Kashf-ur-Rahman - An-Nisaa : 108
یَّسْتَخْفُوْنَ مِنَ النَّاسِ وَ لَا یَسْتَخْفُوْنَ مِنَ اللّٰهِ وَ هُوَ مَعَهُمْ اِذْ یُبَیِّتُوْنَ مَا لَا یَرْضٰى مِنَ الْقَوْلِ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِمَا یَعْمَلُوْنَ مُحِیْطًا
يَّسْتَخْفُوْنَ : وہ چھپتے (شرماتے) ہیں مِنَ : سے النَّاسِ : لوگ وَلَا : اور نہیں يَسْتَخْفُوْنَ : چھپتے (شرماتے) مِنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَھُوَ : حالانکہ وہ مَعَھُمْ : ان کے ساتھ اِذْ يُبَيِّتُوْنَ : جب راتوں کو مشورہ کرتے ہیں وہ مَا لَا : جو نہیں يَرْضٰى : پسند کرتا مِنَ : سے الْقَوْلِ : بات وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ بِمَا : اسے جو يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے ہیں مُحِيْطًا : احاطہ کیے (گھیرے) ہوئے
ان لوگوں کی یہ حالت ہے کہ یہ عام لوگوں سے پردہ کرتے ہیں مگر خدا سے نہیں شرماتے حالانکہ خدا اس وقت بھی ان کے پاس ہوتا ہے جب یہ لوگ رات کو ایسی باتوں کے مشورے کرتے ہیں جو باتیں خدا کو ناپسند ہیں اور ان کی تمام کارروائیاں اللہ تعالیٰ کے احاطہ علم میں ہیں1
1 اے پیغمبر ﷺ ! ہم نے آپ کی جانب ایک سچی کتاب نازل کی ہے یعنی کتاب حق کے ساتھ نازل ہوئی ہے اور اس کے تمام امور حق اور سچے ہیں تاکہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے جو بتادیا ہے آپ اس کے مطابق اس واقع خاص میں لوگوں کے مابین فیصلہ کریں اور جب آپ کو چور کا اصل حال معلوم ہوگیا تو آپ خیانت کرنے والوں کے طرف دار نہ بنیں اور خائنوں کی طرف داری نہ کریں اور اسید بن عروہ کے کہنے سے جو طبعاً چور کی بےگناہی کی طرف آپ کو میلان ہوگیا تھا وہ آپ کی شان کے مناسب نہ تھا اس لئے آپ سے اس سے اللہ تعالیٰ کی جناب میں استغفار کیجیے بلا شبہ اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت اور نہایت مہربانی کرنے والا ہے اور آپ ان لوگوں کی طرف سے جو اپنے حق میں خو د خیانت کر رہے ہیں اور اپنے آپ کو نقصان پہونچا رہے ہیں بحیثیت ایک فریق کے کوئی جواب دہی نہ کیجیے یعنی چور کی حمایتیوں کی جانب سے بلاشبہ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو دوست نہیں رکھتا اور پسند نہیں فرماتا جو خیانت کرنے والا اور جرائم پیشہ اور گناہگار ہو۔ ان لوگوں کی حالت یہ ہے کہ لوگوں سے تو پردہ کرتے ہیں اور اپنی خیانت کو عام لوگوں سے چھپاتے پھرتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ سے نہیں شرماتے اور اس سے حیا نہیں کرتے حالانکہ اللہ تعالیٰ جس طرح ہر وقت ان کے ساتھ ہوتا ہے اسی طرح اس وقت بھی ان کے ساتھ ہوتا ہے اور ان کی کارروائیوں کو دیکھتا ہے جبکہ یہ لوگ رات کو ایسی باتوں کا مشورہ کرتے ہیں جو باتیں اللہ تعالیٰکی مرضی کے خلاف اور اس کو ناپسند ہوتی ہیں اور یقین جانو ! کہ ان کی تمام کارروائیاں اور ان کے تمام اععمال اللہ تعالیٰ کے احاطہ علم میں ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کے تمام اعمال کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ (تیسیر) حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یہ اول و آخر کئی آیت میں ذکر ہے ایک قصہ کا حضرت کے وقت ایک انصاری کی زرہ آٹے میں دھری گم ہوگئی صبح کو تلاش کی تو آٹے کا خط دیکھا ایک شخص کے گھر تک اس کا نام طعمہ بن ابیرق تھا وہاں جھاڑ ا لیا تو نہ پائی وہ خط آگے دیکھا ایک یہودی کے گھر تک زید نام وہاں پائی اس یہودی نے کہا کہ مجھ کو طعمہ نے سپرد کی طمعہ نے کہا میں بری ہوں چور وہی ہے طعمہ کی قوم نے رات کو مشورت کی ہم حضرت کے پاس سب مل کر گواہی دیں گے کہ طعمہ بری ہے تو حضرت ہماری حمایت کریں گے اور یہودی چور ٹھہرے گا صبح کو یہی کیا اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں حضرت کو خبردار کردیا کہ فی الحقیقت چور یہی تھا طعمہ (موضح القرآن) خصیم جھگڑنے والا خوان بہت خیانت کرنے والااثیم گناہگار یہاں بشیر یا طعمہ مراد ہے یستخفون پردہ کرنا، چھانا، شرمانا، محیط گھیرنے والا احاطہ کرنے والا یہاں احاطہ علمی مراد ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ کتاب جو آپ پر نازل کی ہے یہ مشتمل برحق ہے اس سے آپ کو واقعہ زیر بحث معلوم ہوجائے گا۔ نزول کتاب کا مقصد اور اس موقع پر یہ خاص وحی بھیجنے کا سبب یہ ہے کہ جو بات آپ کو اللہ تعالیٰ نے بتادی ہے آپ اس کے موافق فیصلہ کریں اور وہ یہ ہے کہ بشیر یا طعمہچور ہے اور جو لوگ اس کی حمایت کر رہے ہیں وہ خائن ہیں اور جب آپ کو معلوم ہوگیا تو آپ خائنوں کی طرف داری نہ کریں اور اسید کے یا لوگوں کے کہنے سننے سے جو آپ کی طبیعت کا میلان ہوگیا تھا وہ آپ کی شان کے مناسب نہ تھا اس لئے اس سے استغفار کیجیے اور اللہ تعالیٰ کی جناب میں بخشش طلب کیجیے اور جو لوگ جان بوجھ کر چور کی حمایت کر رہے ہیں وہ اپنے نفس کے ساتھ خیانت کر رہے ہیں اور اپنے آپ کو نقصان پہونچا رہے ہیں تو آپ ایسے خائنوں کی طرف سے ایک فریق بن کر کوئی جواب دہی نہ کیجیے اور کوئی جھگڑا نہ کیجیے کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی خیانت کرنے والے اور گناہگار کو پسند نہیں کرتا تو ایسے ناپسندیدہ اشخاص کی جانب سے آپ کو جواب دہی کرنا اور ان کی حمایت کرنا کس طرح درست ہوسکتا ہے جن بےحیائوں کی حاحلت یہ ہے کہ لوگوں سے تو چوری کے معاملے کو چھپاتے ہیں اور چور کو بےگناہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے پھرت یہیں اور اللہ تعالیٰ سے نہیں شرماتے جو ہر وقت ان کے ساتھ ہے اور اپنے علم کے اعتبار سے ان کی ہر حرکت و سکون سے باخبر ہے ۔ یہاں تک کہ شب کو جو پنچایت کرتے ہیں اور آپس میں جو مشورہ کرتے ہیں کہ کسی طرح طعمہ یا بشر پر چور ی کا الزام نہ لگنے دو اور پنچایت میں ایسی باتیں کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس وقت بھی با اعتبار علم کے ان کے پاس ہوتا ہے یہ بنو ابیرق کے ان مشوروں کی طرف اشارہ ہے جو اہل محلہ نے جمع ہو کر پنچایت میں طے کی تھیں آخر میں اللہ تعالیٰ نے اپنے احاطہ علمی کا اعلان فرمایا کہ ایک اس پنچایت پر کیا موقوف ہے اللہ تعالیٰ کا علم تو ان کے تمام کاموں کا احاطہ کئے ہوئے ہے آگے ان لوگوں کو خطاب ہے جو چور کی حمایت کرنے والے تھے چناچہ ارشاد ہے۔ (تسہیل)
Top