Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 30
وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓئِكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةً١ؕ قَالُوْۤا اَتَجْعَلُ فِیْهَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْهَا وَ یَسْفِكُ الدِّمَآءَ١ۚ وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَ نُقَدِّسُ لَكَ١ؕ قَالَ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ
وَاِذْ
: اور جب
قَالَ
: کہا
رَبُّکَ
: تمہارے رب نے
لِلْمَلَائِکَةِ
: فرشتوں سے
اِنِّیْ
: میں
جَاعِلٌ
: بنانے والا ہوں
فِي الْاَرْضِ
: زمین میں
خَلِیْفَةً
: ایک نائب
قَالُوْا
: انہوں نے کہا
اَتَجْعَلُ
: کیا آپ بنائیں گے
فِیْهَا
: اس میں
مَنْ يُفْسِدُ
: جو فساد کرے گا
فِیْهَا
: اس میں
وَيَسْفِكُ الدِّمَآءَ
: اور بہائے گا خون
وَنَحْنُ
: اور ہم
نُسَبِّحُ
: بےعیب کہتے ہیں
بِحَمْدِکَ
: آپ کی تعریف کے ساتھ
وَنُقَدِّسُ
: اور ہم پاکیزگی بیان کرتے ہیں
لَکَ
: آپ کی
قَالَ
: اس نے کہا
اِنِّیْ
: بیشک میں
اَعْلَمُ
: جانتا ہوں
مَا
: جو
لَا تَعْلَمُوْنَ
: تم نہیں جانتے
اور جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا تھا ” میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں “ فرشتوں نے عرض کیا ” کیا ایسی شخصیت کو خلیفہ بنایا جائے گا جو زمین میں خرابی پھیلائے گی اور خونریزی کرے گی ؟ ہم تیری حمد و ثنا کرتے ہیں اور تیری پاکیزگی و قدوسی کا اقرار کرتے ہیں “ ارشاد الٰہی ہوا کہ : ” میری نظر جس حقیقت پر ہے تمہیں اس کی خبر نہیں “
ابتداء قِصّہ آدم g : 69: آسمان و زمین اور جو کچھ آسمان و زمین کے اندر ہے اس کی پیدائش کے بعد آیت 29 سے وہ ذکر شروع ہورہا ہے جو آدم (علیہ السلام) کا قِصّہ کہلاتا ہے۔ عوام اس کو ایک واقعی جھگڑا یا مباحثہ سمجھتے ہیں جو اللہ اور اس کے فرشتوں کے درمیان ہوا۔ تعالیٰ شانہ عما یقولون۔ اور خواص جانتے ہیں کہ یہ انسانی فطرۃ کا بیان ہے جو متضاد قوتوں کا حامل ہے یعنی خیر و شر دونوں کے مجموعے کا نام انسان ہے اور خیر و شر دونوں ہی کا خالق اللہ ہے اور وہی ہے جو انسان کے وجود میں ان متضاد قوتوں کا رکھنے والا ہے اس نے اس جگہ خیر کو ملک اور شر کو شیطان یا ابلیس کا نام دیا ہے تاکہ انسان کو اپنی تخلیق کا سمجھنا آسان ہوجائے وہ جان لے کہ قوت خیر اپنا کام کرنے پر مجبور محض ہے اور اسی طرح قوت شر بھی اپنا کام کرنے پر مجبور محض ہے۔ لیکن جس کے اندر دونوں قوتوں کو جمع کیا گیا ہے یعنی انسان ، اس کو اختیار بھی دیا گیا ہے کہ وہ اپنی قوت خیر سے کام لے یا قوت شر ہے۔ لیکن وہ جس سے کام لے گا وہ یقیناً اس کو کام دے گی۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کو مکلف قرار دیا ہے اور وہیں تک مکلف ہے جہاں تک اس کا اختیار ہے پھر اسی پیرایہ بیان کو اس سہل انداز میں بیان کیا گیا ہے تاکہ ہر انسان کہلانے والے کی عقل و سمجھ میں وہ اچھی طرح بیٹھ جائے اور وہ اپنی حقیقت کو خوب سمجھ لے۔ اللہ کا بات کرنا کیا ہے یا کیسے ہے ؟ 70: قول کا لفظ عربی زبان میں مختلف افعال کے اظہار کے لئے آتا ہے چناچہ مفردات میں ہے کہ قول کے ظاہر معنی تو یہی ہیں کہ نطق سے یعنی بول کر کچھ ظاہر کیا جائے لیکن جو بات دل میں ہو ، اس پر بھی قول کا لفظ اطلاق کرتا ہے۔ کسی چیز کی حالت کسی بات پر دلالت کرے تو اسے بھی قول کہہ دیتے ہیں جیسے : امتلاء الحوض وقال قطنی ۔ ” حوض بھر گیا اور اس نے کہا کہ اب میرے لئے بس ہے۔ “ چناچہ قرآن کریم میں ارشاد الٰہی ہے : یَوْمَ نَقُوْلُ لِجَهَنَّمَ ہَلِ امْتَلَاْتِ وَ تَقُوْلُ ہَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ 0030 (ق 50 : 30) ” جس روز ہم دوزخ سے کہیں گے کہ کیا تو بھر گئی ؟ اور وہ کہے گی کہ کچھ اور بھی ہے ؟ “ علاوہ ازیں بھی معانی بیان کئے گئے ہیں چناچہ تاج العروس میں ہے : قال بیدہ ، قال برجلہ ، قال براسہ ، قال بثوبہ وغیرہ جن کے معنی ہیں کہ اس نے پکڑ لیا ، وہ چلا گیا ، اس نے سر سے اشارہ کیا ، اس نے کپڑا اٹھایا۔ قرآن کریم میں قول کا لفظ سوائے انسان کے دوسروں کے لئے بھی بولا ہے۔ جیسا کہ ابھی بیان ہوا کہ ” جہنم نے کہا “ اور ایک دوسری جگہ : قَالَتَاۤ اَتَیْنَا طَآىِٕعِیْنَ 0011 یعنی آسمان و زمین دونوں نے عرض کیا کہ ہم فرمانبردار ہوئے۔ امام راغب نے مفردات میں لکھا ہے کہ ان ذلک کان بتسخیر من اللہ تعالیٰ ، یعنی اللہ کے مسخر کرنے کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ اس طرح قول کا لفظ جب اللہ کی طرف منسوب ہوتا ہے تو اس سے مراد اس طرح کا نطق توقطعاً مراد نہیں ہوتا جس طرح کا نطق انسان کے لئے ہے کیونکہ انسان کا نطق تو خاص خاص مخارج سے خاص خاص آوازوں کا نکلنا ہے اللہ کی ذات چونکہ وراء الوراء ہے اس لئے اس کا قول بھی انسان کے قول سے علیحدہ ہے پھر مختلف حالات میں اس قول کے معنی بھی مختلف ہوتے ہیں مثلا : یٰنَارُ کُوْنِیْ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا ۔ محض آگ کو حکم ہے ایک جگہ ارشاد فرمایا : اِنَّمَاۤ اَمْرُهٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیْـًٔا اَنْ یَّقُوْلَ لَهٗ کُنْ فَیَكُوْنُ 0082 بعض وقت یہ الہام اور وحی کی صورت میں ہوتا ہے جیسے انبیاء اور رسولوں کے بارے میں ، لیکن جہاں شیطان کو کچھ کہا ہو وہاں یہ مراد نہ ہوگی بلکہ مراد طاقت شر ہوگی ، یہاں ملائکہ کو کچھ فرمایا ہے جس کا یہاں بیان ہے تو چونکہ ملائکہ وہ ہستیاں وسائط کے طور پر اللہ کے احکام کو تعمیل میں لاتی ہیں۔ جیسے وَ ہُمْ بِاَمْرِهٖ یَعْمَلُوْنَ 0027 تو یہاں اللہ کا فرمان نہ بطور مشورہ ہے اور نہ بطور کسی اور غرض وغایت کے ، بلکہ ارادہ الٰہی کا اظہار فرمایا ہے اور اس اظہار کے لئے یہ الفاظ اختیار کئے گئے ہیں۔ کیا فرشتے اور جِنّ کوئی وجود رکھتے ہیں ؟ 71: اس میں بہت کلام کیا گیا ہے کیا فرشتے اور جن کوئی وجود رکھتے ہیں یا نہیں ؟ اور پھر یہ کہ اگر وجود رکھتے ہیں تو ایک ہی جیسا یا مختلف ؟ لیکن ان ساری بحثوں کا قرآن کریم متحمل نہیں کیونکہ ان کا تعلق قرآنی نظریات سے نہیں ہے۔ قرآن کریم کتاب ہدایت ہے اور ہدایت کے لئے اتنی ہی بات اصل حقیقت سے تعلق رکھتی ہے کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی ایک مخلوق ہے جو نظام عالم جسمانی اور عالم روحانی میں وسائط ہیں خواہ وہ محض ایک قوت و طاقت تسلیم کی جائے یا ایک مستقل وجود رکھنے والی مخلوق۔ عالم جسمانی میں تو ان کا ثبوت ہمیں اس طرح ملتا ہے جس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کو جس قدر قویٰ دیئے گئے ہیں ان کے ظہور میں آنے کے لئے بیرونی وسائط کی بھی ضرورت ہوتی ہے جیسے آنکھ کے لئے روشنی کی ، سماعت کے لئے گویائی کی ، شامہ کے لئے بو کی ، بالکل اسی طرح پر عالم روحانی میں بھی ہے۔ نیکی اور بدی کی جو قوتیں انسان کے اندر ہیں ان کے عمل میں آنے کے لئے بھی وسائط ہونے ضروری ہیں اور یہ کہ نیکی کے محرک ملائکہ اور بدی کے محرک شیاطین یا ابلیس ہیں۔ عالم جسمانی میں بھی یہ ظاہر ہے کہ ایک طاقت بذات خود کوئی چیز نہیں اس کا وجود ہم کو نظر آئے یا نہ آئے۔ ہاں بعض اوقات جس طرح طاقت کے باوجود انسانی آنکھ نہیں دیکھتی اسی طرح اس طاقت و قوت والی چیز کو بھیآنکھ نہیں دیکھ سکتی لیکن اس کے باوجود طاقت کا وجود تسلیم شدہ ہے۔ اس پر ان کو بھی قیاس کرلینا مفید مطلب ہے۔ البتہ وجود کے لئے پانچ درجات علمائے اسلام نے مقرر کئے ہیں جس کا شاہ ولی اللہ (رح) نے حجۃ اللہ میں بڑی تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ اگر کوئی شخص وجود کے ان پانچوں درجات میں سے کسی ایک پر بھی دلیل کے ساتھ ایمان رکھتا ہے تو اس کے لئے مسلمان ہونے کے لئے کافی و وافی ہے۔ وہ درجات یہ ہیں : وجود ذاتی ، وجود حسی ، وجود خیالی ، وجود عقلی اور وجود شبہی۔ ان میں سے وجود ذاتی وہ وجود ہے جس کو وجود حقیقی بھی کہا جاتا ہے اور وہ وہی وجود ہے جو نظر و مشاہدہ میں آتا ہے ، جیسے زمین کا وجود ، انسان کا وجود اور نباتات و حیوانات کا وجود۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کا وجود ذاتی یا حقیقی نہ تو جِنّ و شیاطین کا ہے اور نہ ہی ملائکہ کا اور باقی چار وجودوں میں سے جس طرح کا بھی وجود کوئی تسلیم کرتا ہے وہ اسلامی تعلیمات کے لئے کفایت کرتا ہے اور زیادہ بحث کا یہ مقام نہیں۔ ہاں ایک بات مزید سمجھ لینا نہایت ضروری ہے کہ دنیا کی ہرچیز اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہے لہٰذا جو شخص خیر کو تسلیم کرتا ہے یقیناً وہ شر کو بھی مانتا ہے کیونکہ خیر و شر دونوں آپس میں ضد ہیں۔ خیر بغیر شر کے پہچانی نہیں جاتی اور شر بغیر خیر کے کوئی پہچان نہیں رکھتا۔ ملائکہ و شیاطین دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں جو ملائکہ کو مانے گا وہ شیاطین و ابلیس سے انکار نہیں کرسکتا۔ گویا شیاطین و ابلیس کا انکار ملائکہ ہی کا انکار ہے۔ لہٰذا ایک کا نام لینا دوسرے کا اثبات ہے۔ کیا آدم سے پہلے کوئی مخلوق موجود تھی ؟ 72: تخلیق آدم سے پہلے بیشمار مخلوق موجود تھی بلکہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہر طرح کی مخلوق موجود تھی اور اب ان میں انسان نامی محض ایک نئی صنف کا اضافہ ہورہا ہے بلکہ اللہ کا نائب زمین پر پیدا کیا جارہا ہے تخلیق تو ساری ہی موجودات کی ہوئی ہے جنات کی بھی ، ملائکہ کی بھی ، جنت کی بھی ، عرش کی بھی بلکہ دنیا کے اندر جو کچھ ہے سب کی ، ان کی بھی جن کو ایک مستقل وجود یعنی ذاتی یا حقیقی وجود عطا ہوا ہے اور ان کی بھی جن کو وجود ذاتی یا حقیقی نہیں ملا لیکن اور کسی چیز کے بھی ” قصہ تخلیق “ کے ذکر کا اہتمام قرآن کریم میں نہیں ہوا یہ فخر صرف اور صرف خلقت آدم ہی کے حصے میں آیا اور یہی دلیل کافی ہے آدم کی افضلیت و شرافت کی۔ یہیں سے یہ ظاہر ہوگیا کہ انسان کو جو قویٰ ملے ہیں وہ اس غایت و مقصود یعنی منصب خلاف الٰہی کے متناسب ملے ہیں اور کسی دوسری مخلوق کو ایسے قویٰ نہیں ملے۔ یہی وجہ ہے کہ نسل انسانی خودبھی اپنی اصلاح و فلاح کے لئے اس کی محتاج ہے کہ اپنے کسی ہم جنس کے واسطہ سے شریعت الٰہی سے استفادہ کرے اور سلسلہ نبوت بھی اسی غرض سے قائم ہوا پھر اسی خاص حکمت الٰہی کے تحت اپنے قانون تکوینی کے مطابق اس سلسلہ نبوت کے خاتمہ کا اعلان کر کے یہ وراثت خلافت اہل علم کے سپرد کردی گئی۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ قوم مسلم کے لئے لازم و ضروری ہے کہ ایک زندہ انسان اس منصب خلافت پر قائم رہے اور اس کی موجودگی میں جب بھی کوئی دوسرا اس منصب کا دعویٰ کرے تو اس کو فوراً قتل کردیا جائے۔ فسادامت مسلمہ صرف اسی صورت رک سکتا ہے۔ جب تک یہ صورت قائم نہیں ہوتی۔ فساد روکنے کی کوئی دوسری صورت ممکن نہیں ہے۔ ہاں ! اس منصب پر قائم ہونے والے زندہ انسان کو آپ خلیفہ کہیں یا امیر المؤمنین کہیں یا صدر اور وزیر اعظم ، جو چاہیں اس کا نام رکھیں۔ اسلامی نام اس کا ہر حال میں ” خلیفۃ اللہ “ ہی رہے گا۔ کاش کہ ! امت مسلمہ اس حقیقت کو سمجھتی ؟ آج دنیا میں یہودیت و عیسائیت جیسی مغضوب و ضالین قوم اس رمز کو پا گئی اور شہداء علی الناس کا لقب پانے والی امت نے اس حقیقت کو ” وراء ظہور “ پھینک دیا اور اس عمل کا نتیجہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے ۔ انما اشکوا بثی و حزنی الی اللہ۔ فرشتوں نے مشورہ دیا نہ اعتراض کی : 73: : اَتَجْعَلُ فِیْهَا : یعنی جو زمین میں خرابی پھلائے گا یہ بات صرف مخلوق کی زبان حال سے اصل مطلب کا بیان ہے اس کو نہ مشورہ کہا جاسکتا ہے اور نہ ہی اعتراض کا نام دیا جاسکتا ہے۔ پھر قرآن کریم نے جو تصور ملائکہ یعنی فرشتوں کے متعلق دیا ہے وہ اس طرح ہے کہ : بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُوْنَۙ0026 لَا یَسْبِقُوْنَهٗ بِالْقَوْلِ وَ ہُمْ بِاَمْرِهٖ یَعْمَلُوْنَ 0027 (الانبیاء 21 : 26 ، 27) ” وہ معزز بندے ہیں یعنی عمدہ مخلوق ۔ اللہ کے سامنے وہ بات نہیں کرتے اور جو وہ کہتا ہے وہی وہ بجالاتے ہیں۔ “ اس طرح مخلوق کی زبان حال سے سوال و جواب میں مطلب کا بیان اور جگہ بھی قرآن کریم میں آیا ہے ۔ اللہ نے زمین و آسمان کی زبان سے حکایتاً یہ فرمایا کہ جب ہم نے آسمان و زمین سے کہا کہ دونوں خواہ مخواہ حاضر ہوں ؟ تو دونوں نے عرض کیا یعنی زبان حال سے کہا کہ ہم دونوں بخوشی حاضر ہیں۔ (حم السجدہ) ایک جگہ جہنم کی نسبت فرمایا : کہ جس دن ہم جہنم سے کہیں گے کہ تو بھر گئی ؟ تو وہ کہے گی کہ ہے اس سے زیادہ کچھ اور بھی ؟ (ق : 30) پس ان آیات میں اللہ نے ایسی چیزوں کی زبان حال سے جو گویا نہیں ہیں ۔ سوال و جواب کے طور پر ان کی فطرت کو جس طرح کے انسان کے خیال میں آسکتی ہے بیان کیا ہے۔ بعینہٖ یہی صورت یہاں واقع ہوئی ہے۔ فرشتوں کی نیاز مندی اور اقرار فرمانبرداری : 74: مطلب یہ ہے کہ ہم تو سب کے سب آپ کے فرمانبردار ہیں یعنی ہم میں نافر مانی کا عنصر موجود نہیں۔ ان میں یعنی انسانوں میں کوئی مفسد و سفاک بھی ہوگا سو اگر یہ کام ہمارے سپرد کیا جائے تو ہم سب مل کر اس کو انجام دیں گے اور وہ لوگ سب کے سب اس کام کے نہ ہوں گے جو مطیع ہوں گے وہ تو اس کام میں لگ جائیں گے مگر جو مفسد و ظالم ہوں گے ان سے کیا امید ہے کہ وہ اس کام کو انجام دیں۔ تسبیح کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ کا ہر نقص سے مبرا ہونے کا اقرار کرنا۔ چونکہ یہ ملائکہ کا اعتراض نہیں تھا اور نہ ہی وہ اعتراض کرسکتے تھے اس لئے وہ اللہ تعالیٰ کے ہر نقص سے پاک اور بےعیب ہونے کا اظہار کرتے ہیں۔ تسبیح اور تقدیس کے درمیان یہ فرق کیا گیا ہے کہ تسبیح کا اطلاق باعتبار عبادات کے ہوتا ہے اور تقدیس کا باعتبار اعتقادات کے۔ پھر اس میں یہ حکمت بھی پوشیدہ ہے کہ جاہل قوموں میں فرشتوں کے متعلق مختلف خیالات چلے آر رہے تھے کسی قوم نے کسی فرشتے کو اگنی دیوتا مان لیا کسی کو اندر دیوتا ۔ قرآن کریم نے ان کی زبان حال سے ایسا بیان دیا کہ ان کی عبدیت پر مہرثبت کردی اور وہ بھی انہی کی زبان سے۔ کیونکہ فرشتے یہاں صاف صاف عرض کر رہے ہیں کہ ہم خدام تو اپنی سرشت کے لحاظ سے بجز حضور والا کی تحمید و تقدیس کے اور کچھ کر ہی نہیں سکتے ۔ اس طرح وہ ایک طرح تو اپنی عاجزی اور کمزوری کا اعتراف کر رہے ہیں اور دوسری طرف حکم بجالانے کے لئے مستعد و تیار نظر آتے ہیں جو ان کی فطرت میں داخل ہیں۔
Top