Kashf-ur-Rahman - Aal-i-Imraan : 199
وَ اِنَّ مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ لَمَنْ یُّؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكُمْ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِمْ خٰشِعِیْنَ لِلّٰهِ١ۙ لَا یَشْتَرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ ثَمَنًا قَلِیْلًا١ؕ اُولٰٓئِكَ لَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ
وَاِنَّ : اور بیشک مِنْ : سے اَھْلِ الْكِتٰبِ : اہل کتاب لَمَنْ : بعض وہ جو يُّؤْمِنُ : ایمان لاتے ہیں بِاللّٰهِ : اللہ پر وَمَآ : اور جو اُنْزِلَ : نازل کیا گیا اِلَيْكُمْ : تمہاری طرف وَمَآ : اور جو اُنْزِلَ : نازل کیا گیا اِلَيْھِمْ : ان کی طرف خٰشِعِيْنَ : عاجزی کرتے ہیں لِلّٰهِ : اللہ کے آگے لَا يَشْتَرُوْنَ : مول نہیں لیتے بِاٰيٰتِ : آیتوں کا اللّٰهِ : اللہ ثَمَنًا : مول قَلِيْلًا : تھوڑا اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ لَھُمْ : ان کے لیے اَجْرُھُمْ : ان کا اجر عِنْدَ : اپ اس رَبِّھِمْ : ان کا رب اِنَّ : ابیشک اللّٰهَ : اللہ سَرِيْعُ : جلد الْحِسَابِ : حساب
اور بیشک اہل کتاب میں سے کچھ لوگ ایسے ضرور ہیں جو اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور اس تعلیم پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو تمہاری طرف بھیجی گئی ہے اور اس پر بھی جو ان کی طرف بھیجی گئی ہے ان کی حالت یہ ہے کہ وہ اللہ کے آگے عاجزی کرنے والے ہیں نیز آیات الٰہی کے مقابلے میں کم حقیقت معاوضہ نہیں لیتے پھرتے یہی وہ لوگ ہیں جن کا صلہ ان کے رب کے پاس موجود ہے بلاشبہ اللہ تعالیٰ بہت جلد حساب کردیا کرتا ہے1
1 اے پیغمبر ! آپ کو ان کافروں کا شہر بشہر تجارت اور دنیوی فوائد کے لئے چلنا پھرنا اور آنا جانا کسی غلطی اور دھوکے میں مبتلا نہ کردے یہ بہت تھوڑا سافائدہ ہے جو تھوڑے دنوں کے لئے ہے اور مرنے کے بعد کچھ بھی نہیں پھر ان کا آخری ٹھکانا جہنم ہے اور وہ جہنم بہت ہی بری آرام گاہ ہے لیکن برعس اس کے وہ لوگ جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں ان کے رہنے کیلئے ایسے باغات ہیں جن کے محلات اور سیرگاہ کے نیچے نہریں بہ رہی ہونگی ان باغوں میں وہ ہمیشہ سکونت پذیر ہوں گے یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی مہمانی اور مہمانی کا سامان ہوگا اور جو چیزیں اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں وہ نیک لوگوں کے لئے کفار کے ان چند روزہ دنیوی سازو سامان سے بدرجہا بہتر ہیں اور یقیناً اہل کتاب میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ضرور ہیں جو اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کی کتاب اور اس تعلیم پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو تمہاری طرف بھیجی گئی ہیح اور اس کتاب کے ساتھ بھی اعتقاد رکھتے ہیں جو ان کی طرف بھیجی گئی تھی اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنے میں ان کی حالت یہ ہے کہ وہ اس کے لئے عاجزی کرتے ہیں اور اس سے ڈرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی آیات کے مقابلہ میں دنیا کا کم حقیقت معاوضہ نہیں حاصل کرتے پھرتے اور اللہ کی آیات بےحقیقت قیمت کے عوض فروخت نہیں کیا کرتے ایسے لوگوں کو ان کے رب کے ہاں ان کا اجر ملے گا۔ اور یہی وہ لوگ ہیں جن کی مزدوری اور حق الخدمت ان کے پروردگار کے پاس موجود ہے۔ یقین مانو ! کہ اللہ تعالیٰ بہت جلد حساب کرنے والا ہے اور وہ بہت جلد ہی حساب بےباق کردیا کرتا ہے۔ (تیسیر) لایغرنک میں خطاب نبی کریم ﷺ سے ہے اور مطلب یہ ہے کہ آپ کو اپنی رائے پر ثابت رہنے کا حکم دیا گیا ہے یہ مطلب نہیں کہ معاذ اللہ آپ میں کوئی تزلزل رونما تھا اور اس قسم کا کوئی خیال کرنا حضور انور ﷺ کی عصمت کے بھی منافی نہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ خطاب آپ کو ہے مگر مراد آپ کی امت ہو۔ جیسا کہ عام طور پر حکم سردار اور حاکم کے نام ہو مگر مراد اس کے متبعین اور ماتحت ہوتے ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ خطاب ہر مخاطب کو ہو۔ تقلب کے معنی لوٹ پلٹ۔ چلت پھرت آنا جانا۔ خواہ وہ تجارت کی غرض سے ہو یا نفع کی غرض سے ہو بہرحال شہر بشہر کا ان کا جانا اور دنیوی منافع اور مکاسب کا حاصل کرنا اور سیرو تفریح کے مزے اڑانا یہ باعث رشک نہ ہونا چاہئے اور اس سے کسی مغالطہ میں مبتلا نہ ہو جیسا کہ بعض لوگوں کو خیال ہوجاتا ہے کہ یہ اللہ کے دشن تو دنیا بھر کے مزے لوٹتے پھرتے ہیں اور ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں اور پھر ہر قسم کے مصائب میں مبتلا ہیں تو کافروں کا یہ عیش اور یہ عارضی فائدہ قابل التفات نہ ہونا چاہئے یہ مزے آخرت کے مقابلے میں اول تو کوئی حقیقت نہیں رکھتے پھر یہ لوگ آخرت میں ہر فائدے سے محروم ہیں کیونکہ ان کا آخری ٹھکانا دوزخ ہے۔ مہد کے معنی ہم بتاچکے ہیں کہ مہد اصل میں تو اس جگہ کو کہتے ہیں جو بچہ کے سونے کیلئے بناتے ہیں لیکن عام طور سے فرش ، بچھونا اور رہنے کی جگہ کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے مہاد کا ترجمہ منزل کیا ہے تقلب کو متاع فرمانے میں مسبب کو سبب کے قائم مقام کردیا ہے ورنہ تقلب متاع کا سبب ہے لکن الذین اتقوا کا یا تو یہ مطلب ہے کہ جو لوگ ان میں سے اپنے پروردگار سے ڈریں اور ایمان لے آئیں تو ان کیلئے آخرت میں بھی ثواب ہے۔ اور یا یہ مطلب ہے کہ کسی کو یہ وہم نہ ہو کہ نفس تقلب اور مکاسب و منافع کا مقتضا جہنم اور ثواب آخرت سے محرومی نہیں بلکہ جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے ہیں وہ باوجود تجارت کرنے اور شہر ور شہر جاکر نفع حاصل کرنے کے بھی اجر وثواب کے حقدار ہوں گے۔ مطلب یہ ہے کہ آخرت کا اجر وثواب تو اہل تقویٰ کے لئے ہے اگر وہ تاجر ہوں اور شہر بہ شہر آتے جاتے بھی ہوں تو وہ آخرت سے محروم نہ ہوں گے کیونکہ تجارت کرنا یا سیرو سیاحت کی غرض سے یا تبدیلی آب و ہوا کی غرض سے سفرک رنا یا تفریح کے لئے کہیں آنا جانا اگر تقویٰ کے ساتھ ہو تو موجب جہنم نہیں ہے۔ آخرت کی محرومی کا اصل سبب تو کفر ہے۔ نزلا کے معنی مہمانی یا وہ چیز جو مہمان کے لئے تیار کی جائے۔ بہرحال اہل تقویٰ کا یہ مرتبہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے مہمان ہوں گے اور جن باغات کا ذکر کیا گیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی مہمانی کا سامان ہوگا۔ وما عند اللہ خیرا کا ایک مطلب تو وہی ہے جو ہم نے تیسیر میں عرض کیا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پاس اپنے بندوں کے لئے جو کچھ بھی ہے یعنی جو چیزیں ہم نے ذکر کی ہیں اس کے علاوہ بھی جو کچھ ہے۔ مثلاً قرب، رحمت، کرامت، رویت یہ مذکورہ اور غیر مذکورہ سب چیزیں بہرحال متاع قلیل سے بدرجہا بہتر ہیں۔ آخر میں بعض ان اہل کتاب کا ذکر فرمایا جو مسلمان ہوگئے تھے ان کے اوصاف میں چند باتیں فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان، قرآن اور اسلامی تعلیمات پر ایمان اور توریت و انجیل پر اعتقاد اللہ تعالیٰ کی جناب میں خشوع اور خضوع اور کتمان حق کا ترک یعنی رشوتیں لے کر اور دنیوی عزت و وجاہت کی خاطر جو تحریف و تبدیل کرتے تھے یا حضور ﷺ کی نعت چھپاتے تھے اس سے توبہ۔ ایسے نو مسلموں کے لئے بھی اجر وثواب کا وعدہ فرمایا۔ حساب جلدی لینا کنا یہ ہے۔ جلدی اجرت کے مل جانے کا جو حساب جلدی کرے گا وہ بےباق بھی جلدی کردے گا اور جو حساب کا لیچڑ ہوگا وہ بھگتان کا بھی لیچڑ ہوگا۔ یا جلدی کا مطلب یہ ہے کہ قیامت قریب ہے اور یہ حساب اللہ تعالیٰ قیامت کے دن لے گا۔ ہم تفصیل پہلے عرض کرچکے ہیں اردو میں بھی دونوں محاورے استعمال ہوتے ہیں ایک حساب جلدی لینا یعنی حساب لینے میں تاخیر نہ کرنا اور ایک جلدی لینا یعنی جلدی سے کردینا اور سیکنڈوں میں ختم کردینا۔ ان اللہ سریع الحساب میں دونوں کی گنجائش ہے ہوسکتا ہے کہ لکن الذین اتقوا سے مراد نو مسلم یہودی عبداللہ بن سلام اور ان کے ساتھی ہوں۔ اور ان من اھل الکتاب سے مراد نو مسلم نصرانی نجاشی اور اس کے ساتھی ہوں اور ہوسکتا ہے کہ دونوں آیتوں کا تعلق فقط نو مسلم یہود سے ہو یا فقط نو مسلم نصاریٰ سے ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ لکن سے مراد نو مسلم کافر ہوں اور ان من اھل الکتاب سے نو مسلم یہودو نصاریٰ ہوں۔ شان نزول میں روایات مختلفہ ہیں۔ البتہ وان من اھل الکتاب سے نجاشی کا مراد ہونا یقیناً راجج اور صحیح ہے۔ (واللہ اعلم) چونکہ شروع سورت میں بخران کے نصاریٰ اور وفد نجران کے شہادت کا جواب تھا اس لئے آخر میں نجاشی کے اسلام اور اس کے اج وثواب کا تذکرہ اور اس کے خشوع و خضوع کا ذکر فرمانا مناسبت کے اعتبار سے بعید از قیاس نہیں ہے۔ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ جب نجاشی کا انتقال ہوا تو نبی کریم ﷺ نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ تم اپنے بھائی کے لئے استغفار کرو اس پر بعض لوگوں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ کیا آپ ایک حبشی کے لئے جو حبشہ میں رہتا تھا استغفار کا حکم کرتے ہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی ابن جریر کی روایت میں ہے جب نجاشی مرگیا جس کا نام اصحمہ تھا تو آپ نے اصحاب کو حکم دیا کہ تمہارا بھائی اصحمہ مرگیا ہے پھر آپ نے باہر نکل کر جنازے کی نماز کی طرح نماز پڑھی چار تکبیریں کہیں اس پر منافقوں نے کہا ایک حبشی کے لئے نماز پڑھتے ہیں جو حبشہ میں مرا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ (1) کفار کی خوشحالی اور عیش کو دیکھ کر متاثر نہ ہو اور مخالطہ نہ کھائو یہ چند روزہ نفع سے جو ناقابل التفات ہے کیونکہ یہ تمام منافع آخرت کے مقابلہ میں ہیچ ہیں۔ (2) اس کا یہ مطلب نہ سمجھنا کہ اگر کوئی مسلمان خوشحال ہو اور تجارت سے نفع کماتا ہو تو اس کا سفر بھی موجب حرماں ہے اور اس کا بھی آخری ٹھکانا جہنم ہے نہیں بلکہ مسلمان اس سے مستثنا ہیں۔ (3) تقویٰ سے مراد یہاں بھی ہر مرتبہ کا تقویٰ ہے جو قائلیں توحید و رسالت کو بھی شامل ہے اسی لئے ہم نے ترجمہ مسلمان کیا ہے اور جب معمولی درجہ کا موحد مسلمان مستثنا ہے تو متقی بالاولیٰ مستثنا ہوں گے۔ (4) ایسے خوش حال مسلمانوں کے لئے خواہ وہ نو مسلم ہی ہوں باغ ہیں اور نہریں ہیں اور یہ چیزیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور مہمانی ہیں۔ (5) یہ تمام مذکورہ چیزیں اور ان کے علاوہ اور جو کچھ اللہ تعالیٰ کے ہاں ہے وہ نیک لوگوں کے لئے کافروں کی خوش حالی سے کہیں بہتر ہے۔ (6) اہل کتاب میں خواہ وہ نصرانی ہوں یا یہودی ہوں جو کتب سماویہ پر اعتقاد رکھے گا اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ اعتقاد رکھے گا اور اللہ کے سامنے عاجزی کرے گا اور آیات الٰہی کو کم حقیقت قیمت پر فروخت کرتا نہ پھرے گا اور رشوتیں لے کر احکام الٰہی کو بدلے گا نہیں اور حق بات کو چھپائے گا نہیں تو ایسے نو مسلم لوگوں کے لئے اللہ کے پاس ان کا اجر وثواب موجود ہے اور ان کے ساتھ بھی وہی معاملہ ہوگا جو مسلمانوں کے ساتھ ہوگا۔ (7) اللہ تعالیٰ کے حساب لینے میں تاخیر نہیں ہے اور وہ بہت جلد حساب لے لیتا ہے اس کے حساب کرنے میں دیر نہیں لگتی۔ (8) خاشعین للہ سے معلوم ہوا کہ یہ نومسلم اہل کتاب کا ذکر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کو تو عام طور سے غیر مسلم اہل کتاب بھی مانتے تھے لیکن ان میں خشوع نہ تھا اور اسی بنا پر وہ نبی آخر الزماں اور قرآن کریم کی مخالفت کرتے تھے۔ (واللہ اعلم) اب سورت کے ختم پر تمام معاملات پر جو اہل اسلام کو کفار کی جانب سے پیش آئے تھے اور جن کا ذکر اس سورت میں آتا رہا ہے ان معاملات کے لئے ایک ضابطہ بیان کرتے ہیں اور اسی ضابطہ پر اس سورت کو ختم فرمایا ہے۔ (تسہیل)
Top