Mufradat-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 21
فَفَرَرْتُ مِنْكُمْ لَمَّا خِفْتُكُمْ فَوَهَبَ لِیْ رَبِّیْ حُكْمًا وَّ جَعَلَنِیْ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ
فَفَرَرْتُ : تو میں بھاگ گیا مِنْكُمْ : تم سے لَمَّا خِفْتُكُمْ : جب میں ڈرا تم سے فَوَهَبَ لِيْ : پس عطا کیا مجھے رَبِّيْ : میرا رب حُكْمًا : حکم وَّ : اور جَعَلَنِيْ : مجھے بنایا مِنَ : سے الْمُرْسَلِيْنَ : رسول (جمع)
تو جب مجھے تم سے ڈر لگا تو میں تم میں سے بھاگ گیا پھر خدا نے مجھے نبوت و علم بخشا اور مجھے پیغمبروں میں سے کیا
فَفَرَرْتُ مِنْكُمْ لَمَّا خِفْتُكُمْ فَوَہَبَ لِيْ رَبِّيْ حُكْمًا وَّجَعَلَنِيْ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ۝ 21 فر أصل الفَرِّ : الکشف عن سنّ الدّابّة . يقال : فَرَرْتُ فِرَاراً ، ومنه : فَرَّ الدّهرُ جذعا «1» ، ومنه : الِافْتِرَارُ ، وهو ظهور السّنّ من الضّحك، وفَرَّ عن الحرب فِرَاراً. قال تعالی: فَفَرَرْتُ مِنْكُمْ [ الشعراء/ 21] ، وقال : فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَةٍ [ المدثر/ 51] ، فَلَمْ يَزِدْهُمْ دُعائِي إِلَّا فِراراً [ نوح/ 6] ، لَنْ يَنْفَعَكُمُ الْفِرارُ إِنْ فَرَرْتُمْ [ الأحزاب/ 16] ، فَفِرُّوا إِلَى اللَّهِ [ الذاریات/ 50] ، وأَفْرَرْتُهُ : جعلته فَارّاً ، ورجل (ر ر ) الفروالفرار ۔ اس کے اصل معنی ہیں جانور کی عمر معلوم کرنے کے لئے اس کے دانتوں کو کھولنا اسی سے فرالدھر جذعا کا محاورہ ہے یعنی زمانہ اپنی پہلی حالت پر لوٹ آیا ۔ اور اسی سے افترار ہے جس کے معنی ہنسنے میں دانتوں کا کھل جانا کے ہیں ۔ فر من الحرب فرار میدان کا راز چھوڑ دینا ۔ لڑائی سے فرار ہوجانا قرآن میں ہے ۔ فَفَرَرْتُ مِنْكُمْ [ الشعراء/ 21] تو میں تم سے بھاگ گیا ۔ فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَةٍ [ المدثر/ 51] یعنی شیر سے ڈر کر بھاگ جاتے ہیں ۔ فَلَمْ يَزِدْهُمْ دُعائِي إِلَّا فِراراً [ نوح/ 6] لیکن میرے بلانے سے اور زیادہ گریز کرتے رہے ۔ لَنْ يَنْفَعَكُمُ الْفِرارُ إِنْ فَرَرْتُمْ [ الأحزاب/ 16] کہ اگر تم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بھاگتے ہو تو بھاگنا تم کو فائدہ نہ دے گا ۔ فَفِرُّوا إِلَى اللَّهِ [ الذاریات/ 50] تو تم خدا کی طرف بھاگ چلو ۔ افررتہ کسی کو بھگا دینا ۔ رجل فر وفار ۔ بھاگنے والا ۔ المفر ( مصدر ) کے معنی بھاگنا ( ظرف مکان ) جائے ۔ فرار ( ظرف زمان ) بھاگنے کا وقت چناچہ آیت ؛ أَيْنَ الْمَفَرُّ [ القیامة/ 10] کہ ( اب ) کہاں بھاگ جاؤں کے معنی تینوں طرح ہوسکتے ہیں ۔ خوف الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] ( خ و) الخوف ( س ) کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ وهب الهِبَةُ : أن تجعل ملكك لغیرک بغیر عوض . يقال : وَهَبْتُهُ هِبَةً ومَوْهِبَةً ومَوْهِباً. قال تعالی: وَوَهَبْنا لَهُ إِسْحاقَ [ الأنعام/ 84] ، الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْماعِيلَ وَإِسْحاقَ [إبراهيم/ 39] ، إِنَّما أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم/ 19] ( و ہ ب ) وھبتہ ھبۃ وموھبۃ ومو ھبا بلا عوض کوئی چیز دے دینا یا کچھ دینا قرآن میں ہے : ۔ وَوَهَبْنا لَهُ إِسْحاقَ [ الأنعام/ 84] اور ہم نے ان کو اسحاق اور یعقوب ) بخشے ۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْماعِيلَ وَإِسْحاقَ [إبراهيم/ 39] خدا کا شکر ہے جس نے مجھے بڑی عمر اسماعیل اور اسحاق بخشے ۔ إِنَّما أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم/ 19] انہوں نے کہا کہ میں تو تمہارے پروردگار کا بھیجا ہوا یعنی فر شتہ ہوں اور اسلئے آیا ہوں کہ تمہیں پاکیزہ لڑکا بخشوں ۔ حکمت ( نبوۃ) قال اللہ تعالی: وَآتَيْناهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا [ مریم/ 12] ، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «الصمت حکم وقلیل فاعله» أي : حكمة، وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ آل عمران/ 164] ، وقال تعالی: وَاذْكُرْنَ ما يُتْلى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب/ 34] ، قيل : تفسیر القرآن، ويعني ما نبّه عليه القرآن من ذلک : إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ ما يُرِيدُ [ المائدة/ 1] ، أي : ما يريده يجعله حكمة، وذلک حثّ للعباد علی الرضی بما يقضيه . قال ابن عباس رضي اللہ عنه في قوله : مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب/ 34] ، هي علم القرآن، ناسخه، مُحْكَمه ومتشابهه . قرآن میں ہے : ۔ وَآتَيْناهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا [ مریم/ 12] اور ہم نے ان کو لڑکپن میں ہی دانائی عطا فرمائی تھی ۔ اور آنحضرت نے فرمایا کہ خاموشی بھی حکمت ہے ۔ لیکن بہت تھوڑے لوگ اسے اختیار کر ٹے ہیں ۔ یہاں ( آیت اور حدیث میں ) حکم کے معنی حکمت کہ میں قرآن میں ہے : ۔ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ آل عمران/ 164] اور ان ( لوگوں ) کو کتاب اور دانائی سکھایا کرے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرْنَ ما يُتْلى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب/ 34] اور تمہارے گھروں میں جو خدا کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور حکمت کی باتیں سنائی جاتی ہیں ان کو یاد رکھو ۔ میں حکمت سے مراد تفسیر قرآن ہے یعنی جس پر کہ قرآن نے آیت إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ ما يُرِيدُ [ المائدة/ 1] میں تنبیہ کی ہے کہ اللہ جس چیز کو چاہتا ہے حکمت بنادیتا ہے تو اس میں ترغیب ہے کہ لوگوں کو اللہ کے فیصلے پر راضی رہنا چاہیئے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں ۔ مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب/ 34] میں حکمت سے ناسخ منسوخ محکم اور متشابہات کا علم مراد ہے ۔ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔
Top