Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-Ahzaab : 56
اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓئِكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّ١ؕ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا
اِنَّ اللّٰهَ
: بیشک اللہ
وَمَلٰٓئِكَتَهٗ
: اور اس کے فرشتے
يُصَلُّوْنَ
: درود بھیجتے ہیں
عَلَي النَّبِيِّ ۭ
: نبی پر
يٰٓاَيُّهَا
: اے
الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا
: ایمان والو
صَلُّوْا
: درود بھیجو
عَلَيْهِ
: اس پر
وَسَلِّمُوْا
: اور سلام بھیجو
تَسْلِيْمًا
: خوب سلام
اللہ اور اس کے فرشتے رحمت بھیجتے ہیں رسول پر اے ایمان والو ! رحمت بھیجو اس پر اور سلام بھیجو سلام کہہ کر۔
خلاصہ تفسیر
بیشک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے رحمت بھیجتے ہیں ان پیغمبر ﷺ پر اے ایمان والو تم بھی آپ پر رحمت بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو۔ (تا کہ آپ کا حق عظمت جو تمہارے ذمہ ہے ادا ہوجائے)
معارف و مسائل
اس سے پہلی آیات میں رسول اللہ ﷺ کی کچھ خصوصیات و امتیازات کا ذکر تھا، جن کے ضمن میں ازواج مطہرات کے پردہ کا حکم آیا تھا، اور آگے بھی کچھ احکام پردے کے آئیں گے، درمیان میں اس چیز کا حکم دیا گیا ہے جس کے لئے یہ سب خصوصیات و امتیازات رکھے گئے ہیں، وہ رسول اللہ ﷺ کی عظمت شان کا اظہار اور آپ کی عظمت و محبت اور اطاعت کی ترغیب ہے۔
اصل مقصود و آیت کا مسلمانوں کو یہ حکم دینا تھا کہ رسول اللہ ﷺ پر صلوٰة وسلام بھیجا کریں، مگر اس کی تعبیر وبیان میں اس طرح فرمایا کہ پہلے حق تعالیٰ نے خود اپنا اور اپنے فرشتوں کا رسول اللہ ﷺ کے لئے عمل صلوٰة کا ذکر فرمایا، اس کے بعد عام مومنین کو اس کا حکم دیا، جس میں آپ کے شرف اور عظمت کو اتنا بلند فرما دیا کہ رسول اللہ ﷺ کی شان میں جس کام کا حکم مسلمانوں کو دیا جاتا ہے وہ کام ایسا ہے کہ خود حق تعالیٰ اور اس کے فرشتے بھی وہ کام کرتے ہیں تو عام مومنین جن پر رسول اللہ ﷺ کے بیشمار احسانات ہیں ان کو تو اس عمل کا بڑا اہتمام کرنا چاہئے۔ اور ایک فائدہ اس تعبیر میں یہ بھی ہے کہ اس سے درود وسلام بھیجنے والے مسلمانوں کی ایک بہت بڑی فضیلت یہ ثابت ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس کام میں شریک فرما لیا جو کام حق تعالیٰ خود بھی کرتے ہیں اور اس کے فرشتے بھی۔
صلوٰة وسلام کے معنی
لفظ صلوٰة عربی زبان میں چند معانی کے لئے استعمال ہوتا ہے، رحمت، دعا، مدع وثناء، آیت مذکورہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف جو نسبت صلوٰة کی ہے اس سے مراد رحمت نازل کرنا ہے، اور فرشتوں کی طرف سے صلوٰة ان کا آپ کے لئے دعا کرنا ہے، اور عام مومنین کی طرف سے صلوٰة کا مفہوم دعا اور مدح وثناء کا مجموعہ ہے۔ عامہ مفسرین نے یہی معنی لکھے ہیں۔ اور امام بخاری نے ابوالعالیہ سے یہ نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صلوٰة سے مراد آپ کی تعظیم اور فرشتوں کے سامنے مدح وثناء ہے، اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کی تعظیم دنیا میں تو یہ ہے کہ آپ کو بلند مرتبہ عطا فرمایا کہ اکثر مواقع اذان و اقامت وغیرہ میں اللہ تعالیٰ کے ذکر کے ساتھ آپ کا ذکر شامل کردیا ہے، اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے دین کو دنیا بھر میں پھیلا دیا، اور غالب کیا، اور آپ کی شریعت پر عمل قیامت تک جاری رکھا، اس کے ساتھ آپ کی شریعت کو محفوظ رکھنے کا ذمہ حق تعالیٰ نے لے لیا۔ اور آخرت میں آپ کی تعظیم یہ ہے کہ آپ کا مقام تمام خلائق سے بلند وبالا کیا، اور جس وقت کسی پیغمبر اور فرشتے کی شفاعت کی مجال نہ تھی اس حال میں آپ کو مقام شفاعت عطا فرمایا، جس کو مقام محمود کہا جاتا ہے۔
