Ruh-ul-Quran - Al-Maaida : 9
وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ١ۙ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ
وَعَدَ : وعدہ کیا اللّٰهُ : اللہ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے وَعَمِلُوا : اور انہوں نے عمل کیے الصّٰلِحٰتِ : اچھے لَهُمْ : ان کے لیے مَّغْفِرَةٌ : بخشش وَّاَجْرٌ : اور اجر عَظِيْمٌ : بڑا
جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے ‘ ان سے اللہ نے وعدہ فرمایا ہے کہ ان کے لیے بخشش اور اجر عظیم ہے۔
وَعَدَ اللہ ُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لا لَھُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمُٗ ۔ (المائدہ : 9) ” جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے ‘ ان سے اللہ نے وعدہ فرمایا ہے کہ ان کے لیے بخشش اور اجر عظیم ہے “۔ سمع و اطاعت اور اجتماعی عدل پر اللہ کا وعدہ اوپر جو باتیں بیان فرمائی گئی ہیں ‘ ان کا نتیجہ یہاں بیان ہو رہا ہے کہ اگر تم اپنے اندر تقویٰ پیدا کرو گے اور وہ بھی اس طرح کہ عدل کی حکمرانی قائم کرنے کے بعد تم واقعی اپنے عہد و پیمان کو انفرادی اور اجتماعی طور پر تازہ رکھو گے اور اگر تم نے پوری زندگی اس طرح اختیار کی کہ تم نے جو اللہ سے اقرار کیا تھا کہ یا اللہ ! تیری سنیں گے اور تیری اطاعت کریں گے۔ کسی اور کی نہ سنیں گے ‘ نہ اطاعت کریں گے۔ـ جیسے حضور اکرم ﷺ نے فرمایا تھا : لا طاعۃ لمخلوقٍ فی معصیۃ الخالق (خالق کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں ہوسکتی) چاہے وہ کتنا بڑا حکمران کیوں نہ ہو۔ اطاعت صرف اللہ کی ہوگی۔ حکمرانوں کی اطاعت صرف اس معاملے میں ہوسکتی ہے جب کہ وہ اللہ کے احکام کے مطابق حکم دیں۔ فرمایا کہ اگر تم نے اقرار کیا اور اجتماعی عدل کے مطابق زندگی گزاری ‘ یہ دو کام کیے تو اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ تمہیں نہ صرف یہ کہ بخش دے گا بلکہ تمہیں تمہارے ان اعمال کا بہترین صلہ دے گا۔ ایمان اور عمل صالح کا اجر بنیادی عقائد یعنی توحید ‘ رسالت اور آخرت کا زبان سے اقرار اور دل سے ان کی تصدیق ایمان کہلاتا ہے اور اس ایمان کے مطابق شریعت کے احکام پر عمل کو عمل صالح کہا جاتا ہے۔ عمل چھوٹا بھی ہوتا ہے اور بڑا بھی۔ نماز پڑھنے کو بھی عمل صالح اور عدل کی حکمرانی کو بھی عمل صالح کہتے ہیں۔ کوئی چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی عمل صالح ہے ‘ اگر وہ اللہ کی شریعت کے مطابق ہو اور اس کی رضا کے لیے کیا جائے اور کوئی بڑے سے بڑا عمل بھی جو پوری قوم اللہ کی رضا کے حصول کے لیے کرتی ہے ‘ وہ بھی عمل صالح ہے۔ اس لیے کہ وہ اس عہد وقرار کے مطابق ہے جسے سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا کہہ کر ذکر کیا گیا ہے ‘ کہا اگر تم نے ایمان اور عمل صالح کے تقاضوں کو پورا کیا تو ہم تمہیں بڑا انعام دیں گے۔ غور کیجئے ! دنیا کا معمولی حکمران بھی کبھی اپنے کسی ملازم سے کسی بات کا وعدہ نہیں کرتا اور اگر ملازم یہ کہے کہ جناب ! آپ وعدہ کریں کہ میرے ساتھ اچھا سلوک کریں گے ‘ تو وہ اسے ویسے ہی نکال دے گا کہ بدبخت ! تو مجھ سے وعدے کا مطالبہ کرتا ہے ؟ تیری یہ جرأت ! تجھے جو بھی میں دے دوں ‘ وہ تو میری عطا اور بخشش ہے۔ تو اس قابل کہاں کہ تو مجھ سے کسی وعدے کا مطالبہ کرنے لگے۔ اب آپ اندازہ کریں کہ کہاں مخلوق اور کہاں خالق ‘ کہاں ایک بندہ اور کہاں اللہ کی ذات ‘ کہاں یہ دنیا کی بوسیدہ زمین پر رہتی ہوئی قومیں اور کہاں عرش معلی پر جلوہ افروز اللہ کی ذات گرامی۔ میں جلوہ افروز اس لیے نہیں کہہ رہا ہوں کہ اللہ وہاں بیٹھا ہوا ہے بلکہ اس لیے کہ عرش معلی اس کی قدرتوں کی جلوہ گاہ اور اس کی ذات کی تجلی گاہ ہے۔ وہ اتنی بڑی ذات ہے کہ بندوں کی کیا حیثیت کہ اس سے کسی بھی قسم کے وعدے کا مطالبہ کریں ؟ لیکن اللہ کا کرم دیکھئے ! فرمایا کہ اگر تم نے یہ دونوں کام اپنے ذمے لے لیے کہ ہم کبھی سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا کی مخالفت نہیں کریں گے اور کبھی عدل سے اپنے قدم پیچھے نہیں ہٹائیں گے تو میں بھی تم سے ایک وعدہ کرتا ہوں کہ جب تک تم ایمان اور عمل صالح کی زندگی گزارو گے ‘ دو چیزیں تمہارے لیے ہوں گی ایک میں (اللہ) تمہیں مغفرت سے نوازوں گا۔ اس راستے میں تم سے کوئی چھوٹی موٹی کو تاہیاں بھی ہوں گی ‘ لیکن تم نے قصداً انھیں نہیں کیا ہوگا تو اللہ ان سے درگزر فرمائے گا اور دوسرا یہ کہ جو اچھے اعمال تم کرو گے ‘ اس کے بدلے اللہ بہت بڑا اجر دے گا۔ جب کوئی آدمی کسی چیز کو بڑی کہتا ہے تو اس کا بڑا کہنا اس کی ذات کی بڑائی کے مطابق ہوتا ہے۔ مثلًا کوئی بچہ جب کہتا ہے کہ مجھے بڑا کھلونا لا دو ‘ تو وہ بچے کے لحاظ سے بڑا ہوگا ‘ لیکن جب اس کا باپ کہتا ہے کہ میں کوئی بڑی چیز چاہتا ہوں تو ممکن ہے کہ وہ بڑی چیز شاید پوری آبادی میں نہ سما سکے۔ اسی طرح جب ایک بادشاہ کسی چیز کو عظیم کہتا ہے تو اس کی عظمت اس کی اپنی عظمت کا پرتو ہوگی۔ اب اندازہ فرمائیں کہ اگر ہر ایک کی وسعت اس کے اپنے مطابق ہے۔ تو اللہ کی وسعت کیا ہے ؟ اس کی عظمت کا کیا ٹھکانہ ہے ؟ جب وہ یہ کہتا ہے کہ لوگو ! تمہاری غلطیاں بھی معاف کروں گا۔ تم اقتصادی میدان میں بھی جو غلطیاں کرو گے میں اسے بھی درگزر کروں گا اور تمہاری ترقی کے پہیئے کو گھومنے سے نہیں روکوں گا۔ تم اجتماعی زندگی میں ٹھوکریں کھائو گے ‘ میں تمہیں اس کی بھی سمجھ عطا کروں گا۔ قرآن مجید میں بھی ایک جگہ فرمایا : اِنْ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا وَّیُکَفِّرْعَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ (الانفال : 29) ” اگر تم تقویٰ کی دولت حاصل کرلو تو اللہ تمہیں ایک ایسی قوت تمیز عطا کرے گا جس کے نتیجے میں تم اپنی زندگی میں اجتماعی غلطیوں سے بچ جاؤ گے “ یعنی اللہ تمہاری راہنمائی کرے گا اور تم ٹھوکریں نہیں کھائو گے ‘ صحیح راستے پر چلو گے اور اگر کبھی غلطیاں ہو بھی جائیں گی تو اللہ تمہاری ان برائیوں کو مٹا ڈالے گا۔ اس کا اللہ نے قرآن میں جا بجا وعدہ کیا ہے۔ فرمایا : دیکھو ! میں تمہیں بہت بڑا اجر دوں گا اور یہ بڑا اجر تمہاری حیثیت کے لحاظ سے نہیں ‘ میری اپنی ذات کے حوالے سے ہوگا۔ میں تو سوچ بھی نہیں سکتا کہ جب اللہ کسی کو بڑا اجر دے گا تو وہ کیا ہوگا ؟ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ وہ دینے پر آتا ہے تو موسیٰ (علیہ السلام) آگ لینے جاتے ہیں اور اللہ انھیں پیغمبری دے دیتا ہے۔ شداد بدبخت سمندر میں بہتے ہوئے ایک تختے پر ایک بالکل بےبس اور بےکس بچہ پیدا ہوا تھا ‘ لیکن جب وہ دینے پر آیا تو اسے دنیا کی حکومت دے دی اور اس نے اللہ کے مقابلے میں جنت بنا ڈالی اور جب وہ چھیننے پر آیا تو اپنی ہی تیار کی ہوئی جنت دیکھنے کے لیے جب شداد آیا تو ابھی اس کا ایک پائوں اندر اور دوسرا باہر ہی تھا کہ حکم دیا کہ اس کی جان قبض کرلو۔ کہا : میرا ان بندوں سے وعدہ ہے کہ اگر وہ ان دو وعدوں کو پورا کریں تو ” لَھُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّاَجْرٌ عَظِیْمُٖٗ “ ان کے لیے مغفرت بھی ہے اور اجر عظیم بھی ‘ لیکن ساتھ ہی یہ بھی اگلی آیت میں فرما دیا :
Top