Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 44
ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْهِ اِلَیْكَ١ؕ وَ مَا كُنْتَ لَدَیْهِمْ اِذْ یُلْقُوْنَ اَقْلَامَهُمْ اَیُّهُمْ یَكْفُلُ مَرْیَمَ١۪ وَ مَا كُنْتَ لَدَیْهِمْ اِذْ یَخْتَصِمُوْنَ
ذٰلِكَ : یہ مِنْ : سے اَنْۢبَآءِ : خبریں الْغَيْبِ :غیب نُوْحِيْهِ : ہم یہ وحی کرتے ہیں اِلَيْكَ : تیری طرف وَمَا كُنْتَ : اور تو نہ تھا لَدَيْهِمْ : ان کے پاس اِذْ : جب يُلْقُوْنَ : وہ ڈالتے تھے اَقْلَامَھُمْ : اپنے قلم اَيُّھُمْ : کون۔ ان يَكْفُلُ : پرورش کرے مَرْيَمَ : مریم وَمَا : اور نہ كُنْتَ : تو نہ تھا لَدَيْهِمْ : ان کے پاس اِذْ : جب يَخْتَصِمُوْنَ : وہ جھگڑتے تھے
یہ غیب کی خبریں ہیں جن کو ہم تم پر وحی کر رہے ہیں ورنہ یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ تم اس وقت ان لوگوں کے پاس موجود نہ تھے جب ہیکل کے مجاور اپنے اپنے قلم پھینک رہے تھے کہ کون مریم کا کفیل ہو اور تم اس وقت موجود نہ تھے جب وہ آپس میں جھگڑ رہے تھے
یہ ساری خبریں ایسی ہیں جو آپ کی طرف وحی کی جارہی ہیں : 105: غیب کیا ہے ؟ غیب کا استعمال ہر اس چیز پر ہوتا ہے جو حاسہ سے مخفی ہو یا انسان کے علم میں موجود نہ ہو۔ واقعات گزشتہ بھی اس لحاظ سے غیب ہوجاتے ہیں جب ان کا جاننے والا کوئی موجود نہ ہو۔ ہر وہ چیز جو پوشیدہ ہو نہ تو اس کے متعلق علم ہو اور نہ ہی وہ مشاہدہ میں آرہی ہو غیب ہے۔ پھر جب اس کا علم حاصل ہوجائے اور وہ مشاہدہ میں آجائے تو اب وہ غیب نہ رہی۔ تاریخی واقعات کو قرآن کریم نے اَنْۢبَآءِ الْغَیْبِ کہا ہے۔ کیوں ؟ اس لیے کہ جب ان کا جاننے والا کوئی نہ رہا اور خصوصاً جب اس علاقہ کی بات بھی نہ ہو تو مزید اس کے لیے مشکل ہے کہ وہ جان جائے۔ جب تک کہ ان کو بتانے والا کوئی نہ ہو۔ مطلب یہ ہے کہ اے پیغمبر اسلام ! آپ ان باتوں کو نہیں جانتے جن کو ہم تم پر وحی کر رہے ہیں اور اصل بات بھی یہی ہے کہ سیدہ مریم اور سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق واقعات دنیا میں دوست و دشمن دونوں پر نہایت ہی غلط طور پر رواج پا گئے تھے اور قرآن کریم نے اصل واقعات پر عالم کو مطلع فرما کر واقعی ایک غیب پر سے پردہ اٹھایا ہے اور اس طرح سیدہ مریم اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کی اصل حیثیت کو دنیا میں ظاہر فرمایا ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ ایسے واقعات کو جو اس جہان کے بسنے والوں نے اس قدرگڈ مڈ کردیے ہوں اور ان کو سینکڑوں سال بھی گزر چکے ہوں تو ان کی اصلیت پر اطلاع پانا کی عام انسان تو کیا کسی خاص انسان کا کام بھی نہیں تھا چہ جائیکہ عرب کا ایک امی ان اصل حالات کو ان واقعات کی جگہ سے بھی سینکڑوں میل دور بیٹھ کر کرتا یہی بات دلیل ہے اس بات کی کہ ایسے واقعات اور وہ بھی ان الفاظ میں بیان کردینا ایک رسول ہی کا کام ہوسکتا ہے جو اللہ تعالیٰ سے وحی پاکر بات کرتا ہو۔ اصل انجیل جس میں خالص سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی تعلیم تھی وہ دنیا سے بالکل ناپید بلکہ نابود ہوچکی تھی اور اس کی جگہ بہت سی اناجیل لے چکی تھیں۔ جن میں سے بعض کو کلیسا نے بغیر کسی دلیل کے الہامی مان لیا اور بعض و وضعی قراردے کر رد کردیا اور مسیح کو خدائی کا مرتبہ دے کر اس کے خون کے کفارہ کو نجات کا موجب قراردیا۔ شریعت کو ایک لعنت قرار دیا اور اعمال کی ضرورت باقی نہ سمجھی۔ یہودیوں نے بوجہ اپنی عداوت کے جو ان کو مسیح کے ساتھ تھی کوئی بھی صحیح حالات حضرت مسیح (علیہ السلام) کے باقی نہ رکھے تھے اور ان پر طرح طرح کے ناپاک الزام لگائے تھے۔ اس طرح اہل کتاب کے دونوں گروہ ایک شخص کے معاملہ میں اس طرح ساری حد بندیاں توڑ کر دور نکل چکے تھے اور کوئی صحیح علم سیدنا مسیح کے متعلق باقی نہ رہا تو اب سوائے اللہ تعالیٰ کی وحی کے ان واقعات کا صحیح علم دنیا پر دوبارہ نہ آسکتا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ غیب ہی کی خبریں تھیں جو اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی محمد رسول اللہ ﷺ پر ظاہر فرمائی اور آج دنیا آهستہ آهستہ اس بات کی قبولیت کی طرف چلی آتی ہے جس کا اعلان آج سے چودہ سو سال پہلے ایک امی نے جو ایک ناخواندہ قوم میں سے تھا دنیا میں کیا۔ a سیدہ مریم کی کفالت کا فیصلہ اول یا ثانی ؟ : 106: اے پیغمبر اسلام ! آپ اس وقت ان کے پاس موجود نہیں تھے جب وہ سیدہ مریم کی کفالت پر قلمیں ڈال رہے تھے یا اس وقت کہ جب وہ لوگ آپس میں جھگڑ رہے تھے۔ سیدہ مریم کی کفالت کا فیصلہ ایک تو اس وقت ہوا تھا جب وہ پہلے پہلے ہیکل میں لائی گئیں۔ آیا یہ اسی کفالت کا ذکر ہے یا یہ کوئی دوسری کفالت ہے ؟ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ یہ اسی کفالت کا ذکر ہے جب سیدہ مریم ہیکل میں لائی گئی تھیں جس کے فیصلہ پر سیدنا زکریا (علیہ السلام) کی کفالت میں دے دیا گیا تھا اور اس جگہ دوبارہ ضمناً اس کا ذکر کردیا ہے۔ لیکن بعض مفسرین کے نزدیک یہ اشارہ کسی ایسی کفالت کی طرف ہے جو سیدہ مریم کے بلوغ کو پہنچ جانے کے بعد وقوع میں آئی۔ صاحب روح المعانی نے اس قول کو مرجوع کہا ہے لیکن بعض مفسرین نے اس کو ترجیح دی ہے۔ کیوں ؟ اس لیے کہا کا کہنا ہے کہ قرآن کریم نے اس واقعہ کو ایک خاص ترتیب کے ساتھ بیان کیا ہے۔ پہلے سیدہ مریم کی پیدائش کا ذکر کیا پھر اس کی کفالت زکریا (علیہ السلام) کا ذکر کیا اور پھر اس ذکر میں زکریا (علیہ السلام) کی دعا اور یحییٰ (علیہ السلام) کی بشارت کا ذکر ضمناً آگیا۔ اس کے بعد اصل ذکر کی طرف رجوع کیا تو مریم کے اصطفاء و پاکیزگی اور برگزیدگی کا ذکر آیا تو اس کو مزید فرمانبرداری اور نماز کے قائم کرنے کا حکم دیا اور یہ واقعات یقیناً زمانہ بلوغت سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے اس کے بعد پھر ایک گزشتہ واقعہ کی طرف اشارہ کرنا بلاغت قرآن کے خلاف ہے۔ پس یہ آیت یقیناً اس وقت کی طرف اشارہ کرتی ہے جب مریم صدیقہ سن رشد کو پہنچ چکی تھیں اور ان کی تربیت کا زمانہ گویا گزرچکا اور اب ضرورت پیش آئی کہ ان کی کفالت کی ذمہ داری مزید کسی کے سپرد کی جائے کیونکہ اب وہ ہیکل کے حجرہ میں مستقل رہنے کے دن ختم کرچکی ہیں یعنی عورتوں کی بلوغت میں جو خاص اذیت کے دن ہوتے ہیں وہ ہیکل میں نہیں گزار سکتی تھیں۔ پس جہاں جس کفالت کا ذکر ہے وہ کفالت نکاح ہے۔ چونکہ یہود کے ہاں رواج تھا کہ وہ اس طرح کے تمام امور کا فیصلہ قرعہ اندازی پر کیا کرتے تھے اور اس قرعہ کا جو طریقہ بھی ان کے ہاں رواج پاچکا تھا جس کی مختلف اشکال کا تذکرہ مفسرین نے اپنی اپنی تفاسیر میں کیا ہے چناچہ کہا گیا ہے کہ قلم کی جمع اقلام ہے جو اس تیر کا نام ہے جو اس طرح کے کاموں کے لیے انہوں نے بنا رکھا تھا اور قلم تیر کو کہتے ہیں کیونکہ وہ کاٹا جاتا ہے اور قلم کے اصل معنی کاٹنے کے ہیں اور اسی وجہ سے مفسرین نے ” اقلام “ سے مراد ” قداح “ یعنی قرعہ اندازی کے تیر ہی لیے ہیں اور بعض نے وہ قلمیں مراد لی ہیں جن سے کاہن لوگ لکھا کرتے تھے۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ ” سبق القضاء و جفت الاقلام “ یعنی قضاو قدر کا فیصلہ ہوچکا اور قلمیں خشک ہو چکیں جس کا مطلب واضح ہے کہ جو فیصلہ ہونا تھا وہ پہلے ہوچکا اس لیے لوح و قلم سے بغیر کسی تشبیہ کے مراد قضا و قدر ہے۔ اور یہ جو فرمایا گیا کہ آپ ﷺ اس وقت ان کے پاس نہ تھے تو اس میں یا تو یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ مریم کی بریت کی شہادت ایک ایسے شخص کی طرف سے ہے جن کا تعلق کم از کم فریق قمدمہ سے کوئی نہیں ہے۔ اس لیے یہ نہایت ہی سچی بےلوگ شہادت ہے یا اس لحاظ سے کہ وہ واقعات آپ ﷺ کے ذریعہ سے ظاہر کیے جاتے ہیں جن کا علم دنیا میں مفقود ہوچکا تھا تو تم ان کے پاس تو نہ تھے پس یہ علم غیب سوائے اللہ کی ذات کے کون ظاہر کر سکتا تھا ؟ یعنی کوئی بھی ظاہر نہیں کرسکتا اور وہی ہے جو آپ پر وحی کے ذریعے ان خبروں کو پہنچا رہا ہے اور وہی ہے جو آسمان و زمین کی ساری چیزوں کو جانتا ہے۔ “ (64 : 4) اور ” زمین و آسمان میں ایک ذرے کے برابر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ہے۔ “ (34 : 3) ” جو کچھ زمین میں داخل ہوتا ہے اور جو کچھ اس میں سے باہر آتا ہے اور جو کچھ آسمان سے اترتا ہے اور جو کچھ اس میں چڑھتا ہے سب اسی کو معلوم ہے۔ “ (57 : 4) ” غیب کی کنجیاں تو بس اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہیں اس کے سوا کوئی دوسرا غیب کا علم نہیں رکھتا۔ “ ( 6 : 59) ” زمین و آسمان کے تمام غیب اسی کے پاس ہیں۔ “ (11 : 23 ) ، (16 : 77) ” قیامت کا علم بھی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو نہیں ہے کہ وہ کب آئے گی۔ “ (7 : 187) ، (43 : 85)
Top