Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 30
وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓئِكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةً١ؕ قَالُوْۤا اَتَجْعَلُ فِیْهَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْهَا وَ یَسْفِكُ الدِّمَآءَ١ۚ وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَ نُقَدِّسُ لَكَ١ؕ قَالَ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ
وَاِذْ
: اور جب
قَالَ
: کہا
رَبُّکَ
: تمہارے رب نے
لِلْمَلَائِکَةِ
: فرشتوں سے
اِنِّیْ
: میں
جَاعِلٌ
: بنانے والا ہوں
فِي الْاَرْضِ
: زمین میں
خَلِیْفَةً
: ایک نائب
قَالُوْا
: انہوں نے کہا
اَتَجْعَلُ
: کیا آپ بنائیں گے
فِیْهَا
: اس میں
مَنْ يُفْسِدُ
: جو فساد کرے گا
فِیْهَا
: اس میں
وَيَسْفِكُ الدِّمَآءَ
: اور بہائے گا خون
وَنَحْنُ
: اور ہم
نُسَبِّحُ
: بےعیب کہتے ہیں
بِحَمْدِکَ
: آپ کی تعریف کے ساتھ
وَنُقَدِّسُ
: اور ہم پاکیزگی بیان کرتے ہیں
لَکَ
: آپ کی
قَالَ
: اس نے کہا
اِنِّیْ
: بیشک میں
اَعْلَمُ
: جانتا ہوں
مَا
: جو
لَا تَعْلَمُوْنَ
: تم نہیں جانتے
اور جب کہا تیرے رب نے فرشتوں کو کہ میں بنانے والا ہوں زمین میں ایک نائب، کہا فرشتوں نے کیا قائم کرتا ہے تو زمین میں اس کو جو فساد کرے اس میں اور خون بہائے اور ہم پڑھتے رہتے ہیں تیری خوبیاں اور یاد کرتے ہیں تیری پاک ذات کو، فرمایا بیشک مجھ کو معلوم ہے جو تم نہیں جانتے
خلاصہ تفسیر
اور جس وقت ارشاد فرمایا آپ کے رب نے فرشتوں سے (تاکہ وہ اپنی رائے ظاہر کریں جس میں حکمت و مصلحت تھی مشورہ کی حاجت سے تو حق تعالیٰ بالا و برتر ہیں غرض اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا کہ) ضرور میں بناؤں گا زمین میں ایک نائب (یعنی وہ میرا نائب ہوگا کہ اپنے احکام شرعیہ کے اجراء ونفاذ کی خدمت اس کے سپرد کروں گا) کہنے لگے کیا آپ پیدا کریں گے زمین میں ایسے لوگوں کو جو فساد کریں گے اس میں اور خوں ریزیاں کریں گے اور ہم برابر تسبیح کرتے رہتے ہیں بحمد اللہ اور آپ کی پاکی بیان کرتے رہتے ہیں (فرشتوں کی یہ گذارش نہ بطور اعتراض اور نہ اپنا استحقاق جتانے کے لئے بلکہ فرشتوں کو کسی طرح یہ معلوم ہوگیا تھا کہ جو نئی مخلوق زمین سے بنائی جائے گی ان میں نیک وبد ہر طرح کے لوگ ہوں گے بعض لوگ اس نیابت کے کام کو اور زیادہ خراب کریں گے اس لئے نیاز مندانہ عرض کیا کہ ہم سب کے سب ہر خدمت کے لئے حاضر ہیں اور گروہ ملائکہ میں کوئی گناہ کرنے والا بھی نہیں اس لئے کوئی نیا عملہ بڑھانے اور نئی مخلوق پیدا کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے خصوصاً جب کہ اس نئی مخلوق میں یہ بھی احتمال ہے کہ وہ آپ کی مرضی کے خلاف کام کریں