اس معنی پر جو یہ شبہ ہوسکتا ہے کہ صلوٰة وسلام میں تو روایات حدیث کے مطابق آپ کے ساتھ آپ کے آل و اصحاب کو بھی شامل کیا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور مدح وثناء میں آپ کے سوا کسی کو کیسے شریک کیا جاسکتا ہے ؟ اس کا جواب روح المعانی وغیرہ میں یہ دیا گیا ہے کہ تعظیم اور مدح وثناء وغیرہ کے درجات بہت ہیں، رسول اللہ ﷺ کو اس کا اعلیٰ درجہ حاصل ہے، اور ایک درجہ میں آل و اصحاب اور عام مومنین بھی شامل ہیں۔
ایک شبہ کا جواب
اور ایک لفظ صلوٰة سے بیک وقت متعدد معنی رحمت، دعاء، تعظیم وثناء مراد لینا جو اصطلاح میں عموم مشترک کہلاتا ہے، اور بعض حضرات کے نزدیک وہ جائز نہیں، اس لئے اس کی یہ توجیہ ہو سکتی ہے کہ لفظ صلوٰة کے اس جگہ ایک ہی معنی لئے جائیں، یعنی آپ کی تعظیم اور مدح وثناء اور خیر خواہی پھر یہ معنی جب اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہوں تو اس کا حاصل رحمت ہوگا اور فرشتوں کی طرف منسوب ہوں تو دعا و استغفار ہوگا، عام مومنین کی طرف منسوب کیا جائے تو دعاء اور مدح وثناء و تعظیم کا مجموعہ ہوگا۔
اور لفظ سلام مصدر بمعنی السلام ة ہے، جیسے ملام بمعنی ملامت مستعمل ہوتا ہے۔ اور مراد اس سے نقائص و عیوب اور آفتوں سے سالم رہنا ہے۔ اور السلام علیک کے معنی یہ ہیں کہ نقائص اور آفات سے سلامتی آپ کے ساتھ رہے۔ اور عربی زبان کے قاعدہ سے یہاں حرف علیٰ کا موقع نہیں، مگر چونکہ لفظ سلام معنی ثناء کو متضمن ہے، اس لئے حرف علیٰ کے ساتھ علیک یا علیکم کہا جاتا ہے۔
اور بعض حضرات نے یہاں لفظ سلام سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات لی ہے، کیونکہ سلام اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی میں سے ہے تو مراد السلام علیک کی یہ ہوگی کہ اللہ آپ کی حفاظت و رعایت پر متولی اور کفیل ہے۔
صلوٰة وسلام کا طریقہ
صحیح بخاری و مسلم وغیرہ سب کتب حدیث میں یہ حدیث آئی ہے کہ حضرت کعب بن عجرہ نے فرمایا کہ (جب یہ آیت نازل ہوئی تو) ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ (آیت میں ہمیں دو چیزوں کا حکم ہے صلوٰة وسلام) سلام کا طریقہ تو ہمیں معلوم ہوچکا ہے کہ (کہ السلام علیک ایہا النبی کہتے ہیں) صلوٰة کا طریقہ بھی بتلا دیجئے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ الفاظ کہا کرو۔ اللھم صلی علیٰ محمد وعلیٰ آل محمد کما صلیت علیٰ ابراہیم وعلیٰ آل ابراہیم انک حمید مجید، اللہم بارک علیٰ محمد وعلیٰ آل محمد کما بارکت علیٰ ابراہیم و علیٰ آل ابراہیم انک حمید مجید، دوسری روایات میں اس میں کچھ کلمات اور بھی منقول ہیں۔
