Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 30
وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓئِكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةً١ؕ قَالُوْۤا اَتَجْعَلُ فِیْهَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْهَا وَ یَسْفِكُ الدِّمَآءَ١ۚ وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَ نُقَدِّسُ لَكَ١ؕ قَالَ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ
وَاِذْ
: اور جب
قَالَ
: کہا
رَبُّکَ
: تمہارے رب نے
لِلْمَلَائِکَةِ
: فرشتوں سے
اِنِّیْ
: میں
جَاعِلٌ
: بنانے والا ہوں
فِي الْاَرْضِ
: زمین میں
خَلِیْفَةً
: ایک نائب
قَالُوْا
: انہوں نے کہا
اَتَجْعَلُ
: کیا آپ بنائیں گے
فِیْهَا
: اس میں
مَنْ يُفْسِدُ
: جو فساد کرے گا
فِیْهَا
: اس میں
وَيَسْفِكُ الدِّمَآءَ
: اور بہائے گا خون
وَنَحْنُ
: اور ہم
نُسَبِّحُ
: بےعیب کہتے ہیں
بِحَمْدِکَ
: آپ کی تعریف کے ساتھ
وَنُقَدِّسُ
: اور ہم پاکیزگی بیان کرتے ہیں
لَکَ
: آپ کی
قَالَ
: اس نے کہا
اِنِّیْ
: بیشک میں
اَعْلَمُ
: جانتا ہوں
مَا
: جو
لَا تَعْلَمُوْنَ
: تم نہیں جانتے
(اور یاد کرو ! جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں، انھوں نے عرض کیا، کیا آپ زمین میں اس کو خلیفہ مقرر کریں گے، جو اس میں فساد مچائے اور خوں ریزیاں کرے، آپ کی حمد وثنا کے ساتھ تسبیح اور آپ کے لیے تقدیس تو ہم کر ہی رہے ہیں، فرمایا : میں جانتا ہوں جو کچھ تم نہیں جانتے۔
وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّی جَاعِلٌ فِیْ الْاَرْضِ خَلِیْفَۃًط قَالُوْآ اَتَجْعَلُ فِیْھَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْھَا وَیَسْفِکُ الدِّمَآئَ ج وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ ط قَالَ اِنِّیٓ اَعْلَمُ مَالاَ تَعْلَمُوْنَ ۔ (اور یاد کرو ! جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں، انھوں نے عرض کیا، کیا آپ زمین میں اس کو خلیفہ مقرر کریں گے، جو اس میں فساد مچائے اور خوں ریزیاں کرے، آپ کی حمد وثنا کے ساتھ تسبیح اور آپ کے لیے تقدیس تو ہم کر ہی رہے ہیں، فرمایا : میں جانتا ہوں جو کچھ تم نہیں جانتے) (البقرۃ : 30) گزشتہ رکوع میں پروردگار نے انسانوں کو اپنی بندگی کی دعوت دی اور اس کی بنیاد یہ رکھی کہ چونکہ پروردگار ہی تمہارا خالق، تمہارا مالک، تمہارا روزی رساں، تمہاری زندگی کے تمام امکانات اور ضروریات کو فراہم کرنے والا اور دنیا بھر کی نعمتوں کا عطا کرنے والا ہے، اس لیے وہی تمہارا آقا اور حاکم ہے بندگی، غلامی اور پرستش اسی کو زیب دیتی ہے۔ لہٰذا اس کی بندگی میں کسی اور کو شریک مت کرو۔ رہی یہ بات کہ اس بندگی کے طور طریقے کیا ہوں ؟ اس کی حدود اور اس کے آداب کیا ہوں ؟ اس کی تفصیلات کا علم کیسے ہو ؟ اس کے لیے نبوت اور قرآن کریم پر ایمان لانے کا حکم دیا اور اس پر محکم دلائل قائم کیے۔ انسان چونکہ جواب دہی کے احساس کے بغیر ذمہ داری اور فکر مندی سے کسی کام کرنے کے لیے بہت کم تیار ہوتا ہے۔ اس لیے دلائل سے یہ بات واضح کردی گئی کہ ایک دن ایسا آئے گا جب تمہیں اپنے ایک ایک عمل کا حساب اپنے اللہ کو دینا ہوگا۔ اس دعوت کے نتیجے میں مخالفت اور مخاصمت کی صورت میں جو شدید ردعمل سامنے آیا اس نے اگر ایک طرف اس دعوت کے امکانات کو مخدوش بنادیاتو دوسری طرف ذات رسالت مآب ﷺ اور مسلمانوں کے لیے زندگی دشوار کردی۔ جب ہم اس رد عمل کے اسباب تلاش کرتے ہیں تو ان اسباب میں سب سے زیادہ دو سبب کارفرما دکھائی دیتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ جزیرہ عرب میں بالخصوص اور پوری دنیا میں بالعموم اس دعوت کے مخاطبین نے محسوس کیا کہ اگر اسلام کی دعوت کو قبول کرلیا جاتا ہے اور قرآنی فکر دل و دماغ میں اتر جاتی ہے تو اس کے نتیجے میں دنیا میں جو انقلاب برپا ہوگا اس میں کسی کی ذاتی عظمت، ذاتی چوہدراہٹ، دولت کی حاکمیت، سرمائے کا غرور، گروہوں کا تسلط، قبائل کی اجارہ داری اور تخت وتاج کی ہیبت کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔ انسانیت کی بنیاد پر ایک نیا انسانی معاشرہ پیدا ہوگا۔ جس میں صرف اللہ کی حاکمیت ہوگی لوگ نام ونسب سے نہیں صرف اعمال سے پہچانے جائیں گے۔ عزت کا معیار انتسابات نہیں ہوں گے، صرف تقویٰ ، صلاحیت اور خدمت ہوگی۔ دوسرا سبب یہ کہ بعض قبائل اور بعض قومیں اس بات پر یقین رکھتی تھیں کہ ہمیں اپنے نسب اور خاندانی وجاہت کے اعتبار سے ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ ہماری اس اہمیت کی وجہ سے کوئی قوم اور کوئی قبیلہ ہمارا ہمسر نہیں ہوسکتا اس لیے جب کوئی بات عزت اور سربلندی کی کسی دوسری طرف سے ان کو سنائی دیتی تھی تو وہ فوراً حسد کا شکار ہوجاتے تھے۔ خاندانی یا قومی عصبیت یا حسد کی وجہ سے وہ کسی طرح گوارا نہیں کرسکتے تھے کہ کسی اور کے لیے کوئی عزت کی بات قبول کرنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ قریش بطور ایک قبیلے کے اور یہود بطور ایک قوم کے بری طرح اس مرض کا شکار تھے۔ یہود اپنی قوم کے باہر خدا کا نام سننے کے لیے تیار نہ تھے، ان کے لیے یہ بات موت کے برابر سمجھی جاتی تھی کہ ان کے سوا کسی اور خاندان یا قوم میں اللہ کی وحی اترے۔ اسی طرح قریش کے لیے اپنے کسی قبیلے کے کسی فرد یا باہر کے کسی قبیلے کے کسی شخص کے بارے میں یہ سوچا بھی نہ جاسکتا تھا کہ وہ نبوت کا دعویٰ کرے اور پھر نبوت کے باعث وہ باقی قبائل پر عزت اور عظمت حاصل کرلے۔ حاصل کلام یہ کہ ذاتی وجاہتوں، قومی عظمتوں اور موروثی تخت وتاج نے اسلام کی مخالفت اس لیے کی کہ اللہ کی حاکمیت ان سب کی وجاہتوں اور عظمتوں کو ختم کردینے کا باعث ہوتی۔ اور قریش اور یہود نے حسد کی بنیاد پر اسلام کو برداشت کرنے سے انکار کردیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اس طرح ہم نے اپنے لیے جو عظمتیں اور عزتیں بنا رکھی ہیں، وہ سب ختم ہوجائیں گی۔ اور حسد کسی دوسرے کے لیے عزت اور عظمت کو برداشت کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ پیش نظر رکوع میں ان دونوں باتوں کا نہ صرف جواب دیا گیا ہے بلکہ تاریخی حقائق کی روشنی میں ایک آئینہ بھی دکھا دیا گیا ہے۔ جس سے اگر کوئی اس حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کرے تو نہائت آسانی سے سمجھی جاسکتی ہے۔ سب سے پہلی بات یہ واضح کی گئی ہے کہ تم نے زمین پر جو اپنے نام اور اپنے طریقوں سے ریاستیں اور حکومتیں قائم کررکھی ہیں۔ یہ سراسر اللہ تعالیٰ کی ہدایت سے تجاوز ہے کیونکہ جب ہم نے پہلے انسان کو پیدا کرکے زمین پر بھیجا تھا، تو اس پر یہ بات واضح کردی تھی کہ تم نے زمین پر جاکر اللہ کی خلافت قائم کرنی ہے اپنی حکومت نہیں۔ اور جہاں تک تعلق ہے یہود اور قریش کے حاسدانہ طرز عمل کا انھیں بھی تاریخ کا یہ ورق پڑھ کر اندازہ ہوجائے گا کہ آدم قافلہ نبوت کے پہلے فرد تھے۔ ان کے ساتھ ابلیس نے حسد کیا تھا۔ حضرت آدم کے زمین پر آنے سے پہلے آسمان یا جنت میں کیا جانے والا یہ پہلا گناہ ہے۔ لیکن اس کا نتیجہ کیا ہوا کہ آدم کو اللہ نے سرفرازی بخشی اور ابلیس کے حصے میں رسوائی اور ناکامی آئی۔ آج پھر اگر یہود اور قریش ابلیس کی تاریخ دہرا رہے ہیں تو رسول اللہ ﷺ حضرت آدم کی طرح سرفراز ہوں گے آپ کی دعوت اسلامی کامیاب ہوگی اور یہود اور ان کے طریقے پر چلنے والے ابلیس کی طرح خائب و خاسر ہوں گے۔ انہی دونوں حقائق کو پیش نظر رکوع میں حکمتوں سے بھرپور انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ جس کا تذکرہ ہم قرآن کی بیان کردہ ترتیب کے ساتھ کریں گے۔ ” اذ “ کا محل استعمال سب سے پہلا لفظ ہے اذقال، عربی زبان میں جب کسی بات کا آغاز اذ سے ہوتا ہے تو وہ اصل میں اُذْکُرْکے معنی میں ہوتا ہے۔ یاد کرو، تصور میں لائو، ذہن میں تازہ کرو، یہ اس کا مفہوم ہوتا ہے۔ اس کے بعد جو سرگزشت بیان کی جاتی ہے، یا کسی سرگزشت کا حوالہ دیا جاتا ہے تو اس میں یہ تصور دینا مقصود ہوتا ہے کہ جس سرگزشت کا حوالہ دیا جارہا ہے مخاطب اس سے پوری طرح واقف ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو پھر یہ یقین دلانا مقصود ہوتا ہے کہ متکلم اس سرگزشت کے صحیح ہونے پر پوری طرح یقین رکھتا ہے اس لیے مخاطب کو بھی متکلم کے اعتماد پر اس سرگزشت کو تسلیم کرلینا چاہیے۔ یہاں جس سرگزشت کا بیان شروع ہورہا ہے اس میں یہ دونوں باتیں پائی جاتی ہیں۔ متکلم خود پروردگار ہے وہ تو اس سرگزشت کو نہ صرف یہ کہ پوری طرح جانتا ہے بلکہ اس سرگزشت کا خالق بھی ہے اور مخاطب اس میں آنحضرت ﷺ ہیں وہ وحی الہٰی کی ایک ایک بات پر یقین رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ باقی اس کے جتنے بالواسطہ مخاطب ہیں، ان میں سے یہود تو آسمانی کتابوں کے باعث اس سرگزشت پر یقین رکھتے ہیں۔ رہے مشرکین عرب وہ اگرچہ علمی طور پر تو ایسی باتوں سے بالکل جاہل ہیں لیکن سینہ بسینہ پھیلنے والی باتوں میں چونکہ یہ سرگزشت ایک معروف حقیقت ہے اس لیے ان کے اس سے بیخبر ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ اس سرگزشت میں جس اصل حقیقت سے پردہ اٹھایا جارہا ہے، وہ یہ ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے زمین پر باقی مخلوقات کی طرح پیدا نہیں فرمایا کہ دنیا میں انھیں وجود ملے پھر وجود کی بقا، اس کی ضروریات فراہم کرنے کے لیے پوری زندگی ایک کشمکش اور مصروفیت میں گزرے اور پھر طبعی موت ان کا خاتمہ کردے۔ ان کی جبلت اور ان کے حواس ان کے رہنما ہوں بلکہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے ارادہ عقل اور شعور دے کر بھیجا ان کی زندگی کے مقاصد متعین فرمائے۔ انھیں اپنے خالق ومالک اور معبود ورب سے آگاہی بخشی اور ان پر یہ واضح کیا کہ تمہاری زندگی کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ تم نے اپنے رب کی بندگی کرنی ہے اور اپنی زندگی کے ہر گوشہ میں اور ہر مقام پر اسی کے بندہ ہونے کا ثبوت دینا ہے بلکہ مزید انھیں یہ بھی رہنمائی بخشی کہ تمہارا کام صرف ذاتی زندگی میں اللہ کی بندگی کرنا نہیں بلکہ تمہیں اللہ نے زمین پر اپنا خلیفہ بنایا ہے۔ خلیفہ ہونے کی حیثیت سے تمہارا فرض صرف اتناہی نہیں کہ اس کی بندگی کروبل کہ یہ بھی ہے کہ اس کی ہدایت کے مطابق کام کرو۔ اور زمین پر اس کی بندگی کو نافذ کردو۔ خلیفہ سے کیا مراد ہے ؟ خلیفہ وہ ہوتا ہے جو کسی کی ملک یا مُلک میں خلیفہ بنانے والے کے تفویض کردہ اختیارات اس کے نائب کی حیثیت سے استعمال کرے۔ اس تعریف کو اگر ہم سامنے رکھیں تو چند باتیں خودبخود اس سے واضح ہوتی ہیں اور بعض اشکالات کا خودبخود جواب بھی مل جاتا ہے۔ مثلاً ایک بات یہ کہی جاتی ہے کہ خلیفہ اصل میں وہ ہوتا ہے جو کسی کا جانشین اور اس کی جگہ لینے والاہو۔ اس زمین پر پہلے جنات آباد تھے۔ جب انھوں نے زمین میں فساد مچایا اور سرکشی کا رویہ اختیار کیا تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ انھیں زمین سے نکال دو اور دور دراز پہاڑوں اور بےآباد جزیروں میں دھکیل دو پھر ان کی جگہ انسان کو زمین میں بسایا گیا۔ اس لحاظ سے انسان جنات کا خلیفہ ہے۔ اس میں دو باتیں قابل توجہ ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ یہ جو فرض کرلیا گیا ہے کہ زمین میں انسان سے پہلے جنات آباد تھے، ان کی سرکشی کے باعث ان کو زمین سے نکال دیا گیا اور ان کی جگہ انسانوں کو آباد کیا گیا اس کا ثبوت کیا ہے ؟ قرآن میں اس کا ذکر نہیں کسی صحیح حدیث سے اس کا ثبوت نہیں ملتامحض چند اشاروں اور کنایوں سے ایک حقیقت تراش لینا کوئی علمی خدمت نہیں۔ دوسری یہ بات کہ قومیں قوموں کی جگہ آباد ہوتی رہتی ہیں۔ ایک قوم دوسری کی جگہ لے لیتی ہے۔ اس لیے ایک قوم کو دوسری قوم کا اس معنی میں خلیفہ قرار دینا کہ وہ اس کی جگہ آباد ہوگئی ہے لغوی لحاظ سے غلط بھی نہیں۔ لیکن جس اہتمام کے ساتھ پروردگار آدم کے خلیفہ بنانے کی بات فرما رہے ہیں کیا اس سے یہ تاثر پید اہوسکتا ہے کہ یہ محض ایک مخلوق کا دوسری مخلوق کی جگہ آباد ہونا تھا اور پھر اس کے بعد فرشتوں کے حوالے سے جن اشتباہات کا ذکر کیا گیا ہے اور جس طرح حضرت آدم کو علم دئیے جانے کی بات کی گئی ہے کیا اس سے واقعی یہی بات سمجھ میں آتی ہے ؟ بالکل سامنے کی بات ہے اور اس میں کوئی پیچیدگی نہیں کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے زمین میں اپنا خلیفہ بنایا اور اپنی مقدس ترین مخلوق کا اسے مسجود بناکرزمین پر اس کی عظمت اور بڑائی کا اعلان کیا۔ خلیفہ کے لفظ سے ہی انسان کی خلافتِ ارضی کی حیثیت کا بھی پتہ چلتا ہے۔ بعض باتیں خود اس لفظ سے پھوٹتی ہیں کہ خلیفہ مالک نہیں ہوتا بلکہ اصل مالک کا نائب ہوتا ہے۔ زمین کا مالک ایسا ہے جسے اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے کسی سے مدد لینے کی ضرورت نہیں پڑتی وہ کبھی غفلت، نیند یا اونگھ کا شکار نہیں ہوتا اس کی مصروفیات کبھی اپنی مملکت کی دیکھ بھال سے اسے غافل نہیں کرتیں اس کی مملکت کی وسعتیں اس کے علم اور اس کی نگاہوں سے کبھی اوجھل نہیں ہوتیں اور اس کے اختیارات میں کوئی دوسرا شرکت نہیں کرسکتا۔ زمین پر اس کے سوا کسی کی حکومت نہیں اس لیے جس مخلوق کو زمین پر خلیفہ بنایا جائے گا وہ یقینا اسی کا خلیفہ ہوگا جو زمین کا مالک اور حاکم ہے اور چونکہ زمین پر اس کی حاکمیت بلاشرکتِ غیرے ہے تو یہ بات خودبخود سمجھ میں آتی ہے کہ زمین پر نائب بننے والا جو اختیارات بھی رکھے گا وہ اس کے ذاتی نہیں ہوں گے بلکہ اصل مالک کے عطاکردہ ہوں گے۔ اس کا کام اصل مالک کے اختیارات کو زمین اور اہل زمین پر نافذ کرنا ہے اور اس طرح اپنے مالک کی منشا کو پورا کرکے اس کی رضا حاصل کرنا ہے۔ اسی سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب زمین پر انسان کو خلیفہ بناکر بھیجا تو یقینا کچھ اختیارات بھی عطا فرمائے کیونکہ اختیارات کے بغیر تو ایک گھرکانظام نہیں چلایا جاسکتا چہ جائیکہ پوری زمین کا نظام چلایاجائے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے کسی کا محتاج نہیں اس کی مملکت کے دور دراز علاقوں میں بھی اسے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں پڑتی لیکن اس کے باوجود بھی اگر وہ انسان کو اختیارات دے کر زمین میں اپنا نائب بناتا ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے بندوں کا امتحان لینا چاہتا ہے کہ تم یہ مفوضہ اختیارات اللہ کی منشا کے مطابق استعمال کرتے ہو یا اپنے مفادیا اپنی خواہش کو پورا کرنے کے لیے اپنی مرضی سے استعمال کرتے ہو۔ انسان چونکہ زمین میں صرف اللہ ہی کا نائب ہے اور یہ زمین صرف اللہ ہی کی ملک ہے اس لیے انسان کو یہ بات کسی طرح زیب نہیں دیتی کہ وہ اللہ کی اس زمین پر کسی اور کو مالک سمجھے اور اللہ کے احکامات کی بجائے کسی اور کے احکامات نافذ کرے۔ خلافت کے تصور سے یہ بات سمجھنا بھی کوئی مشکل نہیں کہ جس پروردگار نے انسان کو اختیارات دے کر زمین پر بھیجا ہے اسی نے یقینا ان اختیارات کے استعمال کا طریقہ بھی سکھایا ہوگا اور اس کی آزادی کی حدود بھی مقرر کی ہوں گی، جس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انسان کو اگر اپنی خلافت کا احساس ہو تو وہ کبھی ان حدود سے تجاوز نہیں کرسکتا اور اگر کرے گا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو خلیفہ نہیں بلکہ مالک سمجھتا ہے۔ اور وہ اس بات کو بھول گیا ہے کہ وہ مطلق العنان نہیں بلکہ خلیفہ اور نائب ہونے کی حیثیت سے اللہ کے سامنے جواب دہ ہے وہ اس کی ایک ایک بددیانتی اور ایک ایک خیانت پر مواخذہ بھی کرے گا۔ مزید اس سے یہ بات بھی اخذ کی جاسکتی ہے کہ جس طرح کوئی بھی حاکم اپنے کسی ماتحت کو کوئی ذمہ داری سونپتا ہے تو سب سے پہلے اس کی اہلیت کا جائزہ لیتا ہے یہ کسیے ممکن ہے کہ اللہ کی زمین کی خلافت ان لوگوں کو مل جائے جو اس کی اہلیت نہ رکھتے ہوں۔ شائد یہی وجہ ہے کہ اللہ نے زمین پر جس انسان کو سب سے پہلے خلیفہ بنا کر بھیجا وہی پہلا نبی بھی تھا۔ پھر جتنے نبی دنیا میں آئے وہی اللہ کے خلیفہ تھے اور وہ نبوت کے ساتھ ساتھ زمین پر اللہ کی خلافت کا فرض بھی انجام دیتے تھے۔ آخری خلیفہ رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی ہے۔ آپ کے بعد چونکہ نبوت ختم ہوگئی اس لیے حضور ﷺ نے خود فرمایا کہ پہلے نبی امامت وسیادت کا فرض انجام دیتے تھے اور وہی سیاستِ منزل سے لے کر سیاستِ ملک تک کے آداب سے آگاہ کرتے تھے۔ لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا بلکہ خلفاء ہوں گے جو خلیفۃ اللہ نہیں ہوں گے بلکہ خلیفۃ الرسول ہوں گے۔ ان تمام تصریحات سے یہ بات واضح کرنا مقصود ہے کہ انسان کو اللہ نے زمین پر اپنا خلیفہ بنا کے بھیجا تھا تاکہ وہ زمین پر اپنی حکومت و ریاست کا صور نہ پھونکیں اور اپنی وجاہتوں اور عظمتوں کے جھنڈے نہ گاڑیں بلکہ اللہ کے دین کو نافذ کریں اللہ کے احکام کو غلبہ دیں اور جس طرح سے باقی پوری کائنات اللہ کی اطاعت کی وجہ سے فساد سے محفوظ اور اطمینان اور عافیت سے رواں دواں ہے اس طرح زمین بھی ہر طرح کے فساد سے محفوظ رہے اور تمام انسان نہائت خیروعافیت سے زندگی گزاریں۔ فرشتوں کے سوال کا منشاء پروردگار نے جب فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں، تو انھوں نے محض اطمینان کے لیے یہ بات پوچھی کہ آپ زمین میں ایک ایسی مخلوق کو خلیفہ بنائیں گے جو زمین میں جاکر فساد مچائے گی اور خوں ریزی کرے گی۔ اس پر بعض لوگوں کو گمان ہوا ہے کہ فرشتے شائد مستقبل میں جھانکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور انھیں آئندہ پیش آنے والے واقعات کی پہلے سے خبرہوجاتی ہے۔ لیکن اگر اگلی آیات پڑھ لی جائیں تو یہ غلط فہمی خودبخود دور ہوجاتی ہے۔ رہی یہ بات کہ ان کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ زمین میں انسان فساد مچائے گا۔ اگر ہماری متذکرہ بالا گزارشات پیش نظر رہیں تو بڑی آسانی سے اس بات کا جواب مل جاتا ہے۔ فرشتوں نے یہ محسوس کیا کہ پوری کائنات کو فساد سے محفوظ رکھنے کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے کہ جو اس کائنات کا حقیقی مالک اور حاکم ہے اس کائنات میں اسی کے احکام نافذ کیے جائیں کیونکہ امن صرف اس بات کا نام نہیں کہ کسی نہ کسی طرح جرائم روک دئیے جائیں بلکہ حقیقی امن کی ضمانت جس بات سے ملتی ہے وہ یہ ہے کہ جو ملک کا جائز اور اصل حکمران ہے اس کی حکومت تسلیم کی جائے۔ اس کے وضع کردہ آئین کو نافذ کیا جائے اور ملک کا نظام اس طرح چلایاجائے جس طرح اس کے حاکم حقیقی کا منشاہو۔ اور اگر اس حاکم حقیقی کے منشاکو نظرانداز کرکے اس کے آئیں سے روگردانی کرکے اور اس کے اقتدار اعلیٰ کا انکار کرکے بظاہر امن قائم کر بھی دیا جائے تو ہوسکتا ہے کہ امن قائم کرنے والوں کو امن مل جائے۔ لیکن دوسرے لوگ تو اسی طرح خطرے کی زد میں رہیں گے۔ یہ تو بالکل ایسے ہے جیسے ڈاکوئوں کا کوئی گروہ کسی شہر پر قبضہ کرکے بظاہر لوگوں کے لیے امن قائم کردے اور ملکی آئین کو موقوف کردے تو کوئی بھی شخص اس میں چھپے ہوئے فساد کو محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ فرشتوں نے محسوس کیا کہ جس مخلوق کو خلافت دی جارہی ہے اسے یقینا اختیارات بھی دئیے جائیں گے۔ اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ہے کہ اس مخلوق میں خواہشات بھی ہیں اور ہوس بھی، خود غرضی بھی ہے اور مفادات سے محبت بھی۔ ایک ایسی مخلوق جو اس طرح کے جذبات سے مسلح ہو اور پھر اسے اختیارات بھی دے دئیے جائیں۔ نتیجہ معلوم ہے کہ وہ اپنے مفادات کے حصول اور اپنے خواہشات کو پورا کرنے کے لیے جب اختیارات کا استعمال کرے گی تو ہر جگہ تصادم ہوگا۔ دل ٹوٹیں گے، خون بہے گا اور زمین فساد سے بھر جائے گی۔ ساتھ ہی ایک اور بات بھی فرشتوں نے عرض کی کہ نئی مخلوق کے پید اہونے سے تو صرف فساد کے اندیشوں کو ہی تقویت ملتی ہے حالانکہ اس کائنات کی اگر کوئی ضرورت ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ اللہ کے احکام کی تعمیل ہوتی رہے اس کے فرامین بجالائے جاتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ کی مرضی مبارک کے مطابق سارا جہاں پاک صاف رکھاجائے اور اس کی تسبیح و تقدیس ہوتی رہے، ہر جگہ اس کی حمد وثنا کے ترانے گونجیں۔ ہر زبان اس ذکر سے زمزمہ سنج رہے اور یہ کام اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہم خدام ادب پہلے بھی کررہے ہیں اور آئندہ بھی کریں گے۔ تو جو ہونا چاہیے وہ تو ہورہا ہے اور جو نہیں ہونا چاہیے۔ نئی مخلوق کے پیدا ہونے سے اس کے اندیشے پیدا ہورہے ہیں۔ اس لیے بصد ادب عرض ہے کہ باری تعالیٰ ہم اس نئے فیصلے کی مصلحت نہیں سمجھ سکے۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر اعتراض نہیں کیا تھا اور نہ انھوں نے اپنے آپ کو خلافتِ ارضی کا زیادہ اہل ثابت کیا تھا اس لیے کہ یہ بات فرشتوں کی فطری صفات کے بالکل برعکس ہے۔ فرشتوں کو اللہ تعالیٰ نے نور سے پیدا کیا ہے وہ اپنی روحانیت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ سے غائت درجہ قرب واتصال رکھتے ہیں۔ اللہ کے ہر حکم کے سامنے تعمیل کے لیے جھک جاناان کی سرشت میں داخل ہے پروردگار کے کسی فیصلے کے بارے میں لیت ولعل یا شک و ارتیاب ان کی فطرت کے خلاف ہے۔ اسی طرح اللہ نے ان کے اندر کسی چیز کی ہوس نہیں رکھی وہ خودغرضی سے بالکل ناواقف ہیں۔ ایک ایسی پاکیزہ مخلوق کے بارے میں یہ گمان کرنا کہ وہ خود اپنے لیے خلافت چاہتے تھے اور پروردگار کے فیصلے پر انھیں اعتراض تھا یہ سراسر قلت فکر کا نتیجہ ہے۔ ان کے جواب میں پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ ” جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے “۔ یعنی تم اس فیصلے کو اس لیے سمجھنے میں دشواری محسوس کررہے ہو کہ تم اس پوری سکیم سے واقف نہیں اس میں جو حکمتیں اور مصلحتیں مخفی ہیں تمہارا علم اسے ادراک نہیں کرسکتا۔ جب تمہارے سامنے یہ پوری سکیم آئے گی، تو پھر تمہیں اس کے سمجھنے میں دشواری نہیں ہوگی۔ اس لیے ایک مختصر جواب دے کر اصل حقیقت کی طرف اشارہ کرکے انھیں مطمئن کردیا۔ لیکن ان کی مزید یکسوئی اور مزید حقائق واضح کرنے کے لیے حضرت ِآدم کا پہلے انسان کی حیثیت سے ان سے اس طرح تعارف کر ایاجس سے انسان کی ان صفات کو نمایاں کیا ہے جو خلافتِ ارضی کے لیے ضروری ہیں اور جن کی وجہ سے انسان کو خلافتِ ارضی کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔
Top