گے جس سے آپ ناخوش ہوں ہم ہر خدمت کے لئے حاضر ہیں اور ہماری خدمت آپ کی مرضی کے مطابق ہی ہوگی) حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ میں جانتا ہوں اس بات کو جس کو تم نہیں جانتے (یعنی جو چیز تمہاری نظر میں تخلیق بنی آدم سے مانع ہے کہ ان میں بعض فساد بھی پھیلائیں گے وہی چیز درحقیقت ان کی تخلیق کا اصلی سبب ہے کیونکہ اجراء احکام و انتظام تو جبھی وقوع میں آسکتا ہے جب کوئی اعتدال سے تجاوز کرنے والا بھی ہو یہ مقصود تم فرمانبرداروں کے جمع ہونے سے پورا نہیں ہوسکتا، اور اعتدال سے تجاوز کرجانے والی ایک مخلوق جنات پہلے سے موجود تھی اس سے یہ کام کیوں نہ لیا گیا اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کام کے لئے موزوں وہ مخلوق ہوسکتی ہے جن میں شر و فساد کا عنصر موجود تو ہو مگر غالب نہ ہو جنات میں یہ عنصر غالب تھا اس لئے تخلیق آدم کی تجویز فرمائی آگے اسی حکمت الہیہ کی مزید توضیح اس طرح کی گئی کہ نیابت خداوندی کے لئے ایک خاص علم کی ضرورت ہے وہ علم ملائکہ کی استعداد سے خارج ہے اس لئے فرمایا کہ) اور علم دے دیا اللہ تعالیٰ نے آدم ؑ کو (ان کو پیدا کرکے) سب چیزوں کے اسماء کا (یعنی سب چیزوں کے نام اور ان کے خواص وآثار سب کا علم آدم کو دے دیا گیا) پھر وہ چیزیں فرشتوں کے روبرو کردیں پھر فرمایا کہ بتلاؤ مجھ کو اسماء ان چیزوں کے (یعنی مع ان کے آثار و خواص کے) اگر تم سچے ہو (یعنی اپنے اس قول میں سچے ہو کہ ہم خلافت ارضی کا کام اچھا انجام دے سکیں گے) فرشتوں نے عرض کیا کہ آپ تو پاک ہیں (اس الزام سے (کہ آدم ؑ پر اس علم کو ظاہر فرمادیا ہم سے پوشیدہ رکھا کیونکہ کسی آیت یا روایت سے یہ ثابت نہیں ہے کہ آدم ؑ کو علم اسماء کی تعلیم فرشتوں سے الگ کرکے دی گئی اس سے ظاہر یہ ہے کہ تعلیم تو سب کے سامنے یکساں دی گئی مگر آدم ؑ کی فطرت میں اس علم کے حاصل کرلینے کی صلاحیت تھی انہوں نے حاصل کرلیا فرشتوں کی طبیعت اس کی متحمل نہ تھی ان کو یہ علم حاصل نہ ہوا) مگر ہم کو ہی علم نہیں مگر وہی جو کچھ آپ نے ہم کو علم دیا بیشک آپ بڑے علم والے ہیں حکمت والے ہیں (کہ جس قدر جس کے لئے مصلحت جانا اسی قدر علم وفہم اس کو عطا فرمایا اس سے فرشتوں کا یہ اعتراف تو ثابت ہوگیا کہ وہ اس کام سے عاجز ہیں جو نائب کے سپرد کرنا ہے آگے حق تعالیٰ کو یہ منظور ہوا کہ آدم ؑ میں اس علم خاص کی مناسبت کو فرشتوں کے سامنے آشکارا فرمادیں اس لئے حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے آدم تم بتلادو ان کو ان چیزوں کے اسماء (یعنی مع حالات و خواص کے جب آدم ؑ نے یہ سب فرشتوں کے روبرو بتلا دیا تو فرشتے اتنا سمجھ گئے کہ آدم ؑ اس علم کے ماہر ہوگئے ہیں) سو جب بتلا دئیے ان کو آدم ؑ نے ان چیزوں کے اسماء تو حق تعالیٰ نے فرمایا (دیکھو) میں تم سے نہ کہتا تھا کہ بیشک میں جانتا ہوں تمام پوشیدہ چیزیں آسمانوں کی اور زمین کی اور جانتا ہوں جس بات کو ظاہر کردیتے ہو اور جس کو دل میں رکھتے ہو
