Al-Qurtubi - An-Nisaa : 108
یَّسْتَخْفُوْنَ مِنَ النَّاسِ وَ لَا یَسْتَخْفُوْنَ مِنَ اللّٰهِ وَ هُوَ مَعَهُمْ اِذْ یُبَیِّتُوْنَ مَا لَا یَرْضٰى مِنَ الْقَوْلِ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِمَا یَعْمَلُوْنَ مُحِیْطًا
يَّسْتَخْفُوْنَ : وہ چھپتے (شرماتے) ہیں مِنَ : سے النَّاسِ : لوگ وَلَا : اور نہیں يَسْتَخْفُوْنَ : چھپتے (شرماتے) مِنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَھُوَ : حالانکہ وہ مَعَھُمْ : ان کے ساتھ اِذْ يُبَيِّتُوْنَ : جب راتوں کو مشورہ کرتے ہیں وہ مَا لَا : جو نہیں يَرْضٰى : پسند کرتا مِنَ : سے الْقَوْلِ : بات وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ بِمَا : اسے جو يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے ہیں مُحِيْطًا : احاطہ کیے (گھیرے) ہوئے
یہ لوگوں سے تو چھپتے ہیں اور خدا سے نہیں چھپتے حالانکہ جب وہ راتوں کو ایسی باتوں کو مشورے کیا کرتے ہیں جن کو وہ پسند نہیں کرتا تو ان کے ساتھ ہوا کرتا ہے اور خدا ان کے (تما م) کاموں پر احاطہ کئے ہوئے ہے
آیت نمبر 108 تا 109۔ ضحاک ؓ نے کہا : جب اس نے چوری کی تو اس نے اپنے گھر میں ایک گڑھا کھودا اور زرہ کو پرنالے کے نیچے رکھ دیا تو یہ آیت نازل ہوئی (آیت) ” یستخفون من الناس ولا یستخفون من اللہ “۔ یعنی اللہ تعالیٰ پر زرہ کی جگہ مخفی نہیں ہے۔ (آیت) ” وھو معھم “۔ یعنی وہ ان کو تاڑنے والا اور ان پر نگہبان ہے۔ بعض نے فرمایا (آیت) ” یستخفون من الناس “ کا معنی ہے وہ لوگوں سے چھپتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” ومن ھو مستخف بالیل “۔ (الرعد : 10) یعنی وہ چھپنے والا ہے، بعض نے فرمایا : اس کا معنی ہے وہ لوگوں سے حیا کرتے ہیں یہ اس لیے، کیونکہ حیا کرنا چھپنے کا سبب ہے۔ (آیت) ” وھو معھم “ یعنی علم، رویت، اور سمع کے اعتبار سے وہ ان کے ساتھ ہے، اہل سنت کا قول ہے، جہمیۃ، قدریہ اور معتزلہ نے کہا : اللہ تعالیٰ ہر جگہ ہے، انہوں نے اس آیت سے اور اس کی مثل دوسری آیات سے استدلال کیا ہے، انہوں نے کہا : جب فرمایا (آیت) ” وھو معھم “ تو ثابت ہوا کہ وہ ہر جگہ ہے، کیونکہ اس نے اس کے ساتھ ہونا ثابت کیا ہے، اللہ تعالیٰ ان کے قول سے بلند وبالا ہے، کیونکہ یہ اجسام کی صفت ہے اور اللہ تعالیٰ جسم سے پاک ہے، کیا آپ نے بشر (بن غیاث) کے مناظرہ کو اللہ تعالیٰ کے قول : (آیت) ” مایکون من نجوی ثلثۃ الا ھو رابعھم “۔ (المجادلہ : 7) میں ملاحظہ نہیں کیا جب اس نے کہا : اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے ساتھ ہر جگہ ہے، تو اس کے مقابل نے اسے کہا : وہ تیری ٹوپی میں، تیری پوستین میں اور تیرے گدھے کے پیٹ میں ہے۔ اللہ تعالیٰ بلند وبالا ہے اس سے جو وہ کہتے ہیں، یہ وکیع نے حکایت کیا ہے۔ (آیت) ” یبیتون “ کا معنی یقولون ہے، یہ معنی کلبی نے ابو صالح سے انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے، (آیت) ” مالا یرضی “۔ یعنی اللہ تعالیٰ جس کو اپنے اہل طاعت کے لیے پسند نہیں کرتا، (آیت) ” من القول “۔ رائے اور اعتقاد میں سے، جیسے تیرا قول ہے مذہب امام مالک (رح) و امام شافعی (رح)، بعض نے فرمایا : القول “۔ بمعنی مقول ہے کیونکہ نفس قول کا تو، رات کو مشورہ نہیں کیا جاتا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ھانتم ھؤلآء “ اس سے بشیر چور کی قوم ہے جو اسے بھگا کرلے گئے تھے اور اس کی طرف سے جھگڑے تھے، زجاج نے کہا : (آیت) ” ھؤلآء بمعنی الذین ہے (1) (زاد المسیر فی علم التفسیر جلد 1، صفحہ 115) جدلتھم کا معنی ہے تم جھگڑے۔ (آیت) ” فی الحیوۃ الدنیا، فمن یجادل اللہ عنھم یوم القیمۃ “۔ استفہام ہے اس کا معنی انکار اور توبیخ ہے۔ (آیت) ” ام من یکون علیھم وکیلا “۔ وکیل وہ ہوتا ہے جو امور کی تدبیر کو قائم کرتا ہے اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کی تدبیر کو قائم کرنے والا ہے معنی یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ انہیں اپنے عذاب کے ساتھ گرفت میں لے لے گا اور انہیں دوزخ کی آگ میں داخل کردے گا تو کوئی ان کے معاملہ کو قائم کرنے والا نہ ہوگا۔
Top