Tafseer-e-Usmani - An-Nisaa : 108
یَّسْتَخْفُوْنَ مِنَ النَّاسِ وَ لَا یَسْتَخْفُوْنَ مِنَ اللّٰهِ وَ هُوَ مَعَهُمْ اِذْ یُبَیِّتُوْنَ مَا لَا یَرْضٰى مِنَ الْقَوْلِ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِمَا یَعْمَلُوْنَ مُحِیْطًا
يَّسْتَخْفُوْنَ : وہ چھپتے (شرماتے) ہیں مِنَ : سے النَّاسِ : لوگ وَلَا : اور نہیں يَسْتَخْفُوْنَ : چھپتے (شرماتے) مِنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَھُوَ : حالانکہ وہ مَعَھُمْ : ان کے ساتھ اِذْ يُبَيِّتُوْنَ : جب راتوں کو مشورہ کرتے ہیں وہ مَا لَا : جو نہیں يَرْضٰى : پسند کرتا مِنَ : سے الْقَوْلِ : بات وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ بِمَا : اسے جو يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے ہیں مُحِيْطًا : احاطہ کیے (گھیرے) ہوئے
شرماتے ہیں لوگوں سے اور نہیں شرماتے اللہ سے اور وہ ان کے ساتھ ہے جب کہ مشورہ کرتے ہیں رات کو اس بات کا جس سے اللہ راضی نہیں اور جو کچھ وہ کرتے ہیں سب اللہ کے قابو میں ہے5
5 پہلی آیت میں جب ان لوگوں کی دغا اور برائی صاف بتلا دی گئی تو شاید رسول اللہ ﷺ نے بوجہ غلبہء شفقت جو آپ کو تمام خلق بالخصوص اپنی امت پر تھا حق تعالیٰ سے ان خطاواروں کی معافی چاہیے۔ اس پر ارشاد ہوا کہ ان دغا بازوں کی طرف ہو کر اللہ سے کیوں جھگڑتے ہو ایسے لوگ اللہ کو خوش نہیں آتے۔ یہ تو لوگوں سے چھپ چھپ کر راتوں کو ناجائز مشورہ کرتے ہیں اور اللہ سے نہیں شرماتے جو ہر وقت ان کے ساتھ ہے اور ان کے تمام امور پر حاوی ہے اور اگر آپ نے ان کی معافی نہ بھی مانگی ہو تو آپ کی معافی مانگنے کا احتمال تو بالیقین موجود تھا۔ دیکھئے دوسری جگہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بابت ( يُجَادِلُنَا فِيْ قَوْمِ لُوْطٍ 74؀ۭ اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ لَحَلِيْمٌ اَوَّاهٌ مُّنِيْبٌ 75؀) 11 ۔ ہود :75-74) ارشاد صریح موجود ہے۔ سو اس کی پیش بندی کے لئے حق تعالیٰ نے یہ ارشاد فرما کر ان لوگوں کی سفارش سے آپ کو روک دیا۔ واللہ اعلم۔
Top