Tafseer-e-Jalalain - Al-Hashr : 5
مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّیْنَةٍ اَوْ تَرَكْتُمُوْهَا قَآئِمَةً عَلٰۤى اُصُوْلِهَا فَبِاِذْنِ اللّٰهِ وَ لِیُخْزِیَ الْفٰسِقِیْنَ
مَا قَطَعْتُمْ : جو تم نے کاٹ ڈالے مِّنْ : سے لِّيْنَةٍ : درخت کے تنے اَوْ : یا تَرَكْتُمُوْهَا : تم نے اس کو چھوڑدیا قَآئِمَةً : کھڑا عَلٰٓي : پر اُصُوْلِهَا : اس کی جڑوں فَبِاِذْنِ اللّٰهِ : تو اللہ کے حکم سے وَلِيُخْزِيَ : اور تاکہ وہ رسوا کرے الْفٰسِقِيْنَ : نافرمانوں کو
(مومنو) کھجور کے جو درخت تم نے کاٹ ڈالے یا انکو اپنی جڑوں پر کھڑا رہنے دیا سو خدا کے حکم سے تھا اور مقصود یہ تھا کہ نافرمانوں کو رسوا کرے۔
ماقطعتم من لینۃ اوترکتموھا قائمۃ الخ مسلمانوں نے جب محاصرہ شروع کیا تو بنی نضیر کی بستی کے اطراف میں نخلستان واقع تھے ان کے بہت سے درختوں کو کاٹ ڈالا یا جلا ڈالا گیا تھا، تاکہ محاصرہ با آسانی کیا جاسکے اور درخت فوجی نقل و حرکت میں حائل نہ ہوں، چناچہ جو درخت حائل نہیں تھے انہیں کھڑا رہنے دیا گیا تھا اس پر مدینہ کے منافقوں اور بنو قریظہ اور خود بنو نضیر نے شور مچا دیا کہ محمد ﷺ تو فساد فی الارض سے منع کرتے ہیں مگر خود ہرے اور پھلدار درختوں کو کاٹے جا رہے ہیں، یہ آخر فساد فی الارض نہیں تو اور کیا ہے ؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا کہ تم لوگوں نے جو درخت کاٹے اور جن کو کھڑا رہنے دیا ان میں سے کوئی فعل بھی ناجائز نہیں ہے بلکہ دونوں کو اللہ کا اذن حاصل ہے، اس سے شرعی مسئلہ یہ نکلتا ہے کہ جو جنگی ضروریات کے لئے تخریبی کارروائی ناگزیر ہو وہ فساد فی الارض کی تعریف میں نہیں آتی، چناچہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے یہ وضاحت فرما دی ہے، قطعوا منھا مان کان موضع القتال مسلمانوں نے بنو نضیر کے درختوں میں سے صرف وہ درخت کاٹے تھے جو جنگ کے مقام پر واقع تھے۔ (تفسیر نیشا پوری) مسئلہ،۔ بحالت جنگ کفار کے گھروں کو منہدم کرنا یا جلانا اسی طرح درختوں اور کھیتوں کو برباد کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ اس میں ائمہ فقہاء کے مختلف اقوال ہیں، امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ تعالیٰ نے بحالت جنگ ان سب کاموں کو جائز قرار دیا ہے، مگر شیخ ابن ہممام نے فرمایا کہ یہ جواز اس وقت ہے جبکہ اس کے بغیر کفار پر غلبہ پانا مشکل ہو۔
Top