Tafseer-e-Jalalain - Aal-i-Imraan : 110
وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓئِكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةً١ؕ قَالُوْۤا اَتَجْعَلُ فِیْهَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْهَا وَ یَسْفِكُ الدِّمَآءَ١ۚ وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَ نُقَدِّسُ لَكَ١ؕ قَالَ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ
وَاِذْ : اور جب قَالَ : کہا رَبُّکَ : تمہارے رب نے لِلْمَلَائِکَةِ : فرشتوں سے اِنِّیْ : میں جَاعِلٌ : بنانے والا ہوں فِي الْاَرْضِ : زمین میں خَلِیْفَةً : ایک نائب قَالُوْا : انہوں نے کہا اَتَجْعَلُ : کیا آپ بنائیں گے فِیْهَا : اس میں مَنْ يُفْسِدُ : جو فساد کرے گا فِیْهَا : اس میں وَيَسْفِكُ الدِّمَآءَ : اور بہائے گا خون وَنَحْنُ : اور ہم نُسَبِّحُ : بےعیب کہتے ہیں بِحَمْدِکَ : آپ کی تعریف کے ساتھ وَنُقَدِّسُ : اور ہم پاکیزگی بیان کرتے ہیں لَکَ : آپ کی قَالَ : اس نے کہا اِنِّیْ : بیشک میں اَعْلَمُ : جانتا ہوں مَا : جو لَا تَعْلَمُوْنَ : تم نہیں جانتے
اور (وہ وقت یاد کرنے کے قابل ہے) جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں، انہوں نے کہا کیا تو اس میں ایسے شخص کو بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے، اور ہم تیری تعریف کے ساتھ تسبیح و تقدیس کرتے رہتے ہیں (خدا نے) فرمایا میں وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے
آیت نمبر 30 تا 33 ترجمہ : اے محمد ﷺ ! اس وقت کو یاد کرو، جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا تھا کہ میں زمین میں ایک نائب بنائوں گا، جو زمین میں میرے احکام نافذ کرنے میں میری نیابت کرے گا اور وہ آدم علیہ الصلاة والسلام ہے، تو فرشتوں نے عرض کیا، کیا آپ زمین میں ایسے شخص کو مقرر فرمائیں گے جو زمین میں معاصی کے ذریعہ خون خرابہ کرے گا ؟ یعنی قتل کے ذریعہ خون ریزی کرے گا، جیسا کہ جناب نے کیا اور وہ زمین میں پہلے سے (مقیم) تھے، چناچہ جن انہوں نے فسادبرپا کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف فرشتوں کو بھیجا تو فرشتوں نے ان کو جزیروں اور پہاڑوں کی طرف دھکیل دیا، اور ہم آپ کی حمد وثناتو کر ہی رہے ہیں، یعنی سبحان اللہ، الحمداللہ کہہ رہے ہیں اور ان چیزوں سے جو تیری شایان شان نہیں ہیں تیری پاکی بیان کررہے ہیں (لَکَ ) میں لام زائد ہے اور جملہ حال ہے اور خلافت کے ہم زیادہ مستحق ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا، آدم علیہ الصلاة والسلام کے نائب بنانے میں جو مصلحت ہے، میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے ، (اور وہ یہ) کہ اس کی اولاد میں فرمانبردار بھی ہوں گے اور نافرمان بھی، تو ان میں عدل کا مظہور ہوگا، تو فرشتوں نے عرض کیا ہمارا رب ہرگز کوئی ایسی مخلوق پیدانہ کرے گا، جو اس کے نزدیک ہم سے افضل ہو اور نہ ایسی کہ جو ہم سے اعلم (زیادہ جاننے والی) ہو، اس وجہ سے کہ ہم کو حق سبقت حاصل ہے اور اس وجہ سے کہ جو ہم نے دیکھا ہے وہ کسی نے نہیں دیکھا، چناچہ حق تعالیٰ شانہ ' نے آدم علیہ الصلاة واسلام کو زمین کی مٹی سے پیدا فرمایا، یعنی سطح زمین (کی مٹی) سے اس طریقہ سے کہ زمین سے ہر رنگ کی ایک مٹھی مٹی لی اور اس کی مختلف پانیوں سے گوندھا اور اس میں روح پھونک دی تو وہ ایک حساس (شئی) بن گیا، بعد اس کے کہ وہ جماد ( بےجان) تھا، اور آدم علیہ الصلاة والسلام کی ساری چیزوں کے نام سکھائے، حتی کہ پیالہ، پیالی، اور پاد اور پھسکی اور ڈوئی بایں طور کہ آدم کے قلب پر ان کا علم القاہ فرمایا، فرمایا، پھر ان چیزوں کو فرشتوں کے روبروپیش فرمایا، ھم جمع مزکر کی ضمیر لانے کی وجہ، ذوی العقول کو غلبہ دینا ہے اور فرمایا کہ تم مجھے ان چیزوں کے نام بتائو، اگر تم اس ( مشورہ) میں سچے ہو کہ میں تم سے زیادہ جاننے والے کو پیدانہ کرونگا، یا تم اس دعوے پر حق دور ہو ( تو تم مجھے ان چیزوں کے نام بتائو) اور جواب شرط پر اس کا ماقبل دلالت کررہا ہے، فرشتوں نے عرض کیا آپ تو پاک ہیں ، ( یعنی) آپ تو اعتراض ( نقص) سے پاک ہیں ہمیں کچھ علم نہیں، مگر اتناہی جتنا آپ نے ہمیں سکھلایا، نے شک آپ ہی ( انت ضمیر) کاف خطاب کی تاکید کے لئے ہے، علم و حکمت والے ہیں کہ آپ کے علم و حکمت سے کوئی شئی خارج نہیں، حق تعالیٰ نے فرمایا اے آدم ! توبتادے فرشتوں کو ان چیزوں کے نام، چناچہ آدم علیہ الصلاة والسلام نے ان کو ہر چیز کا نام بتادیا اور ان کی حکمت اور خواص بیان کردیئے، جس کے لئے وہ چیزیں پیدا کی گئی تھیں جب آدم علیہ اصلاة السلام نے ان کو چیزوں کے نام بتادیئے، تو حق تعالیٰ نے تو بیخا فرمایا کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں جانتا ہوں آسمان اور زمین کی پوشیدہ چیزوں کی جو ان میں فرشتوں سے مخفی ہیں اور اس کو بھی جانتا ہوں جو تم اپنے قول اَتَجعَلُ فیھا من یفًسد الخ سے ظاہر کرتے ہو، اور جوابات تم چھیاتے ہو، یعنی اپنے قول :'' لن یخلق ربنا خلقا اکرم علیہ مناولا اعلم '' کو۔ تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد قولہ : وَاِ ذْقَالَ رَبُّکَ ، وائو، استینافیہ ہے، اِذْ ، اُذْکُرْ ، فعل محذوف کا مفعول بہ ہے، قرآن میں مذکور قصوں کے شروع میں یہی ترکیب اغلب ہے، زمخشری اور ابن عطیہ کا یہی قول مختار ہے اور ابوحیان نے کہا ہے کہ : اِذْقَالُوْااَتَجْعَلُ ، کی وجہ سے منصوب ہے۔ قولہ : لِلْمَلَا ئِکَةِ : یہ مَلَکُ کی جمع ہے، یہ اصل مَأ لَکُ بروزن مَفْعَل تھا ہمزہ کو تخفیفاً حذف کردیا گیا، مَلَک یہ اُلُوکة سے مشتق ہے، اُلوکةکے معنی ہیں پیغام بری، رسالت، فرشتے بھی خدا کا پیغام مخلوق تک پہنچانے کا کام کرتے ہیں اور خالق و مخلوق کر درمیان واسطہ ہوتے ہیں اس لئے ان کو ملائکہ کہتے ہیں۔ قولہ : مُتَلَبِّسِیْنَ ، اس میں ارشاد ہے کہ : بِحَمدِکَ ، نسبح کی ضمیر سے حال اور باء، ملابَسَت کے لئے ہے۔ قولہ : نُقَدِّسُ لَکَ ، میں لازم زائدہ برائے تاکید ہے، اس لئے کہ نقدس متعدی بنفسہ ہے۔ قولہ : والجملة حال یعنی وَنَحْنُ نُسَبِّحُ ، اَتجعَلُ کی ضمیر سے حال ہے اور نقدس کا عطف نُسَبِّحُ پر ہے معطوف معطوف علیہ سے مل کر جملہ فعلیہ ہوکر، نحن، مبتداء کی خبر ہے۔ قولہ : والضملة حال، کو ایک اعتراض کا جواب بھی قراردیا جاسکتا ہے۔ سوال : وَنُسَبِّحُ ، کا اَتَجْعَلُپرعطف درست نہیں ہے، اس لئے کہ : اَتَجْعَلُ جملہ انشائیہ ہے اور نُسَبِّحُ جملہ فعلیہ۔ جواب : وَنُسَبِّحُ کا عطف اَتَجْعَلُ پر نہیں ہے بلکہ وائو حالیہ ہے نہ کہ عاطفہ لہٰذا اب کوئی اعتراض نہیں ہے۔ قولہ : نُنَزِّ ھُکَ عَمَّا لَا یلیقُ بِکَ ، اس عبادت کے اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔ سوال : نُسَبِحُّ اور نُقَدِّ سُ ، دونوں ہم معنی ہیں لہٰذاہ تکرار بےفائدہ ہے۔ جواب : دونوں کے معنی مختلف ہیں تسبیح کے معنی ہیں زبان سے تسبیح بیان کرنا اور تَقْدِیْس کے معنی ہیں پاکی کا دل سے اعتقاد رکھنا۔ قولہ : و جواب الشرط دَلَّ علیہ ماقبلہ یعنی اِنْ کنتم صٰدقین کا جواب شرط محذوف ہے اور دال علی الحذف، ماقبل یعنی انبؤنی ہے تقدیر عبادت یہ ہوگی، اِنْ کتنم صٰدقین انبؤنی، اور سیبویہ کے نزدیک چونکہ جواب شرط کی تقدیم جائز ہے لہٰذا جواب شرط محذوف ماننے کی ضرورت نہ ہوگی، بلکہ ماقبل میں مذکور، أ نبؤنی، ہی جواب شرط ہوگا۔ تفسیر و تشریح ربط آیات : وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ (الآ یة) اِذ ظرف زمان ہے کسی گذشتہ واقعہ کی یاددلانے کے موقع پر استعمال ہوتا ہے جس طرح کہ اِذَا کسی واقعہ ' مستقبل پر دلالت کرنے کے لئے آتا ہے۔ (ابوسعود) فرشتے اللہ کی نوری مخلوق ہیں جن کا مسکن آسمان ہے جواوامرالٰہی کے نجالانے اور اس کی تقدیس وتحمید میں مصروف رہتے ہیں اور اس کے کسی حکم سے سرتابی نہیں کرتے اپنا وجود خارجی رکھتے ہیں محض صفات الٰہی یا قوائے طبعی کے مرادف نہیں ہیں عادة انسان کے لئے غیر مرئی رہتے ہیں حسب ضرورت مختلف شکلیں اختیار کرسکتے ہیں، گذشتہ رکوع میں رب کی بندگی کی دعوت اس بنیاد پر دی گئی تھی کہ وہ تمہارا خالق و پروردگار ہے اسی کے قبضئہ قدرت میں تمہاری زندگی اور موت ہے اور جس کائنات میں تم رہتے ہو اس کا مالک اور مدبر بھی وہی ہے لہٰذا اس کی بندگی کے سوا تمہارے لئے کوئی دوسرا طریقہ صحیح نہیں ہوسکتا۔ اب اس رکوع میں وہی دعوت اس بنیاد پر دی جارہی ہے، کہ اس دنیا میں تم کو خدا نے اپنا خلیفہ بنایا ہے خلیفہ بنایا ہونے کی حیثیت سے تمہا را فرض صرف اتناہی نہیں ہے کہ صرف اس کی بندگی کرو، بلکہ یہ بھی ہے کہ اس کی بھیجی ہوئی ہدایت کے مطابق کام کرو، اگر تم نے ایسانہ کیا اور اپنے ازکی دشمن کے اشارہ پر چلے تو بدترین بغاوت کے مجرم ہوگے، اور بدترین انجام دیکھوگے۔ تاریخ آفرینش آدم علیہ الصلاة ولسلام اور اس کا منصب : اس سلسلے میں انسان کی حقیقت اور کائنات میں اس کی حیثیت ٹھیک ٹھیک بیان کردی گئی ہے اور نوع انسان کی تاریخ کا وہ باب پیش کیا گیا ہے، جس کے معلوم ہونے کا دوسرا کوئی ذریعہ انسان کو میسر نہیں ہے اس باب سے ہم کو جو معلومات حاصل ہوتی ہیں، یا جو ہم کو نتائج حاصل ہوتے ہیں، وہ ان نتائج سے بہت زیادہ قیمتی ہیں جو زمین کی تہوں سے متفرق ہڈیاں نکال کر اور انہیں قیاس وتخمین سے ربط دے کر نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، حتی کہ نسل انسان کا جدا علیٰ بندر کو قرار دے کر انسان کی توہین وتزلیل سے بھی نہیں چوکتے۔ خلیفہ : خلیفہ کہتے ہیں اس کو جو کسی کی نیابت کرے خواہ اس لئے کہ وہ موجود نہیں یا اس لئے کہ وہ فوت ہوچکا ہے یا اس لئے کہ وہ معذور ہے اور خواہ اس لئے کہ اس سے مستخلف کی تعظیم ظاہر ہو۔ '' الخلافة، النیابة مِنَ الغیر امّالغیبَة المنوب عنہ واِمّا لموتہ وَاِمالعجزہ وَاِمّالِتشریف المسْتخلف '' (راغب، تفسیر ماجد) واضح رہے کہ دنیا کے کسی انسان کو اس بلند مرتبہ یعنی خلافت و نیابت الٰہی پر نہیں رکھا ہے جاہلی مذاہت کا تو ذکر ہی کیا ؟ خودیہودیت اور اس کا مسخ شدہ ضمیمہ مسیحیت بھی اس باب میں اسلام سے کہیں پیچھے ہے، بائبل میں اس موقع پر صرف اس قدرذکر ہے۔ بائبل میں تحقیق آدم کا ذکر : '' خداوندنے زمین پر پانی برسا یا تھا، اور آدم نہ تھا کہ زمین کی کھیتی کرے اور زمین سے بخاراٹھتا تھا، اور تمام روئے زمین سیراب کرتا تھا اور خداوندانے زمین کی خاک سے آدم کو بنایا اور اس کے نتھنوں میں زندگی کا دم پھونکا سو آدم جیتی جان ہوا ''۔ (پیدائش، 2، 5، 7، ماجدی) گویا جس طرح دیگر حیوانات پیدا ہورہے تھے، ایک جاندار، آدم بھی پیدا ہوگیا، اس کا کام زیادہ سے زیادہ یہ تھا کہ زمین پر کھیتی کرے، کہاں یہ اتنا طویل لیکن نے مغز، انسان کو کاشتکاری تک محرود رکھنے والا بیان اور کہاں قرآن مجید کا باوجود نہایت اختصار کے انسان کے مرتبئہ خلافت الٰہی پو پہنچا دینے والا بلند اور جامع اعلان۔ قَالُؤ ااَتَجْعَلُ فِیْھَامَنْ یُّفْسِدُ فِیْھَا (الآیة) فرشتوں کا یہ قول بطور اعتراض یا گستاخی کے نہ تھا جیسا کہ بعض حضرت کا خیال ہے، فرشتے تو گستاخی کر ہی نہیں سکتے، باغی فرشتوں کا تخیل تمامتر مستحی ہے اور عجب نہیں کہ مسیحیوں کے ساتھ تعلقات قائم ہوجانے سے یہ خیال مسلمان علماء میں داخل ہوگیا ہو، فرشتوں کا یہ قول تمام تروفور نیاز مندی، اقرار وفاداری اور جوش جاں نثاری کا نتیجہ تھا جیسا کہ بعض محققین نے لکھا ہے۔ '' وقول الملا ئکة ھٰذالَیْسَ علی وجہ الاعتراض علی اللہ ولاعلیٰ وجہ الحسدلنبی آدم کماقد یتو ھمہ بعض المفسرین ''۔ (ابن کثیر) اس موقع پر بہترین تقریر حضرت تھا نوح (رح) تعالیٰ کی ہے آپ فرماتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ہم تو سب کے سب آپ کے فرمانبردار ہیں اور ان میں کوئی کوئی مفسد وسفاک بھی ہوگا، سو اگر یہ کام ہمارے سپرد کیا جائے، تو ہم سب لگ لپٹ کر اس کو انجام دیں گے اور وہ لوگ سب اس کام کے نہ ہوں گے البتہ جو مطیع ہوں گے وہ تو جان ودل سے اس میں لگ جائیں گے، مگر جو مفسد اور ظالم ہوں گے ان سے کیا امید کہ وہ اس کام کو انجام دیں گے، خلاصہ یہ ہے کہ جب کام کرنے والوں کا ایک گروہ موجود ہے، تو ایک نئی مخلوق کو جن میں کوئی کام کا ہوگا کوئی نہ ہوگا، اس خدمت کے لئے تجویز فرمانے کی کیا ضرورت ہے ؟ یہ بطور اعتراض کے نہیں کہا نہ اپنا استحقاق جتلایا بلکہ یہ ایسی بات ہے کہ کوئی حاکم نیاکام تجویز کرکے اس کے لئے ایک مستقل عملہ بڑھانا چاہے اور اپنے قدیم عملے سے اس کا اظہار کرے وہ لوگ اپنی جاں نثاری کی وجہ سے عرض کریں کہ حضور جو لواس کام کے لئے تجویز ہوئے ہیں ہم کسی طرح معلوم ہوا ہے کہ بعض بعض تو اس کو نخونی انجام دیں گے اور بعض بالکل ہی کام بکاڑدیں گے، جن سے حضور کا مزاج نا خوش ہوگا، آخرہم کس مرض کی دوا ہیں، ہر وقت حضور پر جان قربان کرنے کو تیار ہیں کیسا ہی کام کیوں نہ حضور کے اقبال سے اس کو انجام دے نکلتے ہیں، کبھی کسی خدمت میں ہم غلاموں نے عذر نہیں کیا اور اگر وہ نئی خدمت بھی ہم کو عنایت ہوگی تو ہم کو کوئی عذروانکار نہ ہوگا، فرشتوں کو عرض معروض بھی اسی طرح نیاز مندی کے وسطے تھی۔ (تفسیر ماجد ملخصًا) فرشتوں کی یہ ساری عرض ومعروض ان کی کسی غیب دانی کی بناپو نہیں بلکہ نیابت الٰہی و خلافت ربانی کا نام سن کر خود ہی انہوں نے اندازہ لگالیا تھا قوائے بشری کی ترکیب کا بھی اور زمین مخلوق کی ضرورتوں اور طبعی تقاضوں کا بھی، اور اس سے یہ نتیجہ خود بخود ان کے سامنے آگیا تھا کہ زمین فساد بھی ہوگا اور انسانوں میں سے باغی و نافرمان بھی پیدا ہوں گے، یہ بھی کہا کیا ہے کہ انسانی آبادی سے قبل روئے زمین پر جنات آباد