Maarif-ul-Quran - An-Noor : 2
اَلزَّانِیَةُ وَ الزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ١۪ وَّ لَا تَاْخُذْكُمْ بِهِمَا رَاْفَةٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ١ۚ وَ لْیَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَآئِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ
اَلزَّانِيَةُ : بدکار عورت وَالزَّانِيْ : اور بدکار مرد فَاجْلِدُوْا : تو تم کوڑے مارو كُلَّ وَاحِدٍ : ہر ایک کو مِّنْهُمَا : ان دونوں میں سے مِائَةَ جَلْدَةٍ : سو کوڑے وَّلَا تَاْخُذْكُمْ : اور نہ پکڑو (نہ کھاؤ) بِهِمَا : ان پر رَاْفَةٌ : مہربانی (ترس) فِيْ : میں دِيْنِ اللّٰهِ : اللہ کا حکم اِنْ : اگر كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ : تم ایمان رکھتے ہو بِاللّٰهِ : اللہ پر وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ : اور یوم آخرت وَلْيَشْهَدْ : اور چاہیے کہ موجود ہو عَذَابَهُمَا : ان کی سزا طَآئِفَةٌ : ایک جماعت مِّنَ : سے۔ کی الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) مسلمان
بدکاری کرنے والی عورت اور مرد سو مارو ہر ایک کو دونوں میں سے سو سو درے اور نہ آوے تم کو ان پر ترس اللہ کے حکم چلانے میں اگر تم یقین رکھتے ہو اللہ پر اور پچھلے دن پر اور دیکھیں ان کا مارنا کچھ لوگ مسلمان
معارف و مسائل
اس سورت کی پہلی آیت تو بطور تمہید کے ہے جس سے اس کے احکام کا خاص اہتمام بیان کرنا مقصود ہے اور احکام میں سب سے پہلے زنا کی سزا کا ذکر جو مقصود سورت، عفت اور اس کے لئے نگاہوں تک کی حفاظت، بغیر اجازت کسی کے گھر میں جانے اور نظر کرنے کی ممانعت کے احکام آگے آنے والے ہیں زنا کا ارتکاب ان تمام احتیاطوں کو توڑ کر عفت کے خلاف انتہائی حد پر پہنچنا اور احکام الٰہیہ کی کھلی بغاوت ہے۔ اسی لئے اسلام میں انسانی جرائم پر جو سزائیں (حدود) قرآن میں متعین کردی گئی ہیں زنا کی سزا بھی ان تمام جرائم کی سزا سے اشد اور زیادہ ہے زنا خود ایک بہت بڑا جرم ہونے کے علاوہ اپنے ساتھ سینکڑوں جرائم لے کر آتا ہے اور اس کے نتائج پوری انسانیت کی تباہی ہے۔ دنیا میں جتنے قتل و غارت گری کے واقعات پیش آتے ہیں تحقیق کی جائے تو ان میں بیشتر کا سبب کوئی عورت اور اس سے حرام تعلق ہوتا ہے اس لئے شروع سورت میں اس انتہائی جرم و بےحیائی کا قلع قمع کرنے کے لئے اس کی حد شرعی بتلائی گئی ہے۔
زنا ایک جرم عظیم اور بہت سے جرائم کا مجموعہ ہے اس لئے اسلام میں اس کی سزا بھی سب سے بڑی رکھی گئی ہے
قرآن کریم اور احادیث متواترہ نے چار جرائم کی سزا اور اس کا طریقہ خود متعین کردیا ہے کسی قاضی یا امیر کی رائے پر نہیں چھوڑا انہیں متعینہ سزاؤں کو اصطلاح شرع میں حدود کہا جاتا ہے ان کے علاوہ باقی جرائم کی سزا کو اس طرح متعین نہیں کیا گیا بلکہ امیر یا قاضی مجرم کی حالت اور جرم کی حیثیت اور ماحول وغیرہ کے مجموعہ پر نظر کر کے جس قدر سزا دینے کو انسداد جرم کے لئے کافی سمجھے وہ سزا دے سکتا ہے ایسی سزاؤں کو شریعت کی اصطلاح میں تعزیرات کہا جاتا ہے۔ حدود شرعیہ پانچ ہیں۔ چوری، ڈاکہ، کسی پاکدامن عورت پر تہمت رکھنا، شراب پینا اور زنا کرنا۔ ان میں سے ہر جرم اپنی جگہ بڑا سخت اور دنیا کے امن وامان کو برباد کرنے والا اور بہت سی خرابیوں کا مجموعہ ہے لیکن ان سب میں بھی زنا کے عواقب اور نتائج بد جیسے دنیا کے نظام انسانیت کو تباہ و برباد کرنے والے ہیں وہ شاید کسی دوسرے جرم میں نہیں۔
