Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Jalalain - Aal-i-Imraan : 110
وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓئِكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةً١ؕ قَالُوْۤا اَتَجْعَلُ فِیْهَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْهَا وَ یَسْفِكُ الدِّمَآءَ١ۚ وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَ نُقَدِّسُ لَكَ١ؕ قَالَ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ
وَاِذْ
: اور جب
قَالَ
: کہا
رَبُّکَ
: تمہارے رب نے
لِلْمَلَائِکَةِ
: فرشتوں سے
اِنِّیْ
: میں
جَاعِلٌ
: بنانے والا ہوں
فِي الْاَرْضِ
: زمین میں
خَلِیْفَةً
: ایک نائب
قَالُوْا
: انہوں نے کہا
اَتَجْعَلُ
: کیا آپ بنائیں گے
فِیْهَا
: اس میں
مَنْ يُفْسِدُ
: جو فساد کرے گا
فِیْهَا
: اس میں
وَيَسْفِكُ الدِّمَآءَ
: اور بہائے گا خون
وَنَحْنُ
: اور ہم
نُسَبِّحُ
: بےعیب کہتے ہیں
بِحَمْدِکَ
: آپ کی تعریف کے ساتھ
وَنُقَدِّسُ
: اور ہم پاکیزگی بیان کرتے ہیں
لَکَ
: آپ کی
قَالَ
: اس نے کہا
اِنِّیْ
: بیشک میں
اَعْلَمُ
: جانتا ہوں
مَا
: جو
لَا تَعْلَمُوْنَ
: تم نہیں جانتے
اور (وہ وقت یاد کرنے کے قابل ہے) جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں، انہوں نے کہا کیا تو اس میں ایسے شخص کو بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے، اور ہم تیری تعریف کے ساتھ تسبیح و تقدیس کرتے رہتے ہیں (خدا نے) فرمایا میں وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے
آیت نمبر 30 تا 33 ترجمہ : اے محمد ﷺ ! اس وقت کو یاد کرو، جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا تھا کہ میں زمین میں ایک نائب بنائوں گا، جو زمین میں میرے احکام نافذ کرنے میں میری نیابت کرے گا اور وہ آدم علیہ الصلاة والسلام ہے، تو فرشتوں نے عرض کیا، کیا آپ زمین میں ایسے شخص کو مقرر فرمائیں گے جو زمین میں معاصی کے ذریعہ خون خرابہ کرے گا ؟ یعنی قتل کے ذریعہ خون ریزی کرے گا، جیسا کہ جناب نے کیا اور وہ زمین میں پہلے سے (مقیم) تھے، چناچہ جن انہوں نے فسادبرپا کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف فرشتوں کو بھیجا تو فرشتوں نے ان کو جزیروں اور پہاڑوں کی طرف دھکیل دیا، اور ہم آپ کی حمد وثناتو کر ہی رہے ہیں، یعنی سبحان اللہ، الحمداللہ کہہ رہے ہیں اور ان چیزوں سے جو تیری شایان شان نہیں ہیں تیری پاکی بیان کررہے ہیں (لَکَ ) میں لام زائد ہے اور جملہ حال ہے اور خلافت کے ہم زیادہ مستحق ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا، آدم علیہ الصلاة والسلام کے نائب بنانے میں جو مصلحت