Tafheem-ul-Quran (En) - Aal-i-Imraan : 199
وَ اِنَّ مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ لَمَنْ یُّؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكُمْ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِمْ خٰشِعِیْنَ لِلّٰهِ١ۙ لَا یَشْتَرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ ثَمَنًا قَلِیْلًا١ؕ اُولٰٓئِكَ لَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ
اور یقینا اہل کتاب میں کچھ لوگ ہیں جو اللہ پر سچے دل سے ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ تم پر نازل ہوا ہے اور جو کچھ ان پر نازل ہوچکا ہے سب کیلئے ان کے دل میں یقین ہے نیز ان کے دل اللہ کے سامنے جھکے ہوئے ہیں وہ ایسا نہیں کرتے کہ اللہ کی آیتیں دنیا کے مال حقیر کے بدلے فروخت کر ڈالیں تو بلاشبہ ایسے ہی لوگ ہیں جن کے لیے ان کے رب کے ہاں ان کا اجر محفوظ ہے ، یقینا اللہ (مکافات اعمال کے) حساب میں سست رفتار نہیں
اہل کتاب میں وہ لوگ بھی موجود ہیں جو کتاب الٰہی کو مانتے ہیں وہ تورات ہو یا قرآن کریم : 362: اسلام کے ابتدائی عہد ہی میں جب کہ ابھی دعوت حق کی غربت و بےچارگی کا زمانہ تھا نجاشی یعنی ” نیگوشی “ حبش کا مسیحی فرمانبردار بغیر دیکھے ایمان لے آیا۔ واقعہ یوں ہوا کہ مسلمانوں کی جو جماعت ہجرت کر کے مکہ سے حبش چلی گئی تھی نجاشی نے ان سے خواہش کی کہ اپنے پیغمبر کا کلام سناؤ ۔ انہوں نے سورة مریم کی ابتدائی آیات کی تلاوت کی۔ ان آیات کی تلاوت کرنے والے جعفر بن ابی طالب حضرت علی ؓ کے بھائی تھے۔ نجاشی کی آنکھوں سے بےاختیار آنسو بہنے لگے اور وہ بول اٹھا ” اس کلام میں وہی روح بول رہی ہے جو مسیح میں گویا ہوئی تھی۔ “ (صحیح بخاری و مسلم) نجاشی کے علاوہ عرب میں بھی اگرچہ ہجرت کے بعد ہی عیسائیوں کی بڑی تعداد ایمان لے آئی لیکن یہود کے جمود میں جنبش نہ ہوئی وہ برابر مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے رہے یہاں تک کہ حضرت عمر ؓ کے زمانہ خلافت میں خیبر سے بھی جلاوطن کردیے گئے۔ چناچہ قرآن کریم میں دوسری جگہ اس طرح ارشاد ہوا : وَ اِذَا سَمِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَی الرَّسُوْلِ تَرٰٓی اَعْیُنَھُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَقِّ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اٰمَنَّا فَاکْتُبْنَا مَعَ الشّٰھِدِیْنَ وَ مَا لَنَا لَا نُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَ مَا جَآئَ نَا مِنَ الْقِّضُ وَ نَطْمَعُ اَنْ یُّدْخِلَنَا رَبُّنَا مَعَ الْقَوْمِ الصّٰلِحِیْنَ فَاَثَابَھُمُ اللّٰہُ بِمَا قَالُوْا جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا وَ ذٰلِکَ جَزَآئُ الْمُحْسِنِیْنَ (المائدہ : 85 ۔ 83:5) ” اور جب یہ لوگ یعنی عیسائیوں میں سے کچھ وہ کلام سنتے ہیں جو اللہ کے رسول ﷺ پر نازل ہوا ہے تو تم دیکھتے ہو کہ ان کی آنکھیں جوش گریہ سے بہنے لگتی ہیں کیونکہ انہوں نے اس کلام کی سچائی پہچان لی ہے اور وہ بےاختیار بول اٹھتے ہیں : ” اے ہمارے رب ! ہم اس کلام پر ایمان لائے ، پس ہمیں بھی انہی میں لکھ لے جو تیری سچائی کی گواہی دینے والے ہیں۔ “ اور وہ کہتے ہیں کہ ہمیں کیا ہوگیا ہے کہ ہم اللہ پر اور اس کلام پر جو سچائی کے ساتھ ہمارے پاس آیا ہے ایمان نہ لائیں اور اللہ سے اس کی توقع نہ رکھیں کہ وہ ہمیں نیک کردار انسانوں کے گروہ میں داخل کر دے ؟ “ تو دیکھو اللہ نے ان کے اس طرح کہنے کے صلے میں جو انہوں نے بالکل سچی بات کہی تھی جنتیں عطا فرمائیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں وہ ہمیشہ ہمیشہ ان جنتوں میں رہیں گے۔ ایسا ہی بدلہ ہے جو نیک کرداروں کے لیے ٹھہرا دیا گیا ہے۔ “ سورۃ الاعراف کی آیت 159 سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم میں سے بھی کچھ لوگ ایسے تھے جو حق کو حق کہتے تھے یعنی یہود میں سے بھی کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ پر ایمان لائے تھے اگرچہ ان کی تعداد بہت ہی تھوڑی تھی چناچہ مفسرین نے ان کی گنتی کو دس سے آگے یقینا نہیں بڑھایا اور ان میں سے سرفہرست حضرت عبداللہ بن سلام ؓ اور آپ کے چند ایک دوسرے ساتھی بھی تھے جو سچے دل سے ایمان لائے تھے۔ حدیث میں آتا ہے کہ نجاشی کے انتقال کی خبر رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحاب ؓ کو دی اور فرمایا کہ تمہارا بھائی حبش میں انتقال کر گیا ہے اس کے جنازے کی نماز ادا کرو اور کھلے میدان میں جا کر صحابہ ؓ کی صفیں مرتب کر کے آپ ﷺ نے ان کے جنازے کی نماز ادا کی۔ (بخاری و مسلم) ابن مرودیہ میں ہے کہ جب نجاشی فوت ہوئے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اپنے بھائی کے لیے استغفار کرو یعنی نماز جنازہ ادا کرو تو بعض لوگوں نے کہا دیکھئے نبی کریم ﷺ نے ایک نصرانی کے لیے استغفار کرنے کا حکم دیا ہے جو حبشہ میں مرا ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ابن جریر میں ہے کہ ان کی موت کی خبر رسول اللہ ﷺ نے دی کہ تمہارا بھائی اصمہ انتقال کر گیا ہے۔ پھر آپ ﷺ باہر تشریف لائے اور جس طرح جنازے کی نماز پڑھاتے تھے اسی طرح چار تکبیروں سے نماز جنازہ پڑھائی۔ اس پر منافقوں نے اعتراض کیا تھا اور یہ آیت اسی وقت نازل ہوئی۔ ابوداؤد میں ہے کہ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ نجاشی کے انتقال کے بعد ہم یہی سنتے رہے کہ ان کی قبر منور ہوگئی یعنی اللہ نے اس کو بخش دیا۔ بخاری و مسلم میں حضرت ابوموسیٰ (رح) سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تین قسم کے لوگوں کو دوہرا اجر ملتا ہے جن میں سے ایک اہل کتاب کا وہ شخص ہے جو اپنے نبی پر ایمان لایا اور مجھ پر ایمان لایا پھر باقی دو کا بھی ذکر کیا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی آیات کو کسی قیمت پر بھی نہیں بیچتے اور نہ ہی اپنی کتاب کی علمی باتوں کو چھپاتے ہیں۔ ہاں ان میں سے یہ کام ایک رذیل جماعت کا ہے۔ بلکہ یہ اللہ کے نیک بندے تو ایسے ہیں کہ ان باتوں کو خوب کھول کر بیان کرتے اور لوگوں میں پھیلاتے ہیں اور ان کا بدلہ ان کے رب کے ہاں محفوظ ہے جو کبھی ضائع ہونے والا نہیں۔ ایسے اہل کتاب کا اجر بھی یقینا اپنے رب کے ہاں محفوظ ہے : 363: ” نیکی کر اور کنوئیں میں ڈال “ کا محاورہ زبان زد خاص و عام ہے۔ یہ کیوں ہے ؟ اس لیے کہ نیکی اگر نیکی ہے تو اس کو کوئی خطرہ نہیں نہ وہ گلے گی نہ سڑے گی بلکہ ہر حال میں محفوظ رہے گی جب تک کہ نیکی کرنے والا خود اس پر لکیر نہ پھیر دے۔ نیکی کے لیے صرف ایمان شرط ہے گروہ بندی نہیں۔ اس لیے نیکی کا تعلق گروہ بندیوں سے نہیں ایمان باللہ سے ہے۔ اسلام اس بات کا داعی ہے اور اس نے شروع سے لے کر آخر تک کبھی بھی ان گروہ بندیوں کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی کسی کے نیک عمل کو اس لیے ٹھکرا دیا ہے کہ وہ گروہ فلاں گروہ بندی سے ہے اس لیے اس کے نیک عمل کا کوئی نتیجہ نہیں وہ بار بار یہ کہتا ہے کہ جو بھی نیک عمل کرے گا اور اس کا عمل رضائے الٰہی کے لیے ہوگا وہ اپنا اجر یقینا اللہ کے ہاں محفوظ پائے گا اور اس کا اجر کبھی ضائع نہیں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس نے کسی مذہب کے پیرو سے بھی یہ مطالبہ نہیں کیا کہ وہ کوئی نیا دین قبول کرے بلکہ ہر گروہ سے یہی مطالبہ کرتا ہے کہ اپنے اپنے مذہب کی حقیقی تعلیم پر جسے تم نے طرح طرح کی تحریفوں اور اضافوں سے مسخ کردیا ہے سچائی کے ساتھ کاربند ہوجاؤ ۔ وہ کہتا ہے اگر تم نے ایسا کرلیا تو میرا کام پورا ہوگیا کیونکہ جونہی تم اپنے مذہب کی حقیقی تعلیم کی طرف لوٹو گے تمہارے سامنے وہی حقیقت آموجود ہوگی جس کی طرف میں تمہیں بلا رہا ہوں۔ میرا پیام کوئی نیا پیام نہیں بلکہ وہی قدیم اور عالمگیر پیام ہے جو تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) میرے سے پہلے دے چکے ہیں۔ اس طرح اس نے جب کہا یہی کہا کہ تم اپنی آسمانی کتاب کا سبق بھول چکے ہو اس کو یاد کرو۔ چناچہ ارشاد الٰہی ہے : ” اے اہل کتاب ! جب تک تم تورات اور انجیل کی اور ان تمام صحائف کی جو تم پر نازل ہوئے اس حقیقت قائم نہ کرو اسی وقت تک تمہارے پاس دین میں سے کچھ بھی نہیں ہے اور اے پیغمبر اسلام ! تمہارے پروردگار کی طرف سے جو کچھ تم پر نازل ہوعا ہے ان میں سے بہتوں کا کفر و طغیان اس کی وجہ سے اور زیادہ بڑھ جائے گا تو جن لوگوں نے انکار حق کی راہ اختیار کرلی ہے تم ان کی حالت پر بےکار غم مت کھاؤ ۔ جو لوگ تم پر ایمان لائے ہیں ، جو یہودی ہیں ، صابی ہیں ، جو نصاریٰ ہیں جو کوئی بھی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لایا اور اس کے عمل بھی نیک ہوئے تو اس کے لیے نہ تو کسی کا خوف ہے ، نہ کسی طرح کی غمگینی۔ “ (المائدہ : 49 ۔ 68:5) یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے ان راست باز انسانوں کے ایمان و عمل کا پوری فراخ دلی کے ساتھ اعتراف کیا ہے جو نزول قرآن کے وقت مختلف مذاہب میں موجود تھے اور جنہوں نے اپنے اپنے مذہب کی حقیقی روح ضائع نہیں کی تھی۔ ہاں ! وہ کہتا ہے کہ ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے اور غالب تعداد انہی لوگوں کی ہے جنہوں نے دین الٰہی کی اعتقادی اور عملی حقیقت کو یک قلم ضائع کردیا ہے۔ اس جگہ بھی وہ یہی کہہ رہا ہے کہ ” جن لوگوں کے دل اللہ کے سامنے جھکے ہوئے ہیں وہ ایسا نہیں کرتے کہ اللہ کی آیتیں دنیا کے مال حقیر کے بدلے فروخت کر ڈالیں تو بلاشبہ ایسے ہی لوگ ہیں جن کے لیے ان کے رب کے ہاں ان کا اجر محفوظ ہے۔ “ یہ بات یاد رکھو کہ اللہ کا قانون مکافات سست رفتار نہیں :ـ 364: اب فرمایا کہ عمل کا تعلق نیت کے ساتھ ہے ایک آدمی نے نیک عمل کیا اور اس کی نیت میں یہ بات موجود ہے کہ اس کا بدلہ اس کو روز جزاء میں ملے گا اس لیے اس نے جو کیا وہ اللہ کی رضا کے لیے۔ مثلاً ایک آدمی نے پانی کا نل لگوا دیا اس کی نیت یہ ہے کہ اللہ کی مخلوق کا فائدہ ہو اور میرا اجر اللہ کے ہاں محفوظ رہے لیکن اس کے مقابلہ میں ایک دوسرا شخص ہے جس نے اسی طرح پانی کا نل لگوایا لیکن اس کی نیت میں یہ بات ہے کہ لوگوں میں چرچا ہو اور اس طرح میرا نام پکارا جائے اور مدت تک لوگ یاد رکھیں کہ فلاں نے یہ کام کیا تھا۔ اب عمل دونوں کا ایک جیسا ہے لیکن ایک نے ایمان باللہ کے ساتھ یہ عمل کیا ہے اور دوسرے نے لوگوں سے داد تحسین حاصل کرنے کے لیے۔ داد تحسین یقینا دونوں کو ملے گی لیکن پہلے کا اجر عنداللہ محفوظ ہے اور دوسرے کا اجر بڑی تیزی کے ساتھ اللہ نے لوگوں سے داد تحسین دلوا کرچکا دیا یہ اس لیے کہ اس کی خواہش ہی یہی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ کافروں کے اچھے اعمال کو ریت سے تشبیہ دی گئی اور مثال دے کر سمجھایا کہ جس وقت دنیا میں انہوں نے یہ اعمال کیے تھے اس وقت ان کی نیت لوگوں سے داد تحسین حاصل کرنا تھا چناچہ وہ ان کو ملتی رہی اور اتنی ملی کہ وہ پھولے نہ سمائے لیکن موت کے بعد ان کو معلوم ہوا کہ دنیا تو صرف دارالعمل تھا۔ دارالجزاء تو یہ ہے اور اس وقت ان کو ضرورت محسوس ہوئی کہ اب وہی کیے گئے اعمال ہم کو کچھ فائدہ دیں کیونکہ یہاں تو کوئی عمل کیا نہیں جاسکتا اور نہ ہی کسی دوسرے عمل کا کیا ہوا اب ہمارے کام آسکتا ہے۔ اس حالت کو قرآن کریم نے پیاس اور طلب سے تشبیہ دی ہے اور اب جب ان کو پیاس لگے گی تو وہ دوڑیں گے اور دیکھیں گے کہ وہاں پانی موجود ہے یعنی ان کے وہ عمل جو انہوں نے دنیا میں کیے تھے وہ یاد آئیں گے تو اب ان کی خواہش ہوگی کہ کچھ ہمارے کام آئیں لیکن وہ بھاگ کر وہاں پہنچیں گے تو وہاں پانی نام کی کوئی چیز نہیں پائیں گے یعنی ان کے وہ کیے ہوئے اعمال ریت کی طرح بےجان اور مردہ ہوچکے ہوں گے اس وقت ان کو معلوم ہوجائے گا کہ ہمارا حساب تو کب کا بےبابک ہوچکا ہے کیونکہ اللہ نے تو ان کا بدلہ ساتھ ہی ساتھ چکا دیا تھا۔ اس مثال کو قرآن کریم نے اس طرح بیان فرمایا : وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَعْمَالُہُمْ کَسَرَابٍم بِقِیعَۃٍ یَّحْسَبُہُ الظَّمْاٰنُ مَآئً حَتّٰی۔ ٓ اِِذَا جَآئَہ ‘ لَمْ یَجِدْہُ شَیْئًا وَّوَجَدَ اللّٰہَ عِنْدَہٗ فَوَفّٰہُ حِسَابَہٗ وَاللّٰہُ سَرِیعُ الْحِسَابِ (النور : 39:24) ” جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے دشت بےآب میں سراب کہ پیاسا اس کو پانی سمجھے ہوئے تھا مگر جب وہاں پہنچا تو کچھ نہ پایا۔ ہاں ! اللہ کو اس نے وہاں موجود پایا میں نے اس کا حساب پورا پورا چکا دیا اور اللہ کو حساب لیتے دیر نہیں لگتی۔ “ پھر اس مضمون کو دوسری مثال سے بھی سمجھایا گیا ہے اور اس جگہ بھی آیت کے آخر میں اس طرف اشارہ ہے کہ جب اللہ کفار کے اعمال کا پورا پورا حساب چکانے والا ہے تو وہ اپنے نیک لوگوں کے اعمال کو یعنی ان کے اجر کو آخر کیوں ضائع کرے گا ؟ کیونکہ ان کا مطلوب تو اللہ کی رضا تھی ؟ چناچہ ارشاد ہوتا ہے : وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَنُدْخِلُھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَآ اَبَدًا وَعْدَ اللّٰہِ حَقًّا وَ مَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰہِ قِیْلًا (النساء : 122:4) ” اور جو لوگ ایمان لائے وار نیک کام انجام دیے تو ہم انہیں باغوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی وہ ہمیشہ انہی باغوں میں رہیں گے یہ اللہ کا وعدہ ہے اور اللہ کا وعدہ سچا ہی ہوتا ہے اور اللہ سے بڑھ کر بات کہنے میں سچا اور کون ہو سکتا ہے ؟ “
Top