Tafseer-e-Mazhari - An-Noor : 2
اَلزَّانِیَةُ وَ الزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ١۪ وَّ لَا تَاْخُذْكُمْ بِهِمَا رَاْفَةٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ١ۚ وَ لْیَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَآئِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ
اَلزَّانِيَةُ : بدکار عورت وَالزَّانِيْ : اور بدکار مرد فَاجْلِدُوْا : تو تم کوڑے مارو كُلَّ وَاحِدٍ : ہر ایک کو مِّنْهُمَا : ان دونوں میں سے مِائَةَ جَلْدَةٍ : سو کوڑے وَّلَا تَاْخُذْكُمْ : اور نہ پکڑو (نہ کھاؤ) بِهِمَا : ان پر رَاْفَةٌ : مہربانی (ترس) فِيْ : میں دِيْنِ اللّٰهِ : اللہ کا حکم اِنْ : اگر كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ : تم ایمان رکھتے ہو بِاللّٰهِ : اللہ پر وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ : اور یوم آخرت وَلْيَشْهَدْ : اور چاہیے کہ موجود ہو عَذَابَهُمَا : ان کی سزا طَآئِفَةٌ : ایک جماعت مِّنَ : سے۔ کی الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) مسلمان
بدکاری کرنے والی عورت اور بدکاری کرنے والا مرد (جب ان کی بدکاری ثابت ہوجائے تو) دونوں میں سے ہر ایک کو سو درے مارو۔ اور اگر تم خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو شرع خدا (کے حکم) میں تمہیں ان پر ہرگز ترس نہ آئے۔ اور چاہیئے کہ ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت بھی موجود ہو
الزانیۃ والزانی فاجلدوا کل واحد منہما زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والے مرد (کا حکم ہم بیان کرتے ہیں) پس تم ان میں سے ہر ایک کو کوڑے مارو۔ فَاجْلِدُوْاحکم زنا کا بیان ہے۔ یعنی جب دونوں کا فعل زنا ثابت ہوجائے تو کوڑے مارو۔ یہ مطلب بر قول سیبویہ بیان کیا گیا ہے۔ مبرد نے کہا الزَّانِی اور الزَّانِیَۃُمیں الف لام موصولہ ہے اور معنی شرط کو متضمن ہے اس لئے فَاجْلَدُوْا میںجزائیہ ہے۔ جو زنا کرنے والی اور زنا کرنے والا ہو تو کوڑے مارو۔ جَلْدٌجلد بدن پر مارنا۔ جَلَدَہٗاس کی جلد پر مارا ‘ جیسے رَأَسَہٗاس کے سر پر مارا۔ بَطنہٗاس کے پیٹ پر مارا۔ فَاجْلِدُوْاکہنے سے اس طرف اشارہ ہے کہ صرف جلد بدن پر مارو۔ ایسا نہ مارو جو کھال کو ادھیڑ کر گوشت تک پہنچ جائے۔ اسی سے فقہاء نے مسئلہ ذیل کا استنباط کیا ہے۔ مسئلہ ایسے درمیانی سائز کے کوڑے سے مارا جائے جس کے سر پر گھنڈی (گانٹھ) نہ ہو اور ضرب بھی درمیانی طور پر ماری جائے۔ ابن ابی شیبہ نے حنظلہ سدوسی کا قول نقل کیا ہے کہ حضرت انس بن مالک فرماتے تھے ‘ حکم دیا جاتا تھا کہ کوڑے کی گھنڈی کاٹ دی جائے ‘ پھر اس کے سروں کو دو پتھروں میں رکھ کر خوب کوٹ دیا جائے پھر مارا جائے۔ حنظلہ کا بیان ہے میں نے دریافت کیا حضرت کس کے زمانہ میں ایسا کیا جاتا تھا فرمایا حضرت عمر ؓ بن خطاب کے عہد و خلافت میں۔ عبدالرزاق نے یحییٰ بن ابی کثیر کی روایت سے بیان کیا کہ ایک شخص نے خدمت گرامی میں حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ مجھ سے ایسے جرم کا ارتکاب ہوگیا جو موجب حد ہے اس لئے مجھ پر حد (شرعی) جاری فرما دیجئے۔ حضور ﷺ نے ایک کوڑا طلب فرمایا حکم کی تعمیل کی گئی ‘ لیکن جو کوڑا پیش کیا گیا وہ سخت بھی تھا اور اس میں (سرے پر) گھنڈی تھی حضور ﷺ نے فرمایا اس سے کم (سخت) لاؤ۔ حسب الحکم ایک اور کوڑا پیش کیا گیا جو شکستہ بھی تھا اور نرم بھی فرمایا اس سے اونچے درجہ کا لاؤ (یعنی اتنا نرم بھی نہ ہو اور پہلے کوڑے کی طرح سخت اور گرہ دار بھی نہ ہو) چناچہ درمیانی حیثیت کا کوڑا لایا گیا ‘ فرمایا یہ ٹھیک ہے۔ پھر آپ ﷺ نے اس کوڑے سے اس شخص کو پٹوایا۔ ابن ابی شیبہ نے زید بن اسلم کی روایت سے بھی یہ حدیث بیان کی ہے اور امام مالک نے موطا میں بھی اس کو ذکر کیا ہے۔ ماءۃ جلدۃ سو ضربیں مارو۔ زنا کی رغبت کا ظہور عموماً عورت کی طرف سے پہلے ہوتا ہے جو اکثر مردوں کے سامنے خود نمائی کرتی ہے اس لئے آیت میں زانیہ کا لفظ زانی کے لفظ سے پہلے ذکر کیا اور چوری کا صدور عام طور پر مردوں سے ہی ہوتا ہے اس لئے آیت سرقہ میں السارق کا ذکر السارقۃ سے پہلے کیا۔ مسئلہ علمائے امت اسلامیہ کا اتفاق ہے کہ اگر زانی اور زانیہ آزاد عاقل بالغ اور کنوارے ہوں تو ہر ایک کے سو کوڑے مارے جائیں اس آیت میں یہی حکم دیا گیا ہے۔ اس سے زیادہ اور کوئی سزا امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک نہیں دی جاسکتی۔ لیکن امام شافعی (رح) اور امام احمد (رح) : کا قول ہے کہ سو کوڑے مار کر ایک سال کے لئے شہر بدر کر کر کے اتنی مسافت پر بھیج دیا جائے جتنی قصر صلوٰۃ کی مسافت ہو (یعنی تین برید یا 40 سے 48 میل تک باختلاف اقوال) اگر راستہ پر امن ہو خطرناک نہ ہو تو تو بغیر محرم کے تنہا زانیہ عورت کو شہر بدر کرنے کے مسئلہ میں امام شافعی (رح) اور امام احمد (رح) کے دو قول ہیں۔ منہاج میں ہے کہ صحیح ترین قول یہی ہے کہ تنہا عورت کو جلا وطن نہ کیا جائے بلکہ شوہر یا کسی محرم کے ساتھ شہر بدر کیا جائے خواہ محرم یا شوہر کو ساتھ جانے کا کچھ معاوضہ ہی دینا پڑے لیکن معاوضہ کہاں سے دیا جائے اس کے متعلق پھر دو قول منقول ہیں ایک قول میں آیا ہے کہ عورت کے مال میں سے دیا جائے دوسرے قول میں ہے کہ بیت المال سے دیا جائے۔ اگر معاوضہ کی پیشکش کے باوجود شوہر یا محرم ساتھ جانے سے انکار کر دے تو ایک قول میں آیا ہے کہ امام (حاکم) اس کو جبراً عورت کے ساتھ بھیجے منہاج میں ہے کہ صحیح ترین قول یہ ہے کہ امام ساتھ جانے کے لئے جبر نہیں کرسکتا۔ امام مالک کے نزدیک زانی کو اجراءِ حد کے بعد شہر بدر کیا جائے گا زانیہ کو شہر بدر نہیں کیا جائے گا۔ امام شافعی (رح) نے مندرجۂ ذیل احادیث سے استدلال کیا ہے۔ حضرت عبادہ بن صامت راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا البکر بالبکر (کنوارہ مرد ‘ کنواری عورت سے زنا کرے تو) جلد مأۃ وتغریب عام (سو کوڑے مارنا اور ایک سال کے لئے شہربدر کرنا) والثیب بالثیب (اور شادی شدہ ‘ شادی شدہ کے ساتھ زنا کرے تو) جلد مِأۃ وَالرَّجْمُ (سو کوڑے مارنے اور سنگسار کردینا) اس حدیث کے شروع میں ہے مجھ سے لے لو مجھ سے لے لو (یعنی مجھ سے یہ حکم سیکھ لو) اللہ نے ان (زانی عورتوں) کے لئے راہ مقرر کردی (یعنی آخری حکم نازل فرما دیا پہلے حکم دیا گیا تھا کہ زانی عورت کو قید رکھو جب تک اللہ ان کے لئے کوئی راہ نہ نکال دے یعنی آخری فیصلہ صادر نہ فرما دے اس آیت میں آخری فیصلہ زانی عورت کے لئے بلکہ زانی مرد کے لئے بھی صادر فرما دیا) سورت النساء کی آیت فَاَمْسِکُوْہُنَّ فِی الْبُیُوْتِ حَتّٰی یَتَوَفَّاہُنَّ الْمَوْتُ اَوْ یَجْعَلَ اللّٰہُ لَہُنَّ سَبِیْلاً کی تفسیر کے ذیل میں حدیث مذکور ہم نے نقل کردی ہے۔ حضرت زید بن خالد کا بیان ہے میں نے خود سنا ناکت خدانی زانی کے متعلق رسول اللہ ﷺ : فرما رہے تھے سو کوڑے مارنا اور ایک سال کی جلا وطنی۔ رواہ البخاری۔ صحیحین میں حضرت بن خالد اور حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ : کی خدمت میں دو شخصوں نے اپنا مقدمہ پیش کیا ایک نے کہا کتاب اللہ کے موافق ہمارے درمیان فیصلہ کر دیجئے اور مجھے کچھ بولنے کی اجازت دیجئے ‘ حضور ﷺ نے فرمایا بیان کرو۔ اس شخص نے کہا میرا بیٹا اس شخص کے پاس مزدور تھا۔ میرے بیٹے نے اس کی بیوی سے زنا کیا ‘ لوگوں نے مجھ سے کہا کہ تیرے بیٹے کو سنگسار کی سزا دی جائے گی میں نے سزا سے بچانے کے لئے بطور معاوضہ اس شخص کو سو بکریاں اور ایک باندی دے دی ‘ پھر علماء سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ تیرے بیٹے کو سو کوڑے مارے جائیں گے اور ایک سال کے لئے شہر بدر کیا جائے گا اور اس عورت کو سنگسار کیا جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے بیان سننے کے بعد فرمایا قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں تم دونوں کا فیصلہ کتاب اللہ کے موافق کروں گا۔ تیری بکریاں اور باندی تو واپس کی جائیں گی اور تیرے بیٹے کو سو کوڑے مارے جائیں گے اور ایک سال کے لئے شہر بدر کیا جائے گا اور (حضرت انس ؓ کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا) انس اٹھ اور میرے پاس اس شخص کی عورت کو لوٹا کرلے آ۔ اگر وہ اقرار کرلے تو اس کو سنگسار کر دے ‘ چناچہ اس عورت نے اقرار کرلیا اور اس کو آپ ﷺ نے سنگسار کرا دیا 1 ؂۔ امام مالک (رح) نے اس کے جواب میں فرمایا کہ البکر بالبکر جلد مأۃ وتغریب عام میں عورتیں داخل نہیں ہیں (بکر کا لفظ عورتوں کو شامل نہیں ہے) لہٰذا عورتوں کو شہر بدر کرنے کا حکم اس حدیث سے نہیں نکلتا۔ مگر امام مالک کا یہ قول قطعاً غلط ہے۔ حدیث کی رفتار عورتوں ہی کے لئے ہے۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث کے شروع میں فرمایا ہے مجھ سے لے لو ‘ مجھ سے لے لو۔ اللہ نے عورتوں کے لئے ایک راہ بنا دی۔ پھر لفظ بکر میں عورتوں کو داخل نہ سمجھنا غلط ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک حدیث میں فرمایا تھا بکر سے اجازت لی جائے (یعنی کنواری بالغ لڑکی کا نکاح اس کی اجازت لے کر کیا جائے) اس کے علاوہ حضرت زید کی حدیث میں مَنْ زَنٰی کا لفظ عام ہے مرد اور عورت دونوں اس میں داخل ہیں ‘ امام مالک کی طرف سے صحیح جواب یہ ہوسکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عورت کو بغیر محرم کے سفر کرنے کی ممانعت فرمائی ہے اور فرمایا ہے عورت بغیر محرم کو ساتھ لئے سفر نہ کرے۔ رواہ الشیخان فی الصحیحین ‘ واحمد ‘ وابو داؤد عن ابن عمر۔ حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے امام احمد نے بھی اور صحیحین میں بخاری و مسلم نے بھی ایسی ہی حدیث نقل کی ہے۔ حاکم نے مستدرک میں اور ابو داؤد نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے اسی طرح بیان کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام مالک (رح) نے شہر بدر کرنے کا حکم صرف مردوں کے لئے خاص قرار دیا ہے اور عورتوں کے لئے شہر بدر کرنے کی اجازت نہیں دی اور امام شافعی (رح) نے محرم کے ہمراہ ہونے کی شرط لگائی ہے۔ طحاوی نے لکھا ہے کہ جب عورتوں کے لئے تنہا سفر کرنے کی وجہ سے شہر بدر کرنے کا حکم ان کے لئے باقی نہیں رہا تو مردوں کو شہر بدر کرنے کی نفی بھی اس سے نکل آئی (کیونکہ مَنْ ز نیٰ کا لفظ جب از روئے حدیث مخصوص البعض ہوگیا تو مزید تخصیص قیاس سے کی جاسکتی ہے جو عام مخصوص البعض نہ ہو اس کی تخصیص قیاس سے نہیں کی جاسکتی۔ مترجم) ۔ طحاوی نے لکھا ہے کہ حد زنا میں تغریب (جلاوطنی) داخل نہیں اس کا ثبوت حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث سے ہوتا ہے ‘ حضرت ابوہریرہ ؓ : کا بیان ہے میں نے خود سنا کہ رسول اللہ ﷺ : فرما رہے تھے اگر تم میں سے کسی کی باندی زنا کرے اور فعل زنا ثابت ہوجائے تو اس کو کوڑے لگائے جائیں اور ڈانٹ ڈپٹ یا زجر و توبیخ نہ کرے (حدیث میں لا یثرب علیہا آیا ہے جس کا ترجمہ ایک تو یہی ہے جو ہم نے کردیا ‘ دوسرا ترجمہ مرادی یہ ہے کہ صرف زجر و توبیخ پر اکتفا نہ کرے بلکہ حد زنا جاری کرے) اگر وہ پھر (دوبارہ زنا کرے تو اس کو کوڑے لگائے جائیں تثریب نہ کرے تیسری مرتبہ اگر پھر زنا کرے اور اس کا زنا ثابت ہوجائے تو اس کو فروخت کر دے خواہ بالوں کی ایک رسی ہی کے عوض فروخت کرنا پڑے۔ متفق علیہ۔ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے (تیسری بار زنا کرنے پر) باندی کو فروخت کردینے کا حکم دیا اور ظاہر ہے کہ اگر حد زنا جاری کرنے کے لئے جلا وطن کرنا ضروری قرار دیا جائے گا تو باندی بائع کے قبضہ میں نہیں رہے گی اور وہ خریدار کو باندی پر قبضہ نہ دے سکے گا اور یہ ناممکن ہے کہ رسول اللہ ﷺ بائع کو ایسی چیز کو فروخت کردینے کا حکم دیتے جس پر خریدار کا قبضہ ممکن نہیں ‘ اس حدیث سے زانیہ باندی کو شہر بدر کرنے کی سزا نہ دینے کا حکم نکل رہا ہے اور جب باندیوں کو شہر بدر کرنا جائز نہیں تو آزاد عورتیں جن سے زنا کا صدور ہوگیا بدرجۂ اولیٰ جلا وطن نہ کئے جانے کی مستحق ہیں کیونکہ اللہ نے باندیوں کی سزا آزاد عورتوں سے آدھی رکھی ہے فرمایا ہے عَلَیْہِنَّ نِصْفُ مَا عَلَی الْمُحْصَنَاتِ مِنَ الْعَذَابِ ۔ اور جب آزاد عورتوں کے لئے تغریب کا حکم نہیں تو آزاد مردوں کے لئے بھی نہیں ہوسکتا (کیونکہ زنا کی جو سزا آزاد عورت کے لئے مقرر ہے وہی آزاد مرد کے لئے مقرر ہے۔ مرد کو زنا کی سزا زائد نہیں دی جاسکتی) لیکن طحاوی کی یہ دلیل صحیح نہیں کیونکہ عام عورتوں یا باندیوں کے لئے تغریب نہ ہونے کا حکم تو احادیث میں تعارض کی وجہ سے ہے اور مردوں کیلئے (تنہا سفر کرنے کی ممانعت نہیں اس لئے مردوں کے لئے اگر تغریب کا حکم ہو تو) کوئی تعارض نہیں۔ بعض احناف نے کہا حدیث تغریب پر عمل کرنا جائز نہیں کیونکہ یہ کتاب اللہ پر زیادتی ہے اور کتاب اللہ پر زیادتی کا معنی یہ ہوگا کہ حکم قرآنی کو حدیث نے منسوخ کردیا اور خبر آحاد سے آیت قرآنی کا نسخ جائز نہیں۔ احناف کی یہ دلیل قابل قبول نہیں۔ حکم نسخ میں جس زیادتی کو مانا جاتا ہے وہ ہر زیادتی نہیں بلکہ مامور بہٖ میں کسی رکن یا شرط یا وصف کی زیادتی کو حکم نسخ میں جائز قرار دیا جاتا ہے تاکہ جائز کو ناجائز قرار دینا نہ پڑے مثلاً نماز کے ارکان میں سورت فاتحہ کی تعیین یا کفارہ میں بردہ آزاد کرنے کے لئے اس کے مؤمن ہونے کی شرط یا قضا روزہ رکھنے میں پے در پے مسلسل روزے رکھنے کی شرط یا طواف میں طہارت کی ضرورت یہ تمام زیادتیاں کتاب اللہ پر زیادتیاں شمار کی جائیں گی جن کا کوئی جواز نہیں ان سے حکم کتاب کا نسخ لازم آئے گا۔ لیکن کتاب اللہ پر ہر زیادتی ممنوع نہیں ہے ورنہ اکثر احادیث باطل قرار پاجائیں جن کا کوئی جواز نہیں ان سے حکم کتاب کا فسخ لازم آئے گا لیکن کتاب اللہ پر ہر زیادتی ممنوع نہیں ہے ورنہ اکثر احادیث باطل قرار پاجائیں گی دیکھو عدت وفات قرآن سے ثابت ہے لیکن عدت میں سوگ کرنے کا ثبوت قرآن سے نہیں ‘ حدیث سے ہے مگر سوگ عدت کی شرط لازم نہیں اگر کوئی عورت چار ماہ دس روز عدت کے پورے کرلے اور اس مدت میں سوگ نہ کرے تو عدت پوری ہوجائے گی مگر ترک واجب کی وجہ سے گناہگار ہوجائے گی۔ بغیر سوگ کے عدت گزارنے کے بعد اس کے لئے جدید نکاح درست ہوجائے گا۔ اسی طرح امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک سورة فاتحہ کی نماز میں تعیین اور کسی سورت کا اس کے ساتھ ملانا بھی واجب ہے رکن صلوٰۃ نہیں ہے۔ پس اگر حدیث کی روشنی میں کوڑے مارنے کی سزا کے ساتھ ایک سالہ جلاوطن کا بھی اضافہ کردیا جائے تو اس سے جائز ناجائز نہیں ہوجائے گا۔ اصحاب شافعی (رح) کہتے ہیں کہ تغریب اور عدم تغریب دونوں کی طرف سے آیت خاموش ہے آیت میں ایسی کوئی تعیین نہیں کہ اگر اس کے خلاف کیا جائے تو آیت کا منسوخ ہونا لازم آجائے پس حدیث کی رو سے تغریب کا اضافہ نسخ آیت کا موجب نہیں۔ محققین احناف کہتے ہیں کہ جس حکم کا سورت نساء میں وعدہ کیا گیا ہے فاجْلِدُوْا میں اس کا بیان ہے پس اس آیت میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ تکمیل حکم کا درجہ رکھتا ہے اس آیت میں بر قول سیبویہ حکم موعود کا پورا پورا بیان کردیا گیا اگر اس کو پورا بیان نہ قرار دیا جائے گا تو اس سے جہل مرکب میں مبتلا کرنا لازم آئے گا کیونکہ آیت سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ کامل بیان ہے اور واقع میں پورا بیان ہوگا نہیں تو پڑھنے والے جہل مرکب میں مبتلا ہوجائیں گے ‘ ایسے بیان سے تو ترک بیان اولیٰ ہے۔ لیکن اگر مبرد کے قول کے مطابق فاجلدوا کو شرط کی جزا کہا جائے گا تو مطلب یہ ہوگا کہ سو کوڑے مارنے کا حکم تو واقعی موجود ہے اب اگر تغریب کو بھی سزائے تازیانہ کے ساتھ ثابت مانا جائے گا تو یہ اصل حکم کے معارض اور زیادتی مممنوعہ ہوگی مسکوت عنہ کا اثبات نہ ہوگا۔ ایک شبہ یہ کیا جاسکتا ہے کہ حدیث مشہور ہے ساری امت نے اس کو حدیث مانا ہے اور ایسی مشہور حدیث سے کتاب اللہ پر زیادتی جائز ہے۔ اس کے جواب میں کہا جاسکتا ہے کہ امت اسلامیہ نے بیشک اس حدیث کی سند کو صحیح مانا ہے اور حدیث صحیح ہے لیکن صحت سند کو ماننے سے حدیث احاد کی فہرست سے باہر نہیں ہوجاتی اور اگر صحیح ماننے کا یہ مطلب ہے کہ سب امت نے اس کے موافق عمل کرنے پر اتفاق اور اجماع کرلیا ہے تو یہ غلط ہے (امت اسلامیہ میں بکثرت اشخاص اور گروہ اس کی ضرورت نہیں مانتے) ۔ ایک شبہ آیت متواتر قطعی ہے لیکن آیت کا مراوی معنی کیا ہے یہ ظنی ہے۔ کیونکہ باجماع علمائے امت آیت میں عموم مخصوص البعض ہے سو کوڑے مارنے کا حکم (اگرچہ آیت میں ہر زانی کے لئے ہے لیکن یہ حکم) آزاد مردوں اور آزاد عورتوں پر جاری ہوگا اور اکثر امت کے نزدیک زانی اور زانیہ کا ناکت خدا ہونا بھی ضروری ہے۔ پھر صرف کوڑے مارنے پر اکتفا کیا جائے یا اس کے ساتھ شہر بدر بھی کیا جائے یہ بات بجائے خود ظنی ہے اس کا استنباط رائے سے کیا گیا ہے ‘ حد یہ ہے کہ اکثر فقہاء اور لغت عربی کے عالم اس استنباط کے قائل بھی نہیں ہیں اس سے معلوم ہوا کہ آیت قطعی السند اور ظنی الدلالت ہے اور حدیث مذکور احادیث میں سے ہے ظنی السند ہے مگر قطعی الدلالت ہے (معنئ مراد کی تعیین میں کوئی شک نہیں استنباط بالرائے نہیں کیا گیا الفاظ کے جو معین معنیٰ ہیں وہی مراد ہیں) پس جب حدیث آحاد حکم کتاب کی ناسخ ہوسکتی ہے تو بدرجۂ اولیٰ اس سے کتاب پر زیادتی جائز ہوسکتی ہے (زیادتی میں تو اصل حکم باقی ہے اور نسخ میں اصل حکم ہی ختم ہوجاتا ہے) ۔ ازالہ اگر مساوات کو تسلیم بھی کرلیا جائے تب بھی اتنا ماننا پڑے گا کہ زانی مردوں اور عورتوں کے حق میں حدیث کا حکم اوّل ترین حکم ہے کیونکہ حضرت عبادہ والی حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مجھ سے لو مجھ سے (سن) لو اللہ نے ان (زانی عورتوں) کے لئے راہ نکال دی ناکت خداء ناکت خداء کے ساتھ سو کوڑے مارنا اور ایک سال کے لئے شہر بدر کرنا اور شایدی شدہ شادی شدہ کے ساتھ سو کوڑے مارنا اور سنگسار کردینا۔ اب (مساوات کی صورت میں) آیت کا حدیث سے تعارض ہوگا اور آیت و حدیث کے تعارض کے وقت آیت ناسخ ہوگی۔ منسوخ نہیں ہوگی اور امام شافعی کا یہ قول ہے کہ شادی شدہ کے حق میں کوڑے مارنے کا حکم منسوخ ہے (شادی شدہ زانی کو صرف سنگسار کیا جائے) تو پھر ناکت خدا کے لئے تغریب کا حکم (جو حدیث میں مذکور ہے) اگر منسوخ قرار دے دیا جائے تو کیا خرابی ہے اور ناسخ بھی یہی آیت ہوگی (کوئی قیاس ناسخ نہیں ہوگا) ۔ ابن ہمام نے لکھا ہے کہ کوئی حدیث ایسی نہیں کہ جس سے تغریب واجب کا وجوب اس طرح ثابت ہوتا ہو کہ ہم اس کو بطریق حد (زنا) واجب قرار دے سکیں۔ زائد سے زائد البکر بالبکر جلد مأتہ وتغریب عام کے الفاظ آئے ہیں اور اس میں ایک واجب (یعنی تغریب) کا عطف دوسرے واجب (یعنی جلد مأتہ) پر ہے اور اس عطف سے وجوب تغریب بطور حد ثابت نہیں ہوتا بلکہ بخاری کی روایت میں تو صراحتاً حضرت ابوہریرہ ؓ کے یہ الفاظ آئے ہیں کہ ناکت خدا زانی کے لئے رسول اللہ نے شہر بدر کرنے اور حد کو قائم کرنے (یعنی سو کوڑے مارنے) کا فیصلہ کیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کے الفاظ سے ثابت ہو رہا ہے کہ شہر بدر کرنے کا حکم بطور حد زنا نہ تھا ‘ حد زنا صرف کوڑے مارنا تھا اب زنا کی سزا کے دو ٹکڑے مانے جائیں (سزائے تازیانہ اور جلا وطنی) اور ایک جز کا دوسرے جز پر عطف مانا جائے تو یہ تاویل (حضرت ابوہریرہ ؓ کے قول کی روشنی میں) انتہائی رکیک ہوگی ‘ کسی دلیل سے اس کو ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ ہاں اقامتِ حد (یعنی سزائے تازیانہ کے بعد) اگر حاکم وقت کی مصلحت عامہ کا تقاضا ہوا اور وہ شہر بدر بھی کر دے تو اس کو ناجائز نہیں کہا جاسکتا۔ فائدہ علمائے شافعیہ نے حدیث تغریب کی ترجیح کے لئے ایک عقلی توجیہ یہ بھی کی ہے کہ جلا وطن کردینے سے زنا کا دروازہ ہی بند ہوجاتا ہے ‘ پھر اس شخص کو زنا کے مواقع ہی حاصل نہیں ہوتے سب چہرے اجنبی ہوتے ہیں۔ علمائے احناف نے کہا اس سے تو فتنہ کا دروازہ اور کھل جانے کا خطرہ ہے ‘ زناہ کرنے والی عورت جب اپنے کنبہ قبیلہ سے کٹ جائے گی تو اس کو جھجک بھی نہیں رہے گی اگر نفسانی جذبات اس کے قوی ہوئے تو بلا خوف و خطر وہ مزید زنا میں مبتلا ہوجائے گی اور نفسانی جذبہ میں اگر ہیجان نہ بھی ہو تب بھی اس کو بعض اوقات گزر بسر کے لئے روپے کی ضرورت ہوگی اور اس مجبوری سے ممکن ہے وہ زنا میں پڑجائے اس کی تائید عبدالرزاق اور محمد بن حسن شیبانی کی کتاب الآثار والی روایت سے بھی ہوتی ہے۔ دونوں بزرگوں نے لکھا ہے کہ امام ابوحنیفہ (رح) نے بروایت حماد بوساطت ابراہیم نخعی بیان کیا کہ حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا ناکت خدا اگر ناکت خدا سے زنا کرے تو دونوں کے سو کوڑے مارے جائیں اور ایک سال کے لئے شہر بدر کردیا جائے حضرت علی ؓ نے فرمایا شہر بدر کردینے سے تو بڑا فتنہ پیدا ہوگا۔ عبدالرزاق نے زہری کی روایت سے سعید بن مسیب کا بیان نقل کیا ہے کہ حضرت عمر نے شراب خواری کی سزا میں ربیعہ بن امیہ کو جلا وطن کر کے خیبر بھیج دیا ربیعہ ہرقل سے جا کر مل گیا اور عیسائی ہوگیا حضرت عمر ؓ : کو جب یہ اطلاع ملی تو فرمایا آئندہ میں کسی مسلمان کو جلا وطنی کی سزا نہیں دوں گا۔ مسئلہ اگر حاکم وقت مصلحت سمجھے کہ سزاء تازیانہ کے ساتھ شہر بدر بھی کرسکتا ہے بمصلحت حاکم شہر بدر کرنا جائز ہے رسول اللہ ﷺ کی حدیث تغریب اور حضرت ابوبکر ؓ و حضرت عمر ؓ و حضرت عثمان ؓ کے فیصلے جو روایت میں آتے ہیں ان سب کا مطلب یہی ہے (کہ حاکم کا یہ اختیار تمیزی ہے اگر وہ چاہے تو جلا وطن بھی کر دے) نسائی ترمذی اور حاکم نے بیان کیا اور حاکم نے بر شرط شیخین اس کی تصحیح بھی کی ہے اور دارقطنی کا بیان بھی یہی ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کوڑے (بھی) لگوائے اور شہر بدر (بھی) کیا اور حضرت ابوبکر ؓ نے کوڑے لگوائے اور شہر بدر کیا اور حضرت عمر نے پٹوایا اور شہر بدر کیا۔ ابن قطان نے اس روایت کو صحیح کہا اور دارقطنی نے اس روایت کے موقوف ہونے کو ترجیح دی ہے۔ ابن ابی شیبہ نے مجہول سند کے ساتھ بیان کیا کہ حضرت عثمان نے ایک عورت کو زنا کی سزا میں کوڑے لگوائے اور خیبر کی طرف شہر بدر کر کے بھیج دیا۔ شہر بدر کرنے کا جواز صرف زنا کی صورت میں ہی نہیں ہے بلکہ حاکم اگر مصلحت سمجھے تو ہر مفسد کو جلا وطن کرسکتا ہے۔ طحاوی نے حضرت عمرو بن شعیب کی روایت سے بیان کیا ہے کہ ایک شخص نے اپنے غلام کو قتل کردیا رسول اللہ ﷺ نے اس کے سو کوڑے لگوائے پھر اس کو ایک سال کے لئے شہر بدر کردیا اور (اس کا حصہ) مسلمانوں کی فہرست سے خارج کردیا اور ایک بردہ آزاد کرنے کا اس کو حکم دیا۔ سعید بن منصور راوی ہیں کہ ایک شخص نے رمضان میں شراب پی تھی حضرت عمر نے اس کے دو سو کوڑے لگوائے اور جلا وطن کر کے شام کی طرف بھیج دیا۔ بخاری نے اس روایت کے ایک حصہ کو بطور تعلیق بیان کیا ہے۔ بغوی نے الجعدیات میں اتنا زائد بیان کیا ہے کہ حضرت عمر جب کسی شخص پر غضبناک ہوتے تھے تو اس کو شام کی طرف بھیج دیتے تھے بیہقی کی روایت میں آیا ہے کہ بصرہ کی طرف جلا وطن کر کے بھیج دیتے تھے۔ عبدالرزاق نے بوساطت معمر از ایوب از نافع بیان کیا کہ حضرت عمر نے فدک کی طرف (ایک شخص کو) شہر بدر کر کے بھیج دیا۔ مشائخ کرام اسی لئے اگر کسی مرید کے اندر غلبۂ نفسانیت محسوس کرتے تو اس کو (کچھ مدت کے لئے) ترک وطن کا حکم دے دیتے تھے تاکہ اس کی نفسانیت کا غلبہ ٹوٹ جائے اور دل میں نرمی آجائے۔ میں کہتا ہوں اگر کسی مسلمان کو کوئی حاکم مبتلائے معصیت دیکھے اور اس مسلمان کو اپنے کئے پر ندامت بھی ہو اور وہ اپنے قصور پر شرمندہ بھی ہو تو اس کو سفر کرنے اور وطن کو (کچھ مدت کے لئے) چھوڑ دینے کا حکم دے دے لیکن جو مجرم اپنے قصور پر شرمندہ اور پشیمان نہ ہو اس کی سزا یہ ہے کہ جب تک توبہ نہ کرے ساری زمین سے اس کو نکال دیا جائے۔ ساری زمین سے نکال دینے کا مطلب یہ ہے کہ اس کو قید کردیا جائے۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ اگر زانی اور زانیہ شادی شدہ ہوں تو ان کو سنگسار کیا جائے گا ‘ صحابۂ کرام کا اس پر اتفاق ہے بعد کے علماء کا بھی اسی پر اجماع ہے۔ صرف خارجی اس کے منکر ہیں کیونکہ اجماع صحابہ اور خبر آحاد کا وہ انکار کرتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ رجم (سنگسار کرنے) کا حکم قرآن سے ثابت نہیں۔ خبر آحاد میں آیا ہے اور خبر آحاد موجب حکم نہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ رجم کا حکم احادیث متواترہ سے ثابت ہے ان احادیث کا تواتر لفظی نہ سہی معنوی تواتر ضرور ہے۔ جیسے حضرت علی کی شجاعت اور حاتم کی سخاوت۔ تفصیلی لحاظ سے اگرچہ تواتر کو نہیں پہنچتی لیکن اجمالی فوقیت متواترہ ہے ناقابل انکار ہے۔ اسی طرح رجم کا ثبوت متواتر ہے گو تفصیلی حالات صورتیں اور خصوصیات خبر آحاد میں آئی ہیں۔ حضرت عمر ؓ بن خطاب نے فرمایا کہ اللہ نے محمد رسول اللہ ﷺ کو پیغمبر بنا کر بھیجا آپ پر کتاب نازل فرمائی من جملہ دوسری آیات کے آیت رجم بھی نازل فرمائی رسول اللہ ﷺ نے سنگسار کرایا اور ہم نے بھی آپ کے بعد رجم کرایا اور کتاب اللہ میں کت خدا زانی مرد اور عورت کو رجم کردینے کا حکم صحیح ہے بشرطیکہ گواہوں سے ثبوت ہوجائے یا حمل ہوجائے یا مجرم اعتراف کرلے۔ متفق علیہ۔ بیہقی کی روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ نے خطبہ دیا اور خطبہ میں فرمایا اللہ نے محمد ﷺ کو نبی برحق بنا کر بھیجا اور آپ پر کتاب نازل فرمائی۔ نازل کردہ آیات میں آیت رجم بھی نازل فرمائی ہم نے وہ آیت پڑھی اور یاد رکھی (آیت یہ تھی) اَلشَّیْخُ وَالشَّیْخَۃُ اِذَا زَنَیَا فَارجُمُوْہُمَا اَلْبَتَّۃَ فَکَالاً مِّنَ اللّٰہِ وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ۔ بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت جب زنا کریں تو دونوں کو قطعاً اللہ کی طرف سے سزا کے طور پر سنگسار کر دو اور اللہ غالب اور حکم والا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے رجم کرایا اور ہم نے بھی آپ کے بعد رجم کرایا۔ اس حدیث کے آخر میں ہے کہ حضرت عمر ؓ نے فرمایا اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ لوگ کہنے لگیں گے عمر نے کتاب اللہ میں اضافہ کردیا تو میں مصحف کے حاشیہ پر آیت رجم لکھ دیتا اور ابو داؤد نے حضرت عمر ؓ : کا خطبہ نقل کیا ہے اس خطبہ میں یہ بھی ہے کہ حضرت عمر ؓ نے فرمایا مجھے ڈر ہے کہ جب طویل زمانہ گزر جائے گا تو لوگ کہنے لگیں گے کہ رجم کا حکم ہم کو کتاب اللہ میں نہیں ملتا۔ ترمذی کی روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں (حضرت عمرنے خطبہ میں فرمایا) مجھے یہ بات پسند نہیں کہ لوگ کہیں عمر نے کتاب اللہ میں اضافہ کردیا ‘ اگر یہ خیال نہ ہوتا تو میں اس کو قرآن میں لکھ دیتا۔ کیونکہ مجھے ڈر لگا ہوا ہے کہ آئندہ کچھ لوگ آئیں گے اور اس آیت کو قرآن میں نہیں پائیں گے تو اس کے منکر ہوجائیں گے (اور کہیں گے رجم کی کوئی آیت قرآن میں نہیں ہے) حضرت عمر ؓ نے یہ خطبہ صحابہ کے سامنے دیا تھا اور کسی نے بھی اس کا انکار نہیں کیا (معلوم ہوا کہ آیت رجم کا قرآن میں ہونا اجماعی ہے) حاکم اور طبرانی نے حضرت ابو امامہ کی روایت سے حدیث مذکور ان الفاظ کے ساتھ نقل کی ہے بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت جب زنا کریں تو ان کو اس لذت اندوزی کی پاداش میں سنگسار کردو۔ صحیح ابن حبان میں آیا ہے کہ سورت احزاب سورة بقرہ کے برابر تھی اور اس میں آیت رجم الشَّیْخُ وَالشَّیْخَۃُ اِذَا زَنَیَا۔۔ بھی تھی۔ صحیحین میں حضرت ابن مسعود ؓ کی روایت سے آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو مسلمان لاَ اِلٰہَ الاَّ اللّٰہُ اور مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰہِکی شہادت دیتا ہو اس کا خون حلال نہیں مگر تین وجوہ میں سے کسی ایک وجہ سے (1) جان کے بدلے جان یعنی قصاص کی وجہ سے۔ (2) یا شادی شدہ زانی ہو۔ (3) یا دین سے نکل گیا ہو جماعت (مسلمین) کو چھوڑ کر علیحدہ ہوگیا ہو۔ حضرت ابو امامہ بن سہل بن حنیف کا بیان ہے کہ جس روز حضرت عثمان کے گھر کا محاصرہ کیا گیا تھا اس روز دریچہ سے باہر گردن نکال کر آپ نے فرمایا میں تم لوگوں کو اللہ کی قسم دے کر دریافت کرتا ہوں کہ کیا رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمایا تھا کہ مسلمان شخص کا خون حلال نہیں مگر تین وجوہ میں کسی ایک وجہ سے (1) شادی شدہ ہونے کے بعد اس نے زنا کیا ہو۔ (2) مسلمان ہونے کے بعد مرتد ہوگیا ہو۔ (3) یا ناحق کسی کو قتل کردیا ہو۔ پس خدا کی قسم میں نے زنا نہیں کیا نہ اسلامی دور سے پہلے نہ اسلام کی حالت میں اور نہ رسول اللہ ﷺ سے بیعت کرنے کے بعد میں اسلام سے پھرا اور نہ کسی کو ناحق قتل کیا جس کو قتل کرنا اللہ نے حرام کیا ہو تو پھر تم لوگ مجھے کیوں قتل کرتے ہو۔ رواہ الترمذی والنسائی وابن ماجۃ والدارمی۔ ورواہ الشافعی فی مسندہ ورواہ البزار و الحاکم۔ حاکم نے اس کو برشرط شیخین صحیح قرار دیا ہے و رواہ البیہقی و ابو داؤد۔ بخاری نے حسب روایت ابو قلابہ نے اس حدیث کو فعلی قرار دیا ہے ‘ حضرت ابو قلابہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کسی کو قتل نہیں کیا مگر تین وجوہ سے (اگر) کسی نے (ناحق) قتل کیا تو اس کو (قصاص میں) قتل کیا گیا۔ یا شادی شدہ ہوتے ہوئے کسی نے زنا کیا (تو اس کو سنگسار کیا گیا) یا کوئی اللہ اور رسول ﷺ سے لڑا اور اسلام سے مرتد ہوگیا (تو اس کو قتل کیا) ۔ صحیح حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ماعز بن مالک کو سنگسار کرایا تھا جبکہ انہوں نے خود زنا کا اقرار کیا تھا ‘ رواہ مسلم والبخاری من حدیث ابن عباس ورواہ الترمذی وابن ماجۃ من حدیث ابی ہریرہ۔ صحیحین میں یہ حدیث حضرت ابوہریرہ ؓ حضرت ابن عباس ‘ حضرت جابر اور بعض دوسرے لوگوں کے حوالے سے جن کے نام نہیں بتائے گئے نقل کی گئی ہے۔ مسلم نے حضرت بریدہ ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ ماعز بن مالک نے خدمت گرامی میں حاضر ہو کر عرض کیا ‘ یا رسول اللہ ﷺ مجھے پاک کر دیجئے۔ الحدیث۔ رسول اللہ ﷺ نے قبیلۂ غامد کی ایک عورت کو بھی سنگسار کرایا تھا۔ جس نے خود حاضر ہو کر عرض کیا تھا اور اقرار کیا تھا کہ وہ حاملہ ہے اس کو زنا کا حمل ہے۔ حضور ﷺ نے وضع حمل کے بعد اس کو سنگسار کرایا تھا۔ دوسری روایت میں آیا ہے کہ جب اس کا بچہ کھانا کھانے لگا اس وقت عورت کو سنگسار کرایا۔ رسول اللہ ﷺ نے قبیلۂ جہینہ کی ایک عورت کو بھی رجم کرایا تھا جب اس نے زنا کا خود اعتراف کیا تھا۔ رواہ مسلم من حدیث عمران بن حصین۔ علمائے فقہ و حدیث قائل ہیں کہ خلفائے راشدین کا بھی یہی عمل رہا اور ان کا رجم کرانا (روایتاً ) حد تواتر کو پہنچ گیا ہے۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ اگر ایک شادی شدہ ہو اور دوسرا ناکت خدا تو شادی شدہ کو سنگسار کیا جائے گا اور ناکت خدا کو کوڑے لگائے جائیں گے جیسا رسول اللہ ﷺ نے اس مقدمہ میں فیصلہ کیا تھا جس میں ایک شخص کے مزدور نے اس کی بیوی سے زنا کیا تھا (مزدور کو کوڑے مارے گئے اور شادی شدہ عورت کو سنگسار کرایا گیا) ۔ مسئلہ کیا شادی شدہ زانی کو سنگسار کرنے سے پہلے سزائے تازیانہ بھی دی جائے گی ؟ یہ مسئلہ اختلافی ہے۔ امام احمد نے فرمایا اس آیت کے حکم کے مطابق پہلے سو کوڑے مارے جائیں گے پھر سنگسار کردیا جائے گا ‘ گویا امام احمد کے نزدیک آیت کا حکم صرف ناکت خدا کے ساتھ مخصوص نہیں ہے نہ منسوخ ہے۔ امام احمد نے یہ بھی فرمایا کہ کوڑے کا جو حکم آیت میں مذکور ہے وہ پوری سزا نہیں ہے بلکہ سزائے زنا کا ایک حصہ ہے دوسرا حصہ وہ ہے جو حدیث میں مذکور ہے کہ ناکت خدا کو کوڑے مارے جائیں اور ایک سال کے لئے جلا وطن کردیا جائے اور شادی شدہ کو سنگسار کردیا جائے اور جس طرح حدیث تغریب اور حکم آیت میں تضاد نہیں ہے (بلکہ حدیث آیت کا جز تکمیلی ہے) اسی طرح آیت کے حکم کا ٹکراؤ حدیث رجم سے بھی نہیں ہوتا (آیت کے حکم کا جز تکمیلی حدیث رجم ہے) اگرچہ حدیث رجم متواتر ہے اس لئے دونوں (آیت اور حدیث) پر عمل کیا جائے گا۔ اس کی تائید حضرت عبادہ بن صامت کی روایت سے بھی ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بکر بکر سے (زنا کرے تو) سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی اور شادی شدہ شادی شدہ سے (زنا کرے تو) سو کوڑے اور سنگساری۔ حضرت سلمیٰ بن محبق راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ‘ مجھ سے لے لو ‘ مجھ سے لے لو۔ اللہ نے ان (زنا کرنے والی) عورتوں کی راہ بتادی بکر سے بکر (زنا کرے تو) سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی اور شادی شدہ شادی شدہ سے (زنا کرے تو) سو کوڑے اور سنگسار کردینا۔ حضرت علی ؓ کے مندرجہ ذیل اثر سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ جس کو احمد اور حاکم اور نسائی نے بروایت شعبی بیان کیا ہے کہ حضرت علی ؓ نے کوفہ میں سراحہ ہمدانیہ کو کوڑے لگوائے پھر اس کو سنگسار کرا دیا۔ جمعرات کے دن کوڑے لگوائے اور جمعہ کے دن رجم کرا دیا تھا اور فرمایا تھا میں کتاب اللہ کے موافق اس کو کوڑے لگوا رہا ہوں اور سنت رسول اللہ ﷺ کے مطابق سنگسار کرا رہا ہوں۔ اصل روایت صحیح بخاری میں موجود ہے مگر عورت کا نام مذکور نہیں۔ امام ابوحنیفہ (رح) :‘ امام مالک (رح) اور امام شافعی (رح) کے نزدیک آیت کا حکم مخصوص ہے ناکت خدا کے ساتھ اس کی خصوصیت ہے ‘ یا شادی شدہ کے حق میں منسوخ ہے۔ حضرت عبادہ اور حضرت سلمیٰ کی روایت کردہ حدیثیں بھی یہی حکم رکھتی ہیں (یا مخصوص البعض ہیں یا شادی شدہ کے حق میں منسوخ ہیں) اس کا ثبوت یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ماعز اور غامدیہ عورت اور جہینہ عورت کو رجم کرایا ‘ مختلف روایات سے اور متعدد طریقوں سے یہ واقعات منقول ہیں لیکن کسی روایت اور کسی طریقۂ سند سے یہ بات ثابت نہیں کہ آپ نے ان لوگوں کو سنگسار کرانے سے پہلے کوڑے بھی لگوائے تھے۔ حضرت زید بن خالد کی روایت کردہ حدیث پہلے نقل کی جا چکی ہے جس میں ذکر کیا گیا ہے کہ ایک شخص کے مزدور نے اس کی بیوی سے زنا کیا تھا حضور نے زانی کو تو کوڑے لگوائے اور ایک سال کے لئے شہر بدر کرنے کا حکم دیا اور حضرت انس ؓ سے فرمایا انس اٹھ کر جا اگر عورت اعتراف کرلے تو اس کو سنگسار کر دے۔ حضور ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ پہلے اس کو کوڑے مارنا اور پھر سنگسار کرنا (ناسخ کی تین قسمیں ہیں (1) ناسخ کسی منسوخ کے حکم کو منسوخ کر دے مگر منسوخ کی تلاوت باقی ہو۔ (دوسرا) وہ ناسخ ہوتا ہے جو وحی پر تو مبنی ہوتا ہے مگر وحی غیر متلو ہوتی ہے۔ (تیسرا) وہ ناسخ ہوتا ہے جس کا حکم باقی ہوتا ہے اور تلاوت منسوخ ہوتی ہے جیسے الشَّیْخُ وَالشَّیْخَۃُ اِذَا زَنَیَا۔۔ اس آیت کی تلاوت منسوخ ہے (اور حکم باقی ہے مگر) اس آیت کو ہم ناسخ اسی مطلب پر کہہ سکتے ہیں جو محققین حنفیہ نے اس آیت کے سلسلہ میں بیان کیا ہے کہ الزانیۃ والزَّانی فاجْلِدُوْادلالت کر رہی ہے کہ کوڑے مارنا پوری سزا واجب ہے اور آیت الشَّیْخُ والشیخۃ دلالت کر رہی ہے کہ رجم پوری سزا ہے ‘ دونوں میں تعارض اور تضاد ہے لامحالہ ایک ناسخ اور دوسری منسوخ ہوگی۔ اگر ہر آیت کے حکم کو مکمل واجبی سزا نہ قرار دیا جائے گا تو دونوں میں تعارض نہ ہوگا اور ایک کو ناسخ اور دوسری کو منسوخ قرار دینے کی بھی ضرورت نہ ہوگی بلکہ دونوں سزائیں دینا واجب ہوں گی۔ سزائے تازیانہ بھی اور رجم بھی۔ جیسا کہ امام احمد کا قول ہے۔ رہا حضرت علی ؓ : کا اثر تو اس کے مقابل حضرت عمر ؓ : کا اثر بھی آیا ہے۔ معلوم ہوا کہ یہ مسئلہ اجتہادی تھا۔ طحاوی نے حضرت ابو واقد لیثی اشجعی صحابی کا بیان نقل کیا ہے ‘ حضرت ابو واقد نے فرمایا ہم حضرت عمر ؓ کے پاس موجود تھے۔ ایک شخص حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا امیر المؤمنین میری بیوی نے زنا کا ارتکاب کیا ہے اور وہ اس فعل کا اعتراف کرتی ہے۔ حضرت عمر ؓ نے مجھ کو چند لوگوں کے ساتھ اس عورت کے پاس دریافت کرنے کیلئے بھیجا۔ حسب الحکم ہم نے جا کر دریافت کیا اس عورت نے وہی بیان کیا جو اس کے شوہر نے کہا تھا اور کہا میرے شوہر نے سچ کہا ‘ ہم نے یہ اطلاع حضرت عمر ؓ : کو جا کر دے دی۔ آپ نے اس عورت کو سنگسار کرنے کا حکم دے دیا۔ سنگسار کرنے سے پہلے کوڑے نہیں لگوائے اور یہ واقعہ صحابہ کی جماعت کے سامنے کا ہے۔ (کسی نے اس کا انکار نہیں کیا) ۔ میں کہتا ہوں حضرت علی ؓ نے جو ہمدانیہ عورت کو دوہری سزا دی اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ پہلے اس کا شادی شدہ ہونا آپ کو معلوم نہیں ہوا تھا اس لئے کوڑے لگوائے پھر شادی شدہ ہونا معلوم ہوگیا تو رجم کی سزا دی اور حضرت علی ؓ نے جو فرمایا کہ کتاب اللہ کے موافق میں اس کے کوڑے لگواتا ہوں اور سنت رسول اللہ ﷺ کے موافق اس کو رجم کرتا ہوں اس کا مطلب ہی یہ ہے کہ ناکت خدا کی سزا کوڑے مارنا قرآن میں مذکور ہے اور شادی شدہ کو سنگسار کرنے کا حکم حدیث میں ہے ‘ پس جب تک اس کے شادی شدہ ہونے کا علم نہ تھا آپ نے قرآن کے مطابق اس کے کوڑے لگوا دیئے اور جب شادی شدہ ہونے کا علم ہوگیا تو آپ نے اس کو رجم کرا دیا یہی تشریح ایک روایت میں بھی آئی ہے۔ طحاوی نے حضرت جابر ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ ایک شخص نے زنا کا ارتکاب کیا حضور ﷺ کے حکم کے مطابق اس کے کوڑے مار دیئے گئے ‘ پھر آپکو اطلاع ملی کہ وہ شادی شدہ ہے تو آپ ﷺ نے اس کو رجم کرا دیا۔ فائدہ قرآن مجید میں احصان کے متعدد معانی آئے ہیں (1) آزادی اور (2) نکاح۔ جیسے والْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَآء الاَّ مَا مَلَّکَتْ اَیْمَانُکُمْمیں المحصنٰت سے نکاحی عورتیں مراد ہیں اور فَاِذَاُحْصِنَّ فَاِنْ اَتَیْنَ بِفَاحِشَۃٍ فَعَلَیْہِنَّ نِصْفُ مَا عَلَی الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِمیں اُحْصِنَّسے مراد نکاح کرلینا اور المحصنت سے مراد ہیں آزاد عورتیں۔ احصان بمعنی عفت جیسے والْمُحْصَنٰتُ مِنَ الْمُوٌْمِنَاتُ وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِیْنَ اُوتُوْا الْکِتٰبَمیں پاک دامن مؤمن عورتیں اور پاک دامن کتابی عورتیں مراد ہیں۔ زانی اور زانیہ کو رجم کرنے کے لئے جو احصان کی شرط شرعاً ضروری ہے اس سے مراد ہے نکاحی ہونا یعنی صحیح نکاح میں ہونا ‘ کیونکہ نکاح کے بعد عورت مرد کی حصن و حفاظت میں داخل ہوجاتی ہے۔ نتیجۂ تزویج محصن ہوجانا ہے اسی لئے رسول اللہ نے محصن کو کت خدا اور غیر محصن کو ناکت خدا (ثیب اور بکر) کے الفاظ سے تعبیر کیا ہے۔ (اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ کتابی یا آن لائن نسخے سے ملاحضہ فرمائیں۔ طوالت کے باعث اس سے زیادہ نقل نہیں کیا جا رہا)
Top