ہے، میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے ، (اور وہ یہ) کہ اس کی اولاد میں فرمانبردار بھی ہوں گے اور نافرمان بھی، تو ان میں عدل کا مظہور ہوگا، تو فرشتوں نے عرض کیا ہمارا رب ہرگز کوئی ایسی مخلوق پیدانہ کرے گا، جو اس کے نزدیک ہم سے افضل ہو اور نہ ایسی کہ جو ہم سے اعلم (زیادہ جاننے والی) ہو، اس وجہ سے کہ ہم کو حق سبقت حاصل ہے اور اس وجہ سے کہ جو ہم نے دیکھا ہے وہ کسی نے نہیں دیکھا، چناچہ حق تعالیٰ شانہ ' نے آدم علیہ الصلاة واسلام کو زمین کی مٹی سے پیدا فرمایا، یعنی سطح زمین (کی مٹی) سے اس طریقہ سے کہ زمین سے ہر رنگ کی ایک مٹھی مٹی لی اور اس کی مختلف پانیوں سے گوندھا اور اس میں روح پھونک دی تو وہ ایک حساس (شئی) بن گیا، بعد اس کے کہ وہ جماد ( بےجان) تھا، اور آدم علیہ الصلاة والسلام کی ساری چیزوں کے نام سکھائے، حتی کہ پیالہ، پیالی، اور پاد اور پھسکی اور ڈوئی بایں طور کہ آدم کے قلب پر ان کا علم القاہ فرمایا، فرمایا، پھر ان چیزوں کو فرشتوں کے روبروپیش فرمایا، ھم جمع مزکر کی ضمیر لانے کی وجہ، ذوی العقول کو غلبہ دینا ہے اور فرمایا کہ تم مجھے ان چیزوں کے نام بتائو، اگر تم اس ( مشورہ) میں سچے ہو کہ میں تم سے زیادہ جاننے والے کو پیدانہ کرونگا، یا تم اس دعوے پر حق دور ہو ( تو تم مجھے ان چیزوں کے نام بتائو) اور جواب شرط پر اس کا ماقبل دلالت کررہا ہے، فرشتوں نے عرض کیا آپ تو پاک ہیں ، ( یعنی) آپ تو اعتراض ( نقص) سے پاک ہیں ہمیں کچھ علم نہیں، مگر اتناہی جتنا آپ نے ہمیں سکھلایا، نے شک آپ ہی ( انت ضمیر) کاف خطاب کی تاکید کے لئے ہے، علم و حکمت والے ہیں کہ آپ کے علم و حکمت سے کوئی شئی خارج نہیں، حق تعالیٰ نے فرمایا اے آدم ! توبتادے فرشتوں کو ان چیزوں کے نام، چناچہ آدم علیہ الصلاة والسلام نے ان کو ہر چیز کا نام بتادیا اور ان کی حکمت اور خواص بیان کردیئے، جس کے لئے وہ چیزیں پیدا کی گئی تھیں جب آدم علیہ اصلاة السلام نے ان کو چیزوں کے نام بتادیئے، تو حق تعالیٰ نے تو بیخا فرمایا کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں جانتا ہوں آسمان اور زمین کی پوشیدہ چیزوں کی جو ان میں فرشتوں سے مخفی ہیں اور اس کو بھی جانتا ہوں جو تم اپنے قول اَتَجعَلُ فیھا من یفًسد الخ سے ظاہر کرتے ہو، اور جوابات تم چھیاتے ہو، یعنی اپنے قول :'' لن یخلق ربنا خلقا اکرم علیہ مناولا اعلم '' کو۔ تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد قولہ : وَاِ ذْقَالَ رَبُّکَ ، وائو، استینافیہ ہے، اِذْ ، اُذْکُرْ ، فعل محذوف کا مفعول بہ ہے، قرآن میں مذکور قصوں کے شروع میں یہی ترکیب اغلب ہے، زمخشری اور ابن عطیہ کا یہی قول مختار ہے اور ابوحیان نے کہا ہے کہ : اِذْقَالُوْااَتَجْعَلُ ، کی وجہ سے منصوب ہے۔ قولہ : لِلْمَلَا ئِکَةِ : یہ مَلَکُ کی جمع ہے، یہ اصل مَأ لَکُ بروزن مَفْعَل تھا ہمزہ کو تخفیفاً حذف کردیا گیا، مَلَک یہ اُلُوکة سے مشتق ہے، اُلوکةکے معنی ہیں پیغام بری، رسالت، فرشتے بھی خدا کا پیغام مخلوق تک پہنچانے کا کام کرتے ہیں اور خالق و مخلوق کر درمیان واسطہ ہوتے ہیں اس لئے ان کو ملائکہ کہتے ہیں۔ قولہ : مُتَلَبِّسِیْنَ ، اس میں ارشاد ہے کہ : بِحَمدِکَ ، نسبح کی ضمیر سے حال اور باء، ملابَسَت کے لئے ہے۔ قولہ : نُقَدِّسُ لَکَ ، میں لازم زائدہ برائے تاکید ہے، اس لئے کہ نقدس متعدی بنفسہ ہے۔ قولہ : والجملة حال یعنی وَنَحْنُ نُسَبِّحُ ، اَتجعَلُ کی ضمیر سے حال ہے اور نقدس کا عطف نُسَبِّحُ پر ہے معطوف معطوف علیہ سے مل کر جملہ فعلیہ ہوکر، نحن، مبتداء کی خبر ہے۔ قولہ : والضملة حال، کو ایک اعتراض کا جواب بھی قراردیا جاسکتا ہے۔ سوال : وَنُسَبِّحُ ، کا اَتَجْعَلُپرعطف درست نہیں ہے، اس لئے کہ : اَتَجْعَلُ جملہ انشائیہ ہے اور نُسَبِّحُ جملہ فعلیہ۔ جواب : وَنُسَبِّحُ کا عطف اَتَجْعَلُ پر نہیں ہے بلکہ وائو حالیہ ہے نہ کہ عاطفہ لہٰذا اب کوئی اعتراض نہیں ہے۔ قولہ : نُنَزِّ ھُکَ عَمَّا لَا یلیقُ بِکَ ، اس عبادت کے اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔ سوال : نُسَبِحُّ اور نُقَدِّ سُ ، دونوں ہم معنی ہیں لہٰذاہ تکرار بےفائدہ ہے۔ جواب : دونوں کے معنی مختلف ہیں تسبیح کے معنی ہیں زبان سے تسبیح بیان کرنا اور تَقْدِیْس کے معنی ہیں پاکی کا دل سے اعتقاد رکھنا۔ قولہ : و جواب الشرط دَلَّ علیہ ماقبلہ یعنی اِنْ کنتم صٰدقین کا جواب شرط محذوف ہے اور دال علی الحذف، ماقبل یعنی انبؤنی ہے تقدیر عبادت یہ ہوگی، اِنْ کتنم صٰدقین انبؤنی، اور سیبویہ کے نزدیک چونکہ جواب شرط کی تقدیم جائز ہے لہٰذا جواب شرط محذوف ماننے کی ضرورت نہ ہوگی، بلکہ ماقبل میں مذکور، أ نبؤنی، ہی جواب شرط ہوگا۔ تفسیر و تشریح ربط آیات : وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ (الآ یة) اِذ ظرف زمان ہے کسی گذشتہ واقعہ کی یاددلانے کے موقع پر استعمال ہوتا ہے جس طرح کہ اِذَا کسی واقعہ ' مستقبل پر دلالت کرنے کے لئے آتا ہے۔ (ابوسعود) فرشتے اللہ کی نوری مخلوق ہیں جن کا مسکن آسمان ہے جواوامرالٰہی کے نجالانے اور اس کی تقدیس وتحمید میں مصروف رہتے ہیں اور اس کے کسی حکم سے سرتابی نہیں کرتے اپنا وجود خارجی رکھتے ہیں محض صفات الٰہی یا قوائے طبعی کے مرادف نہیں ہیں عادة انسان کے لئے غیر مرئی رہتے ہیں حسب ضرورت مختلف شکلیں اختیار کرسکتے ہیں، گذشتہ رکوع میں رب کی بندگی کی دعوت اس بنیاد پر دی گئی تھی کہ وہ تمہارا خالق و پروردگار ہے اسی کے قبضئہ قدرت میں تمہاری زندگی اور موت ہے اور جس کائنات میں تم رہتے ہو اس کا مالک اور مدبر بھی وہی ہے لہٰذا اس کی بندگی کے سوا تمہارے لئے کوئی دوسرا طریقہ صحیح نہیں ہوسکتا۔ اب اس رکوع میں وہی دعوت اس بنیاد پر دی جارہی ہے، کہ اس دنیا میں تم کو خدا نے اپنا خلیفہ بنایا ہے خلیفہ بنایا ہونے کی حیثیت سے تمہا را فرض صرف اتناہی نہیں ہے کہ صرف اس کی بندگی کرو، بلکہ یہ بھی ہے کہ اس کی بھیجی ہوئی ہدایت کے مطابق کام کرو، اگر تم نے ایسانہ کیا اور اپنے ازکی دشمن کے اشارہ پر چلے تو بدترین بغاوت کے مجرم ہوگے، اور بدترین انجام دیکھوگے۔ تاریخ آفرینش آدم علیہ الصلاة ولسلام اور اس کا منصب : اس سلسلے میں انسان کی حقیقت اور کائنات میں اس کی حیثیت ٹھیک ٹھیک بیان کردی گئی ہے اور نوع انسان کی تاریخ کا وہ باب پیش کیا گیا ہے، جس کے معلوم ہونے کا دوسرا کوئی ذریعہ انسان کو میسر نہیں ہے اس باب سے ہم کو جو معلومات حاصل ہوتی ہیں، یا جو ہم کو نتائج حاصل ہوتے ہیں، وہ ان نتائج سے بہت زیادہ قیمتی ہیں جو زمین کی تہوں سے متفرق ہڈیاں نکال کر اور انہیں قیاس وتخمین سے ربط دے کر نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، حتی کہ نسل انسان کا جدا علیٰ بندر کو قرار دے کر انسان کی توہین وتزلیل سے بھی نہیں چوکتے۔ خلیفہ : خلیفہ کہتے ہیں اس کو جو کسی کی نیابت کرے خواہ اس لئے کہ وہ موجود نہیں یا اس لئے کہ وہ فوت ہوچکا ہے یا اس لئے کہ وہ معذور ہے اور خواہ اس لئے کہ اس سے مستخلف کی تعظیم ظاہر ہو۔ '' الخلافة، النیابة مِنَ الغیر امّالغیبَة المنوب عنہ واِمّا لموتہ وَاِمالعجزہ وَاِمّالِتشریف المسْتخلف '' (راغب، تفسیر ماجد) واضح رہے کہ دنیا کے کسی انسان کو اس بلند مرتبہ یعنی خلافت و نیابت الٰہی پر نہیں رکھا ہے جاہلی مذاہت کا تو ذکر ہی کیا ؟ خودیہودیت اور اس کا مسخ شدہ ضمیمہ مسیحیت بھی اس باب میں اسلام سے کہیں پیچھے ہے، بائبل میں اس موقع پر صرف اس قدرذکر ہے۔ بائبل میں تحقیق آدم کا ذکر : '' خداوندنے زمین پر پانی برسا یا تھا، اور آدم نہ تھا کہ زمین کی کھیتی کرے اور زمین سے بخاراٹھتا تھا، اور تمام روئے زمین سیراب کرتا تھا اور خداوندانے زمین کی خاک سے آدم کو بنایا اور اس کے نتھنوں میں زندگی کا دم پھونکا سو آدم جیتی جان ہوا ''۔ (پیدائش، 2، 5، 7، ماجدی) گویا جس طرح دیگر حیوانات پیدا ہورہے تھے، ایک جاندار، آدم بھی پیدا ہوگیا، اس کا کام زیادہ سے زیادہ یہ تھا کہ زمین پر کھیتی کرے، کہاں یہ اتنا طویل لیکن نے مغز، انسان کو کاشتکاری تک محرود رکھنے والا بیان اور کہاں قرآن مجید کا باوجود نہایت اختصار کے انسان کے مرتبئہ خلافت الٰہی پو پہنچا دینے والا بلند اور جامع اعلان۔ قَالُؤ ااَتَجْعَلُ فِیْھَامَنْ یُّفْسِدُ فِیْھَا (الآیة) فرشتوں کا یہ قول بطور اعتراض یا گستاخی کے نہ تھا جیسا کہ بعض حضرت کا خیال ہے، فرشتے تو گستاخی کر ہی نہیں سکتے، باغی فرشتوں کا تخیل تمامتر مستحی ہے اور عجب نہیں کہ مسیحیوں کے ساتھ تعلقات قائم ہوجانے سے یہ خیال مسلمان علماء میں داخل ہوگیا ہو، فرشتوں کا یہ قول تمام تروفور نیاز مندی، اقرار وفاداری اور جوش جاں نثاری کا نتیجہ تھا جیسا کہ بعض محققین نے لکھا ہے۔ '' وقول الملا ئکة ھٰذالَیْسَ علی وجہ الاعتراض علی اللہ ولاعلیٰ وجہ الحسدلنبی آدم کماقد یتو ھمہ بعض المفسرین ''۔ (ابن کثیر) اس موقع پر بہترین تقریر حضرت تھا نوح (رح) تعالیٰ کی ہے آپ فرماتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ہم تو سب کے سب آپ کے فرمانبردار ہیں اور ان میں کوئی کوئی مفسد وسفاک بھی ہوگا، سو اگر یہ کام ہمارے سپرد کیا جائے، تو ہم سب لگ لپٹ کر اس کو انجام دیں گے اور وہ لوگ سب اس کام کے نہ ہوں گے البتہ جو مطیع ہوں گے وہ تو جان ودل سے اس میں لگ جائیں گے، مگر جو مفسد اور ظالم ہوں گے ان سے کیا امید کہ وہ اس کام کو انجام دیں گے، خلاصہ یہ ہے کہ جب کام کرنے والوں کا ایک گروہ موجود ہے، تو ایک نئی مخلوق کو جن میں کوئی کام کا ہوگا کوئی نہ ہوگا، اس خدمت کے لئے تجویز فرمانے کی کیا ضرورت ہے ؟ یہ بطور اعتراض کے نہیں کہا نہ اپنا استحقاق جتلایا بلکہ یہ ایسی بات ہے کہ کوئی حاکم نیاکام تجویز کرکے اس کے لئے ایک مستقل عملہ بڑھانا چاہے اور اپنے قدیم عملے سے اس کا اظہار کرے وہ لوگ اپنی جاں نثاری کی وجہ سے عرض کریں کہ حضور جو لواس کام کے لئے تجویز ہوئے ہیں ہم کسی طرح معلوم ہوا ہے کہ بعض بعض تو اس کو نخونی انجام دیں گے اور بعض بالکل ہی کام بکاڑدیں گے، جن سے حضور کا مزاج نا خوش ہوگا، آخرہم کس مرض کی دوا ہیں، ہر وقت حضور پر جان قربان کرنے کو تیار ہیں کیسا ہی کام کیوں نہ حضور کے اقبال سے اس کو انجام دے نکلتے ہیں، کبھی کسی خدمت میں ہم غلاموں نے عذر نہیں کیا اور اگر وہ نئی خدمت بھی ہم کو عنایت ہوگی تو ہم کو کوئی عذروانکار نہ ہوگا، فرشتوں کو عرض معروض بھی اسی طرح نیاز مندی کے وسطے تھی۔ (تفسیر ماجد ملخصًا) فرشتوں کی یہ ساری عرض ومعروض ان کی کسی غیب دانی کی بناپو نہیں بلکہ نیابت الٰہی و خلافت ربانی کا نام سن کر خود ہی انہوں نے اندازہ لگالیا تھا قوائے بشری کی ترکیب کا بھی اور زمین مخلوق کی ضرورتوں اور طبعی تقاضوں کا بھی، اور اس سے یہ نتیجہ خود بخود ان کے سامنے آگیا تھا کہ زمین فساد بھی ہوگا اور انسانوں میں سے باغی و نافرمان بھی پیدا ہوں گے، یہ بھی کہا کیا ہے کہ انسانی آبادی سے قبل روئے زمین پر جنات