Tafheem-ul-Quran (En) - An-Naml : 16
فَاِنَّ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا ذَنُوْبًا مِّثْلَ ذَنُوْبِ اَصْحٰبِهِمْ فَلَا یَسْتَعْجِلُوْنِ
ان ظالموں کے لئے بھی اسی طرح ایک باری مقرر ہے جس طرح ان کے ہم مشربوں کی باری مقرر تھی لہٰذا یہ مجھ سے عذاب مانگنے میں جلدی نہ کریں۔
(59) پس بلا شبہ ان ظالموں کے لئے بھی ایک باری مقرر ہے جس طرح ان کے ہم مشربوں کی باری مقرر تھی لہٰذا یہ مجھ سے عذاب طلب کرنے میں جلدی نہ کریں۔ یہ عبادت میں شریک کرنے والوں کو دھمکی فرمائی یعنی یہ کفار مکہ جو ظلم اور شرک فی العبادات کا ارتاکاب کررہے ہیں اور اپنی صفائی میں یہ کہتے ہیں کہ اگر غلط کار ہیں تو ہم پر عذاب کیوں نہیں آتا۔ اس کو فرمایا کہ ان کا بھی عذاب میں ایک حصہ ہے جس طرح ان سے پہلے جو ان کے ہم خیال اور مشرک تھے ان کا بھی ایک حصہ اور باری مقرر تھی جب ان کی نائو اور ان کا ڈول بھر گیا تو ان کی باری پوری ہوگئی جب ان کا ڈول اور ان کے پاپ کی نائو بھر جائیگی تو ان کی بھی باری پوری ہوجائے گی عذاب الٰہی ایک پنگھٹ ہے جس کا وقت اور جس کی باری آجاتی ہے اسی کا ڈول بھر دیاجاتا ہے اور اسی پر عذاب خداوندی نازل ہوجاتا ہے ۔ لہٰذا عذاب میں جلدی کرنا بےسود ہے۔ حضرت شاہ صاحب کے ترجمے سے یہ بات خوب سمجھ میں آجائیگی حضرت شاہ صاحب (رح) اس آیت کا ترجمہ یوں کرتے ہیں سو ان گناہگاروں کا بھی ڈول بھرا ہے جیسے ڈول بھران کے ساتھیوں کا اب مجھ سے شتابی نہ کریں مطلب یہ ہے کہ ہر ایک کے ڈول بھرنے کی باری مقرر ہے ان کے ہم خیالوں کی باری آئی تو ان کا ڈول بھر دیا گیا۔ جب ان کی باری آئے گی تو ان کو بھی حصہ مل جائے گا عذاب کی تاخیر کے لئے کیا بہترین تعبیر ہے عرب میں پانی سے بھر کر بڑا ڈول رکھ لیا کرتے تھے اور باری باری سے حصہ رسدی پانی سب کو ان کے وقت پر دیاجاتا تھا کئی طرح شارحین نے مطلب بیان کیا ہے۔ خلاصہ : یہ ہے کہ عذاب میں جلدی کرنا بےکار ہے کام اپنے نمبر پر ہوگا۔
Top