معارف و مسائل
ربط آیات
پچھلی آیات میں اللہ جل شانہ کی خاص وعام نعمتوں کا ذکر کر کے انسان کو ناشکری اور نافرمانی سے بچنے کی ہدایت کی گئی اس آیت سے آخر رکوع تک دس آیتوں میں آدم ؑ کا قصہ بھی اسی سلسلہ میں ذکر فرمایا ہے کیونکہ نعمت دو قسم کی ہوتی ہے ایک صوری یعنی محسوس جیسے کھانا، پینا، روپیہ، مکان جائیداد دوسری معنوی جیسے عزت وآبرو، مسرت علم۔ پچھلی آیات میں صوری اور ظاہری نعمتوں کا ذکر تھا اور ان گیارہ آیتوں میں معنوی نعمتوں کا ذکر ہے کہ ہم نے تمہارے باپ آدم ؑ کو دولت علم دی اور مسجود ملائکہ بنانے کی عزت دی اور تم کو ان کی اولاد میں ہونے کا فخر عطا کیا،
خلاصہ مضمون آیت کا یہ ہے کہ اللہ جل شانہ نے جب تخلیق آدم اور دنیا میں اس کی خلافت قائم کرنے کا ارادہ کیا تو فرشتوں سے بظاہر ان کا امتحان لینے کے لئے اس ارادے کا ذکر فرمایا جس میں اشارہ یہ تھا کہ وہ اس معاملے میں اپنی رائے کا اظہار کریں فرشتوں نے رائے یہ پیش کی کہ انسانوں میں تو ایسے لوگ بھی ہوں گے جو فساد اور خوں ریزی کریں گے ان کو زمین کی خلافت اور انتظام سپرد کرنا سمجھ میں نہیں آتا اس کام کے لئے تو فرشتے زیادہ انسب معلوم ہوتے ہیں کہ نیکی ان کی فطرت ہے برائی کا صدور ہی ان سے ممکن نہیں وہ مکمل اطاعت گذار ہیں دنیا کے انتظامات بھی وہ درست کرسکیں گے اللہ تعالیٰ نے ان کی رائے کے غلط ہونے کا اظہار اول ایک حاکمانہ طرز سے دیا کہ خلافت ارضی کی حقیقت اور اس کی ضروریات سے تم واقف نہیں اس کو میں ہی مکمل طور پر جانتا ہوں،
پھر دوسرا جواب حکیمانہ انداز سے آدم ؑ کی فرشتوں پر ترجیح اور مقام علم میں آدم کے تفوق کا ذکر کرکے دیا گیا اور بتلایا گیا کہ خلافت ارض کے لئے زمینی مخلوقات کے نام اور ان کے خواص وآثار کا جاننا ضروری ہے اور فرشتوں کی استعداد اس کی متحمل نہیں،
تخلیق آدم کی گفتگو فرشتوں سے کس مصلحت پر مبنی تھی
یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ حضرت حق جل وعلا شانہ کا فرشتوں کی مجلس میں اس واقعہ کا اظہار کس حیثیت سے تھا ؟ کیا ان سے مشورہ لینا مقصود تھا ؟ یا محض ان کو اطلاع دینا پیش نظر تھا ؟ یا فرشتوں کی زبان سے ان کی رائے کا اظہار کرانا اس کا منشاء تھا ؟
سو یہ بات ظاہر ہے کہ مشورہ کی ضرورت تو وہاں پیش آتی ہے جہاں مسٔلہ کے سب پہلو کسی پر روشن نہ ہوں اور اپنے علم و بصیرت پر مکمل اطمینان نہ ہو اس لئے دوسرے عقلاء واہل دانش سے مشورہ کیا جاتا ہے یا ایسی صورت میں جہاں حقوق دوسروں کے بھی مساوی ہوں تو ان کی رائے لینے کے لئے مشورہ ہوتا ہے جیسے دنیا کی عام نسلوں میں رائج ہے، اور یہ ظاہر ہے کہ یہاں دونوں صورتوں نہیں ہوسکتیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ خالق کائنات ہیں ذرہ ذرہ کا علم رکھتے ہیں اور ظاہر و باطن ہر چیز ان کے علم وبصر کے سامنے برابر ہے ان کو کیا ضرورت کہ کسی سے مشورہ لیں ؟
