Tadabbur-e-Quran - An-Nisaa : 117
اِنْ یَّدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖۤ اِلَّاۤ اِنٰثًا١ۚ وَ اِنْ یَّدْعُوْنَ اِلَّا شَیْطٰنًا مَّرِیْدًاۙ
اِنْ يَّدْعُوْنَ : وہ نہیں پکارتے مِنْ دُوْنِهٖٓ : اس کے سوا اِلَّآ اِنَاثًا : مگر عورتیں وَاِنْ : اور نہیں يَّدْعُوْنَ : پکارتے ہیں اِلَّا : مگر شَيْطٰنًا : شیطان مَّرِيْدًا : سرکش
یہ اس کے سو اپکارتے بھی ہیں تو دیویوں کو اور پکارتے بھی ہیں تو شیطان سرکش کو
117۔ 121:۔ اِنْ يَّدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖٓ اِلَّآ اِنَاثًا ۚ وَاِنْ يَّدْعُوْنَ اِلَّا شَيْطٰنًا مَّرِيْدًا۔ لَّعَنَهُ اللّٰهُ ۘوَقَالَ لَاَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِكَ نَصِيْبًا مَّفْرُوْضًا۔ وَّلَاُضِلَّنَّھُمْ وَلَاُمَنِّيَنَّھُمْ وَلَاٰمُرَنَّھُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ اٰذَانَ الْاَنْعَامِ وَلَاٰمُرَنَّھُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰهِ ۭ وَمَنْ يَّتَّخِذِ الشَّيْطٰنَ وَلِيًّا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِيْنًا۔ يَعِدُھُمْ وَيُمَنِّيْهِمْ ۭ وَمَا يَعِدُھُمُ الشَّيْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا۔ اُولٰۗىِٕكَ مَاْوٰىھُمْ جَهَنَّمُ ۡ وَلَا يَجِدُوْنَ عَنْھَا مَحِيْصًا۔ " ان یدعون " یہاں پکارنے سے مراد وہ پکارنا ہے جو دعا، فریاد، استغاثہ، استعانت، استرحام وغیرہ کے قصد سے اس معنی میں ہو جس معنی میں معبود کو پکارا جاتا ہے۔ " اناث " سے مراد مزعومہ دیویاں ہیں : اناث، انثی کی جمع ہے۔ انثی، لغوی مفہوم میں تو نرم و ناز اور ڈھیلی ڈھالی چیز کے لیے استعمال ہوا ہے لیکن معروف استعامل اس کا عورت کے لیے ہے۔ یہاں چونکہ مشرکین کے دیویوں دیوتاؤں کے ذکر کے سیاق میں ہے اس وجہ سے اس سے مراد دیویاں ہیں۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ مشرکین کی دیومالا میں، ٰخواہ وہ کسی قوم و ملک کے مشرکین ہوں، دیویوں کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل رہی ہے۔ چین، ہندوستان، عرب، مصر اور بابل و نینوا وغیرہ کے مشرکانہ مذاہب کی جو تاریخ موجود ہے اس پر ایک سرسری نظر ڈال کر اس کی تصدیق کی جاسکتی ہے۔ یہ بات بھی خاص طور پر ملحوظ رکھنے کی ہے کہ زندگی کی جو اصل ضرورتین ہیں وہ بیشرت انہیں دیویوں سے متعلق سمجھی جاتی رہی ہیں۔ عرب جاہلیت میں بھی خدائی کے نظام پر بیشتر دیویوں ہی کا قبضہ تھا۔ لات، منات، عزی وغیرہ دیویں ہی کے نام ہیں۔ یہ، جیسا کہ سورة نجم کی تفسیر میں واضح ہوگا، فرشتوں کے بت تھے جن کے متعلق مشرکین کا عقیدہ تھا کہ یہ خدا کی لاڈلی چہیتی بیٹیاں ہیں جن کے بات خدا کبھی نہیں ٹالتا۔ اس وجہ سے ان کے واسطہ سے جو کچھ مانگا جائے اگر یہ راضی ہوں تو وہ مل کے رہتا ہے۔ قرآن میں ان کے اس عقیدہ کا جگہ جگہ حوالہ مثلاً وجعلوا الملئکۃ الذین ھم عباد الرحمن اناثا : اور انہوں نے فرشتوں کو جو خدائے رحمان کے بندے ہیں دیویاں بنا ڈالا ہے)۔ پیچھے جبت و طاغوت کی بحث کی ضمن میں ہم یہ بات بھی واضح کرچکے ہیں کہ اہل کتاب نے بھی، جب مشرک قوموں سے ان کو سابقہ پیش آیا، ان کے بہت سے مشرکانہ طریقے اختیار کرلیے اور انہی کی طرح بہت سے دیوی دیوتا اپنے لیے بنا لیے جس کا ماتم ان کے انبیاء نے کیا ہے اور یہ ماتم خود ان کے صحیفوں میں موجود ہے۔ نصاری حضرت مریم کی نسبت جو عقیدہ رکھتے ہیں وہ بھی معلوم ہے۔ شرک کا امام شیطان ہے : " وان یدعون الا شیطانا مریدا " شیطان کے پکارنے کا ذکر اصل مرشد شرک کی حیثیت سے ہے اس لیے کہ وہی ہے جس نے آدم کو سجدہ کرنے کے معاملے میں خدا کے حکم کی رو در رو نافرمانی کی اور جب خدا نے اس کے اس تمردو سرکشی پر اس کو لعنت کی تو اس نے دھمکی دی کہ میں تیرے بندوں کو مختلف طریقوں سے توحید سے ہٹآ کر شرک میں مبتلا کروں گا۔ اس وجہ سے شرک جہاں کہیں بھی اور جس شکل میں بھی پایا جاتا ہے اس کا امام درحقیقت شیطان ہی ہے اور اس اعتبار سے ہر وہ دعا اور التجا اور ہر وہ عبادت و اطاعت جو کسی غیر اللہ سے یا کسی غیر اللہ کے لیے کی جا رہی ہے وہ بالواسطہ شرک کے اس امام ہی سے اور اسی کے لیے ہوتی ہے۔ " لعنہ اللہ " جملہ معترضۃ کے مفہوم میں : لعنہ اللہ صفت بھی ہوسکتا ہے اس لیے کہ جس وقت شیطان نے اللہ کے بندوں کو شرک میں مبتلا کرنے کی دھمکی دی تھی اسی وقت اللہ تعالیٰ نے، جیسا کہ قرآن میں مذکور ہے، اس پر لعنت بھی کردی تھی اس وجہ سے وہ اس صفت کا دائمی موصوف ہے لیکن میں نے اس کو جملہ معترضہ کے مفہوم میں لیا ہے اور اسی اعتبار سے اس کا ترجمہ کیا ہے۔ اس میں بلاغت کا یہ پہلو ہے کہ گویا جوں ہی اس امام شرک کا نام آیا اللہ تعالیٰ نے عین اس کے عابدوں کے منہ پر اس پر لعنت کردی۔ یہ اظہارِ نفرت کا سب سے زیادہ موثر طریقہ ہے۔ شیطان کی دھمکی بنی آدم کو : وَقَالَ لَاَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِكَ نَصِيْبًا مَّفْرُوْضًا۔ میں شیطان کی اس دھمکی کا حوالہ ہے جو اس نے اس وقت دی تھی جب اس نے آدم کو سجدہ کرنے کے معاملے میں کھلم کھلا خدا کے حکم کی نافرمانی کی اور خدا نے اس کر اندہ درگاہ قرار دیا۔ اس دھمکی کا ذکر قرآن نے متعدد مقامات میں کیا ہے۔ مثلاً " قَالَ فَاهْبِطْ مِنْهَا فَمَا يَكُونُ لَكَ أَنْ تَتَكَبَّرَ فِيهَا فَاخْرُجْ إِنَّكَ مِنَ الصَّاغِرِينَ (13) قَالَ أَنْظِرْنِي إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ (14) قَالَ إِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِينَ (15) قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لأقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ (16) ثُمَّ لآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَنْ شَمَائِلِهِمْ وَلا تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ (17) قَالَ اخْرُجْ مِنْهَا مَذْءُومًا مَدْحُورًا لَمَنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ لأمْلأنَّ جَهَنَّمَ مِنْكُمْ أَجْمَعِينَ (18): خدا نے پوچھا کہ جب میں نے تجھے سجدے کا حکم دی اتو جھے سجدے سے کس چیز نے روکا ؟ شیطان نے جواب دیا کہ میں آدم سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے بنایا ہے۔ خدا نے فرمایا تو یہاں سے اتر، تجھے یہ حق نہیں ہے کہ تو اس میں اپنی بڑائی کا گھمنڈ کرے پس تو یہاں سے نکل، تو خوار ہونے والوں میں سے ہے۔ اس نے کہا مجھے لوگوں کے اٹھائے جانے کے دن تک مہلت دے دے، خدا نے فرمایا تجھے مہلت دی گئی۔ شیطان نے کہا چونکہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے اس وجہ سے میں ان کی گھات میں تیسری سیدھی راہ پر بیٹھوں گا پھر میں ان کے آگے سے، ان کے پیچھے سے، ان کے دہنے سے، ان کے بائیں سے ان پر گھیرے ڈالوں گا اور تو ان میں سے اکثر کو اپنا شکر گزار نہ پائے گا۔ خدا نے فرمایا تو ذلیل و خوار ہو کر یہاں سے دور ہو۔ ان میں جو تیری پیروی کریں گے تو میں تم سب سے جہنم کو بھر دوں گا " (الاعراف) شیطان کے اس مناظرے سے اس کے جوش و سرگرمی کا بھی پورا پورا اظہار ہورہا ہے جو وہ بنی آدم کو گمراہ کرنے کے لیے اپنے اندر رکھتا ہے اور یہ بات بھی ظاہر ہو رہی ہے کہ اس کی تمام مساعی ضلالت کا خاص ہدف توحید کا عقیدہ ہے۔ چناچہ اس نے یہ جو کہا کہ میں تیری سیدھی راہ پر ان کی گھات میں بیٹھوں گا تو یہ سیدھی راہ وہی توحید کی راہ ہے جس کو قرآن نے صراط مستقیم سے تعبیر کیا ہے۔ اور یہ جو اس نے کہا کہ تو ان میں سے اکثر کو اپنا شکر گزار نہ پائے گا۔ تو یہ بھی اس بات کی تعبیر ہے کہ ان کو شرک میں مبتلا کردوں گا اور یہ تیری حمد کے بجائے دوسروں کی حمد کے ترانے گائیں گے۔ امانی باطلہ : وَلَاُمَنِّيَنَّھُمْ (میں ان کو جھوٹی آرزوؤں میں پھنساؤں گا) میں اس طرح کی جھوٹی آرزوؤں کی طرف اشارہ ہے جن میں بالعموم مشرک قومیں مبتلا ہوجاتی ہیں۔ مثلاً عربوں کا یہ عقیدہ کہ ہو جن دیویوں اور دیوتاؤں کو پوجتے ہیں وہ خدا سے ان کے لیے سفارش کرتے ہیں۔ انہی کی سفارش سے ان کو دنیا کی نعمتیں بھی ملتی ہیں اور اگر آخرت کوئی چیز ہے تو انہی کی سفارش سے آخرت میں بھی وہ جنت کے حقدار ٹھہریں گے۔ اسی طرح یہود اس وہم میں مبتلا ہوگئے تھے کہ وہ ابراہیم خلیل اللہ اور خدا کے برگزیدہ بندوں کی اولاد ہیں اس وجہ سے وہ خدا کے بیٹوں اور محبوبوں کی حیثیت رکھتے ہیں اور جنت کے پشتینی حق دار ہیں، ان کے اعمال کچھ ہوں دوزخ کی آگ اول تو ان کو چھوئے گی ہی نہیں اور اگر چھوئے گی تو محض عارضی طور پر۔ ان کی ان باطل آرزوؤں پر ہم بقہ کی آیت 80 اور 111 کے تحت بحث کرچکے ہیں۔ علی ہذا القیاس نصاری کا یہ عقیدہ کہ خدا نے اپنے بیٹے کو ان کے تمام گناہوں کا کفارہ بنا دیا ہے، اب وہ عمل و اطاعت کی تمام ذمہ داریوں سے سبکدوش ہیں۔ مشرکانہ نذریں : فلیبتکن اذان الانعام : بتک کے معنی کاٹنے، چیرنے اور پھارنے کے ہیں۔ مشرک قوموں میں یہ مشترک روایت رہی ہے کہ وہ خاص خاص جانوروں کو ان کے کان چیر کر اپنے فرضی معبودوں کے نام پر بطور نذر چھوڑ دیتی رہی ہیں۔ یہ کان چیرنا اس مقصد کے لیے ہوتا تھا کہ دوسرے ان کو نذر سمجھ کر ان سے تعرض نہ کریں۔ تغییر خلق اللہ کا مفہوم : فلیغیرن خلق اللہ (پس وہ اللہ کی بنائی ہوئی ساخت کو بدلیں گے) اللہ کی بنائی ہوئی ساخت کو بدلنے سے اصلاً مراد اس فطرت اللہ کو بدلنا ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے تمام خلائق کو پیدا کیا ہے۔ مثلاً توحید دین فطرت ہے لیکن شیطان اور اس کے ایجنٹوں نے اس کو شرک سے مسخ کیا۔ سورة روم میں شرک کی تردید کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے " فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَةَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ (30) مُنِيبِينَ إِلَيْهِ وَاتَّقُوهُ وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَلا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ (31): پس تم یکسو ہو کر اپنا رخ دین حنیفی کی طرف کرو۔ یہی اللہ کی بنائی ہوئی فطرت ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا۔ اللہ کی بنائی ہوئی ساخت کو بدلنا جائز نہیں۔ یہی سیدھا فطری دین ہے۔ لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ اسی کی طرف توجہ کرتے ہوئے اور اسی سے ڈرو اور نماز قائم کرو اور مشرکین میں نہ بنو "۔ اس آیت میں توحید کو دین فطرت اور دین قیم سے تعبیر فرمایا ہے اور اس کی دلیل یہ دی ہے کہ اسی پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ پھر فرمایا کہ اللہ کی بنائی ہوئی فطرت اور ساخت کو بدلنا جائز نہیں۔ ہمارے نزدیک زیر بحث ٹکڑے میں بھی یہی مراد ہے۔ ضمناً اس کے تحت وہ ساری چیزیں آجائیں گی جو فطرت اللہ کی تبدیلی کے حکم میں ہیں۔ مثلاً عورتوں کا مرد بننا یا مردوں کا عورت بننا یا عورتوں اور مردوں کو ناقابل اولاد بنانا اور اس قبیل کی دوسری خرافات۔ لفظ امر کے مختلف مفہوم : " ولاٰمرنہم " میں شیطان کے جس امر کا ذکر ہے اس کے متعلق یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ عربی میں امر کا لفظ حکم دینے، مشورہ دینے اور سجھانے، سب معنوں میں آتا ہے۔ شیطان ان تمام طریقوں سے توحید کی راہ مارتا ہے۔ وہ اپنے القائے شیطانی سے دلوں میں وسوسہ بھی ڈالتا ہے اور جنوں اور انسانوں میں سے جو لوگ اس کے ایجنٹ بن جاتے ہیں ان کے واسطے سے مشورے بھی دیتا ہے اور اگر اس کے ایجنٹ زور آور اور بااقتدار ہوتے ہیں تو ان کے ہاتھوں قانون بھی بنواتا ہے اور اس قانون کو نافذ بھی کرواتا ہے۔ اجزا کی تشریح کے بعد اب ان آیات کے نظام اور ان کے مفہوم پر بحیثیت مجموعی بھی ایک نظر ڈال لیجیے۔ اوپر کی آیت میں شرک کے ناقابل مغفرت جرم ہونے کا ذکر ہوا تو لگے ہاتھوں شرک کے بودے پن اور اس کے حسب و نسب کا بھی ذکر فرمادیا تاکہ اس کا مکروہ چہرہ اچھی طرح بےنقاب ہوجائے۔ شرک کا بودا پن اور اس کا حسب و نسب : بودے پن کا ذکر دو پہلوؤں سے فرمایا۔ ایک تو یہ کہ شرک کا یہ سارا کارخانہ دیویوں کے بل بوتے پر قائم ہے، اول تو یہی پرلے سرے کی حماقت ہے کہ خدائے واحد کے سوا کسی اور کا سہارا انسان ڈھونڈے، پھر حماقت در حماقت یہ کہ سہارا بھی فرضی عورتوں کا جن کی بےبسی اور ناتوانی خود ضرب المثل ہے۔ دوسرا یہ کہ اس کی تمام تر بنیاد شیطان کی پیدا کی ہوئی جھوٹی آرزوؤں اور اس کے پرفریب وعدوں پر ہے اور شیطان کے سارے وعدے بالکل بےحقیقت ہیں۔ جب حقیقت کھلے گی تو نظر آئے گا کہ نہ ابراہیم کا حسب و نسب کچھ نافع ہے اور نہ لات و منات اور ان کی شفاعت کا کوئی وجود ہے بلکہ سارا معاملہ ایمان و عمل صالح پر منحصر ہے۔ جن کے پاس یہ متاع نہیں ہے ان کے لیے صرف جہنم ہے جس سے فرار کی کوئی راہ نہیں ہے۔ اس کے حسب و نسب کا بیان اس طرح فرمایا کہ اس کا موجود اور امام ابلیس لعین ہے جس نے جوشِ حسد میں پہلے ہی روز یہ دھمکی دی تھی کہ میں تیرے بندوں میں سے اپنا حصہ بٹا کر رہوں گا، میں ان کو گمراہ کروں گا، ان کو طرح طرح کی جھوٹی آرزوؤں میں مبتلا کروں گا، وہ میرے حکم سے بتوں کو نذرانے پیش کریں گے اور میرے القا سے فطرت اللہ کو مسخ کریں گے۔ فرمایا کہ جو لوگ اس شیطان لعین و متمرد کو اپنا مرجع اور کارساز بنائیں ان سے زیادہ بدبخت اور نامراد کون ہوسکتا ہے۔ فرمایا کہ شیطان ان کو وعدوں کے سبز باغ دکھا رہا ہے اور آرزوؤں کے جال ان کے آگے بچھا رہا ہے حالانکہ شیطان کے سارے وعدے محض فریب ہیں۔ نہ شفاعت ان کے کام آنی ہے نہ بزرگوں سے نسبت۔ ان کا ٹھکانا جہنم ہے جس سے کوئی مفر نہ ہوگا۔
Top