Al-Qurtubi - Al-Anbiyaa : 91
وَ الَّتِیْۤ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِیْهَا مِنْ رُّوْحِنَا وَ جَعَلْنٰهَا وَ ابْنَهَاۤ اٰیَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ
وَالَّتِيْٓ : اور عورت جو اَحْصَنَتْ : اس نے حفاظت کی فَرْجَهَا : اپنی شرمگاہ (عفت کی) فَنَفَخْنَا : پھر ہم نے پھونک دی فِيْهَا : اس میں مِنْ رُّوْحِنَا : اپنی روح سے وَجَعَلْنٰهَا : اور ہم نے اسے بنایا وَابْنَهَآ : اور اس کا بیٹا اٰيَةً : نشانی لِّلْعٰلَمِيْنَ : جہانوں کے لیے
اور ان (مریم) کو (بھی یاد کرو) جنہوں نے اپنی عفت کو محفوظ رکھا تو ہم نے ان میں اپنی روح پھونک دی اور ان کو ان کے بیٹے کو اہل عالم کے لئے نشانی بنادیا
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : والتی اخصنت فرجھا یعنی مریم کو یاد کرو جس نے محفوظ رکھا اپنی عصمت کو۔ حضرت مریم کا ذکر کیا حالانکہ وہ انبیاء میں سے نہیں تھی اس لیے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر مکمل ہو اسی وجہ سے فرمایا : وجعلنھا وابنھا ایۃ للعلمین۔ آیتیں نہیں فرمایا کیونکہ کلام کا معنی یہ ہے کہ ہم نے ان دونوں کے امر، واقعہ اور شان کو تمام جہانوں کے لیے نشانی بنایا۔ زجاج نے کہا : دونوں میں نشانی ایک تھی کیونکہ حضرت مریم نے انہیں بغیر باپ کے جنم دیا تھا۔ سیبویہ کے مذہب پر تقدیر یہ ہے : وجعلنا ھا آیۃ للعالمین وجعلنا ابنھا آیۃ للعالمین پھر حذف کیا گیا اور فراء کے مذہب پر تقدیر یہ ہوگی : وجعلنا ھا آیۃ للعالمین وابنھا جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واللہ ورسولہ احق ان یرضوہ (التوبہ :62) بعض علماء نے فرمایا : ان کی آیات میں سے یہ تھا کہ حضرت مریم پہلی عورت تھیں جو عبادت خانہ میں نذر کے طور پر قبول کی گئی تھیں۔ یہ بھی نشانی سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم کو اپنی جناب سے رزق دیا تھا اور بندوں کے ہاتھ پر ان کا رزق جاری نہیں فرمایا تھا۔ بعض نے فرمایا : حضرت مریم نے پستان نہیں چوسا تھا۔ احصنت برائی سے محفوظ رہیں۔ بعض نے فرمایا فرج سے مراد قمیض کی فرج ہے یعنی ان کے کپڑے کے ساتھ کبھی کوئی مشکوک چیز معلق نہ ہوئی آپ پاکیزہ لباس تھیں قمیص کی فروج چار ہوتی ہیں۔ دو آستینیں۔ اعلیٰ اور اسفل۔ سہیلی نے کہا : تیرا خیال کسی دوسری چیز کی طرف نہ جائے کیونکہ یہ لطیف کنایہ ہے کیونکہ قرآن معنی کے اعتبار سے پاکیزہ ہے اور لفظ کے اعتبار سے موزوں ہے اس میں لطیف اشارہ اور خوبصورت عبارت ہے چہ جائے کہ کسی جاہل کا وہم اس کی طرف جائے، خصوصاً روح قدس کا پھوکنا، قدوس کے حکم سے تھا۔ قدس کی نسبت قدوس کی طرف کی اور جھوٹے گمان سے مقدسہ و مطہرہ کو پاک فرمایا۔ فنفخنا فیھا من روحنا یعنی ہم نے جبریل کو حکم دیا اور انہوں نے مریم کی قمیص کے گریبان میں پھونک ماری پھر اس پھونک سے ہم نے مریم کے بیٹے مسیح کو پیدا کیا۔ سورة مریم اور سورة النساء میں یہ گزر چکا ہے۔ اعادہ کی ضرورت نہیں۔ آیۃ اس سے مراد علامت اور مخلوق کے لیے عجیب بات ہے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کا علم اور جس میں ہم چاہتے ہیں اپنی قدرت کے نفوذ پر دلالت ہے۔
Top