اسی طرح یہاں یہ بھی نہیں کہ کوئی پارلیمانی حکومت ہے جس میں تمام ارکان کے مساوی حقوق ہیں اور سب سے مشورہ لینا ضروری ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی سب کے خالق اور مالک ہیں فرشتے ہوں یا جن وانس سب ان کی مخلوق ومملوک ہیں کسی کو حق نہیں کہ ان کے کسی فعل کے متعلق سوال بھی کرسکے کہ آپ نے یہ کیوں کیا اور فلاں کام کیوں نہیں کیا لَا يُسْــَٔـلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْــَٔــلُوْنَ (23: 21)
(اللہ تعالیٰ سے اس کے کسی فعل کے متعلق سوال نہیں کیا جاسکتا اور سب سے ان کے اعمال کا سوال کیا جائے گا)
بات یہی ہے کہ درحقیقت یہاں مشورہ لینا مقصود نہیں اور نہ اس کی ضرورت ہے مگر صورت مشورہ کی بنائی گئی جس میں مخلوق کو سنت مشورہ کی تعلیم کا فائدہ ہوسکتا ہے جیسے رسول کریم ﷺ کو صحابہ کرام سے مشورہ لینے کی ہدایت قرآن میں فرمائی گئی حالانکہ آپ تو صاحب وحی ہیں تمام معاملات اور ان کے تمام پہلو آپ کو بذریعہ وحی بتلائے جاسکتے تھے مگر آپ کے ذریعہ مشورہ کی سنت جاری کرنے اور امت کو سکھانے کے لئے آپ کو بھی مشورے کی تاکید فرمائی گئی، حالانکہ آپ تو صاحب وحی ہیں تمام معاملات اور ان کے تمام پہلو آپ کو بذریعہ وحی بتلائے جاسکتے تھے، مگر آپ کے ذریعہ مشورہ کی سنت جاری کرنے اور امت کو سکھانے کے لئے آپ کو بھی مشورے کی تاکید فرمائی گئی،
غرض فرشتوں کی مجلس میں اس واقعہ کے اظہار سے ایک فائدہ تو تعلیم مشورہ کا حاصل ہوا (کما فی روح البیان) دوسرا فائدہ خود الفاظ قرآنی کے اشارہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی پیدائش سے پہلے فرشتے یہ سمجھتے تھے کہ ہم سے زیادہ افضل واعلم کوئی مخلوق اللہ تعالیٰ پیدا نہیں کریں گے،
اور تفسیر ابن جریر میں حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت میں اس کی تصریح بھی ہے کہ خلقت آدم ؑ سے پہلے فرشتے آپس میں کہتے تھے کہلن یخلق اللہ خلقاً اکرم علیہ منا ولا اعلم (یعنی اللہ تعالیٰ کوئی مخلوق ہم سے افضل اور اعلم پیدا نہ فرماویں گے) حضرت حق جل شانہ کے علم میں تھا کہ ایک ایسی مخلوق بھی پیدا کرنے اور زمین کے نائب بنانے کا ذکر کیا گیا کہ وہ اپنے خیال کا اظہار کریں،
اس لئے فرشتوں کی مجلس میں آدم ؑ کو پیدا کرنے اور زمین کے نائب بنانے کا ذکر کیا گیا کہ وہ اپنے خیال کا اظہار کریں،
