Jawahir-ul-Quran - An-Nahl : 23
ذٰلِكَ١ۗ وَ مَنْ یُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰهِ فَهُوَ خَیْرٌ لَّهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ١ؕ وَ اُحِلَّتْ لَكُمُ الْاَنْعَامُ اِلَّا مَا یُتْلٰى عَلَیْكُمْ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ
ذٰلِكَ : یہ وَمَنْ : اور جو يُّعَظِّمْ : تعطیم کرے حُرُمٰتِ اللّٰهِ : شعائر اللہ (اللہ کی نشانیاں) فَهُوَ : پس وہ خَيْرٌ : بہتر لَّهٗ : اس کے لیے عِنْدَ رَبِّهٖ : اس کے رب کے نزدیک وَاُحِلَّتْ : اور حلال قرار دئیے گئے لَكُمُ : تمہارے لیے الْاَنْعَامُ : مویشی اِلَّا : سوا مَا يُتْلٰى : جو پڑھ دئیے گئے عَلَيْكُمْ : تم پر۔ تم کو فَاجْتَنِبُوا : پس تم بچو الرِّجْسَ : گندگی مِنَ : سے الْاَوْثَانِ : بت (جمع) وَاجْتَنِبُوْا : اور بچو قَوْلَ : بات الزُّوْرِ : جھوٹی
یہ سن چکے اور جو کوئی بڑائی رکھے38 اللہ کی حرمتوں کی سو وہ بہتر ہے اس کے لیے اپنے رب کے پاس اور حلال ہیں تم کو چوپائے39 مگر جو تم کو سناتے ہیں سو بچتے رہو40 بتوں کی گندگی سے اور بچتے رہو جھوٹی بات سے41
38:۔ ” وَ مَنْ یُّعَظِّمْ حُرُمَاتِ اللّٰهِ الخ “ یہ تحریمات اللہ کا ذکر ہے حالت احرام میں جن اعمال کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے مثلاً بحالت احرام شکار کرنا وغیرہ ان کو حرام سمجھنا عین تقوی ہے۔ 39:۔ ” وَ اُحِلَّتْ لَکُمْ الخ “ تحریمات مشرکین کا ابطال ہے یعنی اپنے طواغیت کی خاطر بحیرہ، سائبہ مت بناؤ اللہ نے اس کی اجازت نہیں دی یہ چوپائے اللہ نے تمہارے لیے حلال کیے ہیں اس لیے انہیں کھاؤ۔ ” اِلَّا مَا یُتْلیٰ عَلَیْکُمْ “ میں تحریمات اللہ کا بیان ہے یعنی اللہ کی حرام کی ہوئی چیزیوں کو حرام سمجھو اور انہیں حلال مت جانو اور مایتلی علیکم سے سے الرجس مراد ہے جو اس کے متصل بعد مذکور ہے یا اس سے مراد حرمت علیکم المیتۃ الخ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اپنے پاس سے اللہ کے حلال کو حرام نہ کرو صرف انہی چیزوں کو حرام سمجھو جنہیں اللہ نے اپنی کتاب میں حرام کیا ہے مثلاً شرک، غیر اللہ کی نذر و نیاز وغیر۔ والمعنی ان اللہ تعالیٰ احل لکم الانعام کلھا الا مابین فی کتابہ فحافظوا علی حدودہ ولا تحرموا شیئا مما احل کتحریم البعض البحیرۃ ونحوھا و تحلوا مما حرم کا حلالھم اکل الموقوذۃ والمیتۃ وغیرھما۔ (مدارج ج 3 س 78) ۔ الا ما یتلی علیکن ایۃ تحریمہ استثناء متصل کما اختارہ الاکثرون عنھا علی ان ما عبارۃ عما حرم منھا العارض کالمیتۃ وما اھل بہ لغیر اللہ تعالیٰ (روح ج 17 ص 174) 40:۔ ” فَاجْتَنِبُوْا الخ “ من الاوثان میں من بیانیۃ ہے اور الاوثان سے پہلے مضاف محذوف ہے ای عبادۃ الاوثان (معالم و خازن) ۔ الرجس کے معنی نجاست اور پلیدی کے ہیں اصل عبارت اس طرح تھی۔ فاجتنبوا الرجس الذی ھو عبادۃ الاوثان۔ یعنی غیر اللہ کی عبادت (دعا) پکار اور نزر و منت جو سراسر ناپاک اور نجس ہے اس سے اجتناب کرو یعنی بالرجس عبادۃ الاوثان و قد روی ذلک عن ابن عباس وابن جریج فکانہ قیل اجتنبوا من الاوثان الرجس وھو العبادۃ (روح ج 17 ص 148) ۔ اس صورت میں من بعضیہ ہوگا۔ 41:۔ ” وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الخ “ یہ ” اِجْتَنِبُوْا “ اول پر معطوف ہے اور اعادہ فعل مزید اہتمام اور تاکید کیلئے ہے ” قَوْلَ الزُّوْر “ سے مراد مشرکانہ اقوال ہیں جیسا کہ مشرکین حج کے وقت تلبیہ میں اپنی طرف سے مشرکانہ الفاظ بڑھا لیا کرتے تھے۔ قیل ھو قول المشرکین فی تلبیتھم لبیک لا شریک لک لبیک الا شریکا ھو لک تملکہ ومالک (معالم و خازن ج 5 ص 16) ۔ یا غیر اللہ کی نذر و منت ماننا اور تحریمات مشرکین مراد ہیں کانہ تعالیٰ لما حث علی تعطیم الھرمات اتبع ذالک بما فیہ رد لما کانت الکفرۃ علیہ من تحریم البحائر والسوائب ونحوھا (روح) سورة مائدہ کی تفسیر (ص 261 حاشیہ 11) میں گذر چکا ہے کہ حضرت شیخ قدس سرہ کے نزدیک ” ما اھل به “ میں ما سے مراد وہ قول ہے جو غیر اللہ کی نذر مانتے وقت زبان سے ادا کیا جاتا ہے اور ” قول الزور “ سے بھی وہی قول مراد ہے۔ واجتنبوا قول الزور ای النذر لغیر اللہ والذبح علی غیر اسمہ۔ حاصل یہ کہ غیر اللہ کی نذر و نیاز کھانے سے بھی بچو اور نذر غیر اللہ ماننے سے بھی اجتناب کرو۔
Top