Mafhoom-ul-Quran - Al-Maaida : 9
وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ١ۙ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ
وَعَدَ : وعدہ کیا اللّٰهُ : اللہ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے وَعَمِلُوا : اور انہوں نے عمل کیے الصّٰلِحٰتِ : اچھے لَهُمْ : ان کے لیے مَّغْفِرَةٌ : بخشش وَّاَجْرٌ : اور اجر عَظِيْمٌ : بڑا
جو لوگ ایمان لائیں اور نیک کام کریں اللہ نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ ان کی خطاؤں سے در گزر کیا جائے گا اور انہیں بڑا اجر دیا جائے گا۔
سزا اور جزا تشریح : اللہ رب العزت نیکی اور برائی کا ذکر ساتھ ساتھ کرتے ہیں اور اس طرح جنت اور دوزخ کا ذکر بھی ساتھ ساتھ ہوتا ہے ہر مسلمان کا ایمان ہے آخرت ضرور ہوگی، مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوں گے، دنیا میں کئے گئے اعمال کا بدلہ اچھا یا برا ضرور ملے گا۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کا وعدہ دہرایا جارہا ہے کہ نیک لوگ اللہ کو پسند ہیں اور ان کے لیے ان کی چھوٹی موٹی خطائیں تو ویسے ہی معاف کردی جائیں گی اور ان کے نیک اعمال کا بدلہ جنت کی شکل میں ان کو ضرور دیا جائے گا جنت کی تعریف کئی دفعہ ہوچکی ہے آخرت کی زندگی ہمیشہ کی زندگی ہوگی، اس کے برعکس وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا اور اللہ کی آیات کو جھٹلایا تو وہ دوزخ میں جائیں گے۔ قرآن میں جہنم کی وضاحت یوں کی گئی ہے۔ ” در حقیقت جہنم ایک گھات کی جگہ ہے۔ سر کشوں کا ٹھکانا جس میں وہ مدتوں پڑے رہیں گے۔ وہاں وہ نہ ٹھنڈک کا مزہ چکھیں گے اور نہ پینے کی چیز کا، ہاں ! البتہ گرم پانی اور زخموں کا دھون ( انہیں ملے گا) یہ بھر پور بدلہ ہے ان کے کرتوتوں کا۔ یہ لوگ دراصل حساب آخرت کا عقیدہ ہی نہیں رکھتے تھے۔ اور ہماری آیات کو خوب جھٹلاتے تھے۔ “ ) سورة النبا۔ آیات 21 تا :28) اکثر اچھے خاصے مسلمان کو مذاق کے طور پر یہ کہتے سنا جاتا ہے کہ دیکھا جائے گا جب مریں گے تو دیکھا جائے گا۔ یہ ہر شخص کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ چھوٹا سا جملہ جو بےپروائی سے کہا جاتا ہے کس قدر بڑا گناہ بن جاتا ہے ؟ اس لیے توبہ کرنی چاہیے اور دوزخ کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے اللہ تعالیٰ اَلرَّحْمٰنُ ( بےحد رحم کرنے والا) اور اٰلمُنْتَقِمُ (بدلہ لینے والا) بھی ہے یہ سب کچھ سچ اور یقینی ہے اس میں ذرہ برابر بھی شک کی گنجائش نہیں۔
Top