Fi-Zilal-al-Quran - Al-Maaida : 9
وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ١ۙ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ
وَعَدَ : وعدہ کیا اللّٰهُ : اللہ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے وَعَمِلُوا : اور انہوں نے عمل کیے الصّٰلِحٰتِ : اچھے لَهُمْ : ان کے لیے مَّغْفِرَةٌ : بخشش وَّاَجْرٌ : اور اجر عَظِيْمٌ : بڑا
جو لوگ ایمان لائیں اور نیک عمل کریں ‘ اللہ نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ ان کی خطاؤں سے درگزر کیا جائے گا اور انہیں بڑا اجر ملے گا ۔
(آیت) ” نمبر 9 تا 10۔ یہ وہ جزاء ہے جو ان برگزیدہ لوگوں کے لئے ہے جن سے دنیاوی لذات اور مفادات فوت ہوجاتے ہیں ۔ انہیں دنیا میں عیش کوشی کا موقع نہیں ملتا ۔ وہ دنیا میں اسلامی انقلاب کے فرائض سرانجام دیتے رہتے ہیں اور اس انعام کے ہوتے ہوئے دنیا میں بشریت کی نگہبانی کے فرائض بہت ہی کم نظر آتے ہیں اور انسان بشری میلانات ‘ انسانی حسد وعناد اور اس دنیا کے لالچ کو خاطر میں نہیں لاتا ۔ پھر اس سے اللہ کی صفت عدل کا اظہار ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نیک لوگوں اور اشرار کو ایک ہی سطح پر نہیں رکھتے ۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ انقلابی مومنین کی نظریں اللہ کی اس جزاء کے ساتھ اٹکی ہوئی ہوں اور ان کا معاملہ اللہ کے ساتھ اس طرح ہو کہ ان کی راہ میں رکاوٹوں میں سے کوئی رکاوٹ حائل نہ ہو سکے ۔ زندگی کے حالات میں اور مختلف احوال میں بھی ۔ بعض دل تو ایسے ہوتے ہیں کہ محض جذبہ حصول رضائے الہی ان کے لئے کافی ہوتا ہے اور وہ اس کو چکھ کر خوب چٹخارے لیتے ہیں جس طرح انہیں اللہ کے ساتھ کئے ہوئے وعدے کو ایفا کرنے میں خوب مزہ آتا ہے ۔ لیکن اسلامی نظام ان اولوالعزم لوگوں کے علاوہ عوام الناس کو بھی پیش نظر رکھتا ہے ۔ عام انسانوں کو مزاج بھی اللہ کے پیش نظر ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ جانتے ہیں کہ عام لوگوں کے لئے امید مغفرت کا ہونا بھی ضروری ہے اور عوام الناس کو بھی پیش نظر رکھتا ہے ۔ عام انسانوں کا مزاج بھی اللہ کی پیش نظر ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ جانتے ہیں کہ عام لوگوں کے لئے امید مغفرت کا ہونا بھی ضروری ہے اور عوام الناس کے ساتھ اجر عظیم کا وعدہ بھی ضروری ہے ۔ اسی طرح عوام الناس کو اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ وہ یہ جانیں کہ جھٹلانے والوں کا انجام وسزا کیا ہوگی اس لئے کہ عوام الناس اسی پر راضی ہوتے ہیں اور یہی ان کا مزاج ہوتا ہے ۔ اس لئے عوام الناس اپنی جزا اور کفار کی سزا کا حکم سن کر مطمئن ہوجاتے ہیں ۔ اس طرح اشرار کے کاموں پر ان کے دل میں جو غیض وغضب پیدا ہوتا ہے وہ ٹھنڈا ہوجاتا ہے ۔ خصوصا ایسے مواقع پر جب اہل ایمان کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے دشمنوں کے ساتھ بھی عدل و انصاف کریں ۔ خصوصا ایسے حالات میں جبکہ ان کے ہاتھوں اہل ایمان نے مکروفریب اور ایذاء رسانی اور نیش زنی کو برداشت کیا ہو۔ اسلامی نظام زندگی انسانیت کو اسی طرح لیتا ہے جس طرح انسانوں کی فطرت ہے اور اللہ تعالیٰ اسے خوب جانتے ہیں ۔ اسلام انسانوں کو ایسا نعرہ اور ایسی دعوت دیتا ہے کہ جس سے ان کے شعور کے دریچے کھلتے ہیں اور جس پر ان کی جان اور روح لبیک کہتی ہے ۔ پھر یہ انعام یعنی مغفرت اور اجر عظیم اللہ کی رضا مندی کی دلیل ہے ۔ سیاق کلام میں ذرا آگے جائیں اور عدل انصاف اور رواداری کی روح اب جماعت مسلمہ کے اندر نہایت ہی قوی پائیں ۔ اس کے اندر زیادتی ‘ کینہ پروری ‘ اور یک رخی کا شعور ختم کردیا جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو یاد دلاتے ہیں کہ ان پر اللہ کا یہ کس قدر عظیم کرم ہے کہ اللہ نے ان کے خلاف مشرکین کی تمام کاروائیاں بند کرادیں جبکہ حدیبیہ کے موقع پر اور دوسرے مواقع پر وہ مسلمانوں کے خلاف کوئی جارحانہ اقدام نہ کرسکے ۔
Top