Tafseer-Ibne-Abbas - Aal-i-Imraan : 128
لَیْسَ لَكَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْءٌ اَوْ یَتُوْبَ عَلَیْهِمْ اَوْ یُعَذِّبَهُمْ فَاِنَّهُمْ ظٰلِمُوْنَ
لَيْسَ لَكَ : نہیں ٓپ کے لیے مِنَ : سے الْاَمْرِ : کام (دخل) شَيْءٌ : کچھ اَوْ يَتُوْبَ : خواہ توبہ قبول کرے عَلَيْھِمْ : ان کی اَوْ : یا يُعَذِّبَھُمْ : انہیں عذاب دے فَاِنَّھُمْ : کیونکہ وہ ظٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع)
(اے پیغمبر ﷺ اس کام میں تمہارا کچھ اختیار نہیں (اب دو صورتیں ہیں) یا خدا ان کے حال پر مہربانی کر کے یا انہیں عذاب دے کہ یہ ظالم لوگ ہیں
(128۔ 129) اے نبی کریم ﷺ آپ کے قبضہ قدرت میں خود توبہ اور عذاب نہیں کہ آپ غزوہ احد کے شکست خوردہ یا ان کے تیراندازوں کے لیے بددعا کریں، اللہ تعالیٰ اگر چاہے گا تو ان پر اپنی مہربانی سے توجہ فرمائے گا اور ان کے گناہوں کو اسلام (مکمل اطاعت) کی توفیق دے کر معاف کردے گا اور جو اللہ کے ہاں مغفرت کا اہل ہوتا ہے اس کی مغفرت اور جو عذاب کا مستحق ہوتا ہے اسے عذاب دیتا ہے، کہا گیا ہے کہ یہ آیت دو قبیلوں عصیہ اور ذکوان کے بارے میں نازل ہوئی ہے، انہوں نے کچھ صحابہ کرام کو شہید کردیا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے بددعا فرمائی تھی۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح) شان نزول : (آیت) ”لیس لک من الامر شیئی“۔ (الخ) حضرت امام احمد ؒ اور امام مسلم ؒ نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ غزوہ احد کے دن رسول اکرم ﷺ کے سامنے کے چار دندان مبارک میں سے ایک دانت شہید ہوگیا اور آپ کا چہرہ مبارک بھی زخمی ہوگیا، چہرہ مبارک سے خون بہنے لگا، اس وقت آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ”ایسی قوم کس طرح فلاح پا سکتی ہے جنہوں نے اپنے نبی کے ساتھ ایسا کیا حالانکہ وہ نبی ان کو اللہ کی طرف بلارہا ہے“۔ تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی یعنی آپ کو کسی کے مسلمان ہونے یا کفار ہونے کے متعلق خود کوئی دخل نہیں، اور امام احمد ؒ اور بخاری ؒ نے ابن عمر ؓ سے روایت نقل کی ہے فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ فرما رہے تھے۔ الہ العالمین فلاں پر لعنت نازل فرما، اے اللہ حارث بن ہشام پر لعنت فرما، اے اللہ سہیل بن عمرو پر لعنت فرما، اے اللہ صفوان بن امیہ پر لعنت فرما، اس پر اخیر تک یہ آیت نازل ہوئی اور پھر بعد میں ان سب کو اسلام کی توفیق ہوگئی نیز امام بخاری ؒ نے ابوہریرہ ؓ سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ فرماتے ہیں، دونوں روایتوں میں مطابقت اس طرح ہے کہ ان مذکورہ لوگوں کے لیے آپ نے اپنی نماز میں جب کہ غزوہ احد میں آپ کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا، اس کے بعد بددعا فرمائی تو آیت ایک ساتھ ان دونوں واقعوں کے بارے میں نازل ہوئی، جو آپ کے ساتھ پیش آیا اور جو ان لوگوں نے صحابہ کے ساتھ کیا، فرماتے ہیں لیکن اس توجیہ پر صحیح مسلم کی اس حدیث سے اشکال پیدا ہوتا ہے جو ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ صبح کی نماز میں فرماتے تھے ”الہ العالمین رعل، ذکوان، عصیہ پر لعنت نازل فرما تب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اور اشکال کی وجہ یہ ہے کہ آیت احد کے واقعہ میں نازل ہوئی اور رعل وزکوان کا واقعہ بعد کا ہے مگر حدیث کی علت پھر بعد میں میری سمجھ میں آئی وہ یہ کہ اس روایت میں ادراج (اضافہ) ہے وہ یہ کہ حتی انزل اللہ علیہ کا جو مسلم میں متصلا لفظ مروی ہے، وہ امام زہری کی روایت میں موجود نہیں اور یہ بھی احتمال ہے کہ رعل وذکوان کا واقعہ اس کے بعد ہوا اور نزول آیت میں اپنے سبب سے کچھ تاخیر ہوگئی ہو، پھر آیت کریمہ تمام واقعات کے بارے میں نازل ہوئی ہو، امام سیوطی ؒ فرماتے ہیں کہ آیت کے سبب نزول کے بارے میں ایک روایت اور بھی ہے جو بخاری نے اپنی تاریخ میں اور ابن اسحاق نے سالم بن عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت کی ہے۔ روایت یہ ہے کہ قریش میں سے ایک شخص رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ آپ گالی گلوچ سے منع کرتے ہیں اس کے بعد اس نے اپنا منہ آپ کی طرف سے پھیرلیا اور اپنی گدی آپ کی طرف کردی، تاآنکہ اس کی سرین کھل گئی تو اس پر رسول اللہ ﷺ نے لعنت فرمائی اور اس کے لیے بددعا کی تب یہ آیت لیس لک من الامر شئی“۔ نازل ہوئی پھر اس کے بعداس شخص کو اسلام کی توفیق ہوئی اور اس کا اسلام بھی اچھا ہوگیا، یہ روایت مرسل غریب ہے۔
Top