Jawahir-ul-Quran - Al-Baqara : 31
وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلٰٓئِكَةِ١ۙ فَقَالَ اَنْۢبِئُوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
وَعَلَّمَ : اور سکھائے آدَمَ : آدم الْاَسْمَآءَ : نام كُلَّهَا : سب چیزیں ثُمَّ : پھر عَرَضَهُمْ : انہیں سامنے کیا عَلَى : پر الْمَلَائِکَةِ : فرشتے فَقَالَ : پھر کہا اَنْبِئُوْنِیْ : مجھ کو بتلاؤ بِاَسْمَآءِ : نام هٰٓؤُلَآءِ : ان اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو صَادِقِیْنَ : سچے
اور سکھلا دیے اللہ نے آدم کو نام سب چیزوں کے78 پھر سامنے کیا ان سب چیزوں کو فرشتوں کے پھر فرمایا بتاؤ مجھ کو نام ان کے79 اگر تم سچے ہو80
78 ۔ فرشتوں کے سوال کا اجمالی جواب تو اوپر گزر چکا اب ان کے مزید اطمینان کے لیے حضرت آدم (علیہ السلام) کی اس برتری کا عملاً اظہار کیا جارہا ہے۔ یہاں کل استغراق حقیقی کے لیے نہیں بلکہ کل اضافی ہے اور اس سے مراد وہ ضروری اشیاء ہیں جو آدم (علیہ السلام) کے مناسب تھیں ہر چیز مراد نہیں کما فی قولہ تعالیٰ یاخذ کل سفینۃ غصباً واوتیت من کل شئی، وفتحنا علیھم ابواب کل شئی۔ اسماء سے اشیاء کے خواص اور ان کی تاثیرات مراد ہیں۔ المراد بالاسماء صفات الاشیاء ونعو تھا وخواصھا (روح ص 234 ج 1) اور تعلیم سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کی فطرت میں اس علم کی استعداد رکھ دی تھی اور انہوں نے اس فطری استعداد کے ذریعے ان اشیاء کے خواص واوصاف بیان کردئیے۔ لہذا آدم کی یہ برتری ان کی فطرت اور جبلت کے اعتبار سے تھی۔ یہ مطلب نہیں کہ فطری استعداد کے علاوہ ان کو علم دیا گیا تھا۔ کیونکہ اس طرح یہ اعتراض لازم آتا ہے کہ جب ان اشیاء کا علم حضرت آدم کو دیدیا تو اس میں ان کا کیا کمال ہے ؟ اور فرشتوں کو نہیں دیا تو اس میں ان کا کیا قصور ہے۔ 79 ۔ پھر وہ اشیاء فرشتوں کے سامنے پیش کر کے ان سے سوال کیا کہ وہ ان اشیاء کے خواص بتائیں۔ 80 ۔ اگر تم اس دعویٰ میں سچے ہو کہ ہماری موجودگی میں جو ہر وقت اللہ کی تسبیح و تقدیس اور تحمید وتمجید میں مصروف رہتے ہیں کسی اور مخلوق کے پیدا کرنے کی ضرورت نہیں جس سے فساد اور خونریزی کا اندیشہ ہو۔
Top