Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Open Surah Introduction
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 30
وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓئِكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةً١ؕ قَالُوْۤا اَتَجْعَلُ فِیْهَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْهَا وَ یَسْفِكُ الدِّمَآءَ١ۚ وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَ نُقَدِّسُ لَكَ١ؕ قَالَ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ
وَاِذْ
: اور جب
قَالَ
: کہا
رَبُّکَ
: تمہارے رب نے
لِلْمَلَائِکَةِ
: فرشتوں سے
اِنِّیْ
: میں
جَاعِلٌ
: بنانے والا ہوں
فِي الْاَرْضِ
: زمین میں
خَلِیْفَةً
: ایک نائب
قَالُوْا
: انہوں نے کہا
اَتَجْعَلُ
: کیا آپ بنائیں گے
فِیْهَا
: اس میں
مَنْ يُفْسِدُ
: جو فساد کرے گا
فِیْهَا
: اس میں
وَيَسْفِكُ الدِّمَآءَ
: اور بہائے گا خون
وَنَحْنُ
: اور ہم
نُسَبِّحُ
: بےعیب کہتے ہیں
بِحَمْدِکَ
: آپ کی تعریف کے ساتھ
وَنُقَدِّسُ
: اور ہم پاکیزگی بیان کرتے ہیں
لَکَ
: آپ کی
قَالَ
: اس نے کہا
اِنِّیْ
: بیشک میں
اَعْلَمُ
: جانتا ہوں
مَا
: جو
لَا تَعْلَمُوْنَ
: تم نہیں جانتے
اور یاد کرو جب کہ تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں، انہوں نے کہا کیا تو اس میں اس کو خلیفہ مقرر کرے گا جو اس میں فساد مچائے اور خونریزی کرے اور ہم تو تیری حمد کے ساتھ تیری تسبیح کرتے ہی ہیں اور تیری پاکی بیان کرتے ہی ہیں ؟ اس نے کہا میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے
وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓئِكَةِ: عربی زبان میں جب کلام کا آغاز“اذ”سے ہوتا ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اس سے پہلے خیال کرو، تصور کرو، یاد کرو یا ان کے ہم معنی کوئی فعل یہاں محذوف ہے۔ عموماً اس کے بعد کسی ایسی ہی سرگزشت یا واقعہ کا حوالہ آتا ہے جو یا تو مخاطب کے علم میں ہو یا خود متکلم اس کی قطعیت پر اس درجہ مطمئن ہو کہ ایک معلوم ومعروف حقیقت کی حیثیت سے اس کا حوالہ دے سکے۔ یہاں اگرچہ آدم، ملائکہ اور ابلیس سے متعلق ایک ایسے ماجرے کا حوالہ دیا گیا ہو جو عالم غیب میں پیش آیا ہے اور جس کا علم خدا کے سوا کسی کو بھی نہیں ہے۔ لیکن مخاطب یہاں اول تو آنحضرت ﷺ ہیں جن کے لئے زبان وحی کی ہر بات ایک امر واقعی اور ایک حقیقت ثابتہ کی حیثیت رکھتی تھی۔ ثانیاً اس سرگزشت کا اصلی رخ، جیسا کہ اوپر اشارہ کیا گیا ہے، یہود کی طرف ہے اور یہود تورات کے ذریعہ سے اس ماجرے سے واقف تھے اگرچہ انہوں نے تحریف کر کے اس کی اصل شکل بہت کچھ بدل ڈالی تھی۔ مَلٰٓئِكَةِ: مَلَک کی جمع ہے۔ عربی زبان میں اَلوکہ کے معنی پیغام کے آتے ہیں اور مَلَک، جس کی اصل ملائک سے ہے، کے معنی رسول اور پیغام بر کے ہیں۔ یہ لفظ ان روحانی پیغام بروں کے لئے مخصوص ہے جن کو ہم اپنی زبان میں فرشتہ کہتے ہیں۔ فرشتے اللہ تعالیٰ اور اس کی دوسری مخلوقات کے درمیان قابل اعتماد واسطہ ہیں۔ یہ اپنی روحانیت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ سے بھی غایت درجہ قرب واتصال رکھتے ہیں اور مخلوق ہونے کے سبب سے مخلوقات سے بھی نسبت اور تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے اندر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والے انوار وترشحات کے بلاواسطہ قبول کرنے کی صلاحیت بھی ہے اور یہ ان انوار وترشحات کو اللہ تعالیٰ کے بندوں تک منتقل کرنے کی قابلیت بھی رکھتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے نبیوں اور رسولوں کے پاس وحی بھی لاتے ہیں اور اس کی مخلوق کے اندر اس کے احکام کی تنفیذ بھی کرتے ہیں۔ قرآن میں ان کی جو صفات بیان کی گئی ہیں وہ تمام تر ایک ذی عقل، ذی ارادہ اور ذی شعور مخلوق کی نہایت اعلیٰ اور پاکیزہ صفات ہیں۔ اس وجہ سے جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ مجرد قوتیں ہیں جن کو ملائکہ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے ان کا خیال صحیح نہیں ہے۔ اِنِّي جَاعِلٌ فِي الۡاَرْضِ خَلِيفَةً: خلیفہ اس کو کہتے ہیں جو کسی کے بعد اس کے معاملات سرانجام دینے کے لئے اس کی جگہ لے۔ اس وجہ سے یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خدا نے زمین میں کس کا خلیفہ بنانے کا ارادہ ظاہر فرمایا تھا۔ اپنا یا زمین میں بسنے والی کسی پیشرو مخلوق کا؟ ایک رائے یہ ہے کہ انسان سے پہلے زمین میں جنات آباد تھے جب انہوں نے اس میں فساد مچایا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو پراگندہ ومنتشر کر دیا اور ان کی خلافت بنی نوع انسان کے سپرد فرمائی۔ دوسری رائے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین میں خود اپنا خلیفہ مقرر کرنے کا فیصلہ فرمایا۔ پہلی رائے اگرچہ بالکل بے بنیاد تو کہی نہیں جا سکتی لیکن قرآن یا تورات یا کسی قابل اعتماد حدیث میں ایسی کوئی چیز نہیں ملتی جس سے یہ ثابت ہوسکے کہ انسان سے پہلے زمین میں جنات کی حکمرانی تھی، اس کی تائید میں اگر کوئی چیز پیش کی جاسکتی ہے تو اس کی حیثیت اشارہ وکنایہ سے زیادہ نہیں ہے اور محض کسی اشارہ وکنایہ پر ایک حقیقت کی بنیاد رکھ دینا ہمارے نزدیک صحیح نہیں ہے۔ دوسری رائے مختلف اعتبارات سے قوی معلوم ہوتی ہے۔ قرآن مجید نے انسان کی فضیلت کے بہت سے پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ مثلاً یہ کہ اللہ تعالیٰ نے تمام چیزیں انسان کے لئے پیدا کی ہیں، فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آدم کو سجدہ کریں، نیز اس کے بارہ میں فرمایا کہ جو امانت زمین اور آسمان اٹھانے سے قاصر رہے اس کو انسان نے اٹھا لیا۔ یہ ساری باتیں اس امر کے حق میں ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنا خلیفہ بنایا ہو۔ لیکن ان تمام دلائل کے باوجود ایک سوال اس رائے سے متعلق بھی پیدا ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ خلیفہ تو اس کو مقرر کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے جو غائب یا غیر حاضر ہوتا ہے، خدا تو نہ کبھی غائب ہوتا ہے نہ غیر حاضر، آسمان اور زمین میں ہر جگہ اس کی حکومت ہمیشہ رہی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ پھر اس کے کسی کو خلیفہ مقرر کرنے کے کیا معنی؟ یہ سوال ہمارے نزدیک کچھ زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خلیفہ بنانے کا مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو زمین کے انتظام وانصرام کے معاملہ میں کچھ اختیارات دے کر یہ دیکھے گا کہ انسان ان اختیارات کو خدا کی مرضی کے مطابق استعمال کرتا ہے یا خلافت پا کر وہ مطلق العنان بن جاتا ہے اور اپنی من مانی کرنے لگ جاتا ہے۔ یہ گویا اصل حکمران کی طرف سے ایک نائب مقرر کئے جانے کی شکل ہوئی اور اس نائب کے تقرر کی ضرورت یہ نہیں تھی کہ اصل حکمران کو غائب یا غیر حاضر ہونا تھا بلکہ اس نائب کو کچھ اختیارات دے کر مقصود اس کی اطاعت و وفاداری کا امتحان کرنا تھا۔ قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ: قرآن مجید کی اصطلاح میں فساد فی الارض کا مفہوم یہ ہے کہ زمین کا نظم و نسق، اللہ تعالیٰ کے احکام وقوانین کے مطابق چلانے کے بجائے اس کو من مانے طریقہ پر چلایا جائے، خدا کی شریعت کی نافرمانی کی جائے اور اپنی خواہشوں کی پیروی کی جائے، زمین کے اصلی حکمران کی مرضی نظر انداز کی جائے اور خود اپنی مرضی چلائی جائے۔ یہ چیز بجائے خود فساد فی الارض اور بغاوت ہے، عام اس سے کہ یہ دھینگا مشتی اور سرکشی کے ساتھ واقع ہو یا کسی فکر وفلسفہ کے تحت پر امن طریقہ پر۔ اس زمین کا اصلی حکمران اللہ تعالیٰ ہے۔ انسان کی حیثیت اس کے اندر اصل حکمران کی نہیں بلکہ اصل حکمران کے نائب کی ہے۔ اس وجہ سے اس زمین کے امن وعدل کا انحصار اس چیز پر ہے کہ اس کے ہر گوشے میں خدا ہی کا قانون چلے۔ اگر اس کے کسی حصہ میں بھی خدا کا قانون باقی نہیں رہا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس حصے میں بغاوت پھوٹ پڑی ہے اور یہ چیز اس پوری زمین کے لئے ایک خطرہ ہے۔ خونریزی فساد فی الارض کا قدرتی نتیجہ ہے۔ جب خدا کا قانون عدل باقی نہیں رہے گا تو لازماً اس کی جگہ انسان کی اپنی خواہشات کی فرمانروائی ہو گی۔ اس چیز کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ کسی شخص کے بھی جان یا مال یا اس کی آبرو کے لئے کوئی ضمانت باقی نہیں رہے گی۔ کسی خاص خطہ زمین کے مفسدین بالفرض کوئی ایسا نظام بنا بھی لیں جس میں باہمدگر ایکد دوسرے کے جان ومال کی حفاظت کی ضمانت دے دیں تو اس سے وہ اپنے لئے تو ایک تحفظ کی شکل پیدا کر لیں گے لیکن دوسروں کے لئے وہ بدستور خطرہ ہی بنے رہیں گے۔ ان کی مثال ڈاکوؤں کے ایک جتھے کی ہو گی جس کے افراد نے آپس میں تو یہ سمجھوتہ کر رکھا ہے کہ ایک دوسرے کے جان ومال پر دست درازی نہیں کریں گے لیکن ان کے جتھے سے باہر والوں کے جان ومال کو ان کی چیرہ دستیوں سے بچانے والی کوئی چیز بھی نہیں ہو گی۔ تمام عالم انسانی اور پورے کرہ ارض کے تحفظ کی ضمانت صرف خدا کا قانون ہی دے سکتا ہے جو سب کے جان ومال کی حفاظت کرتا ہے اور سب کو یکساں پابند کرتا اور یکساں آزادی بخشتا ہے۔ فرشتوں نے انسان کے بارے میں اس اندیشہ کا اظہار اس کے خلیفہ ہونے کی بنا پر کیا، اس لئے کہ خلیفہ کے لفظ کے اندر یہ چیز چھپی ہوئی ہے کہ اس کو ایک خاص حد کے اندر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اختیارات تفویض ہوں گے۔ فرشتوں نے محسوس کیا کہ اختیار کو استعمال کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے، اس کو پاکر انسان بہک سکتا ہے اور اس بہکنے کا نتیجہ زمین میں بدامنی اور فساد کی شکل میں ظاہر ہوسکتا ہے۔ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ: تسبیح کی اصل حقیقت، لغت کے اعتبار سے، کسی کے سامنے عجز و تذلل کے ساتھ بچھ جانا ہے۔ تسبیح قول سے بھی ہوتی ہے اور عمل سے بھی ہوتی ہے۔ عمل سے خدا کی تسبیح کا مفہوم خدا کے احکام کی تعمیل میں ہر وقت سرفگندہ رہنا ہے۔ یہ تسبیح اس کائنات کی وہ چیزیں بھی کرتی ہیں جو غیر ذی روح اور غیر ذی ارادہ ہیں۔ انسان کے جس عمل کو قرآن مجید نے خاص طور پر تسبیح سے تعبیر کیا ہے وہ نماز ہے اس کے لئے کہ نماز سرفگندگی اور عجز و تذلل کی نہایت مکمل تصویر ہے۔ قولی تسبیح سے مراد خدا کی پاکی بیان کرنا ہے۔ یعنی خدا کو ان باتوں سے منزہ اور بالاتر قرار دینا جو اس کی شان الوہیت کے خلاف ہیں۔ اس اعتبار سے تسبیح میں منفی پہلو غالب ہے لیکن جب اس کے ساتھ حمد کی قید بڑھا دی جائے، جیسی کہ یہاں ہے، تو اس میں تنزیہہ کے ساتھ اثبات کا مفہوم بھی پیدا ہوجاتا ہے، یعنی خدا کو منافیء شان الوہیت صفات سے پاک قرار دینے کے ساتھ ساتھ ان صفات سے متصف بھی قرار دینا جن کی بنا پر وہ سزاوار حمد و شکر ہے۔ “نُقَدِّسُ لَكَ”کا مفہوم یہ ہے کہ ہم تیری پاکی، تیری برتری اور تیری قدوسیت بیان کرتے ہیں۔ تسبیح میں، تو جیسا کہ بیان ہوا، تنزیہہ کا مفہوم غالب ہے لیکن تقدیس کا مفہوم اللہ تعالیٰ کو پاکیزگی اور قدوسیت کی تمام صفات سے متصف قرار دینا ہے۔ تسبیح کے ساتھ تقدیس کی ضرورت اس وجہ سے ہے کہ جب تک انکار کے ساتھ یہ اقرار نہ ہو اس وقت تک اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کی تعریف کا حق نہیں ادا ہوتا۔ انسان کے متعلق مذکورہ بالا اندیشہ ظاہر کرنے کے بعد فرشتوں کی طرف سے اپنی اس تسبیح وتقدیس کا حوالہ دینا اس لئے نہیں تھا کہ انسان کے مقابل میں وہ خود اپنے حقدار خلافت ہونے کاا ظہار کرنا چاہتے تھے۔ بلکہ اصل مقصود ان کا اللہ تعالیٰ کے اس فیصلہ کی حکمت ومصلحت معلوم کرنا تھا۔ اس غرض کے لئے انہوں نے ایک طرف تو اس اندیشہ کو ظاہر کر دیا جو انسان کی خلافت کے اندر ان کو مضمر نظر آیا دوسری طرف اس بات کو بھی ظاہر کر دیا کہ انسان کی تخلیق سے مقصود محض تسبیح وتقدیس تو ہو نہیں سکتا، اس لئے کہ کام تو ہم کر ہی رہے ہیں۔ قَالَ اِنِّي اَعْلَمُ مَا لا تَعْلَمُوۡنَ: فرشتوں کے مذکورہ بالا سوال کے جواب میں ارشاد ہوا کہ اس اسکیم کے سارے پہلوؤں پر تمہاری نظر نہیں ہے۔ اس وجہ سے تمہارے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوا ہے۔ جب پوری اسکیم تمہارے سامنے آجائے گی تو تم پر واضح ہوجائے گا کہ اس کے اندر اس اندیشہ کے سدباب کا اہتمام بھی ہے جو تم نے ظاہر کیا ہے۔
Top