Tafseer-Ibne-Abbas - Faatir : 42
وَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَیْمَانِهِمْ لَئِنْ جَآءَهُمْ نَذِیْرٌ لَّیَكُوْنُنَّ اَهْدٰى مِنْ اِحْدَى الْاُمَمِ١ۚ فَلَمَّا جَآءَهُمْ نَذِیْرٌ مَّا زَادَهُمْ اِلَّا نُفُوْرَاۙ
وَاَقْسَمُوْا : اور انہوں نے قسم کھائی بِاللّٰهِ : اللہ کی جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ : اپنی سخت قسمیں لَئِنْ : اگر جَآءَهُمْ : ان کے پاس آئے نَذِيْرٌ : کوئی ڈرانے والا لَّيَكُوْنُنَّ : البتہ وہ ضرور ہوں گے اَهْدٰى : زیادہ ہدایت پانے والے مِنْ اِحْدَى : ہر ایک سے الْاُمَمِ ۚ : امت (جمع) فَلَمَّا : پھر جب جَآءَهُمْ : ان کے پاس آیا نَذِيْرٌ : ایک نذیر مَّا زَادَهُمْ : نہ ان (میں) زیادہ ہوا اِلَّا : مگر۔ سوائے نُفُوْرَۨا : بدکنا
اور یہ خدا کی سخت سخت قسمیں کھاتے ہیں کہ اگر ان کے پاس کوئی ہدایت کرنے والا آئے تو یہ ہر ایک امت سے بڑھ کر ہدایت پر ہوں مگر جب ان کے پاس ہدایت کرنے والا آیا تو اس سے ان کو نفرت ہی بڑھی
اور ان کفار مکہ نے رسول اکرم کی بعثت سے پہلے بڑی زور دار قسم کھائی تھی کہ اگر ہمارے پاس کوئی ڈرانے والا پیغمبر آیا تو ہم یہود و نصاری سے زائد ہدایت قبول کرنے والے اور دین کی طرف سبقت کرنے والے ہوں گے۔ چناچہ جب ان کے پاس رسول اکرم قرآن حکیم لے کر آئے تو یہ رسول اکرم اور قرآن حکیم پر ایمان لانے سے منہ پھیر کر دور ہی بھاگتے رہے۔ شان نزول : وَاَقْسَمُوْا باللّٰهِ جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ (الخ) اور ابن ابی حاتم نے ابن ابی ہلال سے روایت کیا ہے کہ قریش کہا کرتے تھے کہ اگر اللہ تعالیٰ ہم میں نبی بھیج دے تو کوئی قوم ہم سے زیادہ اپنے خالق کی پیروی کرنے والی اور ہم سے زیادہ اپنے نبی کی بات پر لبیک کہنے والی اور ہم سے زائد اس کی کتاب پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہونے والی نہ ہوگی۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان ہی باتوں کے بیان میں یہ آیات نازل فرمائی ہیں کہ : وان کانوا لیقولون لو ان عندنا ذکرا من الاولین اور ولو انا انزل علینا الکتاب لکنا اھدی منھم اور وَاَقْسَمُوْا باللّٰهِ جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ لَىِٕنْ جَاۗءَهُمْ نَذِيْرٌ (الخ) اور یہود و نصاری پر اس چیز کے ذریعے سے غلبہ حاصل کرتے تھے کہ ہم ایک نبی کی پیشین گوئی پاتے ہیں جو ضرور مبعوث ہوگا۔
Top