ﷺ مع خلفائِ اربعہ دیت میں امداد کرنے کے لئے تشریف لے گئے تھے۔ یہود بنی نضیر نے آپ کو ایک ایسی جگہ بٹھلایا کہ جس کے اوپر سے بھاری پتھر ڈال کر قتل کرنے کا قصد کر رکھا تھا۔ خدا نے حضرت ﷺ کو اس سے مطلع کردیا۔ بعض کہتے ہیں حدیبیہ کے قصہ کی طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے کہ جو قریش سے جنگ ہوتے ہوتے رہ گئی۔ اصل یوں ہے کہ اس قسم کے معجزات آنحضرت ﷺ سے کئی بار واقع ہوئے اس آیت میں ان میں سے ہر ایک کی طرف اشارہ ہوسکتا ہے سب میں خدا تعالیٰ کے فضل خاص کا جلوہ اہل اسلام پر تھا جس کا یاد کرنا مسلمانوں کو شکرگزاری کے لئے ایک عمدہ بات ہے۔
Top