Tafseer-e-Haqqani - Al-A'raaf : 87
وَ اِنْ كَانَ طَآئِفَةٌ مِّنْكُمْ اٰمَنُوْا بِالَّذِیْۤ اُرْسِلْتُ بِهٖ وَ طَآئِفَةٌ لَّمْ یُؤْمِنُوْا فَاصْبِرُوْا حَتّٰى یَحْكُمَ اللّٰهُ بَیْنَنَا١ۚ وَ هُوَ خَیْرُ الْحٰكِمِیْنَ
وَاِنْ : اور اگر كَانَ : ہے طَآئِفَةٌ : ایک گروہ مِّنْكُمْ : تم سے اٰمَنُوْا : جو ایمان لایا بِالَّذِيْٓ : اس چیز پر جو اُرْسِلْتُ : میں بھیجا گیا بِهٖ : جس کے ساتھ وَطَآئِفَةٌ : اور ایک گروہ لَّمْ يُؤْمِنُوْا : ایمان نہیں لایا فَاصْبِرُوْا : تم صبر کرلو حَتّٰي : یہاں تک کہ يَحْكُمَ : فیصلہ کردے اللّٰهُ : اللہ بَيْنَنَا : ہمارے درمیان وَهُوَ : اور وہ خَيْرُ : بہترین الْحٰكِمِيْنَ : فیصلہ کرنے والا
اور (جو کچھ احکام) مجھے دے کر بھیجا ہے اگر اس کو تم میں سے ایک گروہ نے مان لیا ہے۔ اور دوسرے گروہ نے نہیں مانا ہے تو صبر کرو یہاں تک کہ اللہ ہم میں اور تم میں فیصلہ کر دے اور وہی سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔
ترکیب : وان کان شرط فاصبروا جواب والذین ک مفعول پر معطوف۔ اولو کنا جملہ استفہام انکاری ان عدنا شرط قد افترینا جملہ دال برجزا بعد عدنا سے متعلق۔ الاستثناء منقطع یا متصل ای الاوقت مشیۃ اللہ اذا ان اور اس کی خبر میں متوسط جملہ جواب ان اتبعتم۔ تفسیر : حضرت پر جو لوگ ایمان لے آئے تھے پیشتر وہ غریب تھے اس لئے ایک روز وہاں کے سرداروں نے متفق ہو کر حضرت شعیب (علیہ السلام) سے کہا یا تو آپ مع اپنے متبعین کے پھر ہمارے مذہب و طریقہ کو اختیار کرلیں ورنہ ہمارے شہر سے نکل جائو (اگرچہ ابتدائِ عمر سے حضرت شعیب (علیہ السلام) ان کے ملت و مذہب بت پرستی کے شریک نہ تھے مگر نبوت اور منادی سے پہلے ان کو وہ اپنے مذہب و ملت میں خیال کرتے تھے جس لئے پھر ملت میں لوٹ آنے کا حکم دیا) شعیب (علیہ السلام) نے کہا ہم کو اس مذہب سے نفرت ہو تو بھی آملیں یعنی ایسا کبھی نہ ہوگا۔ اگر ایسا کریں تو گویا ہم نے خدا تعالیٰ پر بڑا ہی جھوٹ باندھا ہے۔
Top