(1) کسی شخص کی بیٹی، بہن، بیوی پر ہاتھ ڈالنا اس کی ہلاکت کا مترادف ہے۔ شریف انسان کو سارا مال و جائداد اور اپنا سب کچھ قربان کردینا اتنا مشکل نہیں جتنا اپنے حرم کی عفت پر ہاتھ ڈالنا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں روزمرہ یہ واقعات پیش آتے رہتے ہیں کہ جن لوگوں کے حرم پر ہاتھ ڈالا گیا ہے وہ اپنی جان کی پروا کئے بغیر زانی کے قتل و فنا کے درپے ہوتے ہیں اور یہ جوش انتقام نسلوں میں چلتا ہے اور خاندانوں کو تباہ کردیتا ہے۔
(2) جس قوم میں زنا عام ہوجائے وہاں کسی کا نسب محفوظ نہیں رہتا۔ ماں بہن بیٹی وغیرہ جن سے نکاح حرام ہے جب یہ رشتے بھی غائب ہوگئے تو اپنی بیٹی اور بہن بھی نکاح میں آسکتی ہے جو زنا سے بھی زیادہ اشد جرم ہے۔
(3) غور کیا جائے تو دنیا میں جہاں کہیں بدامنی اور فتنہ و فساد ہوتا ہے اس کا بیشتر سبب عورت اور اس سے کم مال ہوتا ہے۔ جو قانون عورت اور دولت کی حفاظت صحیح انداز میں کرسکے ان کو ان کے مقررہ حدود سے باہر نہ نکلنے دے وہ ہی قانون امن عالم کا ضامن ہوسکتا ہے۔ یہ جگہ زنا کے تمام مفاسد اور خرابیاں جمع کرنے اور تفصیل سے بیان کرنے کی نہیں۔ انسانی معاشرہ کے لئے اس کی تباہ کاری کے معلوم ہونے کے لئے اتنا بھی کافی ہے اسی لئے اسلام نے زنا کی سزا کو دوسرے سارے جرائم کی سزاؤں سے اشد قرار دیا ہے۔ وہ سزا آیت مذکورہ میں اس طرح بیان کی گئی ہے الزَّانِيَةُ وَالزَّانِيْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ۔ اس میں عورت زانیہ کا ذکر پہلے اور مرد زانی کا بعد میں لایا گیا ہے سزا دونوں کی ایک ہی ہے عام قیاس بیان احکام کا یہ ہے کہ اکثر تو صرف مردوں کو مخاطب کر کے حکم دے دیا جاتا ہے عورتیں بھی اس میں ضمناً شامل ہوتی ہیں ان کا علیحدہ ذکر کرنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی جاتی سارے قرآن میں يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا کے صیغہ مذکر سے جو احکام بیان کئے گئے ہیں عورتیں بھی اس میں بغیر ذکر شامل قرار دی گئی ہیں۔ شاید حکمت اس کی یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو مستور رہنے کا حکم دیا ہے ان کے ذکر کو بھی ذکر رجال کے ضمن میں مستور کر کے بیان کیا گیا ہے اور چونکہ اس طرز سے یہ احتمال تھا کہ کسی کو یہ شبہ ہوجائے کہ یہ سب احکام مردوں ہی کے لئے ہیں عورتیں ان سے سبکدوش ہیں اس لئے خاص خاص آیات میں مستقلاً عورتوں کا ذکر بھی کردیا جاتا ہے وَاَقِمْنَ الصَّلٰوةَ وَاٰتِيْنَ الزَّكٰوةَ اور جہاں مرد و عورت دونوں ہی کا ذکر کرنا ہوتا ہے تو ترتیب طبعی یہ ہوتی ہے کہ مرد کا ذکر مقدم عورت کا بعد میں ہوتا ہے۔ چوری کی سزا میں اسی ضابطہ عرفیہ کے مطابق والسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْٓا اَيْدِيَهُمَا فرمایا ہے جس میں مرد چور کو مقدم اور عورت کو موخر ذکر کیا ہے مگر سزائے زنا میں اول تو عورت کے ذکر کے ضمنی آجانے پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ صراحةً ذکر مناسب سمجھا گیا دوسرے عورت کا ذکر مرد پر مقدم کر کے بیان کیا گیا۔ اس میں بہت سی حکمتیں ہیں اول تو عورت ضعیف الخلقة اور طبعی طور پر قابل رحم سمجھی جاتی ہے اگر اس کا صراحةً ذکر نہ ہوتا تو کسی کو یہ شبہ ہوسکتا تھا کہ شاید عورت اس سزا سے مستثنیٰ ہے۔ اور عورت کا ذکر مقدم اس لئے کیا گیا کہ فعل زنا ایک ایسی بےحیائی ہے جس کا صدور عورت کی طرف سے ہونا انتہائی بیباکی اور بےپروائی سے ہوسکتا ہے کیونکہ قدرت نے اس کے مزاج میں فطری طور پر ایک حیاء اور اپنی عفت کی حفاظت کا جذبہ قویہ ودیعت فرمایا ہے اور اس کی حفاظت کے لئے بڑے سامان جمع فرمائے ہیں۔ اس کی طرف سے اس فعل کا صدور بہ نسبت مرد کے زیادہ اشد ہے بخلاف چور کے کہ مرد کو اللہ تعالیٰ نے کسب اور کمائی کی قوت دی ہے۔ اپنی ضروریات اپنے عمل سے حاصل کرنے کے مواقع اس کے لئے فراہم کئے ہیں نہ یہ کہ ان کو چھوڑ کر چوری کرنے پر اتر آئے، یہ مرد کے لئے بڑا عار اور عیب ہے۔ عورت کے چونکہ یہ حالات نہیں ہیں اگر اس سے چوری کا صدور ہوجائے تو مرد کی نسبت سے اہوں اور کم درجہ ہے۔
فَاجْلِدُوْا لفظ جلد کوڑا مارنے کے معنے میں آتا ہے وہ جلد سے مشتق ہے کیونکہ کوڑا عموماً چمڑے سے بنایا جاتا ہے۔ بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ لفظ جلد سے تعبیر کرنے میں اس طرف اشارہ ہے کہ یہ کوڑوں یا دروں کی ضرب اس حد تک رہنی چاہئے کہ اس کا اثر انسان کی کھال تک رہے گوشت تک نہ پہنچے۔ خود رسول اللہ ﷺ نے کوڑے لگانے کی سزا میں اسی توسط و اعتدال کی تلقین عملاً فرمائی ہے کہ کوڑا نہ بہت سخت ہو جس سے گوشت تک ادھڑ جائے اور نہ بہت نرم ہو کہ اس سے کوئی خاص تکلیف ہی نہ پہنچے۔ اس جگہ اکثر حضرات مفسرین نے یہ روایات حدیث سند اور الفاظ کے ساتھ لکھ دی ہیں۔
سو کوڑوں کی مذکورہ سزا صرف غیر شادی شدہ مرد و عورت کیلئے مخصوص ہے شادی شدہ لوگوں کی سزا سنگساری ہے
یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ زنا کی سزا کے احکام بتدریج آئے ہیں اور خفت سے شدت کی طرف بڑھتے گئے ہیں جیسے شراب کی حرمت میں بھی اسی طرح کی تدریج خود قرآن میں مذکور ہے جس کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے زنا کی سزا کا سب سے پہلا حکم تو وہ تھا جو سورة نساء کی آیات نمبر 16، 15 میں مذکور ہے وہ یہ ہے
وَالّٰتِيْ يَاْتِيْنَ الْفَاحِشَةَ مِنْ نِّسَاۗىِٕكُمْ فَاسْتَشْهِدُوْا عَلَيْهِنَّ اَرْبَعَةً مِّنْكُمْ ۚ فَاِنْ شَهِدُوْا فَاَمْسِكُوْھُنَّ فِي الْبُيُوْتِ حَتّٰى يَتَوَفّٰىھُنَّ الْمَوْتُ اَوْ يَجْعَلَ اللّٰهُ لَھُنَّ سَبِيْلًا، وَالَّذٰنِ يَاْتِيٰنِھَا مِنْكُمْ فَاٰذُوْھُمَ آ فَاِنْ تَابَا وَاَصْلَحَا فَاَعْرِضُوْا عَنْهُمَا ۭاِنَّ اللّٰهَ كَانَ تَوَّابًا رَّحِـيْمًا (سورة نساء)
اور جو کوئی بدکاری کرے تمہاری عورتوں میں سے تو گواہ لاؤ ان پر چار مرد اپنوں میں سے پھر اگر وہ گواہی دیویں تو بند رکھو ان عورتوں کو گھروں میں یہاں تک کہ اٹھا لے ان کو موت یا مقرر کر دے اللہ تعالیٰ ان کے لئے کوئی راہ۔ اور جو مرد کریں تم میں سے وہی بدکاری تو ان کو ایذا دو پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور اپنی اصلاح کرلیں تو ان کا خیال چھوڑ دو۔ بیشک اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔
ان دونوں آیتوں کی مکمل تفسیر اور ضروری بیان سورة نساء میں آ چکا ہے۔ یہاں اس لئے اس کا اعادہ کیا گیا ہے کہ زنا کی سزا کا ابتدائی دور سامنے آجائے۔ ان آیتوں میں ایک تو ثبوت زنا کا خاص طریقہ چار مردوں کی شہادت کے ساتھ ہونا بیان فرمایا ہے۔ دوسرے زنا کی سزا عورت کے لئے گھر میں قید رکھنا اور دونوں کے لئے ایذا پہنچانا مذکور ہے اور ساتھ اس میں یہ بھی بیان کردیا گیا ہے کہ سزائے زنا کا یہ حکم آخری نہیں آئندہ اور کچھ حکم آنے والا ہے اَوْ يَجْعَلَ اللّٰهُ لَھُنَّ سَبِيْلًا کا یہی مفہوم ہے۔