اور صحابہ کرام کے سوال کرنے کی وجہ غالباً یہ تھی کہ ان کے سلام کرنے کا طریقہ تو تشہد (یعنی التحیات) میں پہلے سکھایا جا چکا تھا کہ السلام علیک ایہا النبی ورحمة اللہ وبرکاتہ کہا جائے، اس لئے لفظ صلوٰة میں انہوں نے اپنی طرف سے الفاظ مقرر کرنا پسند نہیں کیا، خود رسول اللہ ﷺ سے دریافت کر کے الفاظ صلوٰة متعین کرائے۔ اسی لئے نماز میں عام طور پر انہی الفاظ کے ساتھ صلوٰة کو اختیار کیا گیا ہے، مگر یہ کوئی ایسی تعیین نہیں جس میں تبدیلی ممنوع ہو، کیونکہ خود رسول اللہ ﷺ سے صلوٰة یعنی درودشریف کے بہت سے مختلف صیغے منقول و ماثور ہیں صلوٰة وسلام کے حکم کی تعمیل ہر اس صیغہ سے ہو سکتی ہے جس میں صلوٰة وسلام کے الفاظ ہوں۔ اور یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ الفاظ آنحضرت ﷺ سے بعینہ منقول بھی ہوں بلکہ جس عبارت سے بھی صلوٰة وسلام کے الفاظ ادا کئے جائیں اس حکم کی تعمیل اور درود شریف کا ثواب حاصل ہوجاتا ہے۔ مگر یہ ظاہر ہے کہ جو الفاظ خود آنحضرت ﷺ سے منقول ہیں وہ زیادہ بابرکت اور زیادہ ثواب کے موجب ہیں، اسی لئے صحابہ کرام نے الفاظ صلوٰة آپ سے متعین کرانے کا سوال فرمایا تھا۔
مسئلہ
قعدہ نماز میں تو قیامت تک الفاظ صلوٰة وسلام اسی طرح کہنا مسنون ہے، جس طرح اوپر منقول ہوئے ہیں اور خارج نماز میں جب آنحضرت ﷺ خود مخاطب ہوں جیسا کہ آپ کے عہد مبارک میں وہاں تو وہی الفاظ الصلوٰة والسلام علیک کے اختیار کئے جائیں، آپ کی وفات کے بعد روضہ اقدس کے سامنے جب سلام عرض کیا جائے تو اس میں بھی صیغہ السلام علیک کا اختیار کرنا مسنون ہے۔ اس کے علاوہ جہاں غائبانہ صلوٰة وسلام پڑھا جائے تو صحابہ وتابعین اور ائمہ امت سے صیغہ غائب کا استعمال کرنا منقول ہے، مثلاً ﷺ جیسا کہ عام محدثین کی کتابیں اس سے لبریز ہیں۔
صلوٰة وسلام کے مذکورہ طریقہ کی حکمت
جو طریقہ صلوٰة وسلام کا رسول اللہ ﷺ کی زبان مبارک اور آپ کے عمل سے ثابت ہوا اس کا حاصل یہ ہے کہ ہم سب مسلمان آپ کے لئے اللہ تعالیٰ سے رحمت و سلامتی کی دعا کریں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مقصود آیت کا تو یہ تھا کہ ہم آپ کی تعظیم و تکریم کا حق خود ادا کریں۔ مگر طریقہ یہ بتلایا کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں، اس میں اشارہ اس طرف ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا حق تعظیم و اطاعت پورا ادا کرنا ہمارے کسی کے بس میں نہیں، اس لئے ہم پر یہ لازم کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں۔ (روح)
صلوٰة وسلام کے احکام
نماز کے قعدہ اخیرہ میں صلوٰة (درود شریف) سنت موکدہ تو سب کے نزدیک ہے، امام شافعی اور احمد بن حنبل کے نزدیک واجب ہے، جس کے ترک سے نماز واجب اعادہ ہوجاتی ہے۔
مسئلہ
اس پر بھی جمہور فقاء کا اتفاق ہے کہ جب کوئی آنحضرت ﷺ کا ذکر کرے یا سنے تو اس پر درود شریف واجب ہوجاتا ہے۔ کیونکہ حدیث میں آپ کے ذکر مبارک کے وقت درود شریف نہ پڑھنے پر وعید آئی ہے، جامع ترمذی میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہرغم انف رجل ذکرت عندہ فلم یصل علیٰ ، ”یعنی ذلیل ہو وہ آدمی جس کے سامنے میرا ذکر آئے اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے“ (قال الترمذی حدیث حسن و رواہ ابن السنی باسناد جید)
اور ایک حدیث میں ارشاد ہے البخیل من ذکرت عندہ فلم یصل علیٰ ”یعنی بخیل وہ شخص ہے جس کے سامنے میرا ذکر آئے اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے“ (رواہ الترمذی و قال حدیث حسن صحیح)
مسئلہ
