Jawahir-ul-Quran - An-Nisaa : 2
وَ اٰتُوا الْیَتٰمٰۤى اَمْوَالَهُمْ وَ لَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِیْثَ بِالطَّیِّبِ١۪ وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَهُمْ اِلٰۤى اَمْوَالِكُمْ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ حُوْبًا كَبِیْرًا
وَاٰتُوا : اور دو الْيَتٰمٰٓى : یتیم (جمع) اَمْوَالَھُمْ : ان کے مال وَلَا : اور نہ تَتَبَدَّلُوا : بدلو الْخَبِيْثَ : ناپاک بِالطَّيِّبِ : پاک سے وَلَا : اور نہ تَاْكُلُوْٓا : کھاؤ اَمْوَالَھُمْ : ان کے مال اِلٰٓى : طرف (ساتھ) اَمْوَالِكُمْ : اپنے مال اِنَّهٗ : بیشک كَانَ : ہے حُوْبًا : گناہ كَبِيْرًا : بڑا
اور دے ڈالو یتیموں کو ان کا مال3 اور بدل نہ لو برے مال کو اچھے مال سے اور نہ کھاؤ ان کے مال اپنے مالوں کے ساتھ بیشک یہ ہے بڑا وبال
3:۔ چودہ احکام رعیت۔ پہلا حکم رعیت۔ (یتیموں کا مال نہ کھاؤ وہ تمہارے لیے خبیث ہے) ۔ مال یتیم کے بارے میں تین چیزوں سے منع فرمایا (1) یتیم کا عمدہ مال لے کر اس کے بدلے اپنا ردی مال دیدینا۔ جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ ایسا کرتے تھے۔ وکانوا فی الجاھلیۃ لعدم الدین لا یتحرجون عن اموال الیتیمی فکانوا یاخذون الطیب والجید من اموال الیتمی ویبدلونہ بالردی من اموالہم الخ (قرطبی ج 5 ص 9) مال یتیم کو بوجہ حرمت خبیث فرمایا کیونکہ وہ ولی یتیم کے لیے حرام ہے (2) اپنے پاس مال نہ ہو تو یتیم کا مال کھانا۔ لا تتعجلوا اکل الخبیث من اموالھم وتدوا انتظار الرزق الحلال من عنداللہ (قرطبی) (3) اور اگر اپنے پاس بھی مال ہو تو یتیم کا مال اس میں ملا کر کھانا یہ تینوں طریقے ظالمانہ تھے اس لیے ان سے منع فرمایا۔ الی اموالکم میں الی بمعنی مع ہے اور اس سے تیسرے حکم کی طرف اشارہ ہے۔ یا اَمْوَالِکُمْ سے پہلے مضاف مقدر ہے ای الی حصول اموالکم اس طرح یہ حکم ثانی کی طرف اشارہ ہوگا۔ وَ اٰتُوْا الْیَتَامیٰ اَمْوَالَھُمْ میں خطاب اولیائے یتیم سے ہے۔ اور یتیموں کو ان کا مال دینے سے یہاں یہ مراد نہیں کہ ان کا مال ان کے حوالے کردو کیونکہ یہ حکم آگے آرہا ہے۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ یتیموں کا مال محفوظ رکھو اور اس میں کسی قسم کی خیانت نہ کرو۔ والمراد باتیاء اموالہم ترکہا سالمۃ غیر متعرض لھا بسوء فھو مجاز مستعمل فی لازم معناہ (روح ج 4 ص 186) ۔
Top