مذکورہ سزا میں عورتوں کو گھر میں قید رکھنا اس وقت کافی قرار دیا گیا اور دونوں کو ایذا دینے کی سزا کافی قرار دی گئی مگر اس ایذا اور تکلیف کی کوئی خاص صورت خاص مقدار اور حد بیان نہیں فرمائی ہے بلکہ الفاظ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ زنا کی ابتدائی سزا صرف تعزیری تھی جس کی مقدار شریعت سے متعین نہیں ہوئی بلکہ قاضی یا امیر کی صوابدید پر موقوف تھی اس لئے ایذا دینے کا مبہم لفظ اختیار فرمایا گیا مگر ساتھ ہی اَوْ يَجْعَلَ اللّٰهُ لَھُنَّ سَبِيْلًا فرما کر اس طرف اشارہ کردیا کہ یہ ہوسکتا ہے کہ آئندہ ان مجرموں کے لئے سزا کا کوئی اور طریقہ جاری کیا جائے۔ جب سورة نور کی آیت مذکورہ نازل ہوئی تو حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا کہ سورة نساء میں جو وعدہ کیا گیا تھا اَوْ يَجْعَلَ اللّٰهُ لَھُنَّ سَبِيْلًا یعنی یہ کہ " یا اللہ تعالیٰ ان کے لئے کوئی اور سبیل بتادے " تو سورة نور کی اس آیت نے وہ سبیل بتلا دی یعنی سو کوڑے مارنے کی سزا عورت مرد دونوں کیلئے متعین فرما دی۔ اس کے ساتھ ہی حضرت ابن عباس نے سو کوڑے مارنے کی سزا کو غیر شادی شدہ مرد و عورت کے لئے مخصوص قرار دے کر فرمایا۔
یعنی الرجم للثیب و الجلد للبکر (صحیح بخاری کتاب التفسیر صفحہ 657)
یعنی وہ سبیل اور سزائے زنا کی تعیین یہ ہے کہ شادی شدہ مرد و عورت سے یہ گناہ سرزد ہو تو ان کو سنگسار کر کے ختم کیا جائے اور غیر شادی شدہ کے سو کوڑے مارنا سزا ہے۔
ظاہر ہے کہ سورة نور کی مذکورہ آیت میں تو بغیر کسی تفصیل کے سزائے زنا سو کوڑے ہونا مذکور ہے۔ اس حکم کا غیر شادی شدہ مرد و عورت کے ساتھ مخصوص ہونا اور شادی شدہ کے لئے رجم یعنی سنگساری کی سزا ہونا ان کو کسی دوسری دلیل حدیث سے معلوم ہوا ہوگا اور وہ حدیث صحیح مسلم، مسند احمد سنن نسائی، ابو داؤد، ترمذی اور ابن ماجہ میں حضرت عبادہ ابن صامت کی روایت سے اس طرح آئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
خذوا عنی خذوا عنی قد جعل اللہ لھن سبیلا البکر بالبکر جلد مائة و تغریب عام و الثیب بالثیب جلد مائة و الرجم۔ (ابن کثیر)
مجھ سے علم حاصل کرلو مجھ سے علم حاصل کرلو کہ اللہ تعالیٰ نے زانی مرد و عورت کے لئے وہ سبیل جس کا وعدہ سورة نساء کی آیت میں ہوا تھا اب سورة نور میں فرما دی ہے وہ یہ ہے کہ غیر شادی شدہ مرد و عورت کے لئے سکوڑے اور سال بھر جلاوطنی اور شادی شدہ مرد و عورت کے لئے سو کوڑے اور سنگساری۔
غیر شادی شدہ مرد و عورت کی سزا سو کوڑے جو آیت نور میں مذکور ہے اس حدیث میں اس کے ساتھ ایک مزید سزا کا ذکر ہے کہ مرد کو سال بھر کے لئے جلاوطن بھی کردیا جائے اس میں فقہاء کا اختلاف ہے کہ یہ سال بھر کی جلاوطنی کی سزا مرد زانی کو سو کوڑوں کی طرح لازمی ہے یا قاضی کی صوابدید پر موقوف ہے کہ وہ ضرورت سمجھے تو سال بھر کے لئے جلا وطن بھی کر دے۔ امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک یہی آخری صورت صحیح ہے یعنی حاکم کی رائے پر موقوف ہے۔ دوسری بات اس حدیث میں یہ ہے کہ شادی شدہ مرد و عورت کے لئے سنگساری سے پہلے سو کوڑوں کی سزا بھی ہے مگر دوسری روایات حدیث اور نبی کریم ﷺ اور اکثر خلفاء راشدین کے تعامل سے ثابت یہ ہے کہ یہ دونوں سزائیں جمع نہیں ہوں گی۔ شادی شدہ پر صرف سزائے سنگساری جاری کی جائے گی۔ اس حدیث میں خاص طور پر یہ بات قابل نظر ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس میں اَوْ يَجْعَلَ اللّٰهُ لَھُنَّ سَبِيْلًا کی تفسیر فرمائی ہے۔ اور تفسیر میں جو بات سورة نور کی آیت میں مذکور ہے یعنی سو کوڑے لگانا۔ اس پر کچھ مزید چیزوں کا اضافہ بھی ہے اول سو کوڑے کی سزا کا غیر شادی شدہ مرد و عورت کے لئے مخصوص ہونا، دوسرے سال بھر کی جلاوطنی کا اضافہ تیسرے شادی شدہ مرد و عورت کے لئے رجم و سنگساری کا حکم۔ ظاہر ہے کہ اس میں سورة نور کی آیت پر جن چیزوں کی زیادتی رسول اللہ ﷺ نے فرمائی وہ بھی وحی الٰہی اور حکم ربانی ہی سے تھی اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى، اور پیغمبر اور ان سے براہ راست سننے والوں کے حق میں وہ وحی جو بصورت قرآن تلاوت کی جاتی ہے اور وہ وحی جس کی تلاوت نہیں ہوتی دونوں برابر ہیں۔ خود رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کے مجمع عام کے سامنے اس پر عمل فرمایا۔ ماعز اور غامدیہ پر سزائے رجم و سنگساری جاری فرمائی۔ جو تمام کتب حدیث میں اسانید صحیحہ کے ساتھ مذکور ہے اور حضرت ابوہریرہ اور زید بن خالد جہنی کی روایت صحیحین میں ہے کہ ایک غیر شادی شدہ مرد نے جو ایک شادی شدہ عورت کا ملازم تھا اس کے ساتھ زنا کیا۔ زانی لڑکے کا باپ اس کو لے کر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ واقعہ اقرار سے ثابت ہوگیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لا قضین بینکم بکتاب اللہ، یعنی میں تم دونوں کے معاملہ کا فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق کروں گا۔ پھر یہ حکم صادر فرمایا کہ زانی لڑکا جو غیر شادی شدہ تھا اس کو سو کوڑے لگائے جاویں اور عورت شادی شدہ تھی اس کو رجم و سنگسار کرنے کے لئے حضرت انیس کو حکم فرمایا انہوں نے خود عورت سے بیان لیا اس نے اعتراف کرلیا تو اس پر بحکم نبی کریم ﷺ رجم و سنگساری کی سزا جاری ہوئی (ابن کثیر)
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے ایک کو سو کوڑے لگانے کی دوسرے کو سنگسار کرنے کی سزا دی اور دونوں سزاؤں کو قضاء بکتاب اللہ فرمایا، حالانکہ آیت سورة نور میں صرف کوڑوں کی سزا کا ذکر ہے، سنگساری کی سزا مذکور نہیں۔ وجہ وہی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو جو اس آیت کی مکمل تفسیر و تشریح اور تفصیلی حکم بذریعہ وحی اللہ تعالیٰ نے بتلا دیا تھا وہ سارا کتاب اللہ ہی کے حکم میں ہے گو اس میں سے بعض حصہ کتاب اللہ میں مذکور اور متلو نہیں۔ صحیح بخاری و مسلم وغیرہ کتب حدیث میں حضرت فاروق اعظم کا خطبہ بروایت ابن عباس مذکور ہے صحیح مسلم کے الفاظ یہ ہیں۔
قال عمر بن خطاب و ھو جالس علی منبر رسول اللہ ﷺ ان اللہ بعث محمدا صلے اللہ علیم وسلم بالحق وانزل علیہ الکتاب فکان مما انزل اللہ علیہ ایة الرجم قرانا ھا وعیناھا وعقلناھا فرجم رسول اللہ ﷺ ورجمنا بعدہ فاخشی ان طال بالناس زمان ان یقول قائل ما نجد الرجم فی کتاب اللہ تعالیٰ فیضلوا بترکہ فریضة انزلھا اللہ وان الرجم فی کتاب اللہ حق علی من زنا اذا احصن من الرجال و النساء اذا قامت البینة او کان الحبل او الاعتراف (مسلم ص 65 ج 2)
حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا جبکہ وہ رسول اللہ ﷺ کے منبر پر تشریف رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا اور آپ پر کتاب نازل فرمائی تو جو کچھ کتاب اللہ میں آپ پر نازل ہوا اس میں آیت رجم بھی ہے جس کو ہم نے پڑھا، یاد کیا اور سمجھا، پھر رسول اللہ ﷺ نے بھی رجم کیا اور ہم نے آپ کے بعد رجم کیا، اب مجھے یہ خطرہ ہے کہ زمانہ گزرنے پر کوئی یوں نہ کہنے لگے کہ ہم رجم کا حکم کتاب اللہ میں نہیں پاتے تو وہ ایک دینی فریضہ چھوڑ دینے سے گمراہ ہوجاویں جو اللہ نے نازل کیا ہے اور سمجھ لو کہ رجم کا حکم کتاب اللہ میں حق ہے اس شخص پر جو مردوں اور عورتوں میں سے محصن ہو یعنی شادی شدہ جبکہ اس کے زنا پر شرعی شہادت قائم ہوجائے یا حمل اور اعتراف پایا جائے۔
یہ روایت صحیح بخاری میں بھی زیادہ تفصیل کے ساتھ مذکور ہے (بخاری 1009 جلد 2) اور نسائی میں اس روایت کے بعض الفاظ یہ ہیں۔
انا لا نجد من الرجم بداً فانہ حد من حدود اللہ الا وان رسول اللہ ﷺ قد رجم و جمنا بعدہ ولو لا ان یقول قائلون ان عمر زاد فی کتاب اللہ ما لیس فیہ تکبت فی ناحیة المصحف و شھد عمر بن الخطاب و عبد الرحمن بن عوف و فلان و فلان ان رسول اللہ ﷺ رجم و رجمنا بعدہ الحدیث (ابن کثیر)
زنا کی سزا میں ہم شرعی حیثیت سے رجم کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ وہ اللہ کی حدود میں سے ایک حد ہے خوب سمجھ لو کہ رسول اللہ ﷺ نے خود رجم کیا اور ہم نے آپ کے بعد بھی رجم کیا۔ اور اگر یہ خطرہ نہ ہوتا کہ کہنے والے کہیں گے کہ عمر نے کتاب اللہ میں اپنی طرف سے کچھ بڑھا دیا ہے تو میں قرآن کے کسی گوشہ میں بھی اس کو لکھ دیتا۔ اور عمر بن خطاب گواہ ہے عبد الرحمن بن عوف گواہ ہیں اور فلاں فلاں صحابہ گواہ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے رجم کیا اور آپ کے بعد ہم نے رجم کیا۔
حضرت فاروق اعظم کے اس خطبہ سے بظاہر یہ ثابت ہوتا ہے کہ حکم رجم کی کوئی مستقل آیت ہے جو سورة نور کی آیت مذکورہ کے علاوہ ہے مگر حضرت فاروق اعظم نے اس آیت کے الفاظ نہیں بتلائے کہ کیا تھے۔ اور نہ یہ فرمایا کہ اگر وہ اس آیت نور کے علاوہ کوئی مستقل آیت ہے تو قرآن میں کیوں نہیں اور کیوں اس کی تلاوت نہیں کی جاتی۔ صرف اتنا فرمایا کہ اگر مجھے یہ خطرہ نہ ہوتا کہ لوگ مجھ پر کتاب اللہ میں زیادتی کا الزام لگائیں گے تو میں اس آیت کو قرآن کے حاشیہ پر لکھ دیتا۔ (کما رواہ النسائی)
اس روایت میں یہ بات قابل غور ہے کہ اگر وہ واقعی قرآن کی کوئی آیت ہے اور دوسری آیات کی طرح اس کی تلاوت واجب ہے تو فاروق اعظم نے لوگوں کی بدگوئی کے خوف سے اس کو کیسے چھوڑ دیا جبکہ ان کی شدت فی امر اللہ معروف و مشہور ہے اور یہ بھی قابل غور ہے کہ خود حضرت فاروق نے یہ نہیں فرمایا کہ میں اس آیت کو قرآن میں داخل کردیتا بلکہ ارشاد یہ فرمایا کہ میں اس کو قرآن کے حاشیہ پر لکھ دیتا۔
یہ سب امور اس کے قرائن ہیں کہ حضرت فاروق اعظم نے سورة نور کی آیت مذکورہ کی جو تفسیر رسول اللہ ﷺ سے سنی جس میں آپ نے سو کوڑے لگانے کے حکم کو غیر شادی شدہ مرد و عورت کے ساتھ مخصوص فرمایا اور شادی شدہ کے لئے رجم کا حکم دیا۔ اس مجموعی تفسیر کو اور پھر اس پر رسول اللہ ﷺ کے تعامل کو کتاب اللہ اور آیت کتاب اللہ کے الفاظ سے تعبیر فرمایا اس معنی میں کہ آپ کی یہ تفسیر و تفصیل بحکم کتاب اللہ ہے وہ کوئی مستقل آیت نہیں۔ ورنہ حضرت فاروق اعظم کو کوئی طاقت اس سے نہ روک سکتی کہ قرآن کی جو آیت رہ گئی ہے اس کو اس کی جگہ لکھ دیں۔ حاشیہ پر لکھنے کا جو ارادہ ظاہر فرمایا وہ بھی اسی کی دلیل ہے کہ درحقیقت وہ کوئی مستقل آیت نہیں بلکہ آیت سورة نور ہی کی تشریح میں کچھ تفصیلات ہیں۔ اور بعض روایات میں جو اس جگہ ایک مستقل آیت کے الفاظ مذکور ہیں وہ اسناد و ثبوت کے اعتبار سے اس درجہ میں نہیں کہ اس کی بنا پر قرآن میں اس کا اضافہ کیا جاسکے۔ حضرات فقہاء نے جو اس کو منسوخ التلاوة غیر منسوخ الحکم کی مثال میں پیش کیا ہے وہ مثال ہی کی حیثیت میں ہے اس سے درحقیقت اس کا آیت قرآن ہونا ثابت نہیں ہوتا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ سورة نور کی آیت مذکورہ میں جو زانیہ اور زانی کی سزا سو کوڑے لگانا مذکور ہیں یہ رسول اللہ ﷺ کی مکمل تشریح و تصریح کی بنا پر غیر شادی شدہ لوگوں کے لئے مخصوص ہے۔ اور شادی شدہ کی سزا رجم ہے۔ یہ تفصیل اگرچہ الفاظ آیت میں مذکور نہیں مگر جس ذات اقدس پر یہ آیت نازل ہوئی خود ان کی طرف سے ناقابل التباس وضاحت کے ساتھ یہ تفصیل مذکور ہے اور صرف زبانی تعلیم و ارشاد ہی نہیں بلکہ متعدد بار اس تفصیل پر عمل بھی صحابہ کرام کے مجمع کے سامنے ثابت ہے اور یہ ثبوت ہم تک تواتر کے ذریعہ پہنچا ہوا ہے۔ اس لئے شادی شدہ مرد و عورت پر سزائے رجم کا حکم درحقیقت کتاب اللہ ہی کا حکم اور اسی کی طرح قطعی اور یقینی ہے۔ اس کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ سزائے رجم کتاب اللہ کا حکم ہے اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ سزائے رجم سنت متواترہ سے قطعی الثبوت ہے جیسا کہ حضرت علی سے یہی الفاظ منقول ہیں کہ رجم کا حکم سنت سے ثابت ہے اور حاصل دونوں کا ایک ہی ہے۔
ایک ضروری تنبیہ
اس مقام پر جہاں جہاں شادی شدہ اور غیر شادی شدہ کے الفاظ احقر نے لکھے ہیں ان الفاظ کو ایک آسان تعبیر کی حیثیت سے لکھا گیا ہے۔ اصلی الفاظ محصن اور غیر محصن، یا ثیب اور بکر کے حدیث میں آئے ہیں۔ اور محصن کی شرعی تعریف اصل میں یہ ہے کہ جس شخص نے نکاح صحیح کے ساتھ اپنی زوجہ سے مباشرت کرلی ہو اور وہ عاقل بھی ہو۔ مراد احکام میں سب جگہ یہی مفہوم ہے تعبیر کی سہولت کے لئے شادی شدہ کا لفظ لکھا جاتا ہے۔
سزائے زنا میں تدریج کے تین درجے
مذکورہ بالا روایات حدیث اور آیات قرآن میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدا زنا کی سزا ہلکی رکھی گئی کہ قاضی یا امیر اپنی صوابدید پر اس جرم کے مرتکب مرد و عورت کو ایذا پہنچائے، اور عورت کو گھر میں مقید رکھا جائے، جیسا کہ سورة نساء میں اس کا حکم آیا ہے۔ دوسرا دور وہ ہے جس کا حکم سورة نور کی اس آیت میں آیا ہے کہ دونوں کو سو سو کوڑے لگائے جاویں۔ تیسرا درجہ وہ ہے جو رسول اللہ ﷺ نے آیت مذکورہ نازل ہونے کے بعد ارشاد فرمایا کہ سو کوڑوں کی سزا پر ان لوگوں کے لئے اکتفا کیا جائے جو شادی شدہ نہ ہوں اور شادی شدہ مرد و عورت اس کے مرتکب ہوں تو ان کی سزا رجم و سنگساری ہے۔
اسلامی قانون میں جس جرم کی سزا سخت ہے اس کے ثبوت کے لئے شرائط بھی سخت رکھی گئی ہیں
جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ زنا کی سزا اسلام میں سب جرائم کی سزاؤں سے زیادہ سخت ہے۔ اس کے ساتھ اسلامی قانون میں اس کے ثبوت کے لئے شرائط بھی بہت سخت رکھی گئی ہیں جن میں ذرا بھی کمی رہے یا شبہ پیدا ہوجائے تو زنا کی انتہائی سزا جس کو حد کہا جاتا ہے وہ معاف ہوجاتی ہے صرف تعزیری سزا بقدر جرم باقی رہ جاتی ہے۔ تمام معاملات میں دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کی شہادت ثبوت کے لئے کافی ہوجاتی ہے مگر حد زنا جاری کرنے کے لئے چار مرد گواہوں کی عینی شہادت جس میں کوئی التباس نہ ہو شرط ضروری ہے جیسا کہ سورة نساء کی آیت میں گزر چکا ہے۔ دوسری احتیاط اور شدت اس شہادت میں یہ ہے کہ اگر شہادت زنا کی کوئی شرط مفقود ہونے کی بنا پر شہادت رد کی گئی تو پھر شہادت دینے والوں کی خیر نہیں۔ ان پر قذف یعنی زنا کی جھوٹی تہمت کا جرم قائم ہو کر حد قذف اسی کوڑے لگائے جانے کی صورت میں جاری کی جاتی ہے۔ اس لئے ذرا سا شبہ ہونے کی صورت میں کوئی شخص اس کی شہادت پر اقدام نہیں کرسکتا۔ البتہ جس صورت میں صریح زنا کا ثبوت نہ ہو مگر شہادت سے دو مرد و عورت کا غیر مشروع حالت میں دیکھنا ثابت ہوجائے تو قاضی ان کے جرم کی حیثیت کے مطابق تعزیری سزا کوڑے لگانے وغیرہ کی جاری کرسکتا ہے سزائے زنا اور اس کی شرائط وغیرہ کے مفصل احکام کتب فقہ میں مذکور ہیں وہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔
کسی مرد یا جانور کے ساتھ فعل قبیح کا حکم
یہ مسئلہ کہ مرد کسی مرد کے ساتھ یا جانور کے ساتھ یہ فعل کرے تو وہ زنا میں داخل ہے یا نہیں اور اس کی سزا بھی سزائے زنا ہے یا کچھ اور، اس کی تفصیل سورة نساء کی تفسیر میں گزر چکی ہے کہ اگرچہ لغت اور اصطلاح میں یہ فعل زنا نہیں کہلاتا اور اسی لئے اس پر حد زنا کا اطلاق نہیں ہوتا مگر اس کی سزا بھی اپنی سختی میں زنا کی سزا سے کم نہیں۔ صحابہ کرام نے ایسے شخص کو زندہ جلا دینے کی سزا دی ہے۔
لَا تَاْخُذْكُمْ بِهِمَا رَاْفَةٌ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ ، سزائے زنا چونکہ بہت سخت ہے اور اس کا احتمال ہے کہ سزا جاری کرنے والوں کو ان پر رحم آجائے سزا کو چھوڑ بیٹھیں یا کم کردیں اس لئے اس کے ساتھ یہ حکم بھی دیا گیا کہ دین کے اس اہم فریضہ کی ادائیگی میں مجرموں پر رحم اور ترس کھانا جائز نہیں۔ رافت و رحمت اور عفو و کرم ہر جگہ محمود ہے مگر مجرموں پر رحم کھانے کا نتیجہ ساری خلق خدا کے ساتھ بےرحمی ہے اس لئے ممنوع و ناجائز ہے۔
وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَاۗىِٕفَةٌ مِّنَ الْمُؤ ْمِنِيْنَ ، یعنی سزائے زنا جاری کرنے کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت کو حاضر رہنا چاہئے۔ اسلام میں سب سزاؤں اور خصوصاً حدود کو منظر عام پر جاری کردینے کا طریقہ رائج ہے تاکہ دیکھنے والوں کو عبرت ہو مگر ایک جماعت کو اس میں حاضر و موجود رہنے کا حکم یہ بھی سزائے زنا کی خصوصیت ہے۔
اسلام میں ابتداء جرائم کی پردہ پوشی کا حکم ہے لیکن جب معاملہ شہادت سے ثابت ہوجائے تو پھر مجرموں کی پوری رسوائی بھی عین حکمت قرار دی گئی ہے
فواحش اور بےحیائی کی روک تھام کیلئے شریعت اسلام نے دور دور تک پہرے بٹھائے ہیں عورتوں پر پردہ لازم کردیا گیا۔ مردوں کو نظر نیچی رکھنے کا حکم دیا گیا۔ زیور کی آواز یا عورت کے گانے کی آواز کو ممنوع قرار دیا گیا کہ وہ بےحیائی کے لئے محرک ہیں۔ اس کے ساتھ ہی جس شخص سے ان معاملات میں کوتاہی دیکھی جائے اس کو خلوت میں تو سمجھانے کا حکم ہے مگر اس کو رسوا کرنے کی اجازت نہیں۔ لیکن جو شخص ان تمام شرعی احتیاطوں کو توڑ کر اس درجہ میں پہنچ گیا کہ اس کا جرم شرعی شہادت سے ثابت ہوگیا تو اب اس کی پردہ پوشی دوسرے لوگوں کی جرأت بڑھانے کا موجب ہو سکتی ہے اس لئے اب تک جتنا اہتمام پردہ پوشی کا شریعت نے کیا تھا اب اتنا ہی اہتمام اس کی تفضیح اور رسوائی کا کیا جاتا ہے اسی لئے زنا کی سزا کو صرف منظر عام پر جاری کرنے پر کفایت نہیں فرمائی بلکہ مسلمانوں کی ایک جماعت کو اس میں حاضر اور شریک رہنے کا حکم دیا گیا۔
Top