Tafseer-e-Jalalain - Ash-Shu'araa : 21
وَ الْبَلَدُ الطَّیِّبُ یَخْرُجُ نَبَاتُهٗ بِاِذْنِ رَبِّهٖ١ۚ وَ الَّذِیْ خَبُثَ لَا یَخْرُجُ اِلَّا نَكِدًا١ؕ كَذٰلِكَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّشْكُرُوْنَ۠   ۧ
وَالْبَلَدُ : اور زمین الطَّيِّبُ : پاکیزہ يَخْرُجُ : نکلتا ہے نَبَاتُهٗ : اس کا سبزہ بِاِذْنِ : حکم سے رَبِّهٖ : اس کا رب وَالَّذِيْ : اور وہ جو خَبُثَ : نا پاکیزہ (خراب) لَا يَخْرُجُ : نہیں نکلتا اِلَّا : مگر نَكِدًا : ناقص كَذٰلِكَ : اسی طرح نُصَرِّفُ : پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں الْاٰيٰتِ : آیتیں لِقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يَّشْكُرُوْنَ : وہ شکر ادا کرتے ہیں
جو زمین پاکیزہ ہے اس میں سے سبزہ بھی پروردگار کے حکم سے نفیس ہی نکلتا ہے۔ اور جو خراب ہے اس میں سے جو کچھ نکلتا ہے ناقص ہوتا ہے۔ اس طرح ہم آیتوں کو شکر گزاروں کیلئے پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں۔
والبلد الطیب یخرج نباتہ، اس کی حقیقی معنی مراد ہونے کے علاوہ یہ ایک تمثیل بھی ہوسکتی ہے البلد الطیب سے مراد سریع الفھم اور البلد الخبیث سے بطئ الفھم یا وعظ و نصیحت قبول کرنے والا دل، اور اسکے برعکس دل، یا قلب مومن اور قلب منافق، نصیحت قبول کرنے والا دل بارش قبول کرنے والی زمین کی طرح ہے اور دوسرا دل اس کے برعکس زمین شور کی طرح ہے جو بارش کے پانی کو قبول ہی نہیں کرتی یا کرتی ہے تو برائے نام جس سے پیداوار بھی نکمی اور برائے نام ہوتی ہے، اس کو ایک حدیث میں اس طرح بیان کیا گیا ہے رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے جو علم و ہدایت دے کر بھیجا ہے اس کی مثال اس موسلادھار بارش کی طرح ہے جو زمین پر برستی، زمین کے جو حصے زرخیز تھے انہوں نے پانی کو اپنے اندر جذب کرکے چارہ اور گھاس خوب اگایا، اور اسکے بعض حصے سخت تھے انہوں نے پانی کو تو روک لیا (اندر جذب نہیں کیا) تاہم اس سے بھی لوگوں نے فائدہ اٹھایا، خود بھی پیا، کھیتوں کو بھی سیراب کیا، اور زمین کا کچھ حصہ بالکل سنگلاخ تھا جس نے پانی روکا اور نہ کچھ اگایا، پس یہ اس شخص کی مثال ہے جس نے اللہ کے دین میں سمجھ حاصل کی اور اللہ نے مجھے جس چیز کے ساتھ بھیجا ہے اس نے اس سے استفادہ کیا خود بھی علم حاصل کیا دوسروں کو بھی سکھایا، اور اس شخص کی بھی مثال ہے جس نے کچھ نہیں سیکھا اور نہ وہ ہدایت ہی قبول کی جس کو دیکر مجھے بھیجا گیا ہے۔ (صحیح بخاری)
Top