اگر ایک مجلس میں آپ کا ذکر مبارک بار بار آئے تو صرف ایک مرتبہ درود پڑھنے سے واجب ادا ہوجاتا ہے، لیکن مستحب یہ ہے کہ جتنی بار ذکر مبارک خود کرے یا کسی سے سنے ہر مرتبہ درود شریف پڑھے۔ حضرات محدثین سے زیادہ کون آپ کا ذکر کرسکتا ہے کہ ان کا ہر وقت کا مشغلہ ہی حدیث رسول ہے، جس میں ہر وقت بار بار آپ کا ذکر آتا ہے، تمام ائمہ حدیث کا دستور یہی رہا ہے کہ ہر مرتبہ درود سلام پڑھتے اور لکھتے ہیں۔ تمام کتب حدیث اس پر شاہد ہیں۔ انہوں نے اس کی بھی پروا نہیں کی کہ اس تکرار صلوٰة وسلام سے کتاب کی ضخامت کافی بڑھ جاتی ہے کیونکہ اکثر تو چھوٹی چھوٹی حدیثیں آتی ہیں جن میں ایک دو سطر کے بعد نام مبارک آتا ہے، اور بعض جگہ تو ایک سطر میں ایک سے زیادہ مرتبہ نام مبارک مذکور ہوتا ہے، حضرات محدثین کہیں صلوٰة وسلام ترک نہیں کرتے۔
مسئلہ
جس طرح زبان سے ذکر مبارک کے وقت زبانی صلوٰة وسلام واجب ہے اسی طرح قلم سے لکھنے کے وقت صلوٰة وسلام کا قلم سے لکھنا بھی واجب ہے، اور اس میں جو لوگ حروف کا اختصار کر کے ”صلعم“ لکھ دیتے ہیں یہ کافی نہیں، پورا صلوٰة وسلام لکھنا چاہئے۔
مسئلہ
ذکر مبارک کے وقت افضل و اعلیٰ اور مستحب تو یہی ہے کہ صلوٰة اور سلام دونوں پڑھے اور لکھے جائیں، لیکن اگر کوئی شخص ان میں سے ایک یعنی صرف صلوٰة یا صرف سلام پر اکتفا کرے تو جمہور فقہاء کے نزدیک کوئی گناہ نہیں۔ شیخ الاسلام نووی وغیرہ نے دونوں میں سے صرف ایک پر اکتفا کرنا مکروہ فرمایا ہے۔ ابن حجر ہیثمی نے فرمایا کہ ان کی مراد کراہت سے خلاف اولیٰ ہونا ہے، جس کو اصطلاح میں مکروہ تنزیہی کہا جاتا ہے۔ اور علماء امت کا مسلسل عمل اس پر شاہد ہے کہ وہ دونوں ہی کو جمع کرتے ہیں اور بعض اوقات ایک پر بھی اکتفا کرلیتے ہیں۔
مسئلہ
لفظ صلوٰة انبیاء (علیہم السلام) کے سوا کسی کے لئے استعمال کرنا جمہور علماء کے نزدیک جائز نہیں۔ امام بیہقی نے اپنے سنن میں حضرت ابن عباس کا یہ فتویٰ نقل کیا ہےلا یصلی علیٰ احد الا علیٰ النبی ﷺ لکن یدعیٰ للمسلمین والمسلیمات بالاستغفار۔ امام شافعی کے نزدیک غیر نبی کے لئے لفظ صلوٰة کا استعمال مستقلاً مکروہ ہے، امام اعظم ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب کا بھی یہی مذہب ہے، البتہ تبعاً جائز ہے یعنی آنحضرت ﷺ پر صلوٰة وسلام کے ساتھ آل واصحاب یا تمام مومنین کو شریک کرلے اس میں مضائقہ نہیں۔
اور امام جوینی نے فرمایا کہ جو حکم لفظ صلوٰة کا ہے وہی لفظ سلام کا بھی ہے کہ غیر نبی کے لئے اس کا استعمال درست نہیں، بجز اس کے کہ کسی کو خطاب کرنے کے وقت بطور تحیہ کے السلام علیکم کہے، یہ جائز و مسنون ہے۔ مگر کسی غائب کے نام کے ساتھ ”ؑ“ کہنا اور لکھنا غیر نبی کے لئے درست نہیں (خصائص کبریٰ سیوطی ص 262 ج 2)
علامہ لقائی نے فرمایا کہ قاضی عیاض نے فرمایا ہے کہ محققین علماء امت اس طرف گئے ہیں اور میرے نزدیک بھی یہی صحیح ہے، اور اسی کو امام مالک، سفیان اور بہت سے فقہاء و متکلمین نے اختیار کیا ہے کہ صلوٰة و تسلیم نبی کریم ﷺ اور دوسرے انبیاء کے لئے مخصوص ہے غیر نبی کے لئے جائز نہیں، جیسے لفظ سبحانہ اور تعالیٰ ، اللہ جل شانہ، کے لئے مخصوص ہے۔ انبیاء کے سوا عام مسلمانوں کے لئے مغفرت اور رضا کی دعا ہونا چاہئے، جیسے قرآن میں حضرات صحابہ کے متعلق آیا رضی اللہ عنھم ورضوا عنہ (روح المعانی)
صلوٰة وسلام کے احکام کی مفصل بحث احقر کے رسالہ تنقیح الکلام فی احکام الصلوٰة والسلام میں ہے جو بزبان عربی احکام القرآن سورة احزاب کا جز ہو کر شائع ہوچکا ہے۔
Top