Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 30
وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓئِكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةً١ؕ قَالُوْۤا اَتَجْعَلُ فِیْهَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْهَا وَ یَسْفِكُ الدِّمَآءَ١ۚ وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَ نُقَدِّسُ لَكَ١ؕ قَالَ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ
وَاِذْ : اور جب قَالَ : کہا رَبُّکَ : تمہارے رب نے لِلْمَلَائِکَةِ : فرشتوں سے اِنِّیْ : میں جَاعِلٌ : بنانے والا ہوں فِي الْاَرْضِ : زمین میں خَلِیْفَةً : ایک نائب قَالُوْا : انہوں نے کہا اَتَجْعَلُ : کیا آپ بنائیں گے فِیْهَا : اس میں مَنْ يُفْسِدُ : جو فساد کرے گا فِیْهَا : اس میں وَيَسْفِكُ الدِّمَآءَ : اور بہائے گا خون وَنَحْنُ : اور ہم نُسَبِّحُ : بےعیب کہتے ہیں بِحَمْدِکَ : آپ کی تعریف کے ساتھ وَنُقَدِّسُ : اور ہم پاکیزگی بیان کرتے ہیں لَکَ : آپ کی قَالَ : اس نے کہا اِنِّیْ : بیشک میں اَعْلَمُ : جانتا ہوں مَا : جو لَا تَعْلَمُوْنَ : تم نہیں جانتے
اور یاد کرو جب کہ تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں، انہوں نے کہا کیا تو اس میں اس کو خلیفہ مقرر کرے گا جو اس میں فساد مچائے اور خونریزی کرے اور ہم تو تیری حمد کے ساتھ تیری تسبیح کرتے ہی ہیں اور تیری پاکی بیان کرتے ہی ہیں ؟ اس نے کہا میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے
وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓئِكَةِ: عربی زبان میں جب کلام کا آغاز“اذ”سے ہوتا ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اس سے پہلے خیال کرو، تصور کرو، یاد کرو یا ان کے ہم معنی کوئی فعل یہاں محذوف ہے۔ عموماً اس کے بعد کسی ایسی ہی سرگزشت یا واقعہ کا حوالہ آتا ہے جو یا تو مخاطب کے علم میں ہو یا خود متکلم اس کی قطعیت پر اس درجہ مطمئن ہو کہ ایک معلوم ومعروف حقیقت کی حیثیت سے اس کا حوالہ دے سکے۔ یہاں اگرچہ آدم، ملائکہ اور ابلیس سے متعلق ایک ایسے ماجرے کا حوالہ دیا گیا ہو جو عالم غیب میں پیش آیا ہے اور جس کا علم خدا کے سوا کسی کو بھی نہیں ہے۔ لیکن مخاطب یہاں اول تو آنحضرت ﷺ ہیں جن کے لئے زبان وحی کی ہر بات ایک امر واقعی اور ایک حقیقت ثابتہ کی حیثیت رکھتی تھی۔ ثانیاً اس سرگزشت کا اصلی رخ، جیسا کہ اوپر اشارہ کیا گیا ہے، یہود کی طرف ہے اور یہود تورات کے ذریعہ سے اس ماجرے سے واقف تھے اگرچہ انہوں نے تحریف کر کے اس کی اصل شکل بہت کچھ بدل ڈالی تھی۔ مَلٰٓئِكَةِ: مَلَک کی جمع ہے۔ عربی زبان میں اَلوکہ کے معنی پیغام کے آتے ہیں اور مَلَک، جس کی اصل ملائک سے ہے، کے معنی رسول اور پیغام بر کے ہیں۔ یہ لفظ ان روحانی پیغام بروں کے لئے مخصوص ہے جن کو ہم اپنی زبان میں فرشتہ کہتے ہیں۔ فرشتے اللہ تعالیٰ اور اس کی دوسری مخلوقات کے درمیان قابل اعتماد واسطہ ہیں۔ یہ اپنی روحانیت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ سے بھی غایت درجہ قرب واتصال رکھتے ہیں اور مخلوق ہونے کے سبب سے مخلوقات سے بھی نسبت اور تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے اندر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والے انوار وترشحات کے بلاواسطہ قبول کرنے کی صلاحیت بھی ہے اور یہ ان انوار وترشحات کو اللہ تعالیٰ کے بندوں تک منتقل کرنے کی قابلیت بھی رکھتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے نبیوں اور رسولوں کے پاس وحی بھی لاتے ہیں اور اس کی مخلوق کے اندر اس کے احکام کی تنفیذ بھی کرتے ہیں۔ قرآن میں ان کی جو صفات بیان کی گئی ہیں وہ تمام تر ایک ذی عقل، ذی ارادہ اور ذی شعور مخلوق کی نہایت اعلیٰ اور پاکیزہ صفات ہیں۔ اس وجہ سے جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ مجرد قوتیں ہیں جن کو ملائکہ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے ان کا خیال صحیح نہیں ہے۔ اِنِّي جَاعِلٌ فِي الۡاَرْضِ خَلِيفَةً: خلیفہ اس کو کہتے ہیں جو کسی کے بعد اس کے معاملات سرانجام دینے کے لئے اس کی جگہ لے۔ اس وجہ سے یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خدا نے زمین میں کس کا خلیفہ بنانے کا ارادہ ظاہر فرمایا تھا۔ اپنا یا زمین میں بسنے والی کسی پیشرو مخلوق کا؟ ایک رائے یہ ہے کہ انسان سے پہلے زمین میں جنات آباد تھے جب انہوں نے اس میں فساد مچایا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو پراگندہ ومنتشر کر دیا اور ان کی خلافت بنی نوع انسان کے سپرد فرمائی۔ دوسری رائے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین میں خود اپنا خلیفہ مقرر کرنے کا فیصلہ فرمایا۔ پہلی رائے اگرچہ بالکل بے بنیاد تو کہی نہیں جا سکتی لیکن قرآن یا تورات یا کسی قابل اعتماد حدیث میں ایسی کوئی چیز نہیں ملتی جس سے یہ ثابت ہوسکے کہ انسان سے پہلے زمین میں جنات کی حکمرانی تھی، اس کی تائید میں اگر کوئی چیز پیش کی جاسکتی ہے تو اس کی حیثیت اشارہ وکنایہ سے زیادہ نہیں ہے اور محض کسی اشارہ وکنایہ پر ایک حقیقت کی بنیاد رکھ دینا ہمارے نزدیک صحیح نہیں ہے۔ دوسری رائے مختلف اعتبارات سے قوی معلوم ہوتی ہے۔ قرآن مجید نے انسان کی فضیلت کے بہت سے پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ مثلاً یہ کہ اللہ تعالیٰ نے تمام چیزیں انسان کے لئے پیدا کی ہیں، فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آدم کو سجدہ کریں، نیز اس کے بارہ میں فرمایا کہ جو امانت زمین اور آسمان اٹھانے سے قاصر رہے اس کو انسان نے اٹھا لیا۔ یہ ساری باتیں اس امر کے حق میں ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنا خلیفہ بنایا ہو۔ لیکن ان تمام دلائل کے باوجود ایک سوال اس رائے سے متعلق بھی پیدا ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ خلیفہ تو اس کو مقرر کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے جو غائب یا غیر حاضر ہوتا ہے، خدا تو نہ کبھی غائب ہوتا ہے نہ غیر حاضر، آسمان اور زمین میں ہر جگہ اس کی حکومت ہمیشہ رہی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ پھر اس کے کسی کو خلیفہ مقرر کرنے کے کیا معنی؟ یہ سوال ہمارے نزدیک کچھ زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خلیفہ بنانے کا مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو زمین کے انتظام وانصرام کے معاملہ میں کچھ اختیارات دے کر یہ دیکھے گا کہ انسان ان اختیارات کو خدا کی مرضی کے مطابق استعمال کرتا ہے یا خلافت پا کر وہ مطلق العنان بن جاتا ہے اور اپنی من مانی کرنے لگ جاتا ہے۔ یہ گویا اصل حکمران کی طرف سے ایک نائب مقرر کئے جانے کی شکل ہوئی اور اس نائب کے تقرر کی ضرورت یہ نہیں تھی کہ اصل حکمران کو غائب یا غیر حاضر ہونا تھا بلکہ اس نائب کو کچھ اختیارات دے کر مقصود اس کی اطاعت و وفاداری کا امتحان کرنا تھا۔ قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ: قرآن مجید کی اصطلاح میں فساد فی الارض کا مفہوم یہ ہے کہ زمین کا نظم و نسق، اللہ تعالیٰ کے احکام وقوانین کے مطابق چلانے کے بجائے اس کو من مانے طریقہ پر چلایا جائے، خدا کی شریعت کی نافرمانی کی جائے اور اپنی خواہشوں کی پیروی کی جائے، زمین کے اصلی حکمران کی مرضی نظر انداز کی جائے اور خود اپنی مرضی چلائی جائے۔ یہ چیز بجائے خود فساد فی الارض اور بغاوت ہے، عام اس سے کہ یہ دھینگا مشتی اور سرکشی کے ساتھ واقع ہو یا کسی فکر وفلسفہ کے تحت پر امن طریقہ پر۔ اس زمین کا اصلی حکمران اللہ تعالیٰ ہے۔ انسان کی حیثیت اس کے اندر اصل حکمران کی نہیں بلکہ اصل حکمران کے نائب کی ہے۔ اس وجہ سے اس زمین کے امن وعدل کا انحصار اس چیز پر ہے کہ اس کے ہر گوشے میں خدا ہی کا قانون چلے۔ اگر اس کے کسی حصہ میں بھی خدا کا قانون باقی نہیں رہا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس حصے میں بغاوت پھوٹ پڑی ہے اور یہ چیز اس پوری زمین کے لئے ایک خطرہ ہے۔ خونریزی فساد فی الارض کا قدرتی نتیجہ ہے۔ جب خدا کا قانون عدل باقی نہیں رہے گا تو لازماً اس کی جگہ انسان کی اپنی خواہشات کی فرمانروائی ہو گی۔ اس چیز کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ کسی شخص کے بھی جان یا مال یا اس کی آبرو کے لئے کوئی ضمانت باقی نہیں رہے گی۔ کسی خاص خطہ زمین کے مفسدین بالفرض کوئی ایسا نظام بنا بھی لیں جس میں باہمدگر ایکد دوسرے کے جان ومال کی حفاظت کی ضمانت دے دیں تو اس سے وہ اپنے لئے تو ایک تحفظ کی شکل پیدا کر لیں گے لیکن دوسروں کے لئے وہ بدستور خطرہ ہی بنے رہیں گے۔ ان کی مثال ڈاکوؤں کے ایک جتھے کی ہو گی جس کے افراد نے آپس میں تو یہ سمجھوتہ کر رکھا ہے کہ ایک دوسرے کے جان ومال پر دست درازی نہیں کریں گے لیکن ان کے جتھے سے باہر والوں کے جان ومال کو ان کی چیرہ دستیوں سے بچانے والی کوئی چیز بھی نہیں ہو گی۔ تمام عالم انسانی اور پورے کرہ ارض کے تحفظ کی ضمانت صرف خدا کا قانون ہی دے سکتا ہے جو سب کے جان ومال کی حفاظت کرتا ہے اور سب کو یکساں پابند کرتا اور یکساں آزادی بخشتا ہے۔ فرشتوں نے انسان کے بارے میں اس اندیشہ کا اظہار اس کے خلیفہ ہونے کی بنا پر کیا، اس لئے کہ خلیفہ کے لفظ کے اندر یہ چیز چھپی ہوئی ہے کہ اس کو ایک خاص حد کے اندر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اختیارات تفویض ہوں گے۔ فرشتوں نے محسوس کیا کہ اختیار کو استعمال کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے، اس کو پاکر انسان بہک سکتا ہے اور اس بہکنے کا نتیجہ زمین میں بدامنی اور فساد کی شکل میں ظاہر ہوسکتا ہے۔ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ: تسبیح کی اصل حقیقت، لغت کے اعتبار سے، کسی کے سامنے عجز و تذلل کے ساتھ بچھ جانا ہے۔ تسبیح قول سے بھی ہوتی ہے اور عمل سے بھی ہوتی ہے۔ عمل سے خدا کی تسبیح کا مفہوم خدا کے احکام کی تعمیل میں ہر وقت سرفگندہ رہنا ہے۔ یہ تسبیح اس کائنات کی وہ چیزیں بھی کرتی ہیں جو غیر ذی روح اور غیر ذی ارادہ ہیں۔ انسان کے جس عمل کو قرآن مجید نے خاص طور پر تسبیح سے تعبیر کیا ہے وہ نماز ہے اس کے لئے کہ نماز سرفگندگی اور عجز و تذلل کی نہایت مکمل تصویر ہے۔ قولی تسبیح سے مراد خدا کی پاکی بیان کرنا ہے۔ یعنی خدا کو ان باتوں سے منزہ اور بالاتر قرار دینا جو اس کی شان الوہیت کے خلاف ہیں۔ اس اعتبار سے تسبیح میں منفی پہلو غالب ہے لیکن جب اس کے ساتھ حمد کی قید بڑھا دی جائے، جیسی کہ یہاں ہے، تو اس میں تنزیہہ کے ساتھ اثبات کا مفہوم بھی پیدا ہوجاتا ہے، یعنی خدا کو منافیء شان الوہیت صفات سے پاک قرار دینے کے ساتھ ساتھ ان صفات سے متصف بھی قرار دینا جن کی بنا پر وہ سزاوار حمد و شکر ہے۔ “نُقَدِّسُ لَكَ”کا مفہوم یہ ہے کہ ہم تیری پاکی، تیری برتری اور تیری قدوسیت بیان کرتے ہیں۔ تسبیح میں، تو جیسا کہ بیان ہوا، تنزیہہ کا مفہوم غالب ہے لیکن تقدیس کا مفہوم اللہ تعالیٰ کو پاکیزگی اور قدوسیت کی تمام صفات سے متصف قرار دینا ہے۔ تسبیح کے ساتھ تقدیس کی ضرورت اس وجہ سے ہے کہ جب تک انکار کے ساتھ یہ اقرار نہ ہو اس وقت تک اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کی تعریف کا حق نہیں ادا ہوتا۔ انسان کے متعلق مذکورہ بالا اندیشہ ظاہر کرنے کے بعد فرشتوں کی طرف سے اپنی اس تسبیح وتقدیس کا حوالہ دینا اس لئے نہیں تھا کہ انسان کے مقابل میں وہ خود اپنے حقدار خلافت ہونے کاا ظہار کرنا چاہتے تھے۔ بلکہ اصل مقصود ان کا اللہ تعالیٰ کے اس فیصلہ کی حکمت ومصلحت معلوم کرنا تھا۔ اس غرض کے لئے انہوں نے ایک طرف تو اس اندیشہ کو ظاہر کر دیا جو انسان کی خلافت کے اندر ان کو مضمر نظر آیا دوسری طرف اس بات کو بھی ظاہر کر دیا کہ انسان کی تخلیق سے مقصود محض تسبیح وتقدیس تو ہو نہیں سکتا، اس لئے کہ کام تو ہم کر ہی رہے ہیں۔ قَالَ اِنِّي اَعْلَمُ مَا لا تَعْلَمُوۡنَ: فرشتوں کے مذکورہ بالا سوال کے جواب میں ارشاد ہوا کہ اس اسکیم کے سارے پہلوؤں پر تمہاری نظر نہیں ہے۔ اس وجہ سے تمہارے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوا ہے۔ جب پوری اسکیم تمہارے سامنے آجائے گی تو تم پر واضح ہوجائے گا کہ اس کے اندر اس اندیشہ کے سدباب کا اہتمام بھی ہے جو تم نے ظاہر کیا ہے۔
Top