Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - Al-Maaida : 9
وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ١ۙ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ
وَعَدَ
: وعدہ کیا
اللّٰهُ
: اللہ
الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا
: جو لوگ ایمان لائے
وَعَمِلُوا
: اور انہوں نے عمل کیے
الصّٰلِحٰتِ
: اچھے
لَهُمْ
: ان کے لیے
مَّغْفِرَةٌ
: بخشش
وَّاَجْرٌ
: اور اجر
عَظِيْمٌ
: بڑا
جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے ان سے خدا نے وعدہ فرمایا ہے کہ ان کے لئے بخشش اور اجر عظیم ہے۔
ہمارے مخالف نے جس تقبیل کی بات کی ہے وہ دوپٹے کی تقبیل ہوسکتی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ پھر اس بات کو نقل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں نیز یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حضور ﷺ اور آپ کی ازواج مطہرات کے درمیان کوئی خفگی یا نفرت وغیرہ تو نہیں تھی کہ وہ آپ سے پردے میں رہتی ہوں اور آپ صرف ان کی اوڑھنیوں کا لمس کرپاتے ہوں۔ حضرت عائشہ کی روایت ہے آپ فرماتی ہیں : ” میں ن ے ایک رات حضور ﷺ کو ہاتھ سے تلاش کیا تو میرا ہاتھ آپ کے تلوے پر پڑا آپ اس وقت سجدے میں تھے اور یہ دعا مانگ رہے تھے (اعوذ بعفوک من عقوبتک وبرضاک من سخطک، (a) اے اللہ میں تیری سزا سے تیرے عفو اور تیری ناراضگی سے تیری رضا کی پناہ میں آتا ہوں) “ اگر حضرت عائشہ کا ہاتھ لگ جانے کی وجہ سے آپ کو حدث لاحق ہوجاتا تو آپ اپنا سجدہ جاری نہ رکھتے۔ اس لئے کہ حدث لاحق ہونے کی صورت میں سجدے کی حالت میں آپ کا باقی رہنا نہیں ہوتا۔ حضرت ابو قتادہ ؓ کی روایت ہے کہ حضور ﷺ امامہ بنت العاص کو اٹھائے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے، آپ جب سجدے میں جاتے تو بچی کو زمین پر بٹھا دیتے اور جب سجدے سے فارغ ہوتے تو اسے اٹھا لیتے۔ ظاہر ہے کہ نماز کے دوران آپ کا ہاتھ ضرور بچی کے جسم سے لگتا ہوگا اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ عورت کو ہاتھ لگانے سے حدث لاحق نہیں ہوتا۔ یہ روایات ان لوگوں پر حجت ہیں جو لمس کو حدث قرار دیتے ہیں خواہ یہ لمس شہوت کے تحت ہو یا شہوت کے بغیر ہو۔ ان روایات سے ان لوگوں کے خلاف استدلال نہیں کیا جاسکتا جن کے نزدیک شہوت کے تحت لمس کا اعتبار ہے۔ اس لئے کہ یہ حضور ﷺ کے فعل کی حکایت ہے اس میں حضور ﷺ نے یہ نہیں بتایا کہ لمس شہوت کے تحت ہوا تھا۔ امامہ کو آپ کا لمس تو یقیناً شہوت کے تحت نہیں ہوا تھا۔ ان دونوں گروہوں کے خلاف جو چیز بطور حجت پیش کی جاسکتی ہے وہ ہے کہ عورتوں کو شہرت کے تحت لمس کرنا عموم بلوی کی شکل میں تھا یعنی اکثر و بیشتر صورتوں میں شہوت کے تحت ہی عورتوں کا لمس کیا جاتا تھا اور یہ بات پیشاب پاخانے وغیرہ کے عموم بلوی سے بھی ہوجاتا ہے تو حضور ﷺ امت کو اس کی اطلاع دیئے بغیر نہ رہتے کیونکہ عوام الناس کو اکثر یہ صورت پیش آتی تھی اور لوگوں کو اس کے حکم کے متعلق بتادینا ایک عام ضرورت تھی۔ اس جیسے معاملہ میں یہ طریق کار بالکل درست نہیں ہوتا کہ کچھ لوگوں کو اس کے حکم سے واقف کرانے پر اقتصار کرلیا جاتا اور دوسروں کو اس سے ناواقف رکھا جاتا۔ اگر حضور ﷺ کی طرف سے اس بارے میں کوئی ہدایت اور رہنمائی ہوتی تو صحابہ کرام عمومی طور پر اس سے واقف ہوتے جب صحابہ کی ایک جماعت سے جن کا ہم نے ذکر کیا ہے یہ مروی ہے کہ لمس کی بنا پر وضو واجب نہیں ہوتا تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوتی ہے کہ اس بارے میں حضور ﷺ کی طرف سے کوئی اطلاع یا ہدایت نہیں دی گئی تھی اور اس سے یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ عورت کو لمس کرنے کی بنا پر وضو واجب نہیں ہوتا۔ اگر یہ کہا جائے کہ آپ پر بھی اس جیسی بات لازم آتی ہے۔ آپ کا مخاطب کہہ سکتا ہے اگر لمس میں وضو واجب نہ ہوتا تو حضور ﷺ کی طرف سے سب کو اس کی اطلاع دے دی جاتی کہ اس سے وضو واجب نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ اس معاملے میں عموم بلوی تھا یعنی عام طور پر لوگوں کو اس سے سابقہ پڑتا تھا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا لمس کی بنا پر وضو کی نفی کرنے کے لئے یہ بات یعنی حضور ﷺ کی طرف سے اس کی اطلاع ضروری نہیں تھی جس طرح وضو کے اثبات کے لئے یہ ضروری تھی یہ اس لئے کہ یہ بات معلوم ہے کہ اصل کے لحاظ سے لمس کی بنا پر وضو واجب نہیں تھا اس لئے ممکن ہے کہ حضور ﷺ نے لوگوں کو اس بات پر رہنے دیا ہو جو ان کے علم میں تھی یعنی لمس کی بنا پر وضو کا وجوب نہیں ہوتا۔ جب اللہ تعالیٰ نے لمس میں ایجاب وضو کا حکم دے دیا تو اب یہ بات درست نہیں رہی کہ آپ لوگوں کو اس کی اطلاع دیئے بغیر رہ جاتے جبکہ آپ کو اس کا علم تھا کہ لوگوں کا اس بارے میں یہ رویہ ہے کہ وہ وضو کے ایجاب کی نفی کے قائل ہیں اگر آپ انہیں اس کی اطلاع نہ دیتے تو اس سے بات لازم آتی کہ لوگوں کو اس چیز پر قائم رہنے دیا جائے جو اس امر کے خلاف ہے جس کا انہیں حکم دیا گیا ہے۔ لیکن جب ہم اجل صحابہ کرام کو دیکھتے ہیں کہ انہیں یہ معلوم نہیں کہ عورت کو چھونے سے وضو لازم ہوجاتا ہے تو اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ دراصل حضور ﷺ کی طرف سے اس بارے میں کوئی ہدایت نہیں دی گئی تھی۔ اگر کہا جائے کہ یہ ممکن ہے کہ حضور ﷺ کی طرف سے اگر اس بارے میں کوئی ہدایت نہیں دی گئی تو ہم ظاہر قول باری (اولمستم النسآء) (a) پر اکتفاء کرلیں اس لئے کہ اس کے حقیقی معنی ہاتتھ یا جسم کا کوئی حصہ لگانے کے ہیں اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ آیت میں دونوں معنوں میں سے کسی ایک پر نص نہیں ہے اس لئے کہ اس میں لمس اور ہمبستری دونوں معنوں کا احتمال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملامست کے معنی کے متعلق سلف میں اختلاف رائے پیدا ہوگیا اور یہ معلوم کرنے کے لئے اجتہاد کی گنجائش نکل آئی کہ کون سے معنی مراد ہیں۔ اس لئے یہ بات واضح ہوگئی کہ حضور ﷺ کی طرف سے وضو کے ایجاب کے سلسلے میں کوئی ہدایت نہیں دی گئی جبکہ لوگوں کو عام طور پر اس ہدایت کی ضرورت تھی۔ نیز حضرت علی ؓ ، حضرت ابن عباس اور حضرت ابوموسیٰ (علیہ السلام) کی تاویل کے مطابق ملامست سے مراد جماع یعنی ہمبستری ہے اور حضرت عمر ؓ نیز حضرت ابن مسعود ؓ کی تاویل کے مطابق اس سے لمس بالید (a) مراد ہے۔ ان روایتوں کے مطابق اس لفظ میں دونوں معنوں کا احتمال موجود ہے۔ دوسری طرف جب حضور ﷺ سے یہ روایت ہوئی کہ آپ نے بعض ازواج کی تقبیل کی اور پھر وضو کئے بغیر نماز ادا کرلی تو اس لفظ سے اللہ کی مراد کی وضاحت ہوگئی۔ ایک اور وجہ کی بنا پر بھی یہ دلالت ہورہی ہے کہ ملامست سے ہمبستری مراد ہے وہ یہ کہ ملامست کے حقیقی معنی اگرچہ لمس بالید (a) ہیں لیکن اس کی نسبت عورتوں کی طرف کی گئی ہے تو اس سے جماع کے معنی مراد لینا واجب ہوگیا جس طرح وطی کے حقیقی معنی قدموں سے چلنے کے ہیں لیکن جب اس لفظ کی نسبت عورتوں کی طرف جائے تو اس سے جماع کے سوا اور کوئی مفہوم اخذ نہیں کیا جاسکتا ملامست کے سلسلے میں بھی یہی بات ہے۔ اس کی نظیر یہ قول باری ہے (وان طلقتموھن من قبل ان تمسوھن (a) اگر تم اپنی بیویوں کو ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دو ) اس سے مراد یہ کہ ہمبستری کرنے سے پہلے انہیں طلاق دے دو ۔ نیز حضور ﷺ کی طرف سے جنبی کو تیمم کرنے کا حکم دینا ان روایات سے ثابت ہے جو استفاضہ کی حدتک پہنچتی ہیں۔ جب حضور ﷺ کی طرف سے کوئی ایسا حکم وارد ہوجائے جس پر آیت میں موجود لفظ مشتمل ہو تو پھر ضروری ہوجاتا ہے کہ اس سلسلے میں آپ سے صادر ہونے والا فعل بھی کتاب اللہ کی بنا پر صادر ہونے والا فعل تسلیم کرلیا جائے۔ جس طرح آپ نے جب چور کا ہاتھ کاٹ دیا اور کتاب اللہ میں بھی ایسا لفظ موجود تھا جو ہاتھ کاٹنے کا مقتضی تھا تو اس عمل کے متعلق یہی سمجھا جائے گا کہ آپ نے آیت کی بنا پر ایسا کیا تھا۔ اسی طرح شریعت کے وہ تمام احکامات ہیں جن پر حضور ﷺ نے عمل کیا اور ظاہر کتاب بھی ان احکامات کو متضمن تھا۔ جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ ملامست سے ہمبستری مراد ہے تو اس سے لمس بالید (a) کا مفہوم منتفی ہوگیا جس کی کئی وجوہ ہیں۔ ایک تو یہ کہ سلف کا شروع سے ہی اس پر اتفاق ہے کہ اس سے دونوں معنوں میں سے ایک مراد ہے۔ اس لئے کہ حضرت علی ؓ ، حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت ابو موسیٰ ؓ نے جب اس لفظ کی تفسیر جماع سے کی تو ان حضرات نے لمس بالید سے نقض وضو کو واجب نہیں کیا۔ دوسری طرف حضرت عمر ؓ اور حضرت ابن مسعود ؓ نے جب اس کی تفسیر لمس بالید (a) سے کی تو انہوں نے جنبی کے لئے تیمم کو جائز قرار نہیں دیا اس طرح تمام حضرات اس بات پر متفق ہوگئے کہ اس لفظ سے ان دونوں معنوں میں سے ایک مراد ہے۔ اب جو شخص اس لفظ سے ان دونوں معنوں کے مراد ہونے کا قائل ہوگا وہ اتفاق صحابہ کے دائرے سے خارج ہوجائے گا۔ نیز وہ صحابہ کرام کے اس اجماع کی مخالفت کا مرتکب ہوگا کہ اس لفظ سے دونوں معنوں میں سے ایک مراد ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ سے جو یہ مروی ہے کہ شوہر کا اپنی بیوی کی تقبیل ملامست کی ایک صورت ہے وہ اس پر دلالت نہیں کرتا کہ آپ دونوں معنوں کے قائل تھے اور آیت سے دونوں معنی مراد لیتے تھے بلکہ اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس سلسلے میں آپ کا مسلک بھی وہی تھا جو حضرت عمر ؓ اور حضرت ابن مسعود ؓ کا تھا۔ اس روایت میں تو یہ بات بتائی گئی ہے کہ لمس صرف لمس بالید تک محدود نہیں ہے ، لمس تقبیل کے علاوہ ہم آغوشی اور ہم بستری وغیرہ کے ذریعے بھی ہوسکتا ہے۔ ایک اور وجہ سے بھی یہ دلالت ہورہی ہے کہ آیت سے دونوں معنی مراد لینا درست نہیں ہے وہ یہ کہ ہمارے مخالفین کے نزدیک لمس بالید (a) صرف وضو کا موجب ہوتا ہے اور اجماع غسل کاموجب، لیکن ایک ہی عموم کے ساتھ دو مختلف حکموں کا متعلق ہوجانا جائز نہیں ہوتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ قول باری (والسارق والسارقۃ) (a) کے لفظ میں عموم ہے۔ اس لئے یہ جائز نہیں کہ اس کے ایسے دوچور آجائیں جن میں سے ایک کا ہاتھ دس درہم کی مقدار چیز چرانے پر قطع کردیا جائے اور دوسرے کا ہاتھ پانچ درہم کی مقدار چرانے پر کاٹا جائے۔ جب ہماری وضاحت کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوگئی کہ آیت میں جماع مراد ہے اور یہ غسل کی موجب ہے تو اب اس مفہوم میں لمس بالید (a) کا دخول منتفی ہوگیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ لفظ سے لمس بالید اور جماع مراد لینے کی صورت میں لفظ کے موجب کے حکم میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اس لئے کہ ان دونوں صورتوں میں تیمم کا وجوب ہوتا ہے جس کا ذکر آیت میں آیا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ تیمم تو ایک بدل اور متبادل صورت ہے اور اصل پانی کے ذریعے حاصل ہونے والی طہارت ہے۔ اب یہ بات محال ہے کہ بدل یعنی تیمم کا ایجاب اصل یعنی پانی کے ذریعے حاصل ہونے والی طہارت کے وجوب کے بغیر کردیا جائے۔ اس لئے یہ کسی طرح درست نہیں ہوسکتا کہ آیت میں مذکور لمس ایک حالت میں تو وضو کا موجب بن جائے اور دوسری حالت میں غسل کا۔ نیز اگرچہ تیمم کی ادائیگی کی صورت ایک ہوتی ہے لیکن اس کا حکم مختلف ہوتا ہے اس لئے کہ ایک تیمم تو پورے جسم کو دھونے کے قائم مقام ہوتا ہے جبکہ دوسرا تیمم بعض اعضاء کے دھونے کے قائم مقام بنتا ہے پہلی صورت جنابت کے اندر تیمم کی ہے اور دوسری صورت حدث کے اندر تیمم کی ہے۔ اس لئے یہ جائز نہیں کہ ایک ہی لفظ دونوں معنوں پر مشتمل تسلیم کرلیا جائے۔ جب لفظ ان دونوں میں سے ایک معنی کا موجب مان لیا جائے تو گویا اللہ تعالیٰ نے اس لفظ کے ذریعے اس معنی پر نص کردیا اور گویا یہ فرمادیا کہ لمس جماع ہے اس لئے اب اس لفظ کے مفہوم میں لمس بالید داخل نہیں ہوسکے گا۔ ایک اور وجہ سے بھی یہ دلالت ہورہی ہے کہ آیت سے دونوں معنی مراد نہیں ہوسکتے وہ یہ کہ اگر لمس سے ہمبستری مراد لی جائے تو یہ لفظ اس مفہوم کے لئے کنایہ ہوگا اور اگر لمس بالید ہو تو یہ لفظ اس مفہوم کے لئے صریح ہوگا۔ حضرت علی ؓ اور حضرت ابن عباس ؓ سے بھی اسی طرح کی روایت ہے کہ ان دونوں حضرات نے فرمایا : ” لمس جماع ہے لیکن کنایہ کی صورت میں ہے “ یہ بات تو کسی صورت میں بھی درست نہیں ہوسکتی کہ ایک حالت میں ایک لفظ کنایہ بھی ہو اور صریح بھی۔ ایک اور جہت سے بھی اس میں امتناع ہے وہ یہ کہ جماع مجاز اور لمس بالید حقیقت ہے یہ بات کسی صورت میں بھی درست نہیں ہوسکتی کہ ایک ہی حالت میں ایک لفظ حقیقت بھی ہوجائے اور مجاز بھی۔ اگر یہ کہاجائے کہ لمس کے اندرعموم کیوں نہ لے لیا جائے۔ اس لئے کہ جماع کے اندر بھی لمس ہوتا ہے۔ اس طرح یہ لفظ دونوں معنوں یعنی لمس بالید اور جماع کے لئے حقیقت بن جائے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات کئی وجوہ سے ممتنع ہے : ایک وجہ تو یہ ہے کہ حضرت علی ؓ اور حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ لمس کا لفظ جماع سے کنایہ ہے۔ یہ دونوں حضرات اس قائل سے بڑھ کر لغت کا علم رکھنے والے تھے۔ اس لئے قائل کا یہ قول باطل ہوگیا کہ یہ لفظ ان دونوں معنوں کے لئے صریح ہے۔ دوسری وجہ وہ ہے جو گزشتہ سطور میں ہم نے بیان کی ہے کہ ایک ہی عموم کا اپنے تحت آنے والی کس صورت کے متعق دو مختلف حکموں کا مقتضی ہونا ممتنع ہے۔ ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ اگر لمس سے جسمانی طور پر مس کرنا مراد ہو تو عورت کو مس کرتے ہی جماع سے پہلے نقض طہارت وقوع پذیر ہوجاتا ہے اور آیت میں مذکورہ تیمم واجب ہوجاتا ہے۔ اس لئے کہ عورت کے جسم کو مس کرنے سے پہلے جماع کا وقوع پذیر ہونا محال ہوتا ہے اس صورت میں جماع آیت میں مذکورہ تیمم کا موجب نہیں بنے گا کیونکہ یہ تیمم تو جماع سے پہلے عورت کے جسم کو مس کرنے کی بنا پر واجب ہوچکا ہے۔ ملامست سے جماع مراد ہے لمس بالید (a) نہیں اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ ارشاد باری ہے (اذا قمتم الی الصلوٰۃ فاغسلوا وجوھکم) (a) تاقول باری (وان کنتم جنبا فاطھروا) (a) اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے پانی کے وجود کی صورت میں حدث کا بیان فرمادیا۔ پھر اس پر (وان کنتم مرضی اوعلی سفر) (a) تاقول باری (فتیممو صعیداً طیباً ) (a) کا عطف کیا اور پانی کی غیر موجودگی میں حدث کے حکم کے ذکر کا اعادہ کیا۔ اس سے یہ بات واجب ہوگئی کہ قول باری (اولمستم النسآء) (a) کو جماع پر محمول کیا جائے تاکہ آیت حدث کی دونوں صورتوں پر مشتمل ہوجائے اور پانی کی موجودگی اور غیر موجودگی کی صورتوں میں ان دونوں کا حکم بیان ہوجائے۔ اگر آیت سے لمس بالید (a) مراد لے لیا جائے تو پھر تیمم کا ذکر صرف حدث کی حد تک محدود رہے گا۔ جنابت کی صورت اس میں داخل نہیں ہوگی۔ نیز پانی کی غیر موجودگی میں جنایت کا حکم نہیں معلوم ہوسکے گا۔ اس لئے آیت کو دو فائدوں پر محمول کرنا اسے صرف ایک فائدے تک محدود کردینے سے بہتر ہے جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ ملامست سے جماع مراد ہے تو اس سے لمس بالید (a) مراد لینا منتقی ہوگیا جیسا کہ ہم نے واضح کردیا ہے کہ ایک ہی لفظ سے یہ دونوں معنی مراد لینا ممتنع ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ملامست کو لمس بالید پر محمول کرنے کی صورت میں یہ بات معلوم ہوجائے گی کہ لمس حدث ہے لیکن اگر ملامست کو جماع کے معنوں تک محدود کردیا جائے تو یہ بات معلوم نہیں ہوسکے گی۔ اس لئے درج بالا سطور میں آپ کے بیان کردہ اصول کے مطابق کہ آیت کو دو فائدوں پر محمول کرنا اولیٰ ہے۔ ملامست کو دونوں معنوں پر محمول کرنا واجب ہے۔ اس سے یہ بات معلوم ہوجائے گی کہ لمس حدث ہے اور یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ جنبی کے تیمم کرلیناجائز ہے۔ اگر اس لفظ کو دونوں معنوں پر محمول کرنا اس وجہ سے جائز نہیں کہ سلف کا اس پر اتفاق ہے کہ دونوں معنی مراد نہیں ہیں اور ایک لفظ کا بیک وقت حقیقت اور مجاز ہونا یاکنایہ اور صریح ہونا ممتنع ہے تو لفظ کو لمس بالید (a) پر محمول کرکے نیز اسے اس کے حقیقی معنوں میں استعمال کرکے ایک نئے فائدے کے اثبات کے ذریعے ہم آپ کے ہم پلہ ہوگئے ہیں۔ اب ذرا یہ بتائیں کہ جنبی کے لئے تیمم کی اباحت کے ذریعے جس فائدے کا اثبات آپ نے کیا ہے وہ کس طرح اس شخص کے ثابت کردہ فائدے سے بڑھ کر ہوگیا جو اس نے لمس بالید (a) کو حدث ثابت کرکے کیا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ قول باری (اذا قمتم الی الصلوٰۃ) (a) پانی کی موجودگی میں حدث کی صورتوں کا حکم بیان کرتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ جنابت کے حکم پر یہ نص بھی ہے۔ اس لئے بہتر صورت یہ ہے کہ قول باری (اوجآء احد منکم من الغائط) (a) تا قول باری (اولمستم النسآء) (a) کے سلسلہ ترتیب میں جو بات کہی گئی ہے وہ پانی کی غیر موجودگی میں حدث اور جنابت دونوں کے حکم کا بیان بن جائے جس طرف اس آیت کی ابتدا میں پانی کی موجودگی کی صورت میں حدث اور جنابت دونوں کے حکم کو بیان کردیا گیا ہے۔ آیت کا موضوع حدث کی تفصیلات بیان نہیں کرتا ہے اس کا موضوع تو حدث کی صورتوں کے احکام بیان کرنا ہے۔ اگر آپ لمس کو حدث کے بیان پر محمول کریں گے تو آپ سے اس کے مقتضیٰ اور اس کے ظاہر سے ہٹادیں گے۔ اسی بنا پر جو ہم نے بیان کیا وہ معترض کی بیان کردہ تاویل سے بہتر ہے۔ ایک اور وجہ بھی ہے وہ یہ کہ اگر لمس کو جماع کے معنوں میں محمول کیا جائے تو اس سے دو باتیں معلوم ہوں گی اول، پانی کی عدم موجودگی میں جنبی کے لئے تیمم کی اباحت۔ دوم۔ مرد اور عورت کی شرمگاہوں کا ایک دوسرے سے مل جانا غسل کا موجب ہے خواہ انزال نہ بھی ہوا ہو۔ اس لئے آیت کو ایک ہی فائدے تک محدود رکھنے کی بجائے اسے جمعاع پر محمول کرنا اولیٰ ہے۔ وہ ایک ہی فائدہ یہ ہے کہ لمس حدث ہے۔ آیت کے جو معنی ہم نے بیان کئے ہیں اس کے حق میں ایک اور دلیل یہ ہے کہ آیت کی دو طرح سے قرات کی گئی ہے۔ ” لامستم “ (a) اور ” لمستم “ (a) پہلی قرأت کی بنا پر تو اس کے ظاہر سے مراد لامحالہ ہمبستری ہے دوسرا کوئی مفہوم نہیں اس لئے کہ باب مفاعلہ کے صیغے میں بیان کردہ فعل کے لئے دو شخصوں کا ہونا ضروری ہے۔ البتہ چند صورتیں اس سے مستثنیٰ ہیں مثلاً یہ قول ” فاتللہ اللہ “ (a) یا ” جازاہ اللہ “ (a) ” عافاہ اللہ “ (a) وغیرہ (اللہ اس سے جنگ کرے، یا اللہ اسے بدلہ دے یا اللہ اسے عافیت دے وغیرہ وغیرہ) یہ گنتی کے چند فقرے ہیں ان پر دوسرے فقروں کو قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ مفاعلہ کی اصل یہ ہے کہ وہ دو کے درمیان سرانجام پاتا ہے مثلاً یہ قول ” قاتلہ “ (a) یا ” ضاربہ “ (a) یا ” سالمہ “ (a) یا ” صالحہ “ (a) وغیرہ جب لفظ کی حقیقت یہ ہو تو جماع پر اسے محمول کرنا واجب ہوگا جو مرد اور عورت کے درمیان سر انجام پاتا ہے۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ آپ کسی شخص یا کپڑے وغیرہ کو ہاتھ لگائیں تو آپ یہ نہیں کہیں گے ” لامست الرجل “ (a) یا ” لامست الثوب “ (a) اس لئے کہ لمس کا یہ فعل آپ نے یک طرفہ طور پر سرانجام دیا ہے۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ قول باری (اولامستم) (a) کے معنی ہیں ” اوجامعتم النساء “ (a) (یا تم نے عورتوں سے ہمبستری کی ہو) اس بنا پر اس لفظ کے حقیقی معنی جماع کے ہوں گے۔ جب یہ بات درست ہوگئی اور اس کے ساتھ (اولمستم) (a) کی قرأت میں لمس بالید (a) اور جماع دونوں کا احتمال ہے تو اس صورت میں اسے اس تاویل پر محمول کرنا واجب ہوگا جس میں صرف ایک معنی کا احتمال پایا جاتا ہو۔ اس لئے کہ جس لفظ میں صرف ایک معنی کا احتمال ہوتا ہے وہ محکم کہلاتا ہے اور جس میں دو معنوں کا احتمال ہوتا ہے وہ متشابہ کہلاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ ہم متشابہ کو محکم پر محمول کریں اور اسے محکم کی طرف لوٹائیں۔ چناچہ ارشاد باری ہے (ھو الذی انزل علیک الکتاب منہ ایات محکمات ھن ام الکتاب واخر متشابھات) (a) اللہ کی ذات نے آپ پر کتاب نازل کی ہے اس میں محکم آیات ہیں جو کتاب کی اصل ہیں اور کچھ متشابہ آیات بھی ہیں) تاآخر آیت (جب اللہ تعالیٰ نے محکم کو متشابہ کی بنیاد قرار دیا تو گویا اس نے متشابہ کو محکم پر محمول کرنے کا حکم دے دیا اور اس شخص کی مذمت فرمائی جو متشابہ کی اس طرح پیروی کرتا ہے کہ اسے محکم کی طرف لوٹائے بغیر خود اس کے حکم پر اقتصار کرلیتا ہے۔ چناچہ ارشاد ہو (فاما الذین فی قلوبھم زیغ فیتبعون ماتشابہ منہ، (a) لیکن وہ لوگ جن کے دلوں میں کجی ہے وہ ان آیات کی پیروی کرتے ہیں جو متشابہات ہیں) اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ قول باری (اولمستم) (a) جب دومعنوں کا احتمال رکھتا ہے تو یہ متشابہ ہے اور قول باری (اولامستم) (a) زبان کے لحاظ سے ایک معنی تک محدود ہونے کی بنا پر محکم ہے اس لئے متشابہ کے معنی کا اس پر مبنی ہونا واجب قرار پایا۔ اگر یہ کہا جائے کہ آیت کی دو قرأت ہیں جن کا آپ نے ذکر کیا۔ ایک قرأت صرف ایک معنی کا احتمال رکھتی ہے وہ (اولامستم) (a) کی قرأت ہے جبکہ دوسری لمس بالید اور جماع دونوں کا احتمال رکھتی ہے تو اس سے یہ ضروری ہوگیا کہ ہم دونوں قرأتوں کو دو آیتیں قرار دیں اس لئے کہ ایک میں جماع سے کنایہ ہے ہم اسے جماع کے معنوں میں استعمال کریں۔ اور صرف لمس بالید کے لئے صریح ہے اس لئے ہم اسے صرف لمس بالید کے معنوں میں استعمال کریں اور اس سے جماع مراد نہ لیں۔ اور اس طرح دونوں لفظوں میں سے ہر ایک اپنے اپنے مقتضیٰ یعنی کنایہ اور صریح میں استعمال ہوگا کیونکہ ایک لفظ ایک ہی حالت میں حقیقت اور مجاز یا صریح اور کنایہ میں استعمال نہیں ہوتا اس کے ساتھ یہ بھی ہوگا کہ گویا ہم نے دونوں قرأتوں کے حکم کو دو فائدوں کے لئے استعمال کیا اور دونوں قرأتوں کو صرف ایک فائدے تک محدود نہیں رکھا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ایسا کرنا جائز نہیں ہے اس لئیح سلف جو صدر اول سے ہی آیت کی مراد میں اختلاف رائے رکھتے ہیں انہیں ان دونوں قرأتوں کا علم تھا کیونکہ ایک لفظ کی دو قرأت اسی وقت ہوتی ہیں جب ان کے متعلق حضور ﷺ کی طرف سے صحابہ کرام کو ہدایت دی گئی ہو۔ جب صحابہ کرام ان دونوں قرأتوں سے واقف تھے لیکن انہوں نے ان دونوں کے سلسلے میں اس تاویل کا اعتبار نہیں کیا جس کا معترض نے اعتبار کیا ہے۔ اور جو حضرات لمس کی بنا پر وضو کے ایجاب کے قائل ہیں انہوں نے بھی ان دونوں ق راتوں سے استدلال نہیں کیا تو ہمیں اس سے معترض کے قول کے بطلان کا علم ہوگیا۔ علاوہ ازیں ان حضرات نے ان دونوں ق راتوں کو دو معنوں پر محمول بھی نہیں کیا بلکہ اس پر اتفاق کیا کہ اس لفظ سے دو معنوں میں سے ایک مراد ہے اور ان دونوں معنوں یعنی جماع اور لمس بالید کے متعلق اختلاف رائے رکھنے والے حضرات میں سے ہر گروہ نے اسے اس معنی پر محمول کیا جو دوسرے گروہ کے محمول کئے ہوئے معنی سے مختلف تھا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ یہ دونوں قرأتیں چاہے جس صورت سے بھی وارد ہوئی ہیں ان دونوں معنوں کے مجموعے کی مقتضی نہیں ہیں اور نہ ہی ان میں سے ہر قرأت انفرادی طور پر دونوں باتوں کی مقتضی ہے۔ ان حضرات نے ان دونوں قرأتوں کو دو آیتیں قرار نہیں دیں کہ اس کی بنا پر ہر آیت کو اس کے بالمقابل معنی میں استعمال کرنا واجب ہوجائے نیز اسے اس کے مقتضیٰ اور موجب پر محمول کرنا ضروری قرار دیا جائے۔ ابو الحسن کرخی اس کا ایک اور جواب دیا کرتے تھے وہ یہ کہ دو قرأتوں کی صورت دو آیتوں کی صورت سے مختلف ہوتی ہے اس لئے کہ دو قرأتوں کا حکم ایک ہی حالت میں لازم نہیں ہوتا بلکہ اس وقت لازم ہوتا ہے جب ایک قرأت دوسری قرأت کے قام مقام بنادی جائے۔ اگر ہم ان دونوں قرأتوں کو دو آیتیں قرار دے دیں تو پھر تلاوت کے اندر ان دونوں کو جمع کردینا… نیز مصحب اور تعلیم کے اندر ان دونوں کو اکٹھا کردینا واجب ہوگا اس لئے کہ دوسری قرأت بھی قرآن کا ایک حصہ ہوگی اور قرآن کے کسی حصے کو ساقط کردینا جائز نہیں ہوتا اور اس سے یہ بھی لازم آئے گا کہ صرف ایک قرأت پر اقتصار کرنے والا پورے قرآن پر اقتصار کرنے والا نہیں کہلائے گا بلکہ وہ قرآن کے بعض حصوں پر اقتصار کرنے والا بن جائے گا۔ اس سے یہ بھی لازم آئے گا کہ مصاحف میں پورا قرآن جمع نہیں ہے۔ یہ سب باتیں اس صورت حال کے خلاف ہیں جسے تمام اہل اسلام اپنائے ہوئے ہیں اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ دو قرأتیں حکم کے لحاظ سے دو آیتیں نہیں ہوتیں بلکہ ان کی اس لحاظ سے قرأت کی جاتی ہے کہ ایک کو دوسری کے قائم مقام سمجھا جاتا ہے ان کی اس لحاظ سے قرأت نہیں کی جاتی کہ ان کے احکام کو بھی جمع کردیا جاتا ہے۔ بلکہ جس طرح ان دونوں قرأتوں کو جمع نہیں کیا اور مصحف میں انہیں ایک ساتھ لکھا نہیں جاتا۔ اسی طرح ان کے احکام کو بھی یکجا نہیں کیا جاتا۔ لمس حدث نہیں ہے اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ جو چیز حدث ہوتی ہے اس کے حکم میں مردوں اور عورتوں کے درمیان فرق نہیں ہوتا۔ اگر کوئی عورت کسی عورت کو ہاتھ لگادے تو یہ حدث نہیں ہوگا۔ اس طرح اگر کوئی مرد کسی مرد کو ہاتھ لگادے تو یہ حدث نہیں ہوگا۔ اس بنا پر اگر کوئی مرد کسی عورت کو ہاتھ لگادے تو اسے بھی حدث نہیں ہونا چاہیے۔ ہماری اس بات پر دو وجوہ سے دلالت ہورہی ہے۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہم نے یہ دیکھ لیا ہے کہ حدث کی صورتوں میں مردوں اور عورتوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہوتا۔ ایک چیز جو مرد کے لئے حدث ہوتی ہے وہ عورت کے لئے بھی حدث ہوتی ہے اس طرح جو چیز عورت کے لئے حدث ہوتی ہے وہ مرد کے لئے بھی حدث ہوتی ہے۔ اس لئے جو شخص اس لحاظ سے مرد اور عورت کے درمیان فرق کرے گا اس کا قول خارج عن الاصول ہوگا۔ ایک اور جہت سے اسے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ اگر عورت، عورت کو ہاتھ لگائے یا مرد مرد کو چھوئے تو اس کے حدث نہ ہونے کی علت یہ ہے کہ یہ مباشرت تو ہے یعنی ایک کے جسم کا دوسرے کے جسم کے ساتھ لگنا تو پایا گیا اس میں جماع موجود نہیں ہے۔ اس لئے مرد کا عورت کو ہاتھ لگانے کی صورت میں اس علت کی بنا پر حدث لاحق نہ ہونے کا حکم لگنا چاہیے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اما ابوحنیفہ نے اس صورت میں وضو واجب کردیا ہے جب کوئی شخص اپنی بیوی سے برہنہ ہم آغوش ہوجائے جس کے نتیجے میں عضو تناسل میں انتصاب کی کیفیت پیدا ہوجائے۔ ظاہر ہے عورت کو ہاتھ سے چھونے اور اپنے جسم سے چھونے کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ امام ابوحنیفہ نے اس صورت میں صرف ہم آغوشی اور مباشرت کی بنا پر وضو واجب نہیں کیا بلکہ اس وقت وضو واجب کیا جب مرد اور عورت دونوں کی شرمگاہیں ایک دوسرے سے مل جائیں لیکن دخول نہ ہو۔ امام محمد نے امام ابوحنیفہ سے یہی روایت کی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان جب جنسی جذبات کے اس مرحلے پر پہنچ جاتا ہے تو اس کے عضو تناسل سے کوئی نہ کوئی چیز مذی یا ودی وغیرہ کی شکل میں خارج ہو ہی جاتی ہے۔ اگرچہ اسے جنسی طلاطم میں تھپیڑے کھاتے ہوئے اس کا احساس تک بھی نہیں ہوتا۔ اسی لئے امام ابوحنیفہ نے احتیاطاً اس پر وضو واجب کردیا اور اس کیفیت پر حدث کا حکم لادیا جس طرح نیند کے اندر اکثر احوال میں حدث لاحق ہو ہی جاتا ہے اس لئے نیند پر حدث کا حکم عائد کردیا گیا اس لئے درج بالا کیفیت اور صورت میں امام ابوحنیفہ کی طرف سے وضو کا ایجاب عورت کو ہاتھ لگانے کی بنا پر نہیں کیا گیا۔ واللہ اعلم۔ پانی موجود نہ ہونے کی صورت میں تیمم کا وجوب قول باری ہے (فلم تجدوا مآء فتیمموا صعیداً طیباً ، (a) اگر تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کرلو) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ پانی کے وجود کی شرط ایک مختلف فیہ بات ہے البتہ ہمارے اصحاب کا جس چیز پر اتفاق ہے وہ یہ ہے کہ پانی کے وجود کا مفہوم اس کی اس مقدار کا استعمال ہے جو اس کی طہارت یعنی وضو کے لئے کافی ہو اور اسے کسی نقصان کا اندیشہ بھی نہ ہو۔ اس لئے اگر اس کے پاس پانی موجود ہو لیکن اسے پیاس کا اندیشہ لاحق ہو یا اسے کثیر رقم خرچ کرنے پر پانی دستیاب ہوتا ہو تو ان صورتوں میں وہ تیمم کرے گا۔ اس پر یہ لازم نہیں ہے کہ پانی کی دستیابی پر کثیر رقم صرف کردے۔ البتہ اگر اسے پانی اس قیمت پر مل جائے جس ضر ضرورت کے بغیر فروخت ہورہا ہو تو پھر اسے خریدلے لیکن اگر اس کی قیمت اس سے زیادہ ہو تو نہ خریدے۔ ہمارے تمام اصحاب نے پانی کے وجود کی یہ شرط مقرر کی ہے کہ اس کی مقدار اتنی ہو کہ اس سے پورا وضو ہوسکتا ہو۔ اگر اسے یہ علم ہو کہ کجادے میں پانی موجود ہے تو آیا یہ اس کے وجود کی شرط ہے یا نہیں اس بارے میں اختلاف رائے ہے ہم عنقریب اس پر روشنی ڈالیں گے۔ پانی کی تلاش کے وجوب میں بھی اختلاف رائے ہے اور آیا ایک شخص پانی تلاش کرلینے سے پہلے پانی نہ پانے والا قرار دیا جاسکتا ہے ؟ ہم نے جو یہ کہا ہے کہ اگر ایک شخص کے پاس پانی ہو لیکن اسے ڈرہو کہ اس پانی کے استعمال کے بعد اسے پیاس کا سامنا کرنا پڑے گا تو ایسا شخص پانی نہ پانے والا شمار ہوگا جس کے ذریعے اللہ کی طرف سے اس پر وضو فرض کیا گیا ہے۔ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ جب اسے پانی استعمال کرنے کی بنا پر ضرر کا اندیشہ لاحق ہوجائے گا تو وہ وضو چھوڑ کر تیمم کرنے میں معذور سمجھا جائے گا جس طرح مریض کے معذور سمجھا جاتا ہے۔ قول باری ہے (مایرید اللہ لیجعل علیکم من حرج ولکن یرید لیطھرکم، (a) اللہ تعالیٰ تمہارے لئے کوئی تنگی پیدا نہیں کرنا چاہتا وہ تو تمہیں پاک کرنا چاہتا ہے) ۔ اللہ تعالیٰ نے حرج یعنی تنگی کی نفی کردی اگر پیاس کا خدشہ لاحق ہو تو اس صوت میں پانی کے استعمال کے حکم دینا اس شخص کے لئے سخت ترین تنگی پیدا کردینے کے مترادف ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے تنگی کی مطلقاً نفی کردی ہے۔ نیز یہ بھی فرمایا (یرید اللہ بکم الیسو ولا یریدبکم العسر، (a) اللہ تعالیٰ تمہارے لئے آسانی پیدا کرنا چاہتا ہے تنگی اور مشکلات پیدا کنا نہیں چاہتا۔ یہ تو عسر یعنی تنگی اور سختی کی ایک صورت ہے کہ پانی استعمال کرے جس کے نتیجے میں اسے ضرر پہنچنے یا جان جانے کا اندیشہ ہو۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر کوئی شخص پانی پینے پر مجبور ہوجائے اور اوپر سے نماز کا وقت آجائے اور اس کے پاس وضو کرنے کے لئے اس کے سوا اور کوئی پانی نہ ہو تو وہ اس پانی کو پی لینے اور وضو کے لئے استعمال نہ کرنے کا پابند ہوگا۔ اسی طرح اگر نئے سرے سے پانی استعمال کرنے پر اسے پیاس کا خدشہ ہو تو اس کا بھی یہی حکم ہوگا۔ حضرت علی ؓ ، حضرت ابن عباس ؓ حسن اور عطاء سے اس شخص کے بارے میں یہی قول منقول ہے۔ جسے پیاس کا خدشہ لاحق ہو۔ ہم نے جو یہ شرط لگائی ہے کہ اگر اسے پانی قیمت دے کر دستیاب ہو لیکن وہ قیمت اسی سطح کی ہو جس پر ضرورت کے بغیر پانی فروخت ہوتا ہو تو پھر وضو کے لئے اسے خرید سکتا ہے ورنہ نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ پانی کی عام قیمت سے جو زائد رقم وہ خرچ کرے گا اسے وضو کی خاطر تلف کرنے کا کوئی استحقاق حاصل نہیں ہوگا کیونکہ اس کے بالمقابل کوئی بدل حاصل نہیں ہوگا اس طرح وہ اپنا مال ضائع کرنے کا مرتکب قرار پائے گا۔ مثلاً ایک شخص ایک درہم کو دس درہم میں خریدتا ہے تو وہ اپنے نودرہم ضائع کرنے والاشمار ہوگا۔ جبکہ حضور ﷺ نے مال ضائع کرنے سے منع فرمایا ہے۔ پانی کی عدم موجودگی میں نجس کپڑے کو کاٹنا نہیں چاہیے اگر کسی شخص کے کپڑے پر نجاست لگی ہو جسے دور کرنے کے لئے اس کے پاس پانی نہ ہو تو نماز کی خاطر اس جگہ سے کپڑا کاٹ کر علیحدہ کرنا اس پر لازم نہیں ہوگا بلکہ اسے اجازت ہوگی کہ اس نجاست کے ساتھ نماز ادا کرلے کیونکہ نجاست کی جگہ سے کپڑا کاٹ کر علیحدہ کرلینے میں اسے نقصان پہنچے گا۔ یہی صورت مہنگے داموں وضو کے لئے پانی خریدنے کی ہے۔ البتہ اگر اسے عام قیمت پر پانی مل رہا ہو تو پھر اس کے لئے پانی خرید کر وضو کرنا ضروری ہوگا۔ تیمم کرنا جائز نہیں ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عام قیمت پر پانی خریدنے کی صورت میں مال کا کوئی ضیاع نہیں ہوگا۔ اس لئے کہ جو دام وہ لگائے گا اس کے بدل کے طور پر ایک چیز اس کی ملکیت میں آجائے گی یعنی وہ پانی جو وہ پیسے دے کر خرید رہا ہے اس لئے اس پر لازم ہوگا کہ اس قیمت پر پانی خرید کر اس سے وضو کرلے۔ اگر کسی کے پاس اتنا پانی ہو جو اس کے وضو کے لئے کافی نہ ہو تو اس بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ ہمارے تمام اصحاب کا قول ہے کہ اس صورت میں وہ تیمم کرے گا اور اس پر اس پانی کا استعمال ضروری نہیں ہوگا اسی طرح اگر وہ جنابت کی حالت میں ہو اور اس کے پاس صرف وضو کرنے کی مقدار پانی ہو اور غسل کے لئے یہ کفایت نہ کرتا ہو تو اس صورت میں بھی وہ تیمم کرے گا۔ امام مالک اور اوزاعی کا قول ہے کہ جنبی اس پانی کو شروع میں استعمال نہیں کرے گا بلکہ تیمم کرے گا لیکن اس کے بعد اگر اسے حدث لاحق ہوجائے اور اس کے پاس وضو کی مقدار پانی موجود ہو تو بھی تیمم کرے گا۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اس صورت میں وہ اس موجود پانی سے وضو کرے گا جب تک اسے اس مقدار میں پانی نہ ملے جو اس کے غسل کے لئے کافی ہو۔ امام شافعی کا قول ہے اس پر اتنے اعضاء کا دھونا لازم ہوگا جتنے اعضاء کو وہ اپنے پاس موجود پانی سے دھو سکتا ہو پھر وہ تیمم بھی کرے گا۔ اس کے سوا اور کوئی صورت اس کے لئے جائز نہیں ہوگی۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ قول باری ہے (اذا قمتم الی الصلوٰۃ فاغسلوا وجوھکم) (a) تا قول باری (فلم تجدو ما فتیمموا صعیداً طیباً ) (a) یہ آیت دو باتوں میں سے ایک کے وجوب کی مقتضی ہے۔ وضو کا وجوب جب پانی موجود ہو یا مٹی کا وجوب جب پانی موجود نہ ہو اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے تیمم کو اسی شرط کے ساتھ واجب ٹھہرایا ہے۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ ایسے شخص پر تیمم کرنا فرض ہے اور اس کی نماز تیمم کے بغیر درست نہیں ہوگی۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ پانی وہ پانی نہیں ہے جس کے ساتھ طہارت حاصل کرنا فرض قرار دیا گیا ہے اس لئے کہ اگر ایسا پانی موجود ہوتا تو پھر نماز کی صحت تیمم کے فعل کی ادائیگی پر موقوف نہ کردی جاتی۔ اگریہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (فلم تجدوا مآء) (a) اس کے ذریعے پانی کی عدم موجودگی میں تیمم کی اباحت کردی لیکن آیت میں پانی کو اسم نکرہ کی صورت میں ذکر کیا جس کی بنا پر یہ لفظ پانی کے ہر جز کو شامل ہوگا خواہ وہ وضو کے لئے کافی ہو یا نا کافی ہو اس لئے اتنی مقدار میں جو وضو کے لئے ناکافی ہو پانی کی موجودگی کی صورت میں تیمم کرنا جائز نہیں ہوگا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس تاویل کے فساد کی دلیل یہ ہے کہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ ایسے شخص پر تیمم کرنا فرض ہے خواہ وہ پانی استعمال کیوں نہ کرلے اگر آیت کی رو سے اس مقدار پانی کے استعمال کا وہ پابند ہوتا تو اس کے ساتھ اس پر تیمم کرنا لازم نہ ہوتا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر تیمم کرنا اس صورت میں واجب قرار دیا ہے جب اس مقدار میں پانی موجود نہ ہو جس کے ذریعے اس کی نماز درست ہوسکتی ہے۔ اگر یہ کہاجائے کہ ہم بھی ایسے شخص کے تیمم کو صرف اسی صورت میں جائز قرار دیتے ہیں جب پانی استعمال کرلینے کے بعد اس کے پاس پانی باقی نہ بچے، ایسی صورت میں وہ تیمم کرے گا اس کے جواب میں کہا جائے گا اگر یہ بات اس طرح ہوتی جس طرح معترض نے بیان کیا ہے تو وہ شخص اپنے پاس موجود پانی استعمال کرکے تیمم سے بےپروا ہوجاتا اور اسے تیمم کرنے کی ضرورت باقی نہ رہتی۔ جب سب کا اس پر اتفاق ہے کہ اس پانی کے استعمال کے بعد اس پر تیمم کرنا لازم ہے تو اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اس کے پاس جو ناکافی پانی موجود ہے یہ وہ پانی نہیں ہے جس کے ذریعے اس پر وضو کرنا فرض کیا گیا ہے اور نہ ہی یہ پانی وہ ہے جس کی عدم موجودگی میں تیمم کی اباحت کی گئی ہے۔ نیز نماز کے جو از کے لئے اس پانی کا وجود اس کے عدم کی طرح ہوگیا تو اب اس کی حیثیت یہ ہوگئی کہ گویا یہ موجود ہی نہیں ہے اس لئے اس پانی کے مالک کے لئے تیمم جائز ہوگیا۔ نیز جب یہ جائز نہیں کہ ایک پیر تو دھولیا جائے اور دوسرے پیر پر پڑے ہوئے موزے پر مسح کر یا جائے تاکہ مسح دھونے کے عمل کا بدل بن جائے اس طرح غسل اور مسح کو جمع کرنا جائز نہیں ہے تو اس سے یہ بات واجب ہوگئی کہ اس علت کی بنا پر ایک شخص کے لئے بعض اعضا کو دھونا اور بعض کا تیمم کرلینا بھی جائزنہ ہو۔ نیز تیمم حدث کو دور نہیں کرتا جس طرح مسح پیروں پر سے حدث کو دور نہیں کرتا اسی لئے حدث کو رفع کرنے والی اور رفع نہ کرنے والی چی کو مسح میں یکجا کردینا درست قرار نہیں پاتا۔ ٹھیک اسی طرح اعضائے وضو کے اندر غسل اور تیمم کو اس بنا پر جمع کردینا درست نہیں ہے کہ یہ دونوں چیزیں وضو کے فرض میں دال ہیں۔ نیز تیمم تمام اعضاء کے دھونے کا بدل بنتا ہے اس لئے یہ جائز نہیں کہ تیمم بعض اعضاء میں بدل کے طور پر وقوع پذیر ہوجائے اور بعض اعضاء میں بدل کے طور پر وقوع پذیر نہ ہو۔ آپ نہیں دیکھتے کہ تیمم تو کبھی غسل کے قائم مقام ہوتا ہے اور کبھی وضو کے۔ علاوہ ازیں وہ ان اعضاء کے قائم مقام ہوتا ہے جن کا دھونا حدث کی بنا پر واجب ہوتا ہے اگر ہم ایک شخص پر ان اعضاء کو دھونا واجب کردیں جن کا دھوناممکن ہو اور اس کے ساتھ باقی ماندہ اعضاء کا تیمم لازم کردیں تو اس صورت میں تیمم یا تو بعض اعضاء کے غسل کا قائم مقام ہوگا یا تمام اعضاء کے دھونے کا قائم مقام قرار پائے گا۔ اگر تیمم ان اعضاء کے قائم مقام ہوجائے گا جو دھوئے نہ جاسکتے ہوں تو اس صورت میں بعض اعضاء کی طہارت کی صورت میں واقع ہوگا لیکن یہ ایک محالہ امر ہے اس لئے کہ تیمم میں تبعض نہیں ہوتا یعنی اس کے بعض حصوں کو بعض سے جدا نہیں کیا جاسکتا جب یہ صورت باطل ہوگئی تو صرف ایک صورت باقی رہ گئی وہ یہ کہ تیمم تمام اعضاء کے قائم مقام ہوتا ہے اس صورت میں بعض اعضاء کو دھونے والا اور بعض کا تیمم کرنے والا شخص دھوئے ہوئے اعضاء میں متوضی یعنی وضو کرنے والا اور تیمم دونوں قرار پائے گا جبکہ ایسا ہونا محال ہے اس لئے کہ دھوئے ہوئے عضو سے حدث تو دھونے کی بنا پر زائل ہوجاتا ہے اس لئے تیمم اس کے قائم مقام بن نہیں سکتا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ وجوب کے اندر غسل اور تیمم دونوں کا جمع ہونا جائز نہیں ہے علاوہ ازیں امام شافعی اس شخص کا اس پانی سے اپنا چہرہ اور دونوں بازو دھونا لازم کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ وہ ان دونوں اعضاء کا تیمم بھی کرے گا اس طرح تیمم ان دونوں اعضاء اور باقی ماندہ دو اعضاء کے قائم مقام ہوجائے گا۔ اس طرح امام شافعی نے چہرہ اور دونوں بازو میں دو طہارت لازم کردی ہے۔ ان دونوں دھوئے ہوئے اعضاء میں تیمم کس طرح طہارت بن جائے گا جبکہ طہارت بن کر بھی وہ رفع حدث نہیں کرسکتا اور تیمم کے وجود کے ساتھ حدث کا حکم باقی رہتا ہے اس لئے تیمم کا وقوع پذیر ہونا کیسے جائز ہوگا جبکہ وہ ان اعضاء سے بھی رفع حدث نہیں کرسکتا جن میں یہ وقوع پذیر ہوا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب آپ یہ بات کہیں گے تو آپ پر یہی اعتراض عائد ہوجائے گا۔ یہ بات اس صورت میں پیش آئے گی جبکہ ایک شخص ناکافی پانی سے بعض اعضاء دھولے گا اس لئے کہ اس صورت میں اس پر تیمم لازم آئے گا اور یہ تیمم پورے اعضاء وضو کی طہارت بن جائے گا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات ہم پر لازم نہیں آتی اس لئے کہ ہم پانی ناکافی ہونے کی صورت میں اس شخص پر اس کا استعمال واجب نہیں کرتے اس لئے اگر وہ شخص اس ناکافی پانی کو استعمال بھی کرلیتا ہے تو اس کا حکم ساقط ہوجائے گا جبکہ معترض اس کے استعمال کو واجب قرار دیتا ہے جس طرح ہم تمام اعضاء کے وضو کے لئے کافی پانی کی موجودگی میں اس پانی کا استعمال واجب قرار دیتے ہیں۔ معترض کے قول کی روشنی میں جو شخص اپنے اعضاء دھولے گا وہ گویا اس شخص کے حکم میں ہوجائے گا جس نے وضو کرلیا ہو اور اپنے وضو کی تکمیل بھی کرلی ہو۔ اس لئے اس صورت میں تیمم کا کسی عضو کے قائم مقام بننا جائز نہیں ہوگا۔ اگر معترض یہ کہے کہ آپ کے نزدیک بھی وضو اور تیمم دونوں کو یکجا کرنا درست ہے اور اس صورت میں یہ دونوں ایک دوسرے کے منافی بھی نہیں ہوتے یہ صورت اس شخص کو پیش آتی ہے جسے گدھے کا جو ٹھا پانی مل جائے اور اس کے سوا اس کے پاس اور کوئی پانی نہ ہو۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ وضو اور تیمم میں سے ایک چیز اس کے لئے طہارت بنے گی۔ دونوں چیزیں طہارت نہیں بنیں گی۔ اس لئے ہم نے یہ جائز قرار دیا ہے کہ وہ وضو اور تیمم میں سے جس چیز کے ساتھ ابتدا کرنا چاہے کرسکتا ہے۔ اس لئے کہ ہمارے نزدیک گدھے کے جو ٹھے پانی کے متعلق شک ہوتا ہے اس لئے شک کی بنا پر طہارت کی فرضیت ساقط نہیں ہوگی۔ اس لئے جب وہ ان دونوں چیزوں کو یکجا کرلے گا تو فرض ان میں سے ایک چیز ہوگی۔ جس طرح سب کا یہ قول ہے کہ اگر ایک شخص پانچ فرض نمازوں میں سے ایک کو اداکرنا بھول گیا ہو لیکن اسے یہ بھی معلوم نہ ہو کہ رہ جانے والی کون سی نماز ہے اس صورت میں وہ پانچوں نمازیں پڑھے گا تاکہ یقینی طور پر اس نماز کی ادائیگی ہوجائے جو اس سے رہ گئی تھی حالانکہ اس پر صرف ایک نماز لازم تھی پانچوں نمازیں لازم نہیں تھیں۔ یہی صورت زیر بحث مسئلے کے اندر بھی ہے جبکہ معترض کا خیال ہے کہ اس مسئلے کی صورت میں وضو اور تیمم دونوں فرض ہیں نیز جب تیمم پانی کا بدل ہے جس طرح روزہ غلام آزاد کرنے کا بدل ہے لیکن روزے اور غلام کے بعض حصوں کی آزادی کو یکجا کرنا جائز نہیں اسی طرح تیمم اور پانی کو یکجا کرنا جائز نہیں۔ اگر یہ کہاجائے کہ نابالغ لڑکی کو طلاق ہوجانے پر اس کی عدت مہینوں کے حساب سے ہوتی ہے اگر ان مہینوں کے اختتام سے پہلے اسے حیض آجائے تو عدت کے لئے حیض گزارنا واجب ہوگ۔ اسی طرح حیض والی عورت اور وہ سن ایاس کو پہنچ جائے تو پھر گزرے ہوئے حیض کے ساتھ باقی عدت مہینوں کے حساب سے گزارنا واجب ہوگا۔ اس طرح ان صورتوں میں حیض او مہینوں کے درمیان جمع لازم آگیا اور ان دونوں کو یکجا کردیا گیا اسی طرح وضو اور تیمم بھی یکجا ہوسکتے ہیں۔ اس کے جواب میں کہ جائے گا کہ عدت کے اختتام سے پہلے اگر معترض کی ذکر کردہ صورتیں پیش آجاتی ہیں تو پھر گزرا ہوا زمانہ عدت کے اندر شمار ہونے سے خارج ہوجاتا ہے جبکہ معترض دھوئے ہوئے اعضاء کو طہارت سے خارج نہیں کرتا۔ اس طرح تیمم کی صورت میں بھی معترض کا یہی رویہ ہے۔ اس بنا پر معترض کا اٹھایا ہوا نکتہ باطل ہوگیا اس مسئلے کی ایک اور دلیل بھی ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے (التراب طھور المسلم مالم یعبد الماء، (a) ایک مسلمان کو جب تک پانی نہ مل جائے اس وقت تک مٹی اس کے لئے طہارت کا ذریعہ ہے) ۔ حضور ﷺ کے ارشاد کا یہ حصہ (مالم یجد الماء) (a) دلالت کی بنیاد ہے۔ یہاں ’ الماء ‘ (a) میں الف لام داخل کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یا تو یہ ہے کہ یہ جنس ماء کے استغراق کے معنی دے رہا ہے یا یہ معہود کے معنی ادا کررہا ہے۔ اگر پہلی صورت مراد ہو تو عبارت کا مفہوم کچھ اس طرح ہوگا۔ ” مٹی طہارت کا ذریعہ بنی رہے گی جب تک وہ ساری دنیا کا پانی حاصل نہ کرلے گا “ اگر اس سے معہود اور متعین پانی نہیں ہے جس کی طرف کلام کا رخ پھیرا جاسکے سوائے اس پانی کے جس کے ذریعے طہارت یعنی وضو کی تکمیل ہوسکتی ہو۔ ہمارے اس مسئلے میں اس پانی کا وجود نہیں پایا گیا اس لئے ظاہر خبر کی روشنی میں تیمم جائز ہوگیا۔ کجاوے میں پانی کی موجودگی کا علم آیا پانی کے وجود کی شرط ہے یا نہیں ؟ اس بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ اور امام محمد کا قول ہے کہ اگر ایک شخص سفر کی حالت میں کجاوے کے اندر پانی رکھ کر بھول گیا ہو اور وہ تیمم کرکے نماز ادا کرلے تو نماز کی ادائیگی ہوجائے گی۔ اور نہ ہی وقت کے اندر اس نماز کا اعادہ کرے گا اور نہ اس کے بعد۔ امام مالک کا قول ہے کہ اگر وقت کے دوران اسے یاد آگیا تو وضو کرکے نماز کا اعادہ کرلے گا۔ لیکن وقت گزرجانے کے بعد اس کا اعادہ نہیں کرے گا امام ابو یوسف اور امام شافعی کا قول ہے کہ یاد آجانے پر وہ بہرصورت نماز کا اعادہ کرے گا۔ اس مسئلے کی بنیاد قول باری (فلم تجدوا مآء فتیمموا) (a) ہے۔ ناسی یعنی بھول جانے والا، بھولی ہوئی چیز کا واجد یعنی رکھنے اور پانے والا نہیں کہلائے گا۔ اس لئے کہ اس چیز کے استعمال تک رسائی کا اس کے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ اس لئے اس پانی کی حیثیت یہ ہوگئی کہ گویا نہ اس کے سامنے پانی موجود ہے اور نہ ہی اس کے کجاوے میں۔ نیز قول باری ہے (لا تواخذنا ان نسینا او اخطانا۔ (a) اے ہمارے رب ! اگر ہم بھول جائیں یا خطا کر بیٹھیں تو ہمارا مواخذہ نہ کر) یہ بات بھولی ہوئی چیز کے حکم کے سقوط کی مقتضی ہے۔ نیز قول باری ہے (فاغسلوا وجوھکم) (a) اور ظاہر ہے کہ یہ خطاب بھولے ہوئے انسان کی طرف متوجہ نہیں ہوسکتا اس لئے کہ بھولے ہوئے انسان کو مکلف قرار دینا درست نہیں ہوتا جب ایسا انسان اعضا دھونے کا پابند اور مکلف نہیں تو پھر وہ تیمم کرنے کا لامحالہ پابند ہے۔ کیونکہ امکان کی صورت میں دونوں چیزیں یعنی وضو اور تیمم اس سے ساقط نہیں ہوسکتیں۔ اس طرح اس کے لئے تیمم کا جواز ثابت ہوگیا۔ نیز فقہاء کا اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اگر ایک شخص کسی جنگل بیابان میں ہو اور وضو کے لئے پانی تلاش کرنے کے باوجود اسے پانی نہ ملے پھر وہ تیمم کرکے نماز پڑھ لے۔ اس کے بعد اسے کسی ڈھکے ہوئے کنویں کا علم ہوجائے تو اس صورت میں اس پر نماز کا اعادہ واجب نہیں ہوگا۔ پانی کے وجود کا حکم اس لحاظ سے مختلف نہیں ہوتا کہ وہ اس کی ملکیت میں ہو یا نہر میں جو یا کنویں ہیں۔ جب کنویں کے اندر پانی کے بارے میں اس کی ناواقفیت سے وجود کے حکم سے خارج کردیتی ہے تو اسی طرح کجاوے میں موجود پانی کے متعلق اس کی ناواقفیت اسے وجود کے حکم سے خارج کردے گی۔ اگر یہ کہا جائے کہ وضو کرنا یا نماز پڑھنا بھول جانا ان دونوں باتوں کے سقوط کا سبب نہیں بنتا اسی طرح پانی کے بارے میں بھول جانا پانی کے سقوط کا سبب نہیں بن سکتا، اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے۔ (دفع عن امتی الخطاء واللنسیان، (a) میری امت سے خطا اور نسیان کی بنا پر ہونے والی کوتاہیاں معاف کردی گئی ہیں) ظاہری طور پر اس کے سقوط کا مقتضی ہے۔ ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ جس شخص پر ہم نے یاد آجانے کی صورت میں وضویا نماز لازم کردی ہے وہ ایک اور فرض ہے جو پہلے فرض کے علاوہ ہے۔ پہلا فرض تو ساقط ہوگیا۔ ہم نے بھول جانے والے انسان پر نماز اور بھولے ہوئے وضو کی ادائیگی کسی اور دلالت کی بنا پر لازم کی ہے۔ ورنہ نسیان قضا کو بھی اس سے ساقط کردیتا اگر یہ دلالت موجود نہ ہوتی۔ نیز اکیلے نسیان کا فرض کے سقوط میں کوئی اثر نہیں ہوتا جب تک اس کے ساتھ کوئی اور سبب نہ مل جائے مثلاً سفر جو پانی کی غیر موجودگی کی حالت شمار ہوتا ہے۔ جب اس کے ساتھ نسیان بھی شامل ہوجائے تو یہ دونوں باتیں پانی کے حکم کے سقوط کے لئے عذر بن جائیں گی لیکن وضو یا قرأت یا نماز کا بھول جانا تو اس کے ساتھ کوئی اور سبب شامل نہیں ہوا کہ یہ دونوں مل کر ان فرائض کے سقوط کے لئے عذر بن سکیں۔ ایک اور جہت سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہم نے نسیان کو بدل کی طرف منتقل ہونے کے لئے عذر قرار دیا ہے، اصل فرض کے سقوط کے لئے عذر قرار نہیں دیا ہے۔ لیکن جن مسائل کا معترض نے ذکر کیا ہے ان میں اصل فرض کا اسقاط ہے بدل کی طرف انتقال نہیں ہے۔ اس لئے یہ دونوں باتیں ایک دوسرے سے مختلف ہوگئیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ اپنے کجاوے میں پانی رکھ کر بھول جانے والا پانی کو پانے والا سمجھا جائے تو اس کے جو ابمیں کہا جائے گا کہ پانی کا کجاوے میں موجود ہونا پانی کے وجود کا مفہوم ادا نہیں کرتا جبکہ اس کے استعمال تک رسانی کا امکان نہ ہو اور ساتھ ہی ساتھ کسی ضرر کے لاحق ہونے کا اندیشہ بھی نہ ہو۔ آپ نہیں دیکھتے کہ ایک شخص کے پاس اگر پانی موجود ہو لیکن اسے استعمال میں لے آنے کے بعد اسے پیاس کا سامنا کرنے کا اندیشہ ہو تو اس کے لئے تیمم جائز ہوجاتا ہے حالانکہ وہ پانی کا یعنی پانے والا ہوتا ہے۔ اس لئے ناسی یعنی بھول جانے والا انسان پانی کے وجود سے زیادہ دور ہوتا ہے اس لئے اس کے استعمال تک اس کی رسانی متعذر ہوتی ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ ایک شخص کے کجاوے میں پانی موجود ہو اور وہ کسی نہر کے کنارے کھڑا ہو تو اسے پانی کا پانے والا شمار کیا جائے گا اگرچہ وہ اس پانی کا مالک نہیں ہے۔ اسے پانی کا پانے والا اس لئے شمار کیا جائے گا کہ اس پانی کے استعمال تک اس کی رسائی ممکن ہے۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ پانی کے وجود کا مفہوم یہ ہے کہ کسی ضرر کے لاحق ہونے کے اندیشے کے بغیر اس پانی کے استعمال تک اس کی رسائی ممکن ہو۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر کسی شخص کے کجاوے میں پانی موجود ہو لیکن کوئی مانع اسے اس پانی سے روک دے تو ایسی صورت میں اس کے لئے تیمم جائز ہوجائے گا اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ پانی کے وجود کی وہی شرط ہے جس کا ہم نے ذکر کیا ہے یعنی اس کے استعمال تک کسی ضرر کے بغیر رسائی ممکن ہو۔ ملکیت کی اس میں شرط نہیں ہے۔ اگر یہ پوچھا جائے کہ اس شخص کے متعلق آپ کیا فتویٰ ہے جس کے کپڑے میں نجاست لگی ہو اور وہ کجاوے میں رکھے ہوئے پانی کو بھول گیا ہو، وہ کپڑے سے نجاست دور کئے بغیر اگر نماز پڑھ لے تو کیا اس کی نماز جائز ہوجائے گی۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا اس مسئلے کے متعلق ہمارے اصحاب سے کسی روایت کے محفوظ ہونے کے بارے میں ہمیں کوئی علم نہیں ہے۔ امام ابوحنیفہ کے قول کا قیاس یہ کہتا ہے کہ اس کی نماز ہوجائے گی۔ اسی طرح ابو الحسن کرخی کہا کرتے تھے کہ جو شخص اپنے کجاوے میں کپڑے رکھ کر بھول گیا ہو اور اس نے برہنہ جسم نماز ادا کرلی ہو تو اس کی نماز ہوجائے گی۔ اگر کسی شخص کے آس پاس پانی نہ ہو اور وہ پانی کی تلاش نہ کرے تو آیا یہ شخص پانی کا نہ پانے والا قرار دیا جائے گا ؟ اس بارے میں فقہا کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر اسے پانی ملنے کی توقع نہ ہو اور کسی نے اس کی رہنمائی بھی نہ کی ہو تو اس پر پانی کی تلاش واجب نہیں ہے اس لئے وہ تیمم کرے گا اور تیمم اس کے لئے کافی ہوجائے گا۔ امام شافعی کا قول ہے کہ اس پر پانی کی تلاش لازم ہے۔ اگر تلاش سے پہلے وہ تیمم کرلے گا ا تو اس کا تیمم جائز نہیں ہوگا۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر پانی ملنے کی پوری توقع ہو یا کسی بتانے والے نے اسے پانی کی جگہ کا پتہ بتادیا ہو اگر وہ جگہ ایک میل یا اس سے زائد فاصلے پر واقع ہو تو اس پر اس جگہ پہنچنا ضروری نہیں ہے اس لئے کہ وہاں جانے کی صورت میں اسے مشقت برداشت کرنے اور نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے وہاں جانے کی بنا پر وہ اپنے ساتھیوں سے بچھڑ جائے گا اور ان سے پیچھے رہ جائے گا اس کے ساتھی اس سے آگے نکل جائیں گے۔ اگر فاصلہ ایک میل سے کم ہوگا تو وہ وہاں پہنچ کر پانی سے وضو کرے گا بشرطیکہ چوروں یا درندوں کی وجہ سے اسے اپنی جان اور اپنے مال و متاع کے ضیاع کا خطرہ نہ ہو نیز ساتھیوں سے بچھڑ جانے کا اندیشہ بھی نہ ہو۔ ہمارے اصحاب نے ایسے شخص کے متعلق جو یہ کہا ہے کہ اس کے لئے تیمم جائز ہے اور پانی کی تلاش ضروری نہیں ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسا شخص در حقیقت پانی پانے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (فلم تجدوا ماء) (a) اور یہ شخص اس آیت کا مصداق ہے۔ اگر ہمارے مخالفین یہ کہیں کہ کوئی شخص پانی تلاش کرنے کے بعد ہی پانی نہ پانے والا قرار دیا جاسکتا ہے تو ان کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات غلط ہے اس لئے کہ وجود کا مفہوم تلاش کا مقتضی نہیں ہے قول باری ہے (فھل وجدتم ماوعد ربکم حقاً (a) کیا تم نے اس چیز کو سچ پالیا جس کا تمہارے رب نے تم سے وعدہ کیا تھا) اللہ تعالیٰ نے اس چیز پر وجود کے لفظ کا اطلاق کیا جس کی انہوں نے طلب اور تلاش نہیں کی تھی۔ اسی طرح حضور ﷺ کا ارشاد ہے (من وجد لقطۃ فلیشھد ذوی عدل (a) جس شخص کو کوئی گری پڑی چیز ملے اس پر دو عادل آدمیوں کو گواہ بنالے) اس ارشاد کی رو سے وہ شخص اس کا واجد قرار دیا گیا اگرچہ اس نے اس کی طلب اور تلاش نہیں کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے غلام آزاد کرنے کے سلسلے میں فرمایا (فمن لم یجد فصیام شھرین متتابعین (a) جس شخص کو غلام میسر نہ ہو وہ لگاتار دو مہینے روزے رکھے) اس کے معنی یہ ہیں کہ غلام اس کی ملکیت میں نہ ہو اور نہ ہی اس کی قیمت کی مقدار رقم کا وہ مالک ہو، یہ مفہوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر غلام کی تلاش اور طلب واجب کردی ہے۔ اس لئے جب وجود کا مفہوم طلب اور تلاش کے بغیر پایا جاتا ہے تو ایسا شخص جس کے ارد گرد پانی نہ ہو اور نہ ہی اسے اس کا علم ہو تو وہ پانی کا واجد یعنی پالینے والا قرار نہیں دیا جائے گا جب لفظ کا اطلاق ایسے شخص کو شامل ہوتا ہے تو ہمارے لئے یہ جائز نہیں ہوگا کہ ہم اس اطلاق میں طلب اور تلاش کی فرضیت کا اضافہ کردیں اس لئے کہ اس کے نتیجے میں آیت کے حکم میں ایک اضافی مفہوم کا الحاق لازم آتا ہے اور یہ بات جائز نہیں ہے۔ اس پر حضور ﷺ کا یہ ارشاد بھی دلالت کرتا ہے کہ (جعلت فی الارض مسجداً وطھوراً (a) میرے لئے پوری روئے زمین مسجد بنادی گئی ہے اور اسے طہارت حاصل کرنے کا ذریعہ بنادیا گیا ہے) نیز آپ کا ارشاد ہے (التراب طھور المسلم مالم یجد الماء (a) ایک مسلمان کو جب تک پانی نہ ملے اس وقت تک مٹی اس کی طہارت کا ذریعہ ہے) آپ نے حضرت ابوذر ؓ سے فرمایا تھا (التراب کافیک ولو الی عشر حجج فاذا وجدت فامسسہ جلدک۔ (a) مٹی تمہارے لئے کافی ہے خواہ دس سال کیوں نہ گزر جائیں پھر جب تمہیں پانی مل جائے تو اسے اپنے جسم سے مس کرلو) وجود طلب اور تلاش کا مقتضی نہیں ہے اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ ایک شخص کسی ایسی چیز کا واجد یعنی پانے والا کہلاتا ہے جو اس کے پاس اس کی طلب اور تلاش کے بغیر پہنچ جائے خواہ وہ پانی ہو یا کوئی اور چیز۔ اس شخص کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ ” ھذا واجد الرقبۃ (a) (یہ غلام کا واجد یعنی رکھنے والا ہے) جب اس کے پاس غلام موجود ہو خواہ اس نے اس کی طلب نہ بھی کی ہو۔ اگر کوئی کہنے والا یہ کہے کہ آپ کیوں اس سے انکار کرتے ہیں کہ ایک شخص جس چیز کی طلب نہ کرے اور وہ چیز اسے مل جائے تو اس کے متعلق یہ کہنا درست ہوتا ہے کہ وہ فلاں چیز کا واجد ہے یعنی وہ چیز اس کے پاس موجود ہے لیکن ایک چیز کی طلب اور تلاش کے بغیر کسی کو غیر واجد کہنا درست نہیں ہوتا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ جب وجود طلب کا مقتضی نہیں ہے اور طلب یعنی تلاش وجود کے مفہوم کی شرط بھی نہیں ہے تو نفی وجود بھی اسی کی طرح ہوگا اس لئے جس چیز پر اس کا اطلاق درست ہوگا اس کے عدم پر بھی وہ اطلاق جائز ہوگا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ یہ کہنا درست ہے ” ھو غیر واجد لالفا دینار “ (a) (وہ ہزار دینار واجد نہیں ہے) خواہ اس سے پہلے اس کی طرف سے ہزار دینار کی طلب اور جستجو نہ بھی ہوئی اگر اس کا مال ضائع ہوجائے تو یہ کہنا جائز ہوگا کہ ” اسے یہ مال نہیں ملا “ خواہ اس کی طرف سے اس کی طلب نہ بھی ہوئی ہو۔ جس طرح یہ کہنا درست ہے ” وہ فلاں چیز کا واجد یعنی پانے والا ہے “ خواہ اس کی طرف سے اس چیز کی طلب نہ بھی ہوئی ہو اس لئے وجود اور اس کی نفی اس لحاظ سے یکساں ہیں کہ ان میں سے ہر ایک پر اسم کے اطلاق کا تعلق طلب یا جستجو اور تلاش کے ساتھ نہیں ہوتا۔ قول باری ہے (وما وجدنا لاکثرھم من عھد وان وجدنا اکثرھم لفاستھین (a) ہم نے ان میں سے اکثر کو کسی عہد کا پابند نہیں پایا ہم نے تو ان میں سے اکثر کو فاسق ہی پایا) اس آیت میں وجود یعنی پانے کا اطلاق جس طرح نفی کی صورت میں ہوا اسی طرح اثبات کی صورت میں بھی ہوگیا جبکہ دونوں صورتوں میں طلب معدوم ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ کسی شخص کے ساتھی کے پاس پانی ہو اور وہ اس سے پانی طلب کئے بغیر تیمم کرے تو اس کا تیمم درست نہیں ہوگا جب تک وہ اس سے پانی طلب نہ کرے اور اس کا رفیق اسے پانی دینے سے انکار نہ کرے۔ یہ بات طلب کے وجوب پر دلالت کرتی ہے اس بات کی مزید تاکید اس روایت سے ہوتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ حضور ﷺ نے جنات سے ملاقات کی رات حضرت ابن مسعود ؓ سے فرمایا تھا : ” کیا تمہارے پاس پانی ہے ؟ “ اس طرح آپ نے ان سے پانی طلب کیا تھا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ایک شخص کا اپنے رفیق سے پانی طلب کرنا تو اس بارے میں امام ابوحنیفہ سے مروی ہے کہ اس کی نماز تیمم کے ساتھ جائز ہوجائے گی خواہ اس نے پانی طلب نہ بھی کیا ہو۔ لیکن امام ابو یوف اور امام محمد کے قول کے مطابق اس کی نماز جائز نہیں ہوگی۔ جب تک وہ اس سے پانی طلب نہ کرے اور وہ پانی دینے سے انکار نہ کردے۔ ہمارے نزدیک یہ اس پر محمول ہے کہ جب اسے اس بات کی امید ہو کہ اس کا رفیق پانی اس کے لئے صرف کردینے پر تیار ہوجائے گا۔ اگر اسے یہ امید نہ ہو تو اس کے لئے پانی کی طلب ضروری نہیں۔ اس کی نظیر وہ صورت ہے جب ایک شخص کو اپنے قرب میں پانی کی موجودگی کا علم ہو یا کسی بتانے والے نے اسے یہ بتادیا ہو، ایسی صورت میں تیمم کرنا جائز نہیں ہوگا اس لئے کہ اس جیسی صورت میں غالب گمان یقین کے قائم مقام ہوجاتا ہے۔ جس طرح اسے اس بات کا غالب گمان ہو کہ اگر وہ نہر پر پہنچ جائے، جبکہ نہر اس کے قریب ہو، تو اسے درندہ پھاڑ ڈالے گا یا کوئی ڈاکو اسے پکڑے گا۔ اس صورت میں اس کے لئے تیمم جائز ہوجائے گا لیکن اگر اس کا غالب گمان یہ ہو کہ نہر پر پہنچ کر وہ زندہ سلامت رہے گا تو پھر اس کے لئے تیمم جائز نہیں ہوگا۔ اس لئے یہ بات ان لوگوں کے لئے استدلال کے طور پر فائدہ مند نہیں جو طلب کے ایجاب کے قائل ہیں۔ رہ گئی حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی روایت اور حضور ﷺ کی ان سے پانی کی طلب نیز حضور ﷺ کا حضرت علی ؓ کو پانی کی تلاش میں بھیجنا تو آپ کا یہ فعل وجوب کی بنا پر نہیں تھا۔ ہمارے نزدیک یہ مستحب ہے جس طرح حضور ﷺ نے استحباب کی بنا پر یہ کیا تھا۔ نیز جو شخص جنگل بیابان میں ہو اور اس کے آس پاس پانی نہ ہو اور نہ ہی اسے پانی ملنے کی توقع ہی ہو ایسا شخص یا تو واجد کہلائے گا یا غیر واجد۔ اگر یہ واجد ہوگا تو اس صورت میں طلب اور تلاش کی بات ساقط ہوجائے گی اس لئے کہ اسے ایسی چیز کی طلب کا مکلف بنانا درست نہیں ہوگا جس کا وہ واجد یعنی حاصل کرلینے والا ہے۔ اگر وہ غیر واجد ہوگا تو اس کا تیمم قول باری (فلم تجدوا ماء فتیمموا) (a) کی رو سے جائز ہوجائے گا نیز اس کا یہ عمل حضور ﷺ کے ارشاد کی رو سے بھی جائز ہوگا کہ (التراب ظھور المسلم مالم یجد الماء۔ (a) اگر یہ کہاجائے کہ جب تیمم کے جواز کی شرط پانی کی عدم موجودگی ہے تو پھر یہ ضروری ہے کہ اس کا تیمم اس وقت تک جائز نہ ہو جب تک اسے اس کی شرط کے وجود کا یقین نہ ہوجائے جس طرح نماز کے جواز کی شرط وقت کا آپہنچنا ہے جب تک وقت کے دخول کا اسے یقین نہ ہوجائے اس وقت تک نماز کی ادائیگی اس کے لئے جائز نہیں ہوگی۔ اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ دونوں صورتوں میں فرق کی بنیاد یہ ہے کہ اس جیسی جگہ یعنی جنگل بیابان میں بنیادی طور پر پانی معدوم ہوتا ہے۔ اس جگہ پر جانے والے انسان کو بھی اس کا یقین ہوتا ہے۔ اسے صرف یہ نہیں معلوم ہوتا کہ آیا کسی دوسری جگہ پانی موجود ہے ؟ یا اگر وہ تلاش کرے گا تو پانی اسے مل جائے گا یا نہیں ؟ اس بنا پر اس کے لئے ضروری نہیں کہ وہ ایسی چیز کی بنا پر اپنے پہلے یقین سے ہٹ جائے جس کے متعلق وہ کچھ نہیں جانتا اور اسی کے متعلق اسے شک ہوتا ہے۔ نماز کا وجوب بھی موجود نہیں ہوتا اس لئے شک کی بنا پر نماز کی ادائیگی اس کے لئے اس وقت تک درست نہیں ہوتی جب تک اسے وقت کے وجود کا یقین نہ آجائے۔ اس جہت سے دونوں صورتیں یکساں ہیں کہ ان میں اس یین پر بنا کی جاتی ہے جو اصل اور بنیاد ہوتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ قول باری ہے (فاغسلوا وجوھکم) (a) تا قول باری (فلم تجدوا مآء فتیمموا) (a) اس کی رو سے اس پر اعضائے وضو دھونا ہمیشہ واجب ہوگا اور اس کے لئے پانی تک رسائی ہر ممکن طریقے سے ضروری ہوگی۔ اس لئے اگر تلاش کے ذریعے پانی تک رسائی ممکن ہو تو اس کی تلاش اس پر فرض ہوجائے گی۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ جس ذات باری کا یہ حکم ہے (فاغسلوا) (a) اسی ذات کا یہ قول بھی ہے (فلم تجدوا ماء فتیمموا) (a) اس لئے اعضائے وضو دھونے کا وجوب پانی کے وجود کو متضمن ہے اور تیمم کا جواز پانی کی عدم موجودگی کو متضمن ہے اور زیر بحث حالت میں وہ لامحالہ پانی کا نہ پانے والا ہے اس لئے اس کے لئے تیمم جائز ہوگا۔ مخلاف کا گمان صرف یہ ہے کہ اگر وہ پانی تلاش کرے گا تو ممکن ہے کہ پانی اسے مل جائے لیکن ہم یہ کہیں گے کہ تیمم کی اباحت کی شرط وجود میں آگئی ہے یعنی پانی کی موجودگی میں نہیں ہے، اسے ترک کردینا اس کے لئے درست نہیں ہوگا اس لئے کہ ممکن ہے پانی مل جائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ نہ ملے۔ مخالف نے جو بات کی ہے وہ اس وقت لازم ہوتی اگر اسے پانی ملنے کی توقع ہوتی اور اس کے وجود کا اسے غالب گمان ہوتا یا کسی بتانے والے نے اسے اس کا پتہ بتایا ہوتا۔ لیکن جب ان میں سے کوئی صورت نہ پائی جائے تو پھر آیت کی شرط اس طریقے سے پوری ہوجائے گی جو تیمم کو مباح اور جائز کردے گا۔ اس لئے کسی کو اس شرط کے اسقاط اور اس کے سوا کسی اور سبب یا مفہوم کے اعتبار کی اجازت نہیں ہوگی۔ ہمارے اصحاب نے اجتہاد کے طور پر پانی کے استعمال کے لزوم کے لئے ایک میل سے کم فاصلے کا اندازہ مقرر کیا ہے اگر اسے اس فاصلے کے اندر پانی کی جگہ کا علم ہوجائے اور اس کے وجود کے بارے میں اس کا گمان غالب ہو تو پھر تیمم نہ کیا جائے۔ ان حضرات نے ایک میل یا اس سے زائد فاصلے پر پانی کے استعمال کو اس لئے واجب قرار نہیں دیا ہے نیز میل وہ پیمانہ ہے جس کے ذریعے مسافتوں کی پیمائش ہوتی ہے اور عادۃً ایک میل سے کم فاصلے کی پیمائش نہیں ہوتی۔ اس لئے ان حضرات نے اس مسئلے میں ایک میل یا اس سے زائد فاصلے کا پیمان مقرر کیا اور اس سے کم فاصلے کو نظر انداز کردیا جس طرح ہم نے امام ابو یوسف کے اس قول کے متعلق کہا ہے کہ ان کے نزدیک ” الکثیر الفاحش “ (a) کا اندازہ یہ ہے کہ اس کی لمبائی ایک بالشت اور چوڑائی ایک بالشت ہو۔ اس لئے کہ ایک مربع بالشت ہی وہ کم سے کم مقدار ہے جس کے ذریعے کسی چیز کی سطح اور جسم کی پیمائش کی جاتی ہے۔ عادۃً اس سے کم کی مقدار کو نظر انداز کردیا جاتا ہے (امام ابو یوسف کا یہ قول جسم یا کپڑے پر لگی ہوئی نجاست کے تعین کے سلسلے میں ہے) نافع نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کی ہے کہ جب آپ سفر کی حالت میں پانی سے دو یا تین غلوہ (وہ فاصلہ جو ایک تیر پوری طاقت سے چلائے جانے پر طے کرے۔ فرلانگ) یعنی دو یا تین فرلانگ کے فاصلے پر ہوتے تو تیمم کرکے نماز پڑھ لیتے اور پانی کی طرف رخ نہ کرتے۔ سعید بن المسیب سے مروی ہے کہ چرط ہے اور پانی کے درمیان دو یا تین میل کا فاصلہ ہو اور نماز کا وقت آجائے تو وہ تیمم کرکے نماز پڑھ لے۔ حسن اور ابن سیرین کا قول ہے کہ جس شخص کو وقت کے اندر پانی کی دستیابی کی امید ہو وہ تیمم نہیں کرے گا۔ اس شخص کے متعلق فقہاء کے مابین اختلاف رائے ہے جسے پانی تو مل جائے لیکن یہ اندیشہ ہو کہ اگر وضو میں لگ گیا تو نماز کا وقت نکل جائے گا آیا یہ شخص وضو کی بجائے تیمم کرسکتا ہے ؟ ہمارے اصحاب سفیان ثوری، اوزاعی اور امام شافعی کا قول ہے اگر کوئی شخص مقیم یا مسافر شہر کے حدود میں ہوا سے خطرہ ہو کہ اگر وضو میں لگ جائے گا تو نماز کا وقت نکل جائے گا، اسے بہرحال وضو کرنا پڑے گا۔ اس کے لئے تیمم کا کوئی جواز نہیں ہے۔ امام مالک کا قول ہے کہ اگر وقت نکل جانے کا اندیشہ ہو تو وہ وضو کی بجائے تیمم کرکے نماز ادا کرلے۔ لیث بن سعد کا قول ہے کہ اگر وضو میں لگ جانے کی صورت میں وقت نکل جانے کا اندیشہ ہو تو تیمم کرکے نماز ادا کرلے اور وقت نکل جانے کے بعد وضو کرکے نماز کا اعادہ کرلے۔ اس مسئلے میں قول باری (فلم تجدوا ماء فتیمموا) (a) بنیاد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پانی کی موجودگی کی صورت میں اس کا استعمال واجب قرار دیا اور پانی کی عدم موجودگی کی صورت میں اس حکم کو مٹی کی طرف منتقل کردیا اس لئے پانی کی موجودگی کی صورت میں اس حکم کو مٹی کی طرف منتقل کرنا جائز نہیں ہے اس لئے کہ آیت کے خلاف ہے۔ نیز جب اللہ تعالیٰ نے اعضاء وضو کو دھونے کا حکم دیا تو اس کے لئے بقائے وقت اور ادراک صلوٰۃ وغیرہ کی قید نہیں لگانی۔ اس لئے یہ حکم وقت کے اندر اور وقت کے بعد کے لحاظ سے مطلق ہے اور کسی قسم کی شرط یا قید سے مشروط اور مقید نہیں ہے۔ قول باری ہے (لاتقربوا الصلوٰۃ وانتم سکاری حتی تعلموا ماتقولون ولا جنباً الا عابری سبیل حتی تغتسلوا) (a) اللہ تعالیٰ نے جنابت کی حالت میں نماز کی ادائیگی سے روک دیا اور یہ حکم دیا کہ پہلے غسل کرو اس کے بعد نماز ادا کرو اس حکم میں نماز کے وقت کے باقی ہونے یا نہ ہونے کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ سنت کی جہت سے بھی اس پر دلالت ہورہی ہے حضور ﷺ نے حضرت ابوذر ؓ سے فرمایا تھا (التراب کافیک ولو الی عشر حجج فاذا وجدت الماء فامسسہ جلدک) (a) اس ارشاد کی رو سے جب بھی ایک شخص کو پانی مل جائے اس پر اس کا استعمال واجب ہوجائے گا خواہ اسے نماز کا وقت نکل جانے کا خوف ہو یا نہ ہو اس لئے کہ قول باری (فاغسلوا) (a) میں عموم ہے۔ نیز حضور ﷺ کا ارشاد ہے (التراب طھور المسلم مالم یجد الماء) (a) اس لئے جب ایک شخص کو پانی مل جائے گا تو پھر مٹی اس کے لئے طہارت کا ذریعہ نہیں رہے گی۔ اس لئے تیمم کے ساتھ اس کی نماز درست نہیں ہوگی۔ نظر اور قیاس کی جہت سے بھی یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ طہارت کی فرضیت وقت کی فرضیت سے بڑھ کر مؤکد ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ طہارت کے بغیر نماز کبھی درست نہیں ہوسکتی جب کہ وقت نکل جانے کے بعد بھی قضا نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ وضو میں مصروف ہونے کی بنا پر وقت نکل جانے کے اندیشے کی صورت میں تیمم کرکے نماز ادا کرلینا چاہیے تاکہ وقت کی فضیلت حاصل ہوجائے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ایسا شخص وقت کی فضیلت کو کس طرح حاصل کرسکتا ہے جب کہ وہ نماز ہی پڑھنے والا شمار نہ ہورہا ہو اس لئے کہ وہ طہارت کے بعد نماز کی ادائیگی کررہا ہے۔ اس لئے اس کا پڑھنا اور پڑھنا دونوں یکساں ہیں۔ اگر معترض یہ کہے کہ تیمم طہارت حاصل کرنے کا ذریعہ ہے تو اس سے کہا جائے گا کہ یہ اس وقت ذریعہ بنتا ہے جب پانی موجود نہیں ہوتا ہے۔ لیکن پانی کی موجودگی میں یہ طہور نہیں ہوتا جس طرح ارشاد باری ہے اور جس طرح حضور ﷺ نے اس کی شرط عائد کی ہے۔ اس بنا پر معترض کہ سب سے پہلے یہ چاہیے کہ وہ اس بات کی کوئی دلالت پیش کرے کہ پانی کی موجودگی میں بھی جبکہ اس کے استعمال کی وجہ سے کسی ضرر کے لاحق ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔ مٹی طہور ہوتی اور تیمم جائز ہوتا ہے پھر اس دلالت پر اپنے اس مسلک کی بنا کرے کہ وضو کیے بغیر تیمم کرکے وقت کے اندر نماز پڑھ لینے والا وقت کی فضیلت حاصل کرلیتا ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ مسافر کے لئے تیمم کی اباحت صرف اس لیے کی گئی ہے کہ اسے نماز کے وقت کے اندر نماز پڑھنے کا موقعہ مل جائے۔ پانی کی عدم موجودگی کی بنا پر تیمم کی اباحت نہیں ہوئی ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر بات اس طرح ہوتی تو پھر پانی کی عدم موجودگی کی حالت میں ایک شخص کے لئے اول وقت میں تیمم کرنا جائز نہ ہوتا اس لئے کہ نماز کے اول وقت میں اسے نماز کے فوت ہوجانے کا کوئی اندیشہ نہ ہوتا جبکہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ اول وقت میں تیم کرکے نماز کی ادائیگی جائز ہے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ تیمم کے جواز کی شرط نماز کے وقت کے فوت ہونے کی وجہ سے نہیں ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ پانی کی عدم موجودگی اگر تیمم کی شرط ہوتی تو پھر مریض کے لئے نیز اس شخص کے لئے جسے پیاس کا خطرہ ہوتا پانی کی موجودگی کی صورت میں تیمم جائز نہ ہوتا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر بات اس طرح ہوتی تو پھر پانی کی عدم موجودگی کی حالت میں ایک شخص کے لئے اول وقت میں تیمم کرنا جائز نہ ہوتا اس لئے کہ نماز کے اول وقت میں اسے نماز کے فوت ہوجانے کا کوئی اندیشہ نہ ہوتا جبکہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ اول وقت میں تیمم کرکے نماز کی ادائیگی جائز ہے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ تیمم کے جواز کی شرط نماز کے وقت کے فوت ہونے کی وجہ سے نہیں ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ پانی کی عدم موجودگی اگر تیمم کی شرط ہوتی تو پھر مریض کے لئے نیز اس شخص کے لئے جسے پیاس کا خطرہ ہوتا پانی کی موجودگی کی صورت میں تیمم جائز نہ ہوتا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہم ایسی صورت میں تیمم کے جواز کے اس لئے قائل ہیں کہ وجود ماء کا مفہوم یہ ہے کہ ایک شخص کے لئے کسی ضرر کے اندیشہ کے بغیر اس کا استعمال ممکن ہو نیز اس کے استعمال کے لئے اسے کسی مشقت کا سامنا بھی نہ کرنا پڑے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے مریض اور مسافر کا ذکر کیا ہے جس میں درج بالا امر کی طرف رہنمائی موجود ہے۔ پانی کا موجود نہ ہونا علی الاطلاق شرط ہے اور اس کے استعمال کی وجہ سے کسی ضرر کے لاحق ہونے کا خوف بھی ایک شرط ہے۔ دوسری طرف معترض نے وقت کا اعتبار کرتے ہوئے نہ آیت کی طرف توجہ کی ہے نہ حدیث کی طرف جبکہ قرآن و حدیث دونوں معترض کے قول کے بطلان کا فیصلہ سنا رہے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ خوف کی حالت میں نماز کی ادائیگی کے اندر آنے جانے اور قبلے کے رخ سے ہٹ کر چلنے نیز سوار ہوکر نماز ادا کرنے کا جواز صرف وقت کے اندر نماز ادا کرنے کی خاطر ہے یعنی اسمیں صرف ادراک وقت کو مدنظر رکھا گیا ہے یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ وقت فوت ہوجانے کے اندیشے کی صورت میں تیمم کرکے نماز کے جواز میں وقت کا اعتبار واجب ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ خائف کی نماز کی درج بالا شکلوں میں اباحت صرف خوف کی بنا پر ہے وقت کی بنا پر نہیں۔ اور نہ ہی کسی اور سبب کی بنا پر جبکہ خوف موجود ہو۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اول وقت میں صلوٰۃ الخوف ادا کرلینا جائز ہے باوجود یکہ غالب گمان یہ ہو کہ وقت نکل جانے سے پہلے دشمن میدان سے واپس ہوجائے گا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ صلوٰۃ الخوف کی اباحت خوف کے سبب ہوتی ہے، ادراک وقت کے لئے نہیں ہوتی۔ جبکہ تیمم کی اباحت پانی کی عدم موجودگی کی بنا پر ہوتی ہے۔ تیمم کے ساتھ صلوٰۃ الخوف کی مماثلت اس بات میں ہے کہ جب پانی موجود نہ ہو تو تیمم کرنا جائز ہوتا ہے لیکن جب پانی مل جائے تو اس کی حیثیت خوف زائل ہوجانے کی حالت کی طرح ہوجاتی ہے۔ اس صورت میں نماز صرف اسی طریقے سے جائز ہوتی ہے جس طریقے سے امن کی حالت میں پڑھی جاتی ہے۔ صلوٰۃ الخوف کی وہی حیثیت ہے جو مسافر کے لئے روزہ چھوڑنے اور موزوں پر مسح کرنے کی ہے، اس رخصت کا تعلق ایک مخصوص حالت کے ساتھ ہوتا ہے وقت فوت ہوجانے کے اندیشے کے ساتھ نہیں ہوتا۔ نیز اگر کسی شخص سے وضو میں مشغولیت کی بنا پر نماز کا وقت فوت ہوجائے تو اس کے لئے ایک دوسرا وقت موجود ہوتا ہے اس لئے کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے۔ (من نام عن صلوٰۃ اونسیھا فلیصلھا اذا ذکرھا فان ذلک وقتھا۔ (a) جو شخص نیند یا نسیان کی وجہ سے کسی نماز سے رہ جائے تو یاد آنے پر وہ نماز ادا کرے، یہی اس نماز کا وقت ہے) آپ نے یہ بتادیا کہ نماز فوت ہوجانے کی صورت میں جس وقت بھی نماز یاد آجائے وہ اس نماز کا وقت ہوگا س طرح اس سے پہلے گزر جانے والا وقت اس نماز کا وقت تھا۔ جب اصل وقت فوت ہوجانے کے باوجود نماز کا وقت موجود رہتا ہے خواہ قضا ہی کی شکل میں کیوں نہ ہو، تو پھر اس اندیشے کی بنا پر کہ نماز اپنے اصل وقت سے فوت ہوکر قضا کے وقت میں پہنچ جائے گی پانی کے ساتھ ترک طہارت جائز نہیں ہوسکتا۔ فوت شدہ نماز اور وقت کے اندر ادا کی جانے والی نماز کے درمیان ترتیب کے وجوب پر امام مالک ہمارے ساتھ متفق ہیں نیز یہ کہ فوت شدہ نماز اس نماز سے بڑھ کر وقت کے ساتھ خاص ہوتی ہے جو اپنے وقت کے اندر ادا کی جارہی ہو حتیٰ کہ کوئی شخص اگر فوت شدہ نماز ادا کرنے سے پہلے وقتی نماز پڑھنا شروع کردے تو اس کی یہ نماز جائز نہیں ہوگی۔ اگر وقت کے فوت ہوجانے کا اندیشہ کسی شخص کے لئے تیمم کی اباحت کا سبب بن سکتا تو وقت نکل جانے کے بعد بھی اس کے لئے تیمم کی اباحت واجب ہوتی اس لئے کہ اصل وقت فوت ہوجانے کے بعد ہر آنے والا وقت اس نماز کے وقت ہوتا ہے اور نمازی کے لئے اس وقت سے اسے موخر کرنے کی گنجائش نہ ہوتی۔ اس سے امام مالک پر یہ بات لازم آتی ہے کہ جس شخص کی کوئی نماز رہ گئی ہو وہ اسے کسی بھی وقت تیمم کرکے فوت شدہ نماز ادا کرنے کی اجازت دے دیں اس لئے فوت شدہ نماز ادا کرنے کی خاطر ایک شخص کا وضو میں مشغول ہوجانا نماز کو اس وقت سے موخر کرنے کا موجب بن جائے گا جس کے اندر وہ اسے ادا کرنے کا پابند ہے اور جس سے موخر کرنے کی اسے ممانعت ہے۔ جب اس امر پر سب کا اتفاق ہے کہ پانی استعمال کرنے میں مشغولیت کی بنا پر اس وقت کے نکل جانے کے خوف کی وجہ سے جس میں وہ فوت شدہ نماز پڑھنے کا پابند ہے۔ تیمم کرکے نماز ادا کرنا جائز نہیں ہے تو اس سے یہ بات درست ہوگئی کہ پانی کے ساتھ وضو چھوڑ کر تیمم کرلینے میں وقت کو کوئی دخل نہیں ہے۔ رہ گیا لیث بن سعد کا یہ قول کہ وقت کی تنگی کی صورت میں ایک شخص تیمم کرکے وقت کے اندر نماز ادا کرلے گا پھر وضو کرکے وقت گزرجانے کے بعد نماز کا اعادہ کرلے گا تو یہ ایک بےمعنی سی بات ہے اس لئے کہ یہ تو واضح ہے کہ اس طرح پڑھی ہوئی نماز کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی تو پھر اسے پڑھنے کا حکم دینا ایک بےمعنی بات ہے اسی طرح وضو کے فرض کو موخر کردینا ایک لغو حرکت ہے جبکہ اس فرض کو مقدم کرنا نمازی پر لازم ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی گندگی جگہ میں محبوس ہو جہاں اسے نہ پانی مل سکتا ہو اور نہ ہی پاک مٹی تو ایسا شخص نماز کس طرح پڑھے اس بارے میں فقہا کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ امام محمد اور زفر کا قول ہے کہ جب تک اسے پانی حاصل کرنے کی قدرت نہ ہو وہ نماز نہیں پڑھے گا۔ بشرطیکہ وہ شہر کے اندر ہو۔ سفیان ثوری اور اوزاعی کا بھی یہی قول ہے۔ امام ابو یوسف اور امام شافعی کا قول ہے کہ نماز پڑھ لے گا لیکن اس صورت حال سے نکل جانے کے بعد ان نمازوں کا اعادہ کرے گا۔ امام ابوحنیفہ اور ان کے ہم مسلک حضرات کی دلیل یہ قول باری ہے (اذا قمتم الی الصلوٰۃ فاغسلوا) (a) تا قول باری (قلم تجدوا ماء فتیمموا) (a) نیز حضور ﷺ کا یہ ارشاد کہ (لا یقبل اللہ صلوٰۃ بغیر طھور۔ (a) اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں کرتا) جو شخص وضو یا تیمم کے بغیر نماز پڑھتا ہے وہ طہارت کے بغیر نماز پڑھتا ہے اس کی پڑھی ہوئی نماز درست نماز نہیں کہلا سکتی۔ اس لئے ہمارا اسے ایک ایسے فعل کا جو نماز نہیں کہلا سکتا اس بنا پر حکم دینا بےمعنی ہوگا کہ اس پر نماز فرض ہے۔ امام ابو یوسف نے یہ کہا ہے کہ وہ اشارے سے نماز پڑھے ا پھر اس کا اعادہ کرلے گا۔ انہوں نے اشارے سے پڑھی جانے والی نماز کو کوئی حیثیت نہیں دی اور اس کے اعادے کا حکم دے دیا۔ اگر اس کی پڑھی ہوئی یہ نماز حقیقتہً نماز ہوتی تو اس کے اعادے کا حکم نہ دیتے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جو شخص نماز میں رکوع اور سجدے کی قدرت نہ رکھتا ہو وہ اشارے سے نماز پڑھتا ہے اور اسے اس نماز کے اعادے کے لئے نہیں کہا جاتا۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب کوئی شخص کسی صاف ستھرے مکان میں محبوس ہو جہاں اسے پانی میسر نہ ہو تو امام ابو یوسف ایسے شخص کو تیمم کرکے نماز پڑھنے اور پھر نماز لوٹا لینے کا حکم دیتے ہیں اس طرح تیمم کرکے نماز پڑھ لینے سے مراد اعادے کا وجوب اس سے ساقط نہیں ہوا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حسن بن ابی مالک نے امام یوسف سے اور انہوں نے امام ابوحنیفہ سے روایت کی ہے کہ ایسا شخص نہ تیمم کرے گا اور نہ ہی نماز پڑے گا یہاں تک کہ وہ اس جگہ سے نکل آئے۔ اس طرح اس اصل پر مسئلے کا تسلسل قائم رہا۔ معبوط میں ذکر ہے کہ وہ تیمم کرکے نماز پڑھ لے گا اور پھر ان نمازوں کا اعادہ کرے گا۔ مبسوط میں اس مسئلے کے متعلق کسی اختلاف کا ذکر نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ یہ صرف امام ابو یوسف کا قول ہو۔ اگر یہ سب کا قول ہے تو اس کی توجیہ یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک تیمم کرکے نماز صرف ایک حالت میں درست ہوتی ہے اور وہ پانی کی عدم موجودگی کی حالت ہے یا ضرر لاحق ہونے کا اندیشہ ہو۔ مذکورہ بالا شخص چونکہ پانی کی دستیابی سے محروم ہوتا ہے اس لئے وہ تیمم کرسکتا ہے۔ قیاس کا تقاضا تو یہ تھا کہ ایسے شخص کو اس مسافر کی طرح سمجھا جائے جس کے قریب ہی پانی ہو لیکن اسے درندے یا چوروں کا خطرہ لاحق ہو۔ اس صورت میں اس کے لئے تیمم کرکے نماز ادا کرلینا جائز ہوتا ہے اور نماز لوٹانا اس کے لئے ضروری نہیں ہوتا۔ قیاس کا تقاضا تو یہی تھا لیکن امام ابوحنیفہ نے قیاس ترک کرکے اسے اعادے کا حکم دیا۔ اور سفر اور حضر کے درمیان فرق رکھا اس لئے کہ حضر کی حالت میں پانی موجود ہوتا ہے لیکن اس کی دستیابی میں کوئی آدمی رکاوٹ بن جاتا ہے لیکن اس جیسی صورت میں کسی آدمی کی دخل اندازی فرض کو ساقط نہیں کرتی۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر کوئی شخص کسی کو نماز پڑھنے سے زبردستی روک دے یا رکوع اور سجدے سے منع کردے اور وہ شخص اشارے سے نماز ادا کرلے تو اس صورت میں وہ اس نماز کا اعادہ کرے گا اگر رکاوٹ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہوئی ہو مثلاً بےہوشی طاری ہوگئی ہو یا اسی طرح کوئی اور صورت پیش آگئی ہو تو اس سے فرضیت ساقط ہوجاتی ہے۔ اگر وہ شخص بیمار ہو تو رکوع اور سجدہ اس سے ساقط ہوجاتا ہے اور اس کی بجائے اشارے سے نماز ادا کی جاتی ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیدا ہونے والی رکاوٹ اور کسی آدمی کی پیدا کردہ رکاوٹ میں فرق آگیا۔ حضر کی حالت کا بھی یہی حکم ہے۔ چونکہ اس حالت میں پانی کا وجود ہوتا ہے اس لئے کسی آدمی کے روکنے کی وجہ سے اس کے استعمال کی فرضیت ساقط نہیں ہوگی۔ اسی لئے اسے تیمم کرکے نماز پڑھ لینے اور پھر اس نماز کے اعادے کا حکم دیا گیا۔ امام ابوحنیفہ سے پہلی روایت کی توجیہ یہ ہے کہ محبوس شخص کو نماز پڑھنے کا اس لئے حکم نہیں دیا گیا کہ ایسی نماز کی کوئی حیثیت نہیں اس لئے اسے اس کی ادائیگی کا حکم دینا بےمعنی ہے۔ اگر یہ کہاجائے کہ آپ اس محرم کو جس کے سر پر بال نہ ہوں اور وہ احرام کھولنے کا ارادہ کرے اپنے سر پر استرہ پھیرنے کا حکم دیتے ہیں تاکہ اس طرح سر مونڈنے والے محرم کے ساتھ اس کی مشابہت ہوجائے گرچہ حقیقتہً اس نے حلق یعنی سرمونڈنے کا عمل نہیں کیا۔ آپ اس محبوس کو جسے نہ وضو کرنے کی قدرت ہے اور نہ تیمم کی ، نماز پڑھنے کا کیوں حکم نہیں دیتے تاکہ نماز پڑھنے والوں کے ساتھ اس کی مشابہت قائم ہوجائے اگرچہ حقیقتہً وہ نماز پڑھنے والا نہیں کہلا سکتا۔ یا جس طرح آپ گونگے کو استحباب کے طور پر تلبیہ کے ساتھ اپنی زبان ہلاتے رہنے کا حکم دیتے ہیں جبکہ وہ حقیقتہً تلبیہ کہنے سے عاری ہوتا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ان دونوں باتوں کے مابین فرق کرنے اولا سبب یہ ہے کہ مناسک حج کے افعال اس خصوصیت کے حامل ہوتے ہیں کہ بعض حالات کے اندر دوسرا آدمی ان افعال کی ادائیگی میں اصل آدمی یعنی محرم کے قائم مقام ہوجاتا ہے اور اس صورت میں اس دوسرے انسان کا فعل اصل آدمی کے فعل کی مانند سمجھا جاتا ہے۔ (آیت نمبر 6 کی بقیہ تفسیر اگلی آیت کے ذیل میں ملاحظہ فرمائیں)
Top