چنانچہ فرشتوں نے اپنے علم و بصیرت کے مطابق نیاز مندی کے ساتھ رائے کا اظہار کیا کہ جس مخلوق کو آپ خلیفہ زمین بنا رہے ہیں اس میں تو شر و فساد کا مادہ بھی ہے وہ دوسروں کی اصلاح اور زمین میں امن وامان کا انتظام کیسے کرسکتا ہے جبکہ وہ خود خوں ریزی کا بھی مرتکب ہوگا اس کے بجائے آپ کے فرشتوں میں شر و فساد کا کوئی مادہ نہیں وہ خطاؤں سے معصوم ہیں اور ہر وقت آپ کی تسبیح و تقدیس اور عبادت و اطاعت میں لگے ہوتے ہیں وہ بظاہر اس خدمت کو اچھی طرح انجام دے سکتے ہیں،
غرض اس سے معاذ اللہ حضرت حق جل شانہ کے فعل پر اعتراض نہیں کیونکہ فرشتے ایسے خیالات و حالات سے معصوم ہیں بلکہ مقصد محض دریافت کرنا تھا کہ ایک ایسی معصوم جماعت کے موجود ہوتے ہوئے دوسری غیر معصوم مخلوق پیدا کر کے یہ کام اس کے حوالے کرنا اور اس کو ترجیح دینا کس حکمت پر مبنی ہے ؟
چنانچہ اس کے جواب میں پہلے تو حق تعالیٰ نے اجمالی طور پر یہ فرمایا کہ اِنِّىْٓ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ یعنی تم خلافت الہیہ کی حقیقت اور اس کے لوازم سے واقف نہیں اس لئے یہ سمجھ رہے ہو کہ ایک معصوم مخلوق ہی اس کو انجام دے سکتی ہے اس کی پوری حقیقت کو ہم ہی جانتے ہیں
خلافت ارض کا مسئلہ
زمین کا انتظام اور اس میں خدا کا قانون نافذ کرنے کے لئے اس کی طرف سے کسی نائب کا مقرر ہونا جو ان آیات سے معلوم ہوا اس سے دستور مملکت اہم باب نکل آیا کہ اقتدار اعلیٰ تمام کائنات اور پوری زمین پر صرف اللہ تعالیٰ کا ہے جیسا کہ قرآن مجید کی بہت سی آیات اس پر شاہد ہیں اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِ (57: 6) اور لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ (107: 2) اور اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ (54: 7) وغیرہ زمین کے انتظام کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نائب آتے ہیں جو بأذن خداوندی زمین پر سیاست و حکومت اور بندگان خدا تعالیٰ کی تعلیم و تربیت کا کام کرتے اور احکام الہیہ کو نافذ کرتے ہیں اس خلیفہ ونائب کا تقرر بلا واسطہ خود حق تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے اس میں کسی کے کسب وعمل کا کوئی دخل نہیں اسی لئے پوری امت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ نبوت کسبی چیز نہیں جس کو کوئی اپنی سعی وعمل سے حاصل کرسکے بلکہ حق تعالیٰ ہی خود اپنے علم و حکمت کے تقاضے سے خاص خاص افراد کو اس کام کے لئے چن لیتے ہیں جن کو اپنا نبی و رسول یا خلیفہ ونائب قرار دیتے ہیں قرآن حکیم نے جگہ جگہ اس کا اظہار فرمایا ہے ارشاد ہے،
اَللّٰهُ يَصْطَفِيْ مِنَ الْمَلٰۗىِٕكَةِ رُسُلًا وَّمِنَ النَّاسِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌۢ بَصِيْرٌ (75: 22) اللہ تعالیٰ انتخاب کرلیتا ہے فرشتوں میں سے اپنے رسول کو اور انسانوں میں سے بیشک اللہ تعالیٰ سننے والا دیکھنے والا ہے،