تھے، ان کی سرشت و فطرت پر قیاس کرکے فرشتے انسانوں کے حق میں بھی یہی سمجھے، مفسرعلام سیوطی نے اپنے قول '' یُریقھا بالقتل کما فَعَلَ بنوالجان '' اسے اسی مضمون کی طرف اشارہ کیا ہے اور معالبم میں ہی :'' کمافَعَلَ بنوالجان فقاسوا الشاھِدعلی الغائب '' (معالم) وَاَنَّھُمْ قَاسَوْھُمْ عَلیٰ مَنْ سَبَقَ (ابن کثیر) اور ہوسکتا ہے کہ فرشتوں نے روح پھونکے جا نے سے پہلے ملکوتی نظر سے آدم کے جسد خاکی کو دیکھا ہو جو عناصر اربعہ متضادہ سے مرکب تھا اور اسی سے اندازہ کرلیا ہو کہ نئی مخلوق بھی زمین میں شروفساد برپا کرے گی، اور اس کو غیب نہیں کہتے یہ ایک شئی کا دوسری شئی پو قیاس اور نتیجہ کا اخذ ہے۔ (روح المعانی، ملخصًا) وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ ، دنیا میں دیوتا پرستی کی بیماری فرشتوں ہی کے فرائض کی غلط تشخیص سے پیدا ہوئی ہے، آگ کے فرشتوں کو جاہلی قوموں نے اگئی دیوتا بارش کے فرشتوں کو اندردیوتا اور رزق رساں فرشتوں کو اَنْ دیوتا علی ہذا القیاس قراردیدیا، قرآن نے نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکِ الخ فرشتوں کی زبانی کہلواکران کی عبدیت محض پر انہیں کی زبان سے مہرلگادی، فرشتے یہاں صاف صاف عرض کررہے ہیں کہ ہم خدام تو اپنی سرشت کے لحاظ سے بجز حضور والا کی تحمید و تقدیس کے اور کچھ کر ہی نہیں سکتے۔ فرشتہ اور دیوتا میں فرق : دونوں کے تصور میں بنیادی فرق یہ ہے کہ فرشتہ مکمل مخلوق اور عبد ہوتا ہء اللہ کے حکم سے موجودات کے کسی خاص شعبہ پر مامور ہوتا ہے، اس سے کسی غلط، لغزش یا خیانت کا احتمام نہیں ہوتا، اس کے برعکس دیوتا خودایک مستقبل بالذاتو خودمختار وجودہوتا ہے اور عبد نہیں بلکہ معبود ہوتا ہے۔ (ماجدی، ملخصًا) قَالَ اِنِِّیٔ اَعْلَمُ مَالَا تَعْلَمُوْنَ : فرشتوں کو جب یہ خلجان ہوا کہ ایسی مخلوق جس میں مفسد اور خون ریز تک ہوں گے، ہم ایسے مطیع اور فرمانبردار کے ہوتے ہوئے ان کو خلیفہ بنانا اس کی وجہ کیا ہوگی، تو بطور استفادہ یہ سوال کیا، اعتراض ہرگز نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ جا فرشتوں کو اجمالی جواب : فرشتوں کو سردست بالا جمال یہ جواب دیا گیا کہ ہم خوب جانتے ہیں اس کے پیدا کرنے میں جو حکمتیں ہیں تم کو ابھی تک وہ حکمتیں معلوم نہیں ورنہ اس کی حلافت اور افضلیت پر شبہ نہ کرتے۔ وَعَلََّمَ آدَمَالْاَسْمَآئَ کُلَّھَّا، یعنی اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ الصلاة والسلام کر ہر ایک چیز کا نام مع اس کی حقیقت و خاصیت اور نفع و نقصان کے تعلیم فرمایا اور یہ علم بلاواسطہ القاء فرمایا، اس لیے کہ کمال علمی کے بغیر خلافت اور دنیا پر حکومت ممکن نہیں ہے۔
Top