Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 30
وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓئِكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةً١ؕ قَالُوْۤا اَتَجْعَلُ فِیْهَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْهَا وَ یَسْفِكُ الدِّمَآءَ١ۚ وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَ نُقَدِّسُ لَكَ١ؕ قَالَ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ
وَاِذْ : اور جب قَالَ : کہا رَبُّکَ : تمہارے رب نے لِلْمَلَائِکَةِ : فرشتوں سے اِنِّیْ : میں جَاعِلٌ : بنانے والا ہوں فِي الْاَرْضِ : زمین میں خَلِیْفَةً : ایک نائب قَالُوْا : انہوں نے کہا اَتَجْعَلُ : کیا آپ بنائیں گے فِیْهَا : اس میں مَنْ يُفْسِدُ : جو فساد کرے گا فِیْهَا : اس میں وَيَسْفِكُ الدِّمَآءَ : اور بہائے گا خون وَنَحْنُ : اور ہم نُسَبِّحُ : بےعیب کہتے ہیں بِحَمْدِکَ : آپ کی تعریف کے ساتھ وَنُقَدِّسُ : اور ہم پاکیزگی بیان کرتے ہیں لَکَ : آپ کی قَالَ : اس نے کہا اِنِّیْ : بیشک میں اَعْلَمُ : جانتا ہوں مَا : جو لَا تَعْلَمُوْنَ : تم نہیں جانتے
اور جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا تھا ” میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں “ فرشتوں نے عرض کیا ” کیا ایسی شخصیت کو خلیفہ بنایا جائے گا جو زمین میں خرابی پھیلائے گی اور خونریزی کرے گی ؟ ہم تیری حمد و ثنا کرتے ہیں اور تیری پاکیزگی و قدوسی کا اقرار کرتے ہیں “ ارشاد الٰہی ہوا کہ : ” میری نظر جس حقیقت پر ہے تمہیں اس کی خبر نہیں “
ابتداء قِصّہ آدم g : 69: آسمان و زمین اور جو کچھ آسمان و زمین کے اندر ہے اس کی پیدائش کے بعد آیت 29 سے وہ ذکر شروع ہورہا ہے جو آدم (علیہ السلام) کا قِصّہ کہلاتا ہے۔ عوام اس کو ایک واقعی جھگڑا یا مباحثہ سمجھتے ہیں جو اللہ اور اس کے فرشتوں کے درمیان ہوا۔ تعالیٰ شانہ عما یقولون۔ اور خواص جانتے ہیں کہ یہ انسانی فطرۃ کا بیان ہے جو متضاد قوتوں کا حامل ہے یعنی خیر و شر دونوں کے مجموعے کا نام انسان ہے اور خیر و شر دونوں ہی کا خالق اللہ ہے اور وہی ہے جو انسان کے وجود میں ان متضاد قوتوں کا رکھنے والا ہے اس نے اس جگہ خیر کو ملک اور شر کو شیطان یا ابلیس کا نام دیا ہے تاکہ انسان کو اپنی تخلیق کا سمجھنا آسان ہوجائے وہ جان لے کہ قوت خیر اپنا کام کرنے پر مجبور محض ہے اور اسی طرح قوت شر بھی اپنا کام کرنے پر مجبور محض ہے۔ لیکن جس کے اندر دونوں قوتوں کو جمع کیا گیا ہے یعنی انسان ، اس کو اختیار بھی دیا گیا ہے کہ وہ اپنی قوت خیر سے کام لے یا قوت شر ہے۔ لیکن وہ جس سے کام لے گا وہ یقیناً اس کو کام دے گی۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کو مکلف قرار دیا ہے اور وہیں تک مکلف ہے جہاں تک اس کا اختیار ہے پھر اسی پیرایہ بیان کو اس سہل انداز میں بیان کیا گیا ہے تاکہ ہر انسان کہلانے والے کی عقل و سمجھ میں وہ اچھی طرح بیٹھ جائے اور وہ اپنی حقیقت کو خوب سمجھ لے۔ اللہ کا بات کرنا کیا ہے یا کیسے ہے ؟ 70: قول کا لفظ عربی زبان میں مختلف افعال کے اظہار کے لئے آتا ہے چناچہ مفردات میں ہے کہ قول کے ظاہر معنی تو یہی ہیں کہ نطق سے یعنی بول کر کچھ ظاہر کیا جائے لیکن جو بات دل میں ہو ، اس پر بھی قول کا لفظ اطلاق کرتا ہے۔ کسی چیز کی حالت کسی بات پر دلالت کرے تو اسے بھی قول کہہ دیتے ہیں جیسے : امتلاء الحوض وقال قطنی ۔ ” حوض بھر گیا اور اس نے کہا کہ اب میرے لئے بس ہے۔ “ چناچہ قرآن کریم میں ارشاد الٰہی ہے : یَوْمَ نَقُوْلُ لِجَهَنَّمَ ہَلِ امْتَلَاْتِ وَ تَقُوْلُ ہَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ 0030 (ق 50 : 30) ” جس روز ہم دوزخ سے کہیں گے کہ کیا تو بھر گئی ؟ اور وہ کہے گی کہ کچھ اور بھی ہے ؟ “ علاوہ ازیں بھی معانی بیان کئے گئے ہیں چناچہ تاج العروس میں ہے : قال بیدہ ، قال برجلہ ، قال براسہ ، قال بثوبہ وغیرہ جن کے معنی ہیں کہ اس نے پکڑ لیا ، وہ چلا گیا ، اس نے سر سے اشارہ کیا ، اس نے کپڑا اٹھایا۔ قرآن کریم میں قول کا لفظ سوائے انسان کے دوسروں کے لئے بھی بولا ہے۔ جیسا کہ ابھی بیان ہوا کہ ” جہنم نے کہا “ اور ایک دوسری جگہ : قَالَتَاۤ اَتَیْنَا طَآىِٕعِیْنَ 0011 یعنی آسمان و زمین دونوں نے عرض کیا کہ ہم فرمانبردار ہوئے۔ امام راغب نے مفردات میں لکھا ہے کہ ان ذلک کان بتسخیر من اللہ تعالیٰ ، یعنی اللہ کے مسخر کرنے کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ اس طرح قول کا لفظ جب اللہ کی طرف منسوب ہوتا ہے تو اس سے مراد اس طرح کا نطق توقطعاً مراد نہیں ہوتا جس طرح کا نطق انسان کے لئے ہے کیونکہ انسان کا نطق تو خاص خاص مخارج سے خاص خاص آوازوں کا نکلنا ہے اللہ کی ذات چونکہ وراء الوراء ہے اس لئے اس کا قول بھی انسان کے قول سے علیحدہ ہے پھر مختلف حالات میں اس قول کے معنی بھی مختلف ہوتے ہیں مثلا : یٰنَارُ کُوْنِیْ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا ۔ محض آگ کو حکم ہے ایک جگہ ارشاد فرمایا : اِنَّمَاۤ اَمْرُهٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیْـًٔا اَنْ یَّقُوْلَ لَهٗ کُنْ فَیَكُوْنُ 0082 بعض وقت یہ الہام اور وحی کی صورت میں ہوتا ہے جیسے انبیاء اور رسولوں کے بارے میں ، لیکن جہاں شیطان کو کچھ کہا ہو وہاں یہ مراد نہ ہوگی بلکہ مراد طاقت شر ہوگی ، یہاں ملائکہ کو کچھ فرمایا ہے جس کا یہاں بیان ہے تو چونکہ ملائکہ وہ ہستیاں وسائط کے طور پر اللہ کے احکام کو تعمیل میں لاتی ہیں۔ جیسے وَ ہُمْ بِاَمْرِهٖ یَعْمَلُوْنَ 0027 تو یہاں اللہ کا فرمان نہ بطور مشورہ ہے اور نہ بطور کسی اور غرض وغایت کے ، بلکہ ارادہ الٰہی کا اظہار فرمایا ہے اور اس اظہار کے لئے یہ الفاظ اختیار کئے گئے ہیں۔ کیا فرشتے اور جِنّ کوئی وجود رکھتے ہیں ؟ 71: اس میں بہت کلام کیا گیا ہے کیا فرشتے اور جن کوئی وجود رکھتے ہیں یا نہیں ؟ اور پھر یہ کہ اگر وجود رکھتے ہیں تو ایک ہی جیسا یا مختلف ؟ لیکن ان ساری بحثوں کا قرآن کریم متحمل نہیں کیونکہ ان کا تعلق قرآنی نظریات سے نہیں ہے۔ قرآن کریم کتاب ہدایت ہے اور ہدایت کے لئے اتنی ہی بات اصل حقیقت سے تعلق رکھتی ہے کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی ایک مخلوق ہے جو نظام عالم جسمانی اور عالم روحانی میں وسائط ہیں خواہ وہ محض ایک قوت و طاقت تسلیم کی جائے یا ایک مستقل وجود رکھنے والی مخلوق۔ عالم جسمانی میں تو ان کا ثبوت ہمیں اس طرح ملتا ہے جس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کو جس قدر قویٰ دیئے گئے ہیں ان کے ظہور میں آنے کے لئے بیرونی وسائط کی بھی ضرورت ہوتی ہے جیسے آنکھ کے لئے روشنی کی ، سماعت کے لئے گویائی کی ، شامہ کے لئے بو کی ، بالکل اسی طرح پر عالم روحانی میں بھی ہے۔ نیکی اور بدی کی جو قوتیں انسان کے اندر ہیں ان کے عمل میں آنے کے لئے بھی وسائط ہونے ضروری ہیں اور یہ کہ نیکی کے محرک ملائکہ اور بدی کے محرک شیاطین یا ابلیس ہیں۔ عالم جسمانی میں بھی یہ ظاہر ہے کہ ایک طاقت بذات خود کوئی چیز نہیں اس کا وجود ہم کو نظر آئے یا نہ آئے۔ ہاں بعض اوقات جس طرح طاقت کے باوجود انسانی آنکھ نہیں دیکھتی اسی طرح اس طاقت و قوت والی چیز کو بھیآنکھ نہیں دیکھ سکتی لیکن اس کے باوجود طاقت کا وجود تسلیم شدہ ہے۔ اس پر ان کو بھی قیاس کرلینا مفید مطلب ہے۔ البتہ وجود کے لئے پانچ درجات علمائے اسلام نے مقرر کئے ہیں جس کا شاہ ولی اللہ (رح) نے حجۃ اللہ میں بڑی تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ اگر کوئی شخص وجود کے ان پانچوں درجات میں سے کسی ایک پر بھی دلیل کے ساتھ ایمان رکھتا ہے تو اس کے لئے مسلمان ہونے کے لئے کافی و وافی ہے۔ وہ درجات یہ ہیں : وجود ذاتی ، وجود حسی ، وجود خیالی ، وجود عقلی اور وجود شبہی۔ ان میں سے وجود ذاتی وہ وجود ہے جس کو وجود حقیقی بھی کہا جاتا ہے اور وہ وہی وجود ہے جو نظر و مشاہدہ میں آتا ہے ، جیسے زمین کا وجود ، انسان کا وجود اور نباتات و حیوانات کا وجود۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کا وجود ذاتی یا حقیقی نہ تو جِنّ و شیاطین کا ہے اور نہ ہی ملائکہ کا اور باقی چار وجودوں میں سے جس طرح کا بھی وجود کوئی تسلیم کرتا ہے وہ اسلامی تعلیمات کے لئے کفایت کرتا ہے اور زیادہ بحث کا یہ مقام نہیں۔ ہاں ایک بات مزید سمجھ لینا نہایت ضروری ہے کہ دنیا کی ہرچیز اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہے لہٰذا جو شخص خیر کو تسلیم کرتا ہے یقیناً وہ شر کو بھی مانتا ہے کیونکہ خیر و شر دونوں آپس میں ضد ہیں۔ خیر بغیر شر کے پہچانی نہیں جاتی اور شر بغیر خیر کے کوئی پہچان نہیں رکھتا۔ ملائکہ و شیاطین دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں جو ملائکہ کو مانے گا وہ شیاطین و ابلیس سے انکار نہیں کرسکتا۔ گویا شیاطین و ابلیس کا انکار ملائکہ ہی کا انکار ہے۔ لہٰذا ایک کا نام لینا دوسرے کا اثبات ہے۔ کیا آدم سے پہلے کوئی مخلوق موجود تھی ؟ 72: تخلیق آدم سے پہلے بیشمار مخلوق موجود تھی بلکہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہر طرح کی مخلوق موجود تھی اور اب ان میں انسان نامی محض ایک نئی صنف کا اضافہ ہورہا ہے بلکہ اللہ کا نائب زمین پر پیدا کیا جارہا ہے تخلیق تو ساری ہی موجودات کی ہوئی ہے جنات کی بھی ، ملائکہ کی بھی ، جنت کی بھی ، عرش کی بھی بلکہ دنیا کے اندر جو کچھ ہے سب کی ، ان کی بھی جن کو ایک مستقل وجود یعنی ذاتی یا حقیقی وجود عطا ہوا ہے اور ان کی بھی جن کو وجود ذاتی یا حقیقی نہیں ملا لیکن اور کسی چیز کے بھی ” قصہ تخلیق “ کے ذکر کا اہتمام قرآن کریم میں نہیں ہوا یہ فخر صرف اور صرف خلقت آدم ہی کے حصے میں آیا اور یہی دلیل کافی ہے آدم کی افضلیت و شرافت کی۔ یہیں سے یہ ظاہر ہوگیا کہ انسان کو جو قویٰ ملے ہیں وہ اس غایت و مقصود یعنی منصب خلاف الٰہی کے متناسب ملے ہیں اور کسی دوسری مخلوق کو ایسے قویٰ نہیں ملے۔ یہی وجہ ہے کہ نسل انسانی خودبھی اپنی اصلاح و فلاح کے لئے اس کی محتاج ہے کہ اپنے کسی ہم جنس کے واسطہ سے شریعت الٰہی سے استفادہ کرے اور سلسلہ نبوت بھی اسی غرض سے قائم ہوا پھر اسی خاص حکمت الٰہی کے تحت اپنے قانون تکوینی کے مطابق اس سلسلہ نبوت کے خاتمہ کا اعلان کر کے یہ وراثت خلافت اہل علم کے سپرد کردی گئی۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ قوم مسلم کے لئے لازم و ضروری ہے کہ ایک زندہ انسان اس منصب خلافت پر قائم رہے اور اس کی موجودگی میں جب بھی کوئی دوسرا اس منصب کا دعویٰ کرے تو اس کو فوراً قتل کردیا جائے۔ فسادامت مسلمہ صرف اسی صورت رک سکتا ہے۔ جب تک یہ صورت قائم نہیں ہوتی۔ فساد روکنے کی کوئی دوسری صورت ممکن نہیں ہے۔ ہاں ! اس منصب پر قائم ہونے والے زندہ انسان کو آپ خلیفہ کہیں یا امیر المؤمنین کہیں یا صدر اور وزیر اعظم ، جو چاہیں اس کا نام رکھیں۔ اسلامی نام اس کا ہر حال میں ” خلیفۃ اللہ “ ہی رہے گا۔ کاش کہ ! امت مسلمہ اس حقیقت کو سمجھتی ؟ آج دنیا میں یہودیت و عیسائیت جیسی مغضوب و ضالین قوم اس رمز کو پا گئی اور شہداء علی الناس کا لقب پانے والی امت نے اس حقیقت کو ” وراء ظہور “ پھینک دیا اور اس عمل کا نتیجہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے ۔ انما اشکوا بثی و حزنی الی اللہ۔ فرشتوں نے مشورہ دیا نہ اعتراض کی : 73: : اَتَجْعَلُ فِیْهَا : یعنی جو زمین میں خرابی پھلائے گا یہ بات صرف مخلوق کی زبان حال سے اصل مطلب کا بیان ہے اس کو نہ مشورہ کہا جاسکتا ہے اور نہ ہی اعتراض کا نام دیا جاسکتا ہے۔ پھر قرآن کریم نے جو تصور ملائکہ یعنی فرشتوں کے متعلق دیا ہے وہ اس طرح ہے کہ : بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُوْنَۙ0026 لَا یَسْبِقُوْنَهٗ بِالْقَوْلِ وَ ہُمْ بِاَمْرِهٖ یَعْمَلُوْنَ 0027 (الانبیاء 21 : 26 ، 27) ” وہ معزز بندے ہیں یعنی عمدہ مخلوق ۔ اللہ کے سامنے وہ بات نہیں کرتے اور جو وہ کہتا ہے وہی وہ بجالاتے ہیں۔ “ اس طرح مخلوق کی زبان حال سے سوال و جواب میں مطلب کا بیان اور جگہ بھی قرآن کریم میں آیا ہے ۔ اللہ نے زمین و آسمان کی زبان سے حکایتاً یہ فرمایا کہ جب ہم نے آسمان و زمین سے کہا کہ دونوں خواہ مخواہ حاضر ہوں ؟ تو دونوں نے عرض کیا یعنی زبان حال سے کہا کہ ہم دونوں بخوشی حاضر ہیں۔ (حم السجدہ) ایک جگہ جہنم کی نسبت فرمایا : کہ جس دن ہم جہنم سے کہیں گے کہ تو بھر گئی ؟ تو وہ کہے گی کہ ہے اس سے زیادہ کچھ اور بھی ؟ (ق : 30) پس ان آیات میں اللہ نے ایسی چیزوں کی زبان حال سے جو گویا نہیں ہیں ۔ سوال و جواب کے طور پر ان کی فطرت کو جس طرح کے انسان کے خیال میں آسکتی ہے بیان کیا ہے۔ بعینہٖ یہی صورت یہاں واقع ہوئی ہے۔ فرشتوں کی نیاز مندی اور اقرار فرمانبرداری : 74: مطلب یہ ہے کہ ہم تو سب کے سب آپ کے فرمانبردار ہیں یعنی ہم میں نافر مانی کا عنصر موجود نہیں۔ ان میں یعنی انسانوں میں کوئی مفسد و سفاک بھی ہوگا سو اگر یہ کام ہمارے سپرد کیا جائے تو ہم سب مل کر اس کو انجام دیں گے اور وہ لوگ سب کے سب اس کام کے نہ ہوں گے جو مطیع ہوں گے وہ تو اس کام میں لگ جائیں گے مگر جو مفسد و ظالم ہوں گے ان سے کیا امید ہے کہ وہ اس کام کو انجام دیں۔ تسبیح کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ کا ہر نقص سے مبرا ہونے کا اقرار کرنا۔ چونکہ یہ ملائکہ کا اعتراض نہیں تھا اور نہ ہی وہ اعتراض کرسکتے تھے اس لئے وہ اللہ تعالیٰ کے ہر نقص سے پاک اور بےعیب ہونے کا اظہار کرتے ہیں۔ تسبیح اور تقدیس کے درمیان یہ فرق کیا گیا ہے کہ تسبیح کا اطلاق باعتبار عبادات کے ہوتا ہے اور تقدیس کا باعتبار اعتقادات کے۔ پھر اس میں یہ حکمت بھی پوشیدہ ہے کہ جاہل قوموں میں فرشتوں کے متعلق مختلف خیالات چلے آر رہے تھے کسی قوم نے کسی فرشتے کو اگنی دیوتا مان لیا کسی کو اندر دیوتا ۔ قرآن کریم نے ان کی زبان حال سے ایسا بیان دیا کہ ان کی عبدیت پر مہرثبت کردی اور وہ بھی انہی کی زبان سے۔ کیونکہ فرشتے یہاں صاف صاف عرض کر رہے ہیں کہ ہم خدام تو اپنی سرشت کے لحاظ سے بجز حضور والا کی تحمید و تقدیس کے اور کچھ کر ہی نہیں سکتے ۔ اس طرح وہ ایک طرح تو اپنی عاجزی اور کمزوری کا اعتراف کر رہے ہیں اور دوسری طرف حکم بجالانے کے لئے مستعد و تیار نظر آتے ہیں جو ان کی فطرت میں داخل ہیں۔
Top