نیز ارشاد ہے
اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ (124: 6) اللہ تعالیٰ ہی خوب جانتے ہیں کہ اپنی رسالت کس کو عطا فرماویں،
یہ خلیفۃ اللہ بلا واسطہ اللہ تعالیٰ سے اس کے احکام معلوم کرتے اور پھر ان کو دنیا میں نافذ کرتے ہیں یہ سلسلہ خلافت ونیابت الہیہ کا آدم ؑ سے شروع ہو کر خاتم الانبیاء ﷺ تک ایک ہی انداز میں چلتا رہا یہاں تک کہ حضرت خاتم الانبیاء ﷺ اس زمین پر اللہ تعالیٰ کے آخری خلیفہ ہو کر بہت ہی اہم خصوصیات کے ساتھ تشریف لائے،
ایک خصوصیت یہ تھی کہ آپ سے قبل انبیاء خاص خاص قوموں یا ملکوں کے طرف مبعوث ہوتے تھے ان کا حلقہ حکومت اختیار انہی قوموں اور ملکوں میں محدود ہوتا تھا ابراہیم ؑ ایک قوم کی طرف لوط ؑ دوسری قوم کی طرف مبعوث ہوئے حضرت موسیٰ اور عیسیٰ (علیہما السلام) اور ان کے درمیان آنے والے انبیاء بنی اسرائیل کی طرف بھیجے گئے،
آنحضرت ﷺ زمین میں اللہ کے آخری خلیفہ ہیں اور آپ کی خصوصیات
آنحضرت ﷺ کو پورے عالم اور اس کی دونوں قوم جنات و انسان کی طرف بھیجا گیا آپ کو اختیار و اقتدار پوری دنیا کی دونوں قوموں پر حاوی فرمایا گیا قرآن کریم نے آپ کی بعثت ونبوت کے عام ہونے کا اعلان اس آیت میں فرمایا
قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَۨا الَّذِيْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ (158: 7) آپ کہہ دیجئے کہ اے لوگو ! میں اللہ کا رسول ہوں تم سب کی طرف اللہ تعالیٰ وہ ذات جس کے قبضہ میں ہے ملک آسمانوں اور زمین کا
اور صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ مجھے تمام انبیاء (علیہم السلام) پر چھ چیزوں میں خاص فضیلت بخشی گئی ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ کو تمام عالم کا نبی رسول بنا کر بھیجا گیا،
دوسری خصوصیت خاتم الانبیاء ﷺ کی یہ ہے کہ پچھلے انبیاء کی خلافت ونیابت جس طرح خاص خاص ملکوں اور قوموں میں محدود ہوتی تھی اسی طرح ایک خاص زمانے کے لئے مخصوص ہوتی تھی اس کے بعد دوسرا رسول آجاتا تو پہلے رسول کی خلافت ونیابت ختم ہو کر آنے والے رسول کی خلافت قائم ہوجاتی تھی، ہمارے رسول ﷺ کو حق تعالیٰ نے خاتم الانبیاء بنادیا کہ آپ کی خلافت ونیابت قیامت تک قائم رہے گی اس کا زمانہ بھی کوئی مخصوص زمانہ نہیں بلکہ جب تک زمین و آسمان قائم اور زمانہ کا وجود ہے وہ بھی قائم ہے،
تیسری خصوصیت یہ ہے کہ پچھلے انبیاء (علیہم السلام) کی تعلیمات و شریعت ایک زمانہ تک محفوظ رہتی اور چلتی تھی رفتہ رفتہ اس میں تحریفات ہوتے ہوئے وہ کالعدم ہوجاتی تھیں اس وقت کوئی دوسرا رسول اور دوسری شریعت بھیجی جاتی تھی،
