Kashf-ur-Rahman - Al-Israa : 34
وَ لَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ اِلَّا بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ حَتّٰى یَبْلُغَ اَشُدَّهٗ١۪ وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِ١ۚ اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُوْلًا
وَلَا تَقْرَبُوْا : اور پاس نہ جاؤ مَالَ الْيَتِيْمِ : یتیم کا مال اِلَّا : مگر بِالَّتِيْ : اس طریقہ سے ھِيَ : وہ اَحْسَنُ : سب سے بہتر حَتّٰى : یہاں تک کہ يَبْلُغَ : وہ پہنچ جائے اَشُدَّهٗ : اپنی جوانی وَاَوْفُوْا : اور پورا کرو بِالْعَهْدِ : عہد کو اِنَّ : بیشک الْعَهْدَ : عہد كَانَ : ہے مَسْئُوْلًا : پرسش کیا جانے والا
اور یتیم کے مال قریب بھی نہ جائو مگر ہاں اس طریقہ پر جو بہتر ہو یہاں تک کہ وہ یتیم اپنی قوت یعنی بلوغ کو پہنچ جائے اور عہد کو پورا کرو بیشک عہد کی باز پرس کی جائے گی
-34 اور یتیم کے مال کے قریب نہ جائو ہاں مگر اس طریقہ کے ساتھ جو شرعاً بہتر ہو یہاں تک کہ وہ یتیم اپنے بلوغ اور اپنی قوت کو پہنچ جائے اور عہد و پیمان کو پورا کیا کرو بلاشبہ عہد کی باز پرس کی جائیگی۔ یعنی یتیم کے مال کو ہاتھ بھی نہ لگائو مگر ہاں اگر یتیم کے مال کی حفاظت اور خیر خواہی مقصود ہو تو مضائقہ نہیں اور جب یتیم بالغ ہوجائے تو اس کا مال اس کے سپرد کردو۔ تفصیل کئی جگہ گزر چکی ہے سورة نساء میں ملاحظہ کرلیا جائے۔ عہد سے مراد عہد مشروع ہے خواہ وہ اللہ تعالیٰ سے ہو یا اس کے بندوں سے ہو اس کو پورا کرنا ضروری ہے۔ اس میں احکام الٰہی کی تعمیل بھی داخل ہوگئی اور بندوں کے حقوق اور عہد بھی آگئے البتہ غیر مشروع عہد نکل گئے قیامت کے دن بندے سے ایفائے عہد کی باز پرس ہوگی۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں مگر جس طرح بہتر ہو ینی اگر اس کے مال کو سنوار دے تو مضائقہ نہیں اور قرار کی پوچھ یعنی کسی سے قول وقرار صلح دیکر بدی کرنی اس کا وبال ضرور پڑتا ہے۔ 2 ؎ 1 نبی کریم ﷺ نے حضرت ابو ذر ؓ سے فرمایا تھا خبردار کسی دو شخصوں کا والی نہ بننا اور کبھی یتیم کے مال کا متولی نہ بننا۔
Top