Kashf-ur-Rahman - Al-Anbiyaa : 90
فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ١٘ وَ وَهَبْنَا لَهٗ یَحْیٰى وَ اَصْلَحْنَا لَهٗ زَوْجَهٗ١ؕ اِنَّهُمْ كَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَ یَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّ رَهَبًا١ؕ وَ كَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَ
فَاسْتَجَبْنَا : پھر ہم نے قبول کرلی لَهٗ : اس کی وَوَهَبْنَا : اور ہم نے عطا کیا لَهٗ : اسے يَحْيٰى : یحییٰ وَاَصْلَحْنَا : اور ہم نے درست کردیا لَهٗ : اس کے لیے زَوْجَهٗ : اس کی بیوی اِنَّهُمْ : بیشک وہ سب كَانُوْا يُسٰرِعُوْنَ : وہ جلدی کرتے تھے فِي : میں الْخَيْرٰتِ : نیک کام (جمع) وَ : اور يَدْعُوْنَنَا : وہ ہمیں پکارتے تھے رَغَبًا : امید وَّرَهَبًا : اور خوف وَكَانُوْا : اور وہ تھے لَنَا : ہمارے لیے (سامنے) خٰشِعِيْنَ : عاجزی کرنیوالے
سو ہم نے اس کی پکار سن لی اور ہم نے اس کو یحییٰ عطا کیا اور اس کے لئے اس کی بیوی کو ولادت کے قابل کردیا۔ یہ سب مذکورئہ بالا حضرات بھلے کاموں کے کرنے میں دوڑتے تھے اور امید و خوف کے ساتھ ہم کو پکارا کرتے تھے اور یہ لوگ ہمارے سامنے عاجزی و نیاز مندی کرنے والے تھے
(90) ہم نے اولاد کے بارے میں زکریا (علیہ السلام) کی دعا قبول کرلی اور ہم نے ان کو یحییٰ نامی لڑکا عطا کیا اور اس کی بیوی کو درست اور ولادت کے قابل کردیا۔ بلاشبہ یہ سب مذکورہ بالا حضرات نیک کاموں اور بھلی باتوں کے کرنے میں دوڑتے اور جلدی کرتے تھے اور امید و بیم اور خوف درجا کے ساتھ ہم کو پکارا کرتے تھے اور ہمارے سامنے عاجزی اور نیاز مندی کرنے والے تھے۔ یعنی اولاد کے حدق میں ان کی دعا قبول ہوئی یحییٰ پیدا ہوئے بیوی جو بانجھ تھیں ان میں صلاحیت پیدا کردی بچہ جننے کی یہ سب لوگ یعنی زکریا (علیہ السلام) اور یحییٰ (علیہ السلام) اور زکریا (علیہ السلام) کی بیوی ایشاع سب نیک اور بھلے کام کرنے میں دوڑتے اور جلدی کرتے تھے یا تمام انبیاء (علیہم السلام) جن کا ذکر اوپر ہوچکا ہے۔ بہرحال ! یہ سب لوگ امید اور خوف کے ساتھ ہماری عبادت کیا کرتے تھے اور ہمارے روبرو عاجزی اور نیاز مندی کا برتائو کرتے تھے یعنی ان ہر بات سے کمال عبودیت کا اظہار ہوتا تھا امید و بیم اور خوف و طمع کا یہ مطلب کہ ہماری رحمت اور لطف کے امیدوار اور ہمارے جلال اور ہمارے عذاب سے خائف رہا کرتے تھے اور اس حال میں عبادت کیا کرتے تھے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں لوگ کہتے ہیں جو کوئی اللہ کو پکارے توقع سے یا ڈرے وہ سچا دوست نہیں یہاں سے ان کی غلطی نکلی۔ 12 بعض لوگ کہا کرتے کہ خوف و طمع کے خیال سے عبادت کرنے والے مخلص نہیں یعنی جنت دوزخ یا مہر و قہر سے بےنیاز ہوکر جو شخص عبادت کرے وہ مخلص ہے۔ لوگ بعض اہل اللہ اور اولیاء اللہ کے کلام سے جو سکر اور صحو کی حالت میں صادر ہوا ہے اس سے استدلال کرتے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) نے ان کی غلطی نکالی۔ اگر کسی بزرگ سے ایسی کوئی بات ثابت بھی ہوجائے تو وہ حجت نہیں ہوا کرتی۔
Top