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ (9: 15) ہم نے ہی قرآن نازل فرمایا اور ہم اس کے محافظ ہیں،
اسی طرح آنحضرت ﷺ کی تعلیمات و ارشادات جن کو حدیث کہا جاتا ہے اس کی حفاظت کا بھی اللہ تعالیٰ نے ایک خاص انتظام فرما دیا کہ قیامت تک آپ کی تعلیمات اور ارشادات کو جان سے زیادہ عزیز سمجھنے والی ایک جماعت باقی رہے گی جو آپ کے علوم و معارف اور آپ کے شرعی احکام صحیح صحیح لوگوں کو پہونچاتی رہے گی کوئی اس جماعت کو مٹا نہ سکے گا اللہ تعالیٰ کی تایئد غیبی ان کے ساتھ رہے گی،
خلاصہ یہ ہے کہ پچھلے انبیاء (علیہم السلام) کی کتابیں اور صحیفے سب مسخ ومحرف ہوجاتے اور بالآخر دنیا سے گم ہوجاتے یا غلط سلط باقی رہتے تھے آنحضرت ﷺ کی لائی ہوئی کتاب قرآن اور آپ کی بتلائی ہوئی ہدایات حدیث سب کی سب اپنے خدوخال کے ساتھ قیامت تک موجود و محفوظ رہیں گی اسی لئے اس زمین پر آپ کے بعد نہ کسی نئے نبی اور رسول کی ضرورت ہے نہ کسی اور خلیفۃ اللہ کی گنجائش،
چوتھی خصوصیت آنحضرت ﷺ کی یہ ہے کہ پچھلے انبیاء (علیہم السلام) کی خلافت ونیابت جو محدود وزمانہ کے لئے ہوتی تھی ہر نبی و رسول کے بعد دوسرا رسول منجانب اللہ مقرر ہوتا اور نیابت کا کام سنبھالتا تھا،
آنحضرت ﷺ کے بعد نظام خلافت
خاتم الانبیاء ﷺ کا زمانہ خلافت ونیابت تا قیامت ہے اس لئے قیامت تک آپ ہی اس زمین میں خلیفۃ اللہ ہیں آپ کی وفات کے بعد نظام عالم کیلئے جو نائب ہوگا وہ خلیفۃ الرسول اور آپ کا نائب ہوگا صحیح بخاری ومسلم کی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
کانت بنو اسرائیل تسوسہم الانبیاء کلما ہلک نبی کلفہ نبی وانہ لانی بعدی وسیکون خلفاء فیکثرونبنی اسرائیل کی سیاست و حکومت ان کے انبیاء کرتے تھے ایک نبی فوت ہوتا تو دوسرا نبی آجاتا اور خبردار رہو کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہاں میرے خلیفہ ہوں گے اور بہت ہوں گے،
پانچویں خصوصیت آنحضرت ﷺ کی یہ ہے کہ آپ کے بعد آپ کی امت کے مجموعے کو اللہ تعالیٰ نے وہ مقام عطا فرمایا جو انبیاء (علیہم السلام) کا ہوتا ہے یعنی امت کے مجموعے کو معصوم قرار دے دیا کہ آپ کی پوری امت کبھی گمراہی اور غلطی پر جمع نہ ہوگی یہ پوری امت جس مسئلہ پر اجماع و اتفاق کرے وہ حکم خداوندی کا مظہر سمجھا جائے گا اسی لئے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کے بعد اسلام میں تیسری حجت اجماع امت قرار دی گئی ہے آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے، لن تجتمع امتی علی الضلالۃ میری امت کبھی گمراہی پر مجتمع نہ ہوگی،
اس کی مزید تفصیل اس حدیث سے معلوم ہوجاتی ہے جس میں یہ ارشاد ہے کہ میری امت میں ہمیشہ ایک جماعت حق پر قائم رہے گی دنیا کتنی ہی بدل جائے حق کتنا ہی مضمحل ہوجائے مگر ایک جماعت حق کی حمایت ہمیشہ کرتی رہے گی اور انجام کار وہی غالب رہی گی،
