Kashf-ur-Rahman - Aal-i-Imraan : 115
وَ مَا یَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَلَنْ یُّكْفَرُوْهُ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِالْمُتَّقِیْنَ
وَمَا : اور جو يَفْعَلُوْا : وہ کریں گے مِنْ : سے (کوئی) خَيْرٍ : نیکی فَلَنْ يُّكْفَرُوْهُ : تو ہرگز ناقدری نہ ہوگی اس کی وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا بِالْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں کو
اور یہ لوگ جو کار خیر بھی کریں گے اس کی ناقدری نہیں کی جائے گی اور اللہ تعالیٰ پرہیز گاروں کو خوب جانتا ہے۔3
3 یہ لوگ اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر پوری طرح ایمان رکھتے ہیں اور دوسرے لوگوں کو اچھے کاموں کی ترغیب دیتے ہیں اور نیک کام کرنے کو کہتے ہیں اور برے کاموں سے منع کرتے اور روکتے ہیں اور بھلائی کے کاموں میں دوڑتے اور جلدی کرتے ہیں اور ہمیشہ سرگرم رہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ مذکورہ حضرات نیک اور شائستہ لوگوں میں سے ہیں اور یہ لوگ جو نیک کام بھی کریں گے اس کی ناقدری نہیں کی جائے گی اور اس کے ثواب سے یہ لوگ محروم نہیں کئے جائیں گے اور اس ناقدری اور محرومی کا بھلا احتمال ہی کب ہوسکتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ پرہیز گاروں اور متقیوں کو خوب جانتا ہے۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ امت قائمہ جس کا ذکر ہم کر رہے یں یہ ایسی جماعت ہے کہ اس کے تمام افراد اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر صحیح ایمان رکھتے ہیں یعنی کامل مومن ہیں پھر دوسروں کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بھی کرتے ہیں پھر ان کے عمل کی خود یہ حالت ہے کہ کوئی نیک کام سامنے آجائے تو اس کی طرف دوڑتے اور لپکتے ہیں یعنی کوئی نیک کام نہیں چھوڑتے جب ان کے اعتقاد اور عمل کی یہ حالت ہے تو اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کا شمار نیک لوگوں میں ہے۔ دوسری آیت میں ان کی طاعات و عبادات کی قبولیت کا ذکر ہے اور ان کے اہل تقویٰ میں سے ہونے کا اظہار ہے۔ فلن یکفروہ کا مطلب یہ ہے کہ خدمات کا اعتراف کیا جائے گا اور ایسا نہیں ہوگا کہ ان کی عبادات و طاعات کو نظر انداز کردیا جائے کیونکہ ہم ایسے آقا نہیں ہیں کہ لوگوں کی حالت سے بیخبر ہوں یا کسی کی سعی اور محنت کے قدر دان نہ ہوں۔ جب یہ دونوں باتیں نہیں تو ان کی محنت کا پھل کس طرح ضائع ہوسکتا ہے ان کی شان تو یہ ہے وکان اللہ شاکر علیما یعنی اللہ تعالیٰ قدر دان اور جاننے والا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یہود میں پانچ سات آدمی حق پرست تھے وہ مسلمان ہوگئے ان کے سردار عبد اللہ بن سلام تھے۔ حق تعالیٰ ہر جگہ اہل کتاب کی مذمت میں سے ان کو نکال لیتا ہے یہ بھی ان ہی کا مذکور تھا (موضح القرآن) جاننا چاہئے کہ امت قائمۃ میں تمام اوصاف اور خوبیاں شامل تھیں لیکن خصوصی طور پر ان کے نیک اعمال اور اعتقاد کو علیحدہ بیان فرمایا۔ اب آگے ان اہل کتاب کا ذکر ہے جو کفر پر قائم رہے اور اسلام قبول کرنے اور نبی آخر الزماں ﷺ پر ایمان لانے سے بچتے اور بھاگتے رہے۔ (تسہیل)
Top