آباد تھے، ان کی سرشت و فطرت پر قیاس کرکے فرشتے انسانوں کے حق میں بھی یہی سمجھے، مفسرعلام سیوطی نے اپنے قول '' یُریقھا بالقتل کما فَعَلَ بنوالجان '' اسے اسی مضمون کی طرف اشارہ کیا ہے اور معالبم میں ہی :'' کمافَعَلَ بنوالجان فقاسوا الشاھِدعلی الغائب '' (معالم) وَاَنَّھُمْ قَاسَوْھُمْ عَلیٰ مَنْ سَبَقَ (ابن کثیر) اور ہوسکتا ہے کہ فرشتوں نے روح پھونکے جا نے سے پہلے ملکوتی نظر سے آدم کے جسد خاکی کو دیکھا ہو جو عناصر اربعہ متضادہ سے مرکب تھا اور اسی سے اندازہ کرلیا ہو کہ نئی مخلوق بھی زمین میں شروفساد برپا کرے گی، اور اس کو غیب نہیں کہتے یہ ایک شئی کا دوسری شئی پو قیاس اور نتیجہ کا اخذ ہے۔ (روح المعانی، ملخصًا) وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ ، دنیا میں دیوتا پرستی کی بیماری فرشتوں ہی کے فرائض کی غلط تشخیص سے پیدا ہوئی ہے، آگ کے فرشتوں کو جاہلی قوموں نے اگئی دیوتا بارش کے فرشتوں کو اندردیوتا اور رزق رساں فرشتوں کو اَنْ دیوتا علی ہذا القیاس قراردیدیا، قرآن نے نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکِ الخ فرشتوں کی زبانی کہلواکران کی عبدیت محض پر انہیں کی زبان سے مہرلگادی، فرشتے یہاں صاف صاف عرض کررہے ہیں کہ ہم خدام تو اپنی سرشت کے لحاظ سے بجز حضور والا کی تحمید و تقدیس کے اور کچھ کر ہی نہیں سکتے۔ فرشتہ اور دیوتا میں فرق : دونوں کے تصور میں بنیادی فرق یہ ہے کہ فرشتہ مکمل مخلوق اور عبد ہوتا ہء اللہ کے حکم سے موجودات کے کسی خاص شعبہ پر مامور ہوتا ہے، اس سے کسی غلط، لغزش یا خیانت کا احتمام نہیں ہوتا، اس کے برعکس دیوتا خودایک مستقبل بالذاتو خودمختار وجودہوتا ہے اور عبد نہیں بلکہ معبود ہوتا ہے۔ (ماجدی، ملخصًا) قَالَ اِنِِّیٔ اَعْلَمُ مَالَا تَعْلَمُوْنَ : فرشتوں کو جب یہ خلجان ہوا کہ ایسی مخلوق جس میں مفسد اور خون ریز تک ہوں گے، ہم ایسے مطیع اور فرمانبردار کے ہوتے ہوئے ان کو خلیفہ بنانا اس کی وجہ کیا ہوگی، تو بطور استفادہ یہ سوال کیا، اعتراض ہرگز نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ جا فرشتوں کو اجمالی جواب : فرشتوں کو سردست بالا جمال یہ جواب دیا گیا کہ ہم خوب جانتے ہیں اس کے پیدا کرنے میں جو حکمتیں ہیں تم کو ابھی تک وہ حکمتیں معلوم نہیں ورنہ اس کی حلافت اور افضلیت پر شبہ نہ کرتے۔ وَعَلََّمَ آدَمَالْاَسْمَآئَ کُلَّھَّا، یعنی اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ الصلاة والسلام کر ہر ایک چیز کا نام مع اس کی حقیقت و خاصیت اور نفع و نقصان کے تعلیم فرمایا اور یہ علم بلاواسطہ القاء فرمایا، اس لیے کہ کمال علمی کے بغیر خلافت اور دنیا پر حکومت ممکن نہیں ہے۔
Top