اس سے بھی واضح ہوگیا کہ پوری امت کبھی گمراہی اور غلطی پر جمع نہ ہوگی اور جب کہ امت کا مجموعہ معصوم قرار دیا گیا تو خلیفہ رسول اللہ ﷺ کا انتخاب بھی اسی کے سپرد کردیا گیا اور خاتم الانبیاء ﷺ کے بعد نیابت زمین اور نظم حکومت کے لئے انتخاب کا طریقہ مشروع ہوگیا یہ امت جسے خلافت کے لئے منتخب کردے وہ خلیفہ رسول کی حیثیت سے نظام عالم کا واحد ذمہ دار ہوگا اور خلیفہ سارے عالم کا ایک ہی ہوسکتا ہے ،
خلفائے راشدین کے آخری عہد تک یہ سلسلہ خلافت صحیح اصول پر چلتا رہا اور اسی لئے ان کے فیصلے صرف دینی اور ہنگامی فیصلوں کی حیثیت نہیں رکھتے بلکہ ایک محکم دستاویز اور ایک درجہ میں امت کے لئے حجت مانے جاتے ہیں کیونکہ خود آنحضرت ﷺ نے ان کے متعلق فرمایا،
علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین ؛
میری سنت کو لازم پکڑو اور خلفائے راشدین کی سنت کو
خلافت راشدہ کے بعد
خلافت راشدہ کے بعد کچھ طوائف الملوکی کا آغاز ہوا مختلف خطوں میں مختلف امیر بنائے گئے ان میں سے کوئی بھی خلیفہ کہلانے کا مستحق نہیں ہاں کسی ملک یا قوم کا امیر خاص کہا جاسکتا ہے اور جب پوری دنیا کے مسلمانوں کا اجتماع کسی ایک فرد پر متعذر ہوگیا اور ہر ملک ہر قوم کا علیٰحدہ علیحٰدہ امیر بنانے کی رسم چل گئی تو مسلمانوں نے اس کا تقرر اسی اسلامی نظریہ کے تحت جاری رکھا کہ ملک کے مسلمانوں کی اکثریت جس کو امیر منتخب کرے وہ ہی اس ملک کا امیر اور اولو الامر کہلائے قرآن مجید کے ارشاد وَاَمْرُهُمْ شُوْرٰى بَيْنَهُمْ (42: 37)
مغربی جمہوریت اور اسلامی شورائیت میں فرق
اسمبلیاں اسی طرز عمل کا ایک نمونہ ہیں فرق اتنا ہے کہ عام جمہوری ملکوں کی اسمبلیاں اور ان کے ممبران بالکل آزاد وخود مختار ہیں محض اپنی رائے سے جو چاہیں اچھا یا برا قانون بنا سکتے ہیں اسلامی اسمبلی اور اس کے ممبران اور منتخب کردہ امیر سب اس اصول و قانون کے پابند ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے رسول ﷺ کے ذریعہ ان کو ملا ہے اس اسمبلی یا مجلس شوریٰ کی ممبری کے لئے بھی کچھ شرائط ہیں اور جس شخص کو یہ منتخب کریں اس کے لئے بھی کچھ حدود وقیود ہیں پھر ان کی قانون سازی بھی قرآن وسنت کے بیان کردہ اصول کے دائرہ میں ہوسکتی ہے اس کے خلاف کوئی قانون بنانے کا ان کو اختیار نہیں،
آیت مذکورہ سے دستور مملکت کی چند اہم دفعات کا ثبوت
اول یہ کہ آسمان اور زمین میں اللہ تعالیٰ کے احکام کے تنفیذ کے لئے اس کا نائب و خلیفہ اس کا رسول ہوتا ہے اور ضمنی طور پر یہ بھی واضح ہوگیا کہ خلافت الہیہ کا سلسلہ جب آنحضرت ﷺ پر ختم ہوگیا تو اب خلافت رسول کا سلسلہ اس کے قائم مقام ہوا اور اس خلیفہ کا تقرر ملت کے انتخاب